Topics

ہر کنبے کا سربراہ اللہ تعالیٰ ہیں

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

تلاوت سورۃ فاتحہ…

معزز حاضرین ،محترم خواتین، عزیز دوستوں السلام وعلیکم۔۔ ابھی میں نے قرآن پاک کی سورۃ فاتحہ کی تلاوت کیقرآن پاک میں سے، کوئی مسلما ن ایسا نہیں ہے جسے نماز یاد نہ ہو اور کوئی مسلمان ایسا نہیں ہے جیسے سورہ فاتحہ یاد نہ ہو نماز میں۔ وہ فرض نماز ہو، سنت ہو ،نفلیں ہوں ،لازم ہے کہ ہر رکعت کی شروع میں اس سور ۃکو پڑھا جاتا ہے ۔ صدیوں سے مسلمان اس سورۃ کو پڑھ رہے ہیں۔اس سورۃ کے فضائل اور برکات سے بھی فائدہ اٹھاتے ہیں۔مشکلات اور پریشانی کے عالم میں اس سورۃکو بطور وظیفہ پڑھتے ہیں تواللہ تعالی ٰآسانیاں فراہم کرتے ہیں۔اس وقت ابھی میں نے آپ کے سامنے پڑھی الحمد للہ رب العالمین…اس کی جو پہلی آیت ہے الحمد للہ…سب تعریفیں اس اللہ کے لئے جو عالمین کار ب ہے ۔ان آیتوں پر تفکر کیا جائے تو سب سے پہلے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اللہ جو ہے رب ہے ۔ عالمین کا رب ہے ۔یعنی ایک عالم نہیں ہے بے شمار عالمین ہیں ۔اب جب عالمین کے اوپر غور کیا جائے گا تو غور کے ساتھ ساتھ ہمارے اوپر علم کے دروازے کھلنا شروع ہو جائیں گے ۔اس لئے ہم ایک عالم سے واقف ہیں مثلا ً یہ دنیا ہے اس دنیا کو عالم سے نہیں لیکن بہرحال ہم اس کو ایک عالم کی حیثیت سے جانتے ہیں، عالم کی حیثیت سے اس سے واقف ہیں اور جو ہم عالمین کا لفظ کہیں گے جب کائنات بنائی تو اس کائنات میں ایک عالم نہیں ہو تا ہے کسی بھی حال میں اللہ تعالی کا جب ہم رب کی حیثیت سے تذکرہ کرتے ہیں تو یا اللہ تعالیٰ اپنا رب کی حیثیت میں تعارف کرواتے ہیں تو یہ پتا چلتا ہے اللہ تعالیٰ رب جو ہیں وہ ایک عالم یعنی یہ دنیا ہماری ہے اس دنیا کے صرف اللہ تعالیٰ رب نہیں ہیں بلکہ اس دنیا کی طرح اور بھی بے شمار اربوں کھربو ں دنیائیں ہیں اس کے اللہ تعالیٰ رب ہیں ۔دوسری بات یہ سامنے آتی ہے کہ اس دنیا کے علاوہ اور بھی بے شمارعالم ہیں تو آدمی کا ذہن جو تفکرکرتا ہے ۔ جس کو اللہ تعالیٰ نے عقل و شعور دیا ہے ۔اس کا ذہن اتناضرور جانتا ہے کہ اس عالم کے علاوہ اگر اور عالمین ہیں تو ان کی کیا حیثیت ہے اوروہ کس طرح قائم ہے۔ کیا وہ دنیا کی طرح قائم ہے یا ان عالمین میں کوئی اور نظام قائم ہے۔ تو سوچنا چاہئےاس عالم کی طرح دوسرے عالمین کیا ہیں۔یہاں سے علم کی طاقت بڑھ جاتی ہے ۔تو جب ہم علم حاصل کریں گے تو ہمیں دوسرے عالمین کا پتا چلے گا اورا گر ہم علم حاصل نہیں کریں گے تو کوئیں بھی مینڈک کی طرح یہی سمجھیں گے کہ صاحب یہی بس دنیا ہیں جو دنیا میں ہم پیدا ہو ئے اور اسی دنیا میں مر کر زمین میں دفن ہو جاتے ہیں۔پھر اللہ تعالیٰ نے الست بربکم رب کہا، رب سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں میں تمام مخلوق کا ،عالمین میں جتنی بھی مخلوق ہے اس کا کفیل ہوں ،اس کو پیدا کرتا ہوں،  اس کو جوا ن کرتا ہوں ،اس کے لئے وسائل فراہم کر تا ہوں ،اس کو زندہ رکھتا ہوں ، اور زندہ رکھنے کے بعد اس کو دوسری دنیا میں پھر لیجاتا ہوں یہاں و ہ مر جاتا ہے دوسری دنیا میں زندہ ہو جاتا ہے اور یہ بھی ایک ایسا تصور ہے کہ آدمی پیدا کیوں ہوا ؟اللہ تعالیٰ نے آدمی کو پیدا کیو ں کیا ؟اور اللہ تعالیٰ نے آد می کوپیدا کر کے کیوں قائم کیا ؟۔وہ جناب آدمی کے لئے وسائل بھی پیدا کر رہے ہیں،آدمی کو جوان بھی کر رہے ہیں، آدمی کی نشوونما بھی ہو رہی ہے ،آدمی اس دنیا میں رونق کا سبب بھی بن رہا ہے اور جب اس کا کام ختم ہو جاتا ہے وہ دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے تو یہ سمجھنا آدمی پیدا کیوں ہوا آدمی کے اندر عقل وشعورکہاں سے آیا ،آدمی کے تابع جو اللہ تعالیٰ نے وسائل عطاکر دئے ہیں ان کی کیا حیثیت ہے اس کو بھی سمجھنے کے لئے ہمیں علم کے علاوہ ہمارے پاس اور کوئی راستہ نہیں ہے ۔