Topics

پاکستان ٹیلی ویژن پر انٹر ویو ز


میزبان صاحبہ:پہلے آپ کا تعارف کروانے سے پہلے میں چا ہوں گی ان کی کچھ Booksدیکھا دوں پہلی جو کتاب ہے میرے پاس ہے کشکول ،یہ ہے تذکرہ قلندر بابااولیا ء ؒ،اور یہ ہے ٹیلی پیتھی سیکھئے ،مرا قبہ ،رو حانی نماز، تجلیات ،  قلندر شعور ، محمد رسول اللہ  ﷺ،  کلر تھراپی،  پیرا سائیکولوجی اور یہ آخری کتاب ہے خواب اور تعبیر جی یہ کتا بیں تھیں اورجو ہماری مہمان شخصیت جو ہیں وہ ہیں خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب ان کے بارے میں آپ کو بتا تی چلو کہ آپ رو حانی ڈائجسٹ کراچی اور رو حانی انٹرنیشنل بر طا نیہ کے چیف ایڈیٹر ہیں اخبارات میں کالم لکھتے ہیں رو حانی علوم پر دسترس رکھتے ہیں آپ نے اب تک ساٹھ کتابچے اور چو بیس کتابیں تصانیف کی۔ آپ ملک کے مختلف شہروںمیں لیکچرز بھی دیتے ہیں با قی کی باتیں آپ سے ساتھ ساتھ ہوںگی ، ان سے گفتگو کا سلسلہ شروع کر تے ہیں ہمارے سوالا ت کے جوابات آپ تک بھی پہنچے گے اور ان سے ہمیں کافی اچھی معلومات بھی ملیں گی ۔سب سے پہلا میرا آپ سے یہ سوال ہے ۔

سوال :کہ آپ نے اتنی بہت ساری کتا بیں لکھیں آپ لیکچرز بھی دیتے ہیں اور لوگوں کے مسئلے مسائل پر بھی بات چیت کرتے ہیںتو یہ تمام چیزیں آپ نے Manage  کی آپ ہمیں یہ بتا ئیں اس تمام Activities کے پیچھے Motivition  کیا ہے آپ کا ؟

جواب :میںنے یہ جو کام شروع کیا ہے یہ جوکر رہا ہو ں یہ ایک سلسلے کے طریقے پر قائم ہے اور اس کے مشن کے پیچھے جو جذبہ ہے وہ اللہ کی مخلوق کی خدمت کر نا ہے مجھے میرے بزرگوں نے بتا یا ہے کہ اگر تمہیں کسی سے دو ستی کرنی ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ اس آدمی کی عادات اور اس کے خصائل اور اس آدمی کی جو پسندیدہ باتیں ہیں اس کو اپنا لو،  اس مناسبت سے تمہا ری دو ستی پکی ہو جائے گی ۔مثلاً یہ کہ ایک نماز ی کے ساتھ آپ دوستی کر نا چا ہتے ہیں تو آپ کو نمازی بننا ہو گا، ایک پڑھے لکھے آدمی سے شا عر سے آپ دو ستی کر نا چا ہتے ہیں تو اس شا عری میں دلچسبی آپ کو لینی ہو گی ۔ تو اگر آپ کو اللہ سے دو ستی کر نی ہے تو اللہ کی عادت کو اپنانا ہو گا۔اور اللہ کی جو عادت ہے یا اللہ کی جو صفت ہے یا اللہ کی جوسب سے بڑی پسندیدہ بات ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ صلہ اور ستائش کے بغیر اپنی مخلوق کی خدمت کر تے ہیں تو اس مشن کے پیچھے مقصد ہے ہما را وہ یہ ہے اللہ کی مخلوق کی خدمت کر نا اور ساتھ ساتھ یہ ہے کہ تو حید کا پر چار کر ناساتھ ساتھ یہ ہے کہ یہ جو دور ہے یہ علم کا اور نا لج کا دور ہے موجودہ ہماری جو نسل ہے جو بچے ہیں ان کے ذہن اتنے زیادہ شارپ ہو گئے ہیں اور اتنی زیادہ ان کے اندر صلاحیتیں بیدار اور متحرک ہو گئی ہیں کہ ہمارے زمانے میں جو اٹھا رہ انیس سال کا بچہ جو کام نہیں کر سکتا تھا آج وہ پانچ سال کا بچہ کر لیتا ہے مثلا ً وہ کمپیوٹر گیم کھیلتا ہے ریڈیو ٹی وی اس قسم کی جو آپ کے جو سیٹ ہے آج کل کے ان سب کوو ہ چلا لیتا ہے ، تو اس کا مطلب ہے جو عمر ہے وہ بیس سال کا وقفہ اس میں پڑھ گیا یعنی بیس سال زیادہ نا لج ہے ہمارے بچوں میں تو ہم یہ ایک پروگرام بنا یا سیدنا حضور علیہ الصلوٰ ۃ والسلام کے مشن کی تر ویج کے لئے اور اس کو رو شنا س کر انے کے لئے کہ مو جودہ دو ر کے مطا بق ہم نا لج لوگوںتک پہنچائیں خصوصاً اپنے بچوںتک تاکہ وہ  کھلے ذہن سے مذہب کا اسلام کا اور سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیمات کا مطالعہ کر کے اسلام کی خدمت کر یں اور جو مسلمانوںمیں یہ انتشار انحرف اور ذلت اور رسوائی کا ایک پٹرن بن گیا ہے اس سے پو ری مسلمان قوم آزاد ہو سکتی ہے ۔