مثلا ً آپ دیکھئے انسا ن پیدا ہو ا۔جب بچہ پیدا ہو تا ہے تو بچے کی ضروریات سے متعلق تمام وسائل پہلے سے موجود ہوتے ہیں۔ زمین بھی موجود ہو تی ہے ،ہوا بھی موجود، پانی بھی موجود ، سورج بھی موجود ، چاند بھی موجود ، والدین کی شفقت اور ممتا بھی موجود ،عزیز رشتہ داروں کا تعلق بھی موجود ، بھوک پیاس کا جو نظام ہے اس کے لئے وسائل بھی موجود ،مثلاً ایک بچہ پیدا ہو تا ہے۔اب اس کے لئے پانی ہی نہ ہو توبچہ زندہ رہے گا ؟ ، بچہ پیداہوا اللہ تعالیٰ ماں کے سینے کودودھ سے نہ بھرے تو بچہ تب بھی مر جائے گا،بچے کے لئے ماں باپ کے دل میں شفقت اورممتا نہ ہو اور والدین سے گرمی اور سردی کا تحفظ فراہم نہ ہو بچہ تب بھی مر جائے گا ،یعنی اللہ تعالیٰ نےاس بچے کوپیدا بعد میں کیاوسائل پہلے سے فراہم کر دئیے۔کیوںوسائل فراہم کر دئیے ؟۔اس کو سمجھنے کی بھی علم کی ضرورت ہے ۔اب جس زمین پربچہ پیدا ہوا وہ زمین کیا ہے ؟اس زمین کی ساخت کیا ہے ؟اس زمین کے عناصر کیا ہیں؟ اس زمین کے اندر کھیتی باڑی اُگانے کی صلاحیت کہاں سے پیدا ہو گی ؟اس زمین پر درخت اُگتے ہیں اس زمین سے ہمیں کھانے کی تمام ضروریات مہیا ہوتی ہیں تو اب یہ سمجھیں کہ زمین کیا ہے اور زمین کی صلاحیت کیا ہے ؟اس کے لئے بھی علم کی ضرورت ہے ۔اب دیکھئے سامنے کی بات ہے ایک زمین کے ٹکڑے میں آپ دو تین قسم کے بیج ڈال دیں ۔بھنڈی اگر آپ نے ڈال دی تو وہاں سے بھنڈی اُگ رہی ہے ۔اس کے قریب ہی آپ کھیرے کے بیج ڈا ل دیں تو وہاں کھیر اآپ کو مل جائے گا۔ اس کے قریب ہی آم لگا دیں تو آپ کو آم مل جائیں گے ۔صورت حال یہ ہے کہ زمین ایک ہے، پانی ایک ہے ،دھوپ ایک ہے ،ماحول ایک ہے ، لیکن وہ زمین کے ایک ٹکڑے میں آپ کو مختلف نو ع  کی چیزیں مل رہی ہیں۔ جو آپ کے لئے ضروری ہے ۔جو آپ کی زندگی کے لئے ضروری ہے ۔اس زمین کی جو صلاحیت ہے کہ ایک درخت نکلتا ہے اس میں لال پھول ہو تے ہیں۔دوسرے درخت میں پیلے پھو ل ہو تے ہیں۔تیسرے درخت میں اور رنگ کا پھول سفید رنگ کا پھول ہو تا ہے ۔اور اب جب خوشبو پر آجائیں گے تو اسی طرح ایک ٹکڑے میں جتنے پھول ہیں ان کی خوشبو بھی الگ الگ ہیں تو یہ زمین کے اندر کیا ہے؟ کس طرح ہے، کیا ہے ،کہ ایک دوسرے کے قریب درخت لگے ہو ئے ہیں ،مختلف پھل لگتے ہیں ،مختلف ان کا رنگ ہو تا ہے ،مختلف ان کا ذائقہ ہو تا ہے اور مختلف ان کی خاصیت ہو تی ہے ۔کوئی پھل گرم خاصیت کا ہو تا ہے کوئی پھل سرد خاصیت کا ہوتا ہے ۔کوئی پھل کھٹا ہو تا ہے، کوئی پھل میٹھا ہو تا ہے ،کوئی پھل پیلاہو تا ہے ،کوئی پھل لال ہو تا ہے، کوئی پھل گلابی ہو تا ہے،اب مثلا ً انار لے لیا اب انار کی تخلیق پر غور کریں ایک تو یہ وہ انار الٹا لٹکا ہوا ہو تا ہے ۔تواس کے اوپر کتنی ہی بارش پڑے انار کے اندر کوئی قطرہ نہیں جائے گا سارا انار کے اوپر سے قطرہ دھل کر نکل جائے گا ۔انار کے اوپر جو چھلکا ہے وہ اتنا دبیز ہے ۔اس کا اگر سخت چھلکا ہوگا تو اندر کے دانے خراب ہو سکتے ہیں۔جب آپ انار کھولتے ہیں تو یہ پتا چلتا ہے انار پردہ  در پر دہ، پردوں میں کس نے پردے دئیے انتہاء یہ ہے کہ جہاں انار کا دانا ہے وہاں اس پردے میں باقاعدہ نشانات ہیں اس دانے کی مناسبت سے اب وہ دانے اس کا ایک الگ رنگ ہے ۔کہیں سفید رنگ ہے ،کہیں کالارنگ ہے ،کہیں لال رنگ ہے ،ذائقہ الگ ہے ۔اس پردے کے جس پردے پر وہ دانے لگے ہو ئے ہیں ۔ان کے درمیان ایک باقاعدہ ایک پیکنگ ہے تاکہ ایک دانہ دوسرے دانے سے مل کر خراب نہ ہو جائے ۔تو جب آپ انار کو دیکھیں گے تو اس انار میں ایسی صناعی آپ کو نظر آئے گی کہ ہزاروں سائنٹسٹ ایک انار قدرتی انار کی طرح نہیں بنا سکتا ہے نہ اس میں دانے پیدا کر سکتے ہیں نہ اس میں وہ رنگ پیدا کر سکتے ہیں اور نہ وہ کلی کے جس سے وہ ا نار بنا، بنا لیں ان کے بس کی بات نہیں تو یہ جو زمین کے اندر صلاحیت ہے ۔ انار کا دانہ بنانے سے پہلے وہ کلی ہو تی ہے۔ ایسی خوبصورت کلی پھروہ پھول بنتی ہے پھرجب پھول پکتے ہیں گرتے رہتے ہیں جس سے انار بڑھتا رہتا ہے ۔اس کی شاخوں میں سے پانی کے ساتھ ساتھ پریشر بھی آرہا ہے جو اس کو پھولا رہا ہے غبارے کی طرح تو اب ہم انار کے اوپر غور کریں گے تو سارے سائنسدان کے پاس کوئی ایسا طریقہ نہیں ہے غور کرنے کے لئے کہ پہلے ہمارے اندر علم ہو ،ہمارے اندر علم کو جانے کی، علم کوپرکھنے کی اور اللہ تعالیٰ کی صناعی کو مشاہدہ کر نے کی ایک بھی صلاحیت موجود ہے ۔اب پھر پڑھیں ۔الحمد للہ…سب تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جو عالمین کا رب ہے ۔اللہ تعالیٰ انار کا بھی ذکر کرتے ہیں اس کے انار کے قریب آپ دیکھئے شریفہ لگا ہوا ہے۔ اس کی حیثیت مختلف ہے ۔رنگ بھی مختلف ہے معلوم ہوا جیسے پھانکیں پھانکیں جیسی نکل رہی ہیں۔ اب اس کو آپ توڑ کر اس کے اندر سے گودا نکال لیں ۔سفید رنگ کا دودھیا رنگ کا گودا اور اس کا ذائقہ بھی بالکل مختلف ہے ۔شریفے کے بالکل برابر آپ دیکھئے شہتوت لگا ہوا ہے اس کی بالکل حیثیت ہی بدل گئی انار اور شریفے سے بظاہر کو ئی تعلق ہی نظر نہیں آتا ۔ مثلا ً آپ یہ کہتے ہیں نہ اس کے اندر بھی ذائقہ ہے ، اس کے اندر بھی خوشبو ہے تو یہ ساری باتیں اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں جو رب ہے عالمین کا،  اس رب کا جو علم ہے وہ علم ظاہر ہو رہا ہے کہیں وہ علم انار بن جاتا ہے ،کہیں وہ علم امرود بن جاتا ہے ، کہیں وہ علم آم بن جاتا ہے ، کہیں وہ علم شہتوت بن جاتا ہے ، کہیں وہ علم کیلا بن جاتا ہے ،دوسری بات پر آپ غور کریں یہ بھی علم کے بغیر نہیں معلوم ہو سکتی ۔ کیلا ہے اس کے اندر پانی ہی پانی ہو تا ہے کیلا کا درخت نکالیں ۔اس میں آپ کو پانی کے علاوہ کچھ ملے گا؟ اس میں لکڑی ہوتی ہی نہیں ہے اب کیلے کی جو حیثیت ہے ایسا لگتا ہے جیسے اللہ میاں ہمارے لیے قلفیاں بنا کر لٹکا تے ہیں ۔ اب اس کو آپ کھولیں اس کی شکل وصورت بھی الگ ہے ۔اس کاذائقہ بھی الگ ہے ۔تو پھر آپ غور کرتے چلیں جائیں گے اللہ کی نشانیاں آپ کے اوپر کھلتی چلی جائیں گی۔لیکن شرط یہ ہے کے آپ کے اندر علم کی تلاش ہو اور آپ کے اندر علم کا تسلسل ہو اور آپ غور کریں ساری دنیا جانتی ہے پانی کی خاصیت ہے کہ پانی نیچے کی طرف میں بہتا ہے اور جب ہم پانی اور درخت کا موازنہ کر یں تو پانی اپنی فطرت تبدیل کر کے اوپر کی طرف جاتا ہے آپ نے ناریل دیکھے ہونگے ساٹھ ساٹھ فٹ اونچا ہو تا ہے ۔ساٹھ فٹ اونچا ناریل لٹکا ہوا ہے۔ آپ وہاں سے  توڑتے ہیں کھولتے ہیں تو معلوم ہو تا ہے کہ پانی کے پیالے بھرے ہو ئے ہیں۔ واقعہ یہ ہے اب یہ کون سا فارمولابناکہ پانی نشیب میں بہنے کے بجائے جو اس کی فطرت ہے اپنی فطرت سے ہٹ کر وہ اوپر کی طرف گیا اور اوپر جاکر پانی ایک ڈال میں ذخیرہ ہو گیا مگر یہ بھی ہے صحت کے لئے بھی اچھا ہے ۔اس کے اندر ایک ذائقہ بھی ہے ۔تو یہ کون سا فارمولابنا پانی بغیر کسی مشین کے بغیر کسی پمپ کے ،بغیر کسی موٹر کے کتنا اوپر چلا گیا اور جاتا ہوا نظر بھی نہیں آیا اور پیالوں میں جمع بھی ہو گیا۔ وہ پیالے ناریل کے وہ پیالے اللہ کی مخلوق کی خدمت بھی کر رہے ہیں اور ظاہر ہے وہ ناریل اللہ نے انسانوں کے لئے ہی بنایا ہے ۔انسان اسے کھاتے ہیں ۔یہ اس وقت ممکن ہے جب آپ کے اندر علم سیکھنے کا تقاضہ ہو گا ۔