میزبان صاحبہ:عظیمی صاحب آپ نے بہت ساری کتا بیں لکھی وہ تو میرے سامنے ہیں آپ نے انگلش میں بھی لکھی اردو میں بھی لکھی تو آپ ہمیں یہ بتا ئیں کے جو بات آپ اپنے پڑھنے والوں تک پہنچا نا چا ہتے تھے کیا آپ اس میں کا میاب ہوئے ہیں ؟

خواجہ صاحب :جی دیکھئے میں نے اب تک کہ تقریبا ً چو بیس یا پچیس کتا بیں لکھی ہیں جن میں سے چا ر کتا بوں کا انگلش تر جمہ ہو چکا ہے۔ اور سالفوڈ یو نیو ورسٹی میں میرے دو کتا بیں سلیبس کے طور پر پڑھا ئی جا تی ہیں سیالفوڈ یونیوورسٹی میں ہے ۔ تین کتا بوں کا عربی میں تر جمہ ہو چکا  ہے جس کا اب ابوظہبی گو رئمنٹ میں اس کی وہاں تقریب رونمائی بھی ہو ئی،  پشتو میں ترجمہ ہوا فا رسی میں تر جمہ ہوااور ایک کتاب ہے قلندر شعور جو آپ نے دیکھائی ہے جس کا روسی زبان میں بھی تر جمہ ہو چکا ہے

میزبان صاحبہ :اچھا بہت اچھی بات ہے ۔

خواجہ صاحب : ہم نے اس مشن کو چلا نے کے لئے جگہ جگہ سنیٹرقائم کئے ہیں وہ جو آپ نے کتاب دیکھا ئی مراقبہ ہم نے جو سنٹر قائم کئے ہیں ان کی تعداد 73 ہے ۔

میزبان صاحبہ :ابھی آپ ذکر کر رہے تھے مراقبے کا تو اسی کے سلسلے میں سوال کر نا چا رہی تھی کہ یہ کیا چیز ہے اس کا طریقہ علاج جو ہے یہ کہاں تک کامیاب ہے ؟

خواجہ صاحب : جی ہم نے سینٹریہ جو کھولیں ہیں سینٹر کا سب کا نام ہی مرا قبہ ہال ہے اچھا جی اور یہ انگلینڈ میں ہے امریکہ میںہے کنیڈا میں ہے ناروے میں ہے فرانس میں ہے جرمنی میں ہے اور اس کے ساتھ ساتھ رو س میں ہے یہ جو ہمارے سنیٹر ہیں پاکستان کے ہر بڑے شہر میں ہے یہاں آپ کے روالپنڈی میں بھی ہے ۔اس میں ہم مرا قبہ کی تعلیم دیتے ہیں مراقبہ سے مرا قبہ کا جو تر جمہ آپ انگریزی میں کر یں گے وہ Mediation ہے اور اس کو سمجھنے کے لئے اس کو آپconstration بھی کہہ  سکتے ہیں یعنی ذہنی خلفشار کو ختم کرکے کسی ایک نقطے پر ذہن کو اس طرح مر کوز کیا جا ئے کے اس کا حصول آسان ہو جا ئے ۔

میزبان صاحبہ :درست …

خواجہ صاحب : تو یہ مرا قبہ ہے اب مرا قبے کے ذریعے جو ہمیں چیز حاصل ہو تی ہے سب سے پہلے پیس حاصل ہو تا ہے۔

میزبان صاحبہ :درست …

خواجہ صاحب : ہمارے جو ذہنی انتشار ہیں وہ ختم ہو تا ہے اب ذہنی جب انتشار ختم ہو گا بر ملابڑے پیشنڈاور دوسرے بے شمار امراض جو ہیں ان سے بھی نجات ملے گی تو مرا قبہ اصل میں اندر گہرا ئی میں جا کر تفکر کر نے کا ایک عمل ہے اب مرا قبہ کے ذریعے آپ ماورائی دنیا میں بھی جا سکتے ہیں مرا قبہ کے ذریعے آپ امرا ض کاعلاج بھی کر سکتے ہیں ، مرا قبہ کے ذریعے آپ اپنی گھریلو زندگی کوپر سکون بھی بنا سکتے ہیں ۔

میزبان صاحبہ :درست…

 خواجہ صاحب : مرا قبہ کے ذریعے آپ غصے پر کنٹرول حاصل کر سکتے ہیں ،تو یہ ایک پو را علم ہے مکمل مرا قبہ کا

میزبان صاحبہ :درست …

خواجہ صاحب : اور یہ مرا قبہ انبیاء کی سنت بھی ہے رسول اللہ  ﷺ نے غار حرا میں مرا قبہ کیا اسی طرح قرآن پاک میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جو غوروفکر کیا اللہ کو تلاش کیا وہ بھی ایک طریقے کی ریسرچ سوچ او ر تلاش اور مراقبے کی ضمن میں آتے ہیں ۔

اچھا اس کا مطلب ، صحیح مطلب اور طریقہ کیا ہے ؟اس پر ذرا رو شنی ڈالیں تا کہ ہمیں پتا چلے ؟

خواجہ صاحب : صحیح طریقہ یہ ہے کہ آدمی جو دنیا میں معاملات کر نے کے لئے عارضی طور پر اپنے ذہن کو خالی کر لیں۔

میزبان صاحبہ :اچھا …

خواجہ صاحب : اور کسی ایک نقطے پر اپنے ذہن کو مر کوزکر دے مثلا ً اللہ کے ساتھ تعلق قائم ہو جا ئے تو اللہ کا فرمان ہے اللہ انا ھو …اللہ کے دو ستوں کوخوف اور غم نہیں ہو تا تو اب آدمی آنکھیں بند کر کے کچھ پڑھ کرپا کیزہ ہو کے اس بات کر کنسٹریٹ کرے کہ مجھے اللہ دیکھ رہا ہے

میزبان صاحبہ :درست …

خواجہ صاحب :اللہ تو دیکھ رہا ہے سب کو لیکن ہمارے یقین میں یہ بات نہیں ہے اللہ دیکھ رہا ہے جب تک ہمارے یقین ہم اس میں کامیاب ہو جا ئیں گے اللہ ہمیں دیکھ رہا ہے تو ہمارا اللہ سے ایک تعلق اور ربط قائم ہو جائے گا جن طرح اللہ سے ربط اور تعلق قائم ہو گا ہماری ہم اپنے معاملات کو اللہ کے اوپر زیادہ سے زیادہ کو شش کریں گے اور جتنا اللہ سے تعلق قائم ہو جا ئے گا اسی حساب سے آدمی کے اندر سکون کی لہریں دو ڑنے لگتی ہیں اس وقت جوہمارا مسئلہ ہے دنیا ہے وہ یہی ہے کہ ہر آدمی     بے سکون ہے آسائش کے سامان بے انتہاء ہے آرام کی چیزیں اتنی زیادہ ہو گئی ہیں کہ کبھی ہمارے بزرگوں نے ان کا تصور ہی نہیں کیا تھا لیکن ان سب کے با وجود ہر آدمی بے سکون ہے پر یشان ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کا اللہ کے ساتھ اللہ کے رسول کے ساتھ پیغمبروں کے ساتھ جو تعلق قائم ہو نا چا ہئے تھا وہ کمی واقع ہو ئی اور یہ مرا قبے کے ذریعے بڑی آسانی سے ممکن ہے وہ طاقت بحال ہو سکتی ہے۔

میزبان صاحبہ :درست اچھا یہ تو آپ کی ایک کتاب تھی دو کتا بیں اور تھیں پیرا سائیکولوجی اور کلر تھراپی ان  دونوں کے بارے میں بھی بتا ئیں کیا کہ اس میں کیا چیز دی؟

خواجہ صاحب :کلر تھرا پی کے بارے میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا ہے کہ ہم نے ہر چیز کو رنگین بنایا یہاں آپ دنیا میں اربوںکھربوں چیزیں موجود ہیں جو آپ کی نظروں کے سامنے ہیں ان میں سے ایک چیز بھی آپ بے رنگ نہیں دیکھا سکتے میں نے امریکہ میں میرا  ایسا پروگرام تھا ٹی وی کا تو میں نے ان کو کہا کہ بھئی لاکھوں آدمی دیکھ رہے ہو نگے میں آپ سے اپیل کر تا ہوںکہ بھئی کوئی چیز بے رنگ آپ مجھے دیکھا دیں،  اس میں کو ئی ایک سو بیس یا ایک سو پچیس ٹیلی فون آئے لوگوں کے اس میں ایک صاحب نے یہ کہا کہ پانی بے رنگ ہو تا ہے تو میں نے کہا نہیں پا نی کا تو اپنا رنگ ہو تا ہے پا نی کا تو رنگ ہے اگر پانی کا رنگ نہ ہو تو اس کو پا نی نہیں کہیں گے ۔

میزبان صاحبہ :صحیح…

خواجہ صاحب :تو کوئی چیز بے رنگ نہیں ہے۔

میزبان صاحبہ :بے رنگ نہیں ہے صحیح…

خواجہ صاحب :تو اب ہم بیٹھے ہو ئے ہیں آپ میرا اور اپنا موازنہ کر یں …جی …میرے با لوں کا رنگ ،میری آنکھوں کا رنگ ،پتلی کا رنگ ،دوروں کا رنگ،دانتوں کا رنگ ،چہرے کا رنگ ،کھا ل کا رنگ ،نا خن کا رنگ پھر آپ اندر اتر جا ئیے اس  پھیپھڑوں کا رنگ ،دل کا رنگ ،تلی کا رنگ پتے کا رنگ ،گردوں کا رنگ ۔

میزبان صاحبہ :اور ہر رنگ جو ہے دوسرے شخص سے دو سرے سےDifferent مطلب اس میں اتنی ورائٹی ہے

خواجہ صاحب : نہیںLetcher تو ہے لیکن بات وہ ہے کہ رنگ کے بغیر کوئی چیز ہے ہی نہیں یعنی زندگی جو ہے وہ رنگوں کے اوپر چل رہی ہے میزبان صاحبہ :درست …

خواجہ صاحب : تو ہم یہ کہتے ہیں کہ سب سے چیز ہی ہے تو رنگوں کے عدم توازن سے آدمی بیمار ہو تا ہے مثلا ً کسی آدمی کے اندر سرخ رنگ زیادہ ہو گیااس کو ہا ئی بلیڈ پر یشر ہو جا ئے گا اگر کسی آدمی کے اندر گرین رنگ زیادہ ہو جائے ہو سکتا ہے اسے دورے پڑنا شروع ہو جائے ، اب کینسر ہے آج کی بیماری کینسر جو ہے اس کا تعلق بھی رنگ سے ہے ۔