جب آپ جہالت سے نکل کر علم کی روشنی میں داخل ہونگے۔سورج کو آپ دیکھیں روز نکلتا ہے ۔مشرق سے مغرب میں ڈو ب جاتا ہے ۔اب بے وقوفی کی بات تو یہ ہو گی سورج نکلتا ہے ۔ ڈوب جاتا ہے ۔دیکھئے جو باصلاحیت لوگ ہیں ۔جو صاحب فہم ہیں جو صاحب عقل و شعور ہیں ۔وہ ضرور سوچتے ہیں کہ کون سا نظام ہے جو روز سورج مشرق سے نکلتا ہے اور مغرب میں چھپتاہے ۔ مغرب کیا ہے ؟مشرق کیا ہے ؟کیوں نکلتا ہے ؟کیوں چھپ جا تا ہے ؟دھوپ جو سورج کے اندر ہے اس کا فائدہ کیا ہے؟چاند کو آپ دیکھ لیجئے اس کی روشنی آپ دیکھئے ایسا لگتا ہے کہ اللہ میاں نے اپنی ٹیوب لائٹ لگا رکھی ہے آسمان میں کہیں بھی چلے جائیے، امریکہ میں چلے جائیں، لندن میں چلے جائیں، پاکستان میں آجائیں ، ہندوستان میں آجائیں ، مکے چلے جائیں ، مدینے چلے جائیں ہر جگہ اللہ میاں کی ٹیوب جل رہی ہے ۔ ہر جگہ ایک ہی ٹیوب ہو تی ہے نہ بظاہر اس میں کوئی تار ہو تا ہے ،نہ اس میں کو ئی تیل جلتا ہوا نظر آتا ہے ،نہ کو ئی پٹرول جلتا ہوا نظر آتا ہے ،نہ کوئی بجلی کا کنکشن ہے تو صاحب عقل و فہم اس طرف ضرور متوجہ ہو تے ہیں کہ یہ کیانظام ہے یہ روشنی کا، یہ روشنی کہا ں سے آرہی ہے اگر سورج سے چاند کو روشنی مل رہی ہے۔ تو وہ کیسے مل رہی ہے کوئی تار تو نہیں لگے ہوئے ہیں ۔کوئی کھمبا بھی نہیں ہے آدمی اپنی پیدائش پر غور کرے اب دیکھئے وہ عجیب معاملہ اب وہ ناقابل تذکرہ ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ناقابل تذکرہ ایک قطرہ ہو تا ہے اس ایک قطرے سے اتناخوبصورت آدمی بن جاتا ہے پیدائش دیکھ لیجئے دو بالشت کا بچہ ہو تا ہے۔ لیکن وہی دو بالشت کا بچہ چھ فٹ کا سات فٹ کا آدمی بن جاتا ہے ۔اب دیکھئے ماں کتنی چھوٹی اور بچہ اس سے ما شا اللہ چھ فٹ کا ہے ۔ اگر ماں کو خالی ترازو میں ایک طرف بچے کو بٹھا لیں اور ایک طرف پانچ مائیں بیٹھ جائیں پھر بھی بچہ بھاری ہو گا۔ کیسے بچہ اتنی نشوونما پاکر بھاری ہو گا ۔اپنے اندر ونی جسم کو آپ دیکھیں آپ کھانا کھاتے ہیں ۔آپ کو ہضم کرنے کے لئے کوئی محنت نہیں کر نی پڑتی کھانا ہضم ہو رہا ہے، خون بڑھ رہا ہے، خون دوڑ رہا ہے ۔ پھیپھڑے اپنا کام کر رہے ہیں خون کو صاف کر کے دل کو ترسیل کر رہے ہیں،دل اپنا کام کر رہا ہے پمپنگ کر کے تما م وریدوں اور شریانوں کو وہ خون دے رہا ہے اور وہ خون دوڑ رہا ہے آپ چل رہے ہیں تب خون دوڑ رہا ہے ،آپ بیٹھے ہیں تب خون دوڑ رہا ہے ، آپ بھاگ رہے ہیں تب خون دوڑ رہا ہے،آپ کچھ بھی نہیں کر تے دوران خون کے لئے کوئی بندہ کچھ بھی نہیں کر تا ۔لیکن خون ہے کہ پورے جسم میں دوڑ رہا ہے اور پورے جسم میں خون سے انرجی حاصل ہو رہی ہے ۔ اب بات یہ ہے کہ یہ کیسے خون دوڑ رہا ہے اگر آپ کے اندر علم سیکھنے کا جذبہ نہیں ہو گا تو آپ کبھی بھی اللہ کی ان نشانیوں پر غور نہیں کریں گے ۔آپ کے اندر علم سیکھنے کا جذبہ ہوگا ۔ آپ کے اندر علم سیکھنے کا شوق ہو گا۔آپ کے اندر علم سیکھنے کا تجسس ہو گا۔تب آپ اللہ کی نشانیوں پر غور کریں گے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں  ــــ’’کہ جو لوگ صاحب عقل ہیں ، صاحب شعور ہیں وہ اللہ کی نشانیوں پر غور کرتے ہیں‘‘۔اس کا مطلب یہ ہو اجو لوگ صاحب عقل نہیں ہیں بیوقوف ہیں پاگل ہیں ۔ان کے اندر عقل ابھی نہیں آئی وہ اللہ کی آیتوں پر غور نہیں کرتے ۔ آپ کے یہاں بیٹا پیدا ہوا۔ سب سے پہلے آپ اس کے کان میں اذان دلواتے ہیں ۔کیو ں بھئی  اذان آپ کیوں دلواتے ہیں اذان آپ اس لئے دلواتے ہیں کہ جو بچہ میرے یہا ں پیدا ہوااس کا پہلا علم یہ بنے کہ وہ اللہ کا بندہ ہے ۔موحد ہے ۔مسلمان ہے آدمی مشرک نہیں ہے ۔