میزبان صاحبہ :اچھا …

خواجہ صاحب : تو ہم نے اس کلر تھرا پی میں بتا یا ہے رنگ کی لہریں بھی ہو تی ہیں رنگ کی فریکونسی بھی ہو تی ہے اور رنگ کے توازن کا نام جو ہے وہ صحت ہے اگر رنگ میں توازن ٹوٹ جا ئے گا تو آدمی بیمار ہوجا ئے گا ۔ اچھا اس میں ایسے ہیں جیسےVegetable کے کلر ہیں یا فروٹ کے کلر ہیں وہ لینے چاہئے اس طرح پھول بھی ہیں پھولوں سے بھی علاج ہو تا ہے

میزبان صاحبہ :درست …

خواجہ صاحب : اچھا مرا قبہ کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی آدمی نے سرخ رنگ کی کمی ہے انیمیا تو ہم اس سے یہ کہتے ہیں تم مرا قبہ کرو سرخ  رنگ کا تصو ر کرو، ٹھیک ہو جا ؤ گے ۔

میزبان صاحبہ :اچھا …

خواجہ صاحب : کچھ پڑھنے کو بتا ئیں گے اللہ کاکلام

میزبان صاحبہ :جی …

خواجہ صاحب : اور اس کے بعد اس سے یہ کہیں گے آنکھیں بند کر کے بیٹھ جا ؤ اور پندرہ منٹ تک تصور کرو ایک سرخ لا ئٹ جس میں آپ بیٹھے ہو ئے ہیں

میزبان صاحبہ :اچھا…

خواجہ صاحب : ساتھ ساتھ اس سے کہیں گے ٹما ٹر کھا ؤ چقندر کھا ؤ اور سیب کا رس پئیو یہ صرف کہنے کی بات نہیں ہے  یہ میں جو تقریباً جو صحافت میں ہوں اس کو بتیس سال ہو گئے بتیس سال میں میں کسی نہ کسی اخبار سے منسلک ہوں آج کل میں جنگ سے منسلک ہوں سالہ سال ہو گئے میرے مضمون چھپتے ہیں تو میں نے جو اب تک لوگوں کو علاج یا مشوارہ دیا ہے پیش کیا ہے اس کا جو ریکارڈ ہے ہمارے پاس وہ اٹھا رہ لا کھ ہے ۔

میزبان صاحبہ :اچھا …

خواجہ صاحب : اٹھارہ لاکھ آدمی کا علاج کر چکا ہوں میںبتیس سال تو اس اٹھا رہ لا کھ کا جو ہم نے ریشو لگا یا تقریبا ً ہمیں اسی سے بیاسی فیصد کا میا بی ملی ہے۔

میزبان صاحبہ :اچھا …

خواجہ صاحب : ابھی آپ نے وہ پو چھا تھا کہ نو جوان آپ کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں …جی

تو نو جوانوں کی جو متوجہ ہو نے کی اٹھا رہ لاکھ جو تعداد ہے یہ ہمیں بتا رہی ہے شہادت فراہم کر رہی ہے کہ نوجوان ہماری طرف متوجہ ہیں اوروہ بھی متوجہ ہیں علاج بھی ہم کر رہے ہیں اور سلسلہ کو ہمارا علاج ہوا جو اٹھارہ لاکھ میں بارہ لاکھ رہا ہوں وہ بس ہم  اتنا ضرور کہتے کے ساتھ جوابی لفافہ بھیجتے ہیں اب اس پر ہما رااتنا زیادہ خر چہ ہو جا تا ہے تو یہ کلر تھرا پی جو ہے یہ ایک فطرتی اور قدرتی علاج ہے ، اگر آدمی رنگوں کا توازن کر لیں تو وہ بیمار کم از کم ہو گا اس کو زیادہ سے زیادہ پر سکون زندگی گزار نے کے مواقف فراہم ہو نگے میاں بیوی میں والدین میں اولاد میں ذہنی آہنگی ہو گی مثلا ً آپ اپنے کمروں میں دیواروں کے اوپر نیلا رنگ کروائے، یا سفید کروائے۔

میزبان صاحبہ :اچھا آپ ابھی نوجوان لوگوں کے بارے میں بتا رہے تھے جو آپ کے لئے علاج کے لئے آتے ہیں ان میں زیادہ تر نوجوان بھی ہو تے ہیںاور یہاں یہ بات اب دیکھنے میں آئی ہے کہ جو ہماری جنگ جنریشن ہے ان کامذہب کی طرف بڑا لگا ؤ ہو تا جا رہا ہے مطلب یہ محسوس کیا جا رہا ہے تو آپ کا کیا خیال ہے جو لوگ آپ کے پا س آتے ہیں ان میں زیادہ تر نوجوان ہی ہو تے ہیں اور انہیں اور زیادہ ٹریننگ کی اور زیادہ تر بیت کی ضرورت ہے ۔

خواجہ صاحب : نوجوان کی بھی بہت بڑی تعداد ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ نوجوان بچے اپنے گھر میں جو کچھ چاہتے ہیں انہیں والدین سے رشتہ داروں سے نہیں ملتا وہ ان کے گھروں میں عجیب قسم کی افراتفری فساد  میاں بیوی کی لڑا ئی جھگڑا تو اس سے نوجوان بڑے گھبرا تے ہیں  اور دو سری بات یہ ہے کہ جنریشن گیپ جو ہے وہ علم کا ہے نالج کا ہے یہ جو ہمارے زمانے میں اٹھا رہ بیس سال کے بچے کو بھی علم نہیں تھا وہ آج 5 سال کے بچے کو ہے تو والدین اب اس بات ہے ہیں ہم ہی ٹھیک تھے ۔ نالج کے حصول کاکو ئی کام نہیں ہے۔

میزبان صاحبہ : جنریشن گیپ آگیا ایک دو سرے کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی

خواجہ صاحب : تو اتنی زیادہ اب اس میںیہ چا ہئے کہ والدین کو اپنی نو جوان نسل کے ساتھ اولا د کے سا تھ نالج کرShear کرنا چا ہئے اور سمجھوتا کم از کم اتنا تو ضرور کر نا چا ہئے کہ جب اگروہ کو ئی بات کر ے سائنس کی کوئی بات کر ے نظام کی تو والدین کو کم از کم ہاں ہاں تو کر دیں ان کی تو اتنی بھی نا لج نہیں ہے کہ وہ ان کے نوجوان کو ہاں یا نہ کہہ  دے مثلا ً ابھی وہ کہتے ہیں کہ صاحب ابھی زمین ہے پانی ہے سمندر ہے اس پر ایک تختہ ہے تختے پر ایک بیل کھڑا ہے بیل کے سنگ پر ایک دنیا ہے جب وہ تھک جا تاہے تو وہ ایک سنگ سے دو سرے سنگ پر دنیا بدلتا ہے تو اس کو کہتے ہیں زلزلہ آگیا ۔

میزبان صاحبہ :اچھا صحیح ہے بالکل …

خواجہ صاحب  :  اب نو جوان لوگ اسے با لکل نہیں مانتے نوجوانوں نے فزکس پڑھی ہے سائیکولوجی پڑھی ہے پیراسائیکولوجی پڑھی ہے تو یہ کمپو ٹر کی ایج آگیا ہے تو ہماری طرف نو جوان بہت زیادہ عمر کا بچہ ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ جب ہم بات کر تے ہیں تو سائنس کو سامنے رکھتے ہیں فزکس کی بات کر تے ہیں نا لج کی بات کرتے ہیں سائیکولوجی کی بات کرتے ہیں اور نا لج کے بعد جب کو ئی نو جوان سے بات کی جا تی ہے تو وہی اس کو زیادہ اپیل ہو تی ہے اور ووہ زیادہ ہماری طرف متوجہ ہو تا ہے۔

میزبان صاحبہ :جی صحیح کہہ  رہے ہیں آپ مطلب آپ ان کوConvens کر تے ہیں لو جک کے ساتھ

خواجہ صاحب  :  موجودہ دور کے علم کے اوپر جی سائنس کے اوپر بات کرتے ہے، لوجک سے بات کرتے ہیں

میزبان صاحبہ  :  اچھا آپ سے بات ہو جا ئے خواتین کے ریفرنس سے خواتین کے بارے میں یہ کہا جا تا ہے یا تو وہ زیادہ مذہبی ہو تی ہیںیا با لکل نہیں ہو تی ؟تو اس کی کیا وجہ ہے کیا ان تک علم نہیں پہنچ پا تا کیا یہ نفسیاتی مسئلہ ہے کیا اس کی کچھ اور ریزن ہے ؟ 

خواجہ صاحب  : ہیں یہ جو ہے نا خواتین مذہبی نہیں ہو تی یہ صحیح نہیں ہے خواتین ہو تی ہی مذہبی ہیں مردوں کے مقابلے میں ہمیشہ خواتین مذہبی زیادہ ہو تی ہیں ۔ اور یہ جو مذہب ملتا ہے اولاد کویہ ماں سے ہی ملتا ہے ،ماں جو ہے بچوں کی تربیت کا گہوارہ ہے اب دیکھئے صدقہ خیرات جتنا ماں کر تی ہے باپ نہیں کر تا ۔ ذرا سا بچے کو بخار ہوا وہ پیسے نکال کر تکے کے نیچے رکھ دئیے،ذرا سا بچہ بیمار ہے کسی بزرگ کے پاس لے گئی دم کرا دو ذرا سا کچھ ہوا تو قرآن لیکر بیٹھ گئی ۔تو مر دکو تو اس کی فرصت ہی نہیں ہے معاش کے اعتبار سے وہ صبح کو جا ئے گا شام کو آئے گا تو یہ بات صحیح نہیں ہے کہ خواتین مذاہبی نہیں ہو تی خواتین ہو تی ہی مذہبی ہیں ۔

میزبان صاحبہ  : اچھا صحیح چلیں یہ تو اچھا ہے میں ایک یہ بھی بات آپ سے جا نا چا رہی تھی کہ آپ لیکچرز بھی دیتے ہیں آپ نے بہت کچھ لکھا بھی ہے اور لوگوں سے بات چیت کر کے ان کے مسائل ڈسکس کر تے ہیںان کی پرابلم جو ہیں وہ حل کرتے ہیں ان کو ان کے حل بتا تے ہیں تو آج کا جو دور ہے آج کل سب ذریعہ معاش کی فکر میں ہے کسی کے پاس اتنا وقت نہیں ہو تا کسی سے بھی پو چھو جی وقت نہیں ہے وقت نہیں ہے تو کس طرح سے آپ کی یہ چیزیں لوگوں تک پہنچ پا تی ہیں لوگ ان کو پڑھتے ہیں یا ٹائم نکا ل لیتے ہیں پڑھنے کا