پیدا ہو تے ہی سب سے پہلے اذان کا کام یہ کہنا کہ تکبیر کا پڑھنا کیا منشاء ہے اس کے علاوہ کیا منشاء ہے کہ آپ اپنے بچے کے شعور کی سطح پر پہلا نقطہ علم کا یہ قائم کر نا چاہتے ہیں۔اس بچے کے علم میں یہ بات ڈالنا چاہتے ہیں کہ یہ مسلما ن کا بچہ ہے ۔ جس طرف بھی آپ رُخ کریں ،جس طرف بھی آپ غورو فکر کریں ایک ہی بات آپ کو نظر آئے گی کہ انسان میں اور حیوان میں انسان میں اور فرشتوں میں بنیادی امتیازیہ ہے کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے علم سیکھنے کی صلاحیت عطا کی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں تم ناقابل تذکرہ شئے تھے ہم نے تمہیں بجنی اور کھنکھناتی مٹی سے پیدا کیا ۔عجیب بات ہے ہم تو کتنے ہاتھ مارتے ہیں نہ بجنی ہے نہ کھنکھاتی مٹی ہے اور اللہ فرماتے ہیں کھنکھاتی مٹی بجنی سے تمہیں پیدا کیا ۔تم کچھ بھی نہیں تھے ہم نے تمہارے اندر اپنی روح ڈال دی ، اپنی جان ڈال دی ۔ اب دیکھئے آپ کے اندر میرے اندر ذرا سی بھی عقل ہو تی ، ذرا سی بھی حیوانیت سے ہٹ کرذراسی بھی انسانیت ہے تو ہم یہ ضرور سوچیں گے بھئی اللہ تعالیٰ جو کہہ رہے ہیں، میں نے انسان کے اندر اپنی جان ڈال دی  ونفخت  فی الروحی…کہ میں نے اپنی جا ن ڈال دی انسان کے اندر اللہ تعالیٰ کی جان پڑی ہو ئی ہے ۔یہاں اپنی جان نظر نہیں آرہی کیوں اس لئے کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان پر غور ہی نہیں کیا ۔کبھی ہم نے اس بات کو علم بنا کر سوچنے کی تکلیف ہی گوارہ نہیں کی ۔اب سائنس کی طرف آجائیے موجودہ سائنس آپ جانتے ہیں ۔جس قوم میں علم ہو تا ہے۔ وہی قوم افضل اور برترہو تی ہے ۔جب تک مسلمانوں کے پاس علم رہا مسلمان ساری قوموں پر حاکم رہا۔ مسلمانوں کے اندر سے علم نکل گیا غیر مسلموں نے علم کو حاصل کر لیااب صورت حال یہ ہے کہ مسلمان ان غیر مسلموں کے غلام ہے جو پہلے اس کے غلام تھے۔ وجہ کیا ہے کہ مسلمانوں کے یہاں سے علم نکل گیا تفکر نکل گیا اب جتنی سائنسی ترقی ہے اس کا نام آپ علم کے علاوہ کیا رکھتے ہیں یہ ریڈیو ،یہ ٹی وی ،یہ سیٹلائٹ کے نظام ،یہ ہوائی جہاز ، ہتھیار ،یہ جتنے بھی ہیں یہ بھی علم ہے ،علم کو انہوں نے سیکھا علم سے انہوں نے استعفادہ کیا ،نئی نئی ایجادات ہو ئیں اور ایک وقت ایسا آیا کہ وہ تما م دنیا پر ان کی حکمرانی قائم کرلی گئی دیکھئے آج ہے۔ تو مسلمان غلام کیوں بنا ؟مسلمان غلام اس لئے بنا کہ اس کے آباؤاجداد کے پاس علم تھا، آباؤ اجداد نے اس علم کی بنیاد پر ساری دنیا پر حکمرانی قائم تھی وہ اس نے چھوڑ دیااس کی طرف سے آنکھیں بند کر لیں۔ دوسری قوموں نے وہی علم جو مسلمانوں کے پاس تھا وہ حاصل کر لیاتھا اب علم کی بنیاد پر وہ حاکم ہو گئے ۔قرآن پاک کیا ہے قرآن پاک بھی علم ہے قرآن کی کتاب کو آپ علم کے علاوہ کچھ بھی نہیں کہہ سکتے ۔قرآن پاک آپ کو یہ علم دیتاہے کہ آپ کس طرح زندگی گزاریں ۔ قرآن پاک آپ کو یہ علم دیتاہے کہ آپ کاروبارکس طرح کریں ،قرآن پاک آپ کو یہ علم عطاکرتاہے کہ پڑوسیوں کے حقوق کیا ہیں، قرآن پاک آپ کو یہ علم منتقل کرتاہے کہ والدین کے حقوق کیا ہیں، ،قرآن پاک آپ کو یہ علم منتقل کرتاہے کہ کائنات کے تخلیقی فارمولے کیا ہیں۔جب تک مسلمان قوم کا قرآن کے ساتھ تعلق قائم رہا قرآن کے ساتھ تعلق قائم کرنے کے لئے یہ ہے کہ قرآن کے علوم کو سیکھااور قرآن کے علوم میں جو حکمتیں ہیں ان سے واقفیت حاصل کرنے کے لئے اب آج دیکھئے علم کا آج بھی چرچہ ہے کل بھی چرچہ تھا ہر ماں باپ کی خواہش یہ ہوتی ہے اس کا بچہ تعلیم حاصل کرے پڑھے ۔اب اسکولوں میں داخل کرتے ہیں۔گھر میں ٹیوشن لگواتے ہیں،خود پڑھاتے ہیں کیوں اس لئے یہ پتا ہے جس کو علم حاصل ہے اس کی معاشرے میں عزت ہے۔ ماں علم حاصل کراتی ہے اور جو لوگ علم حاصل نہیں کرتے وہ گلیوں میں کھیلتے پھرتے مزدوریاں کر تے ہیں نہ اس کے اندر کو ئی اخلاق ہو تا ہے نہ اس کے اندر کو ئی احترام ہو تا ہے۔ نہ وہ معاشرے میں قابل احترام  جانےجاتے ہیں ۔ معاشرے میں قابل احترام وہی بندہ سمجھا جاتا ہے جس کے پاس علم ہو۔قرآن سارا کا سارا علم  ہے،قرآن پاک میں جو بھی کچھ بیان کیا تو اس کو کوئی بھی آدمی علم کے علاوہ کچھ نہیں ہے ۔سیدنا حضور  ﷺ غارحرا میں تشریف لے جاتے تھے ۔وہاں غار حرا میں مراقبہ کرنے جا یا کرتے تھے حضرت جبرائیل علیہ السلام تشریف لائے اقرابسم ربک الذی …اب دیکھئے اقرا …پڑھ…پڑھنے سے مراد ہے علم سیکھ۔۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے علم منتقل کیا پھر جناب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنی امت کے لئے کتاب چھوڑ دی جس میں ہر چیز موجود ہے۔ اس میں دنیا داری بھی موجود ہے ،اس میں معاشرت بھی موجود ہے کہ ہم کیسے رہیں اس میں وراثت کا مسئلہ بھی موجود ہے اور اس میں یہ بھی موجود ہے چاند کیا ہے ،سورج کیا ہے،  ،ستارے کیا ہیں ،زمین کیا ہے ۔ایک ہی زمین ایک ہی پانی رنگ برنگ پھول کیسے نکال دیئے، ایک ہی زمین ایک ہی پانی رنگ برنگ پھل انگور کیسے نکال دیئے، ایک ہی زمین ایک ہی پانی سے مختلف ذائقے والے پھل مختلف ذائقے والی غذا آپ کو کیسے حاصل ہو گئی۔اس کے فارمولے بھی قرآن پاک میں موجود ہیں تو اب بات یہ طے ہو ئی کہ اس کا تعاون کر نے کے لئے دنیا پر حکمرانی قائم کرنے کے لئے ،فرشتے میں سبقت حاصل کرنے کے لئے اب فرشتوں پر آدم کو سبقت کیسے حاصل ہو گئی ۔ اللہ تعالیٰ نے کہا فرشتوں سے میں آدم بنا رہا ہوں، اپنا خلیفہ بنا ؤنگا،  فرشتوں نے کہا خون خرابہ کر ے گا فساد برپا کرے گا ۔اللہ تعالیٰ نے کہا بھئی جو ہم نے اس کو سکھا دیا وہ تم سناؤ  تو حضرت آدم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے فرمان سے جو علوم ظاہر کئے۔ آپ کو پتا ہے حضرت آدم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے فرمانے سے وہ علوم ظاہر کئے جوفرشتوں کو نہیں آتے تھے جب فرشتوں نے وہ علوم سنے جن سے وہ واقف ہی نہیں تھے۔ جو کبھی ان کے کانوں میں منتقل ہی نہیں ہوئے اور اس طرح وہ علوم سن کر آدم کی فضلیت کا اقرار کیا اور آدم کو خلیفہ سمجھا اور اللہ تعالیٰ سے اقرار کیا کہ آپ نے جتنا علم سکھا دیا ہمیں بس اتنا ہی کافی ہے ۔ لیکن آپ نے جتناہمیں سکھا دیا اُتنا ہی جانتے ہیں اس کا مطلب ہی یہ ہے کہ فرشتے کی بھی فضلیت اس بات میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں علوم سکھا دئیے ۔اب آدم کے پاس فرشتوں سے زیادہ علوم ہوئے۔ لہذا اب یہ فضلیت فرشتوں کے اوپر ثابت ہو گئی اور فرشتے آدم کے محکوم قرار پائے یہاں بھی علم زیر بحث آتا ہے ۔ زندگی کے کسی بھی مرحلے میں آپ غورو فکر کریں ۔ آپ کو ایک ہی بات نظر آئے گئی کہ پیدائش سے لیکر موت تک اورموت کے بعد سے حشر اور نشر تک جنت دوزخ تک اگر کو ئی چیز قائم ہے ۔وہ علم کے علاوہ کچھ نہیں۔ آپ کھانا کھاتے ہیں ۔روٹی کھاتے ہیں یہ سب کیا ہے یہ بھی علم ہے ۔اب بھئی روٹی ہو تی ہے گیہوں۔۔ پہلے آپ کو گیہوں کا علم ہوگا پھر آپ نے گیہوں کو پیسا آٹے کا علم ہو اتو آپ نے آٹے کو گوندھا تو گوندھنے کا علم ہوا، پھر آپ نے توے کے اوپر روٹی ڈالی تو روٹی پکانے کا علم ہوا،جس آگ نے وہ روٹی پکائی اس آگ کا بھی علم ہوا ،لکڑی کی آگ، کوئلے کی آگ ،گیس کی آگ ،مٹی کے چولھے کی آگ ،پھر آپ نے روٹی کھا ئی یہ بات کا علم ہوا کہ ہم روٹی کھائیں گے تو ہمارے اندر طاقت پیدا ہو گی، ہم چل پھر سکیں گے اور ہم روٹی نہیں کھائیں گے ،ہم کمزورہو جائیں گے چلنے پھرنے کے قابل نہیں رہیں گے ۔لہذا گندم کے دانے سے روٹی کھانے تک جتنے بھی مراحل ہیں ۔