خواجہ صاحب  :  اب آپ یہ دیکھئے ایک کتاب آپ چھپیں جی اور اگر وہ مقبول نہ ہو جی تو دو سری کتاب کیسے چھپے گی صحیح میری تو پچیس کتا بیں چھپ گئی ہیں انگریزی میں تر جمہ ہوگا رو سی میں تر جمہ ہو گیاعربی میں تر جمہ ہو گا فا رسی میں تر جمہ ہو گیا ساٹھ کتابچے لکھے گئے اب دیکھئے مقبول ہیں نا تو لکھے جا رہے ہیں ۔

میزبان صاحبہ  :  آپ کا خیال ہے کہ آپ کی با توںمیں ایسا اثر ہے یا لوگ ایسے ہی

خواجہ صاحب  :  نہیں میں لو جک کے ساتھ بات کرتا ہوں لو جک کے ساتھ بات کر تا ہوں وہ کہتے ہیں جی نوجوان نسل خراب ہو گئی میں کہتا ہوں نہیں نوجوان نسل نہیں خراب ہو ئی بزرگوں کا جو اپنا کام تھا جو ذمہ دا ریاں تھیں وہ کم ہو گئی ہیں اب مثلا ً ایک آدمی جو نماز ی ہے وہ اکیلا مسجد میں چلا جاتا ہے نماز پڑھنے اب میں اپنے گھر میں اپنے پوتے کوساتھ لیکر جا تا ہوں نماز پڑھنے کے لئے تو والدین نے اپنے آپ کو اتنا مصروف کر لیا ہے دنیا میں کہ ان کے پاس اولاد کے لئے وقت ہی نہیں رہا تو اس لئے اولاد جو ہے وہ کیا کر ے اس کی جو ضرورت ہے اس کے جو احساسات ہے جذبات ہے اس کو پیار بھی چا ہئے وہ دو ستی کا ماحول بھی چا ہتا ہے دو سری یہ کہ ہر گھر میں میاں بیوی کا اتنا فساد بر پاہو گیا کہ وہ اولاد یہ سمجھنے لگی کہ والدین کا تو مقصد ہی یہ ہے کہ وہ لڑا تے رہے آپس میں اولا د کے ساتھ ساتھ والدین کی بھی یہ ذمہ دا ری ہے کہ اپنی اولاد کو وقت دے اور جو ان کو بات کہے اب مثلا ً ایک میں آپ کو بتا تا ہوںہمارے یہاں ایک کنسپٹ ہے ہر ممکن کوشش یہ کرتے ہیں کہ بندہ اللہ سے ڈرے نہیں اللہ سے محبت کر ے  تواب ہمارے یہاں جو بچے ہیں وہ جا کر اسکول میں کہہ  دیتے ہیں کہ صاحب اللہ سے کیوں ڈریں بھئی اللہ سے تو پیار کر نا چا ہئے اللہ سے تو محبت کر نی چاہئے اب والدین اس بات کو یا بز رگ ہمارے یا ما حول کے لوگ برا محسوس کر تے ہیں کہ صاحب اللہ سے تو ڈرنا چا ہئے بھئی اللہ سے محبت کر نی ہے ڈر کا مطلب یہ ہے اگر آپ اللہ سے محبت کر یں احترام کر یں اور اس احترام کی بناپر اللہ کے جو سارے پسندیدہ کام ہیں وہ سارے کر یں اب وہ بچہ کہتا ہے اللہ سے کیوں ڈریںاگر اللہ سے ڈریں تو اس کو آپ سمجھیں بھئی اللہ سے  ڈرنے کا مطلب یہ نہیں کہ اللہ میاں کوئی خوفناک چیز ہیں ڈرنے کامطلب یہ ہے اللہ تعالیٰ نے جن با توں کو کہا ہے اگر تم وہ نہیں کرو گے تو اللہ میاں نا خوش ہونگے ۔

میزبان صاحبہ  :  با لکل صحیح آپ نے کہا اللہ تعالیٰ کی ذات تو اتنی شفیق ہے ۔

خواجہ صاحب :  شفیق ہے وہ اللہ تعالیٰ فرما تے ہیں میں ستر ما ؤں سے زیادہ محبت کر تا ہوں…

میزبان صاحبہ  :  با لکل بالکل اچھا ایسی حوالے سے میں یہ با ت کرنا چا ہو گی کہ اسلام کے کن اصولوں اور ضابطوں پر ہمیں عمل کر نا چا ہئے اور خیال رکھنا چا ہئے اور خاص طور پر آج کے دور میں جو لوگ کہتے ہیں کہ وقت نہیں ہے کاموں میںمصروف ہیں برائیاں بہت ہیں سوسائٹی میںFatalities اتنی زیادہ Availableہیں ہمیںاتنی صورتیں میسر ہیں تو کس طرح سے وقت نکلنا چا ہئے مذہب کے لئے کیا کرنا چاہئے لوگوں کو کو ئی ایسی بات