وہ سب کے سب علم کے علاوہ کچھ نہیں ہے آ پ سمجھتے ہیں پانی سے پیاس بجھتی ہے یہ بھی ایک علم ہے ۔پانی سے پیاس بجھتی ہے یہ کیایہ علم نہیں ہے ۔تو جو بھی کچھ ہے اس کائنات میں وہ اللہ تعالیٰ کا علم ہے اورپھر اللہ تعالیٰ نے کائنات کو بنا نا چاہا غور کریں۔ اللہ تعالیٰ نے کائنات کو بنا نا چاہا کہا "کن" اور وہ ساری کائنات بن گئی، کیا مطلب ہے کہ۔۔ اللہ تعالیٰ کے علم میں کائنات پہلے سے موجود تھی۔ جب اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو جو پہلے سے اللہ کے علم میں موجود تھی ۔جب کن کہا تو بن گئی تو ساری کائنات علم کے علاوہ کچھ نہیں آپ حضرات  کوجو یہاں آنے کی زحمت ہو ئی ۔آپ تشریف لائے اپنا وقت نکال کر میں یہ عرض کرناچاہتا ہوں یہ جو مسلمانوں کی یہ جو بربادی ہے،بدحالی ہے ،غلامی ہے ،محکومی ہے ،اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے اندر سے علم کا شوق نکل گیا ہے ۔مسلمانوں نے اپنے اسلاف کا آباؤ اجداد کا وہ ورثہ جو علم سے متعلق ہے اس کوپس پشت ڈال دیا ۔حضور قلندر بابا اولیاء ؒ میرے مرشد کریم ہیں۔انہوں نے اس بات پر غور کیا کہ مسلمان کو اگر غلامی سے نکالا جائے مسلمان کو اگر سائنٹسٹ کے برابر لاکر کھڑا کیا جائے تو یہ تو سینکڑوں سال وہ آگے ہیں تو ہم جب کوشش کر یں گے ۔وہ سینکڑوں سال اور آگے پہنچ جا ئیں گے لہذا ہم انہیں پکڑنہیں سکتے یوں بھی نہیں پکڑ سکتے کہ مسلمانوں کے پاس جو علوم ہیں ۔وہ بھی بھیک میں خیرات میں جتنی بھی ہو تی آپ علم کے معاملے میں بھی اتنے مفلس ہو گئے ہیں کہ علم کے معاملے میں بھی غیر مسلم کے آگے ہاتھ پھیلا تے ہیں ۔جبکہ ہمارے پاس اللہ کی دی ہوئی کتاب موجود ہے۔ تو حضور قلندر بابا اولیاؒنے مسلمانوں کی یہ حالت دیکھ کر سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی امت کی مفلسی کیلئے مجھ سے فرمایا کہ اگر کسی طرح یہ سوئے ہوئی قوم جاگ کر علم حاصل کر نا شروع کر دے تو یہ پھر ممتاز ہو جائے گی اور اگر قرآن کا علم حاصل کرنا شروع کر دے تو اللہ کا انعام اس کے پاس موجود ہے سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام جن کے اوپر اللہ تعالیٰ نے کتاب نازل کی وہ ان کے رسول ہیں ،ان کے  پیغمبر ہیں، ان کےپاس ماورائی  علوم ہیں۔ تو جب قرآن کے اندر اس کادل لگے گااسی مناسبت سے یہ علم حاصل کر لے گی اور موجود ہ سائنسی دور میں تھوڑی سی جدوجہد اور کوشش کے بعد یہ ممتازمقامات آتے ہیں ۔لہذا میں نے۔۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے توفیق دی بیس سال میں۔۔ علم سے آبیاری شروع کی جتنا مجھے آتا تھا آپ جانتے ہیں جب کو ئی آدمی کوشش جدوجہد خلوص کے ساتھ کر تا ہے تو اللہ تعالیٰ ضرور اس میں کامیابی عطا کر تا ہے ۔جب آپ زمین پر بیج ڈالتے ہیں اور تھوڑا پانی بھی دے دیتے ہیں تو زمین اس بیج کو ضائع نہیں کرتی ۔اس کے اندر نشوونما پہنچاتی ہے اور جب وہ نشوونما پہنچاتی ہے تو ایک دن وہ درخت بھی بن جا تا ہے تو اس کوشش اور جدوجہد میں اللہ تعالیٰ کا بہت بڑاانعام ہے ۔ کامیابی ہو ئی لوگ قریب آئے ، لوگوں نے برا بھی کہا،  لیکن زیادہ لو گ قریب آئے ۔اب یہ تو ممکن نہیں ہے کہ ایک آدمی جو ہے وہ ہر وقت سو دوسو پانچ سو ہزار آدمیوں کے ہجوم میں گھرے رہے۔ تو اس کی ترکیب یہ نکالی کہ سو دوسو پانچ سو آدمیوں کے ہجوم کو تقسیم کر کے ایسے یونٹ بنا دیے جائیں جہاں ان کی علم کی پیاس،جہا ں ان کا علم کا تجسس اور شوق پورا ہواس تجسس اور شوق پوراکرنے کے لئے ہم نے اپنے دوستوں سے مشورہ کیا اور نتیجہ یہ پایا کہ  ،جگہ جگہ اگرمطالعہ کے سنٹر قائم کر دئیے جائیں، ایسی جگہ فراہم کر دی جائے جہاں والدین حضرات و خواتین تشریف لائیں جہاں نونہال طلبہ اور طالبات تشریف لائیں اور انہیں پڑھنے کے لئے مو ضوع مل جائیں ان کے اندر علم حاصل کر نے کا ذوق پیدا ہو جا ئے۔ ان کے اندرمراقبہ کرنے کا شوق پیدا ہو جائے تو اس سے کامیابی کے امکانات زیادہ روشن ہو نگے۔ شروع میں ایک لائبریری بنی دو لائبریری بنیں اللہ کا بہت بڑا کرم ہے کہ لوگوں نے ہماری اس کوشش اور جدوجہد میں ہمارے ساتھ برابرکا تعاون کیاکہ لوگوں نے ہماری اس کوشش اور جدوجہد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔دعائیں کی اور اللہ کا کرم ہے کہ کراچی شہر میں کئی لائبریریاں تقریباً بارہ لائبریریاں قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں اور منشاء ہمارا یہی ہے جہاں ہم یہ لائبریریاں قائم کرتے ہیں۔ اس محلے والوں کواس حلقے کے لوگوں کو اس طرف راغب کریں، کسی طور پر کہ آپ وہ علم سیکھیں ۔آپ بزرگوں سے یہ درخواست ہے کہ آپ اپنے دوستوں کو چھوٹوں کو متوجہ کریں کہ وہ علم حاصل کریں ۔علم دو طرح کے ہو تے ہیں دنیاداری کا علم ہے وہ بھی ضروری ہے دنیاداری کے ساتھ ساتھ دین کا بھی علم  سیکھنا بھی ضروری ہے دین کا آپ علم نہیں سیکھیں گے تو اللہ سے قربت حاصل نہیں ہو گی  رسول اللہ  ﷺ سے محبت کا تقاضہ پورا نہیں ہوتا۔ تو یہ عظیمیہ روحانی لائبریری آپ کے علاقے میں قائم ہوئی ہے اس کا منشاء یہ ہے جومسلمان قو م علم سے بہرہ ورہو گئی ہے اس کی وجوہات کچھ بھی ہو وہ اللہ اور اللہ کے رسول اللہ  ﷺکے رسول کے مطابق علم حاصل کر نے کی طرف متوجہ ہوں،مجھے یقین ہے یہاں جو اتنے لوگ تشریف لائے ہیں ظاہر ہے ان کے اندر علم سیکھنے کا، علم کے بارے میں سننے کا شوق محسوس نہ ہو تا تو اتنی بڑی تعداد میں تشریف نہ لاتے اس سے پتا چلتا ہے کہ مسلمان قوم کے افراد ،مسلمان قوم کے بزرگ ،مسلمان قوم کے نوجوان ،طلبہ ،طالبات اس تلاش میں ہیں کہ انہیں علم ملے۔سلسلہ عظیمیہ نے ایک علمی مشن کے تحت آپ حضرات کے لئے ایک ٹھکانہ پڑھنے کا فراہم کر دیا ہے۔ آپ اس جگہ تشریف لے آئیں، کتابیں پڑھیں مطالعہ کریں اور صورت حال یہ ہے کہ اس علم کے بارے میں معلومات حاصل کرنا چاہیں اس کی گہرائی میں جانا چاہیں اس کے لئے بھی اللہ تعالیٰ نے علم دیا ہم دعویٰ تو نہیں کر تے اللہ تعالیٰ نے جس کو بھی جتنا دیابہرحال تھوڑا دیا ہے ہم انشا اللہ وہ بھی آپ تک پہنچائیں گے اور آئندہ پہنچاتے رہیں گے ۔آپ حضرات سے میری التجاء ہے درخواست ہے کہ آپ کے علاقو ں میں جدوجہد اور کوشش کے ساتھ لائبریری قائم کی ہے ۔اس لائبریری کو آپ چشمہ بنا دیں اور تاکہ سے اس علاقے کے لوگ سیراب ہوں ،ہم تو مر جائیں گے بوڑھے ہو گئے ہماری نوجوا ن آنے والی جو نسلیں ہیں وہ محکومی اور غلامی کی زندگی نہ گزرایں بلکہ ایسی زندگی گزاریں جیسے ہمارے بزرگوں نے ہمارے اسلاف نے ساری دنیا پر حکمرانی قائم کر کے گزاری ۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق عطا فرما اورہم سب کو علم سیکھنے کی توفیق عطا فرمائے آپ حضرات تشریف لائے آپ کا بہت شکریہ ۔

 

 

 

 

 

Topics


Khutbat Khwaja Shamsuddin Azeemi 01

Khwaja Shamsuddin Azeemi


اللہ کا شکر ہے پہلی جلد جس میں 73 تقاریر کو شامل کیا گیا ہے۔حاضر خدمت ہے۔ بہت سی جگہ ابھی بھی غلطیاں ہونے کا امکان ہے۔ برائے مہربانی ان سے ہمیں مطلع فرمائے۔اللہ تعالی میرے مرشد کو اللہ کے حضور عظیم ترین بلندیوں سے سرفراز کریں،  اللہ آپ کو اپنی ان نعمتوں سے نوازے جن سے اس سے پہلے کسی کو نہ نوازہ ہو، اپنی انتہائی قربتیں عطاکریں۔ ہمیں آپ کے مشن کا حصہ بنائے۔ ناسوت، اعراف، حشر نشر، جنت دوزخ، ابد اور ابد الاباد تک مرشد کا ساتھ نصیب فرمائے۔آمین

مرشد کا داس