خواجہ صاحب  :  دیکھئے اسلام کے کن اصولوں پر عمل کر نا چا ہئے اس کا تو یہ ہے کہااسلام کے سارے ہی اصولوں پر عمل کر نا چا ہئے پہلے اسلام کو سمجھنا چا ہئے اسلام کا مطلب ہے سلامتی کا را ستہ تو سلامتی کا مطلب یہ ہے کہ آپ سارے وہ کام کر یں جس سے آپ کو بھی را حت آرام ملے آپ کی بھی سلامتی یقینی ہو آپ بھی عدم و تحفظ سے باہر آجا ئیں اور دو سرو ں کے دل میں آپ بس جا ئیں ۔

میزبان صاحبہ  :  درست اچھا ایک ابھی سوال ہمارے پاس آیا ہے فون آیا ہے سرگودہ سے محمد منیر کا اور انہوں نے مراقبہ سے متعلق بات کر رہے تھے اسی پر انہوں نے پو چھا ہے کہ مرا قبہ کا صحیح وقت کیا ہے کس وقت کرنا چاہئے ؟

خواجہ صاحب  :  مرا قبہ کر نے کا تین وقت ہوتے ہیں ایک تو رات کو سونے سے پہلے ،ایک فجر کی نماز کے بعداور ایک ظہر کی نماز کے بعد ۔ اس کا تعلق اصل میں سورج غروب سورج کا  طلوع اور سورج کا زوال ہو نا لیکن ظہر کی نماز کے بعد کا وقت ایسا ہو تا ہے کے وہ معاش کا وقت ہے اس میں کوئی نو کر ہے کوئی کا رو بار کر تا ہے تو اس میں سب سے اچھا وقت جو ہے وہ رات کو سونے سے پہلے کا ہے رات کوسونے سے پہلے وضو کر کے آپ مراقبہ کریں مرا قبے سے پہلے دورد شریف پڑھ لیں سو دفعہ سو دفعہ یا حیی یا قیوم پڑھ لیں اچھا آنکھیں بند کر کے بیٹھ جا ئیں اب اگر بیماری سے متعلق مرا قبہ کرنا ہے اچھا کسی کلرتھراپی  والے سے آپ رجوع کریں ساری کیفیات ہمیں لیکھ کر بھیج دیں مرکزی مراقبہ ہال کرا چی کے نا م ہم آپ کو مراقبہ تجویز کر دیں گے

میزبان صاحبہ  :  وہ اپنیDetail سے آپ کو لکھ دیں اورDetail سے آپ کوآپ کے سوال کا جواب جو ہے مل جائے گا

خواجہ صاحب  :  اچھا یہ ہے کہ آپ مرا قبہ کر نا چا ہتی ہیں سکون کے لئے تو وہ الگ مرا قبہ ہے ،مرا قبہ کر نا چاہتے ہیں آپ علم ِغیب کے لئے مطلب یہ ہے کہ اولیا ء اللہ کی ارواح سے ملا قات ہو یہ بھی ایک اللہ کاغیب ہی ہے اور پیغمبروںکی ارواح سے اللہ تعالیٰ مدر فرما ئے تو ان کی زیارت سے آدمی مشرف ہو جا ئے فرشتے اگر اللہ چاہے تو وہ بھی کوشش کر یں تو فرشتے بھی نظر آسکتے ہیں ،جنات سے بھی ملاقات ہو سکتی ہے یہ سا را اللہ کے فضل کے اوپر ہے لیکن اللہ کا فضل جو ہے اللہ نے خود کہا کہ میرا فضل تلا ش کر و اب کچھ نہ کچھ تو کر نا پڑے گا تو یہ مراقبہ سے آدمی اپنی رو حانی کیفیات سے بھی واقف ہو سکتا ہے اپنی روح کو بھی تلاش کر سکتا ہے مرا قبہ سے کشف القبور بھی ہو سکتا ہے اگر آپ کے عزیزاقارب رشتہ دار اولیا ء اللہ نے آپ وہاں پر جا کر قبر پر بیٹھیں اگر آپ کے پریکٹس ہو جا ئے تو آپ ان کی ارواح سے ملاقات کر سکتے ہیں مثلا ً بری امام صاحب سے ملاقات کر لیں خواجہ صاحب سے ملاقات کرلیں،با با فرید سے ملا قات کرلیں ،خواجہ غریب نواز سے ملا قات کرلیں اور یہ اولیا ء اللہ کی کتا بو ں میں بھرا پڑا ہے کو ئی ایسی بات نہیں ہے ہم کو ئی نئی بات کہہ  رہے ہیں صحیح اس کے تو با قاعدہ اصطلا حیں بھی مقرر ہیںتو مرا قبہ ایک مکمل علم ہے جو آپ بیماریاں دور کر نے کے لئے آدمی کرسکتا ہے سکون کے لئے بھی حاصل کر سکتے ہیں ذہنی ہم آہنگی حا صل کر نے کے لئے بھی حا صل کرسکتے ہیں اور ماورائی دنیا سے واقفیت کے لئے بھی مرا قبہ کر سکتے ہیں ۔

میزبان صاحبہ  :  اچھا یہ ایک اور سوال ہمیں آیا ہے تنویر احمد نے اسلام آباد سے یہ پو چھا ہے کہ تما م شہروں میں آپ نے روحانی لائبریریاں قائم کی ہیں تو اسی طرح کی کو ئی لا ئبری یہاں اسلام آباد میں بھی ہے ؟

خواجہ صاحب  :  اسلام آبا دمیں بھی ہے اور ہم نے اصل میں بات یہی تھی ہم نے یہ علم کو پھیلا نے کے لئے لائبریریوں کا ایک جال بچھایا ہے  اس کی تعدا د اب تک ساٹھ ہو گئی ہے ۔اچھا اس میں ہمLItrature فراہم کر تے ہیں درست …اپناLitrature بھی فراہم کر تے ہیںاور تصوف کے بارے میں جو اولیا ء اللہ کی کتابیں ہیں مشہور ومعروف ہیں شاہ والی اللہ صاحب ہیں اس قسم کی جتنی کتا بیں جو رو حانیت سے متعلق ہے انالج فراہم کر تی ہیں وہ بھی ہم اپنی لا ئبریوں میں رکھتے ہیں  ۔

میزبان صاحبہ  :  اچھا آپ نے نماز کے بارے میں ایک کتاب لکھی ہے نماز ظاہر بہت ضروری ہے مسلمانوں کے لئے بہت چھوٹی عمر میں فرض ہو جا تی ہے اور جو لیٹسٹ ریسرچ ہے وہ یہ کہتی ہے جو لوگ پا نچ وقت کی نماز پڑھتے ہیں وہ بہت اچھی صحت مند زندگی گزارتے ہیں بہت ساری بیماریاں جو ہیں وہ ان کے قریب نہیں آتی سائنس کے Pointسے اگر ہم دیکھتے ہیں تو آپ ان لوگ کو جو اس چیز کو زیادہ نہیں سمجھ پا تے کہ نماز کے کیا فائدے ہیں تو کچھDetail آپ بتا ئیں ؟

خواجہ صاحب  :  یہ رو حانی نماز کتا ب، میں نے اس کی بنیاد پر اللہ کی دی ہو ئی تو فیق کے ساتھ کی ہے اس میں نماز کے بارے میں یہ ہے کہ نماز ایک مکمل ضابطہ حیات ہے پہلی بات تو یہ سمجھنے کی ہے رسول اللہ  ﷺ نے جو نماز کا طریقہ بتا یا ہے اس طریقے میں انسانی اعضاء کی تمام حرکات آگئی۔مثلاً ہاتھ اٹھا نا ،ہا تھ با ندھنا ،ہا تھ کھولنا ،جھکنا ،کھڑے ہو نا ،سجدہ کر ناتو یہ ایک اس میں یہ صورت ہے کہ آپ زندگی میں کچھ بھی کر تے رہے آپ کا ذہن اللہ کے ساتھ وابسطہ ہے ۔اگر آپ نے صحیح نماز قائم کی ۔دو سری بات یہ ہے نما ز مکمل اکثر سائنس ہے جی درست اگر کوئی آدمی صحیح معنوں میں سجدہ کر لے اور صحیح معنوں میں رکوع کر لے اصل میں ہم نماز اٹھک بیٹھک میں ختم ہو جاتی ہے اگر اگر نماز میں اگر آپ رکوع صحیح کر لیںصیح طریقے سے اپنے گھٹنے پکڑیں اور اس کی ٹانگوں میں پوری طرح کھنچا ؤ ہو کمر سیدھی ہو تو

میزبان صاحبہ  :  اچھا تو یہ ریسرچ با لکل درست ہے کہ واقعی انسان کے لیے بہت اچھی عبادت ہے۔

خواجہ صاحب  :  اب ایسی رو حانی کتاب میں میں نے لکھا ہے کہ ابھی لاکھوں کروڑ آدمی دیکھ رہے ہو نگے اور ایک کام کرو جتنے بھی ہا ئی بلیڈ پر یشر کے مریض ہیں وہ پا نی سے وضو کر یں ٹھنڈے پا نی سے اگر ان کا بلیڈ پر یشر کم نہ ہو تو مجھے بتائے۔  کیوںکہ تجربہ کیا ہوا ہے ہم۔

میزبان صاحبہ  :  چلیں یہ تو بہت اچھا ہے ۔

خواجہ صاحب  :  تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وضو ہا ئی بلڈ پر یشر کا مکمل علاج ہے ۔ ایک وضو آپ کا کام کر ے گی آپ کرکے دیکھ لیں تجربہ کر لیں اچھا ظہر کی نماز آپ اگر پڑھیں گے ظہر کی نماز پڑھنے والے بندے کواگر وہ صحیح سجدہ کر لے تو زمین کی ایک حرکت ہو تی ہے یعنی محوری گر دش تو جب آدمی تجزیہ کر تا ہے ظہر کی نماز میں تو زمین کی جو درج ہے جس پر زمین چل رہی ہے جی اس کے اند ر سے ایک مخصوص قسم کی لہریں آدمی کے ما تھے میں جمع ہو تی ہیں اس آدمی کو مرگی نہیں ہو تی عشاء کی نماز پڑھنے والے بندے جو ہیں ان کو ہمیشہ اچھے سچے خواب نظر آتے ہیں نیند گہری آتی ہے ان کو خوابوں میں بشا رت ہو تی ہے اچھا اسی طرح مغرب کی نماز پڑھنے والوں لو گوں کی اولاد ہمیشہ سعادت مند ہو تی ہے اس کتاب میں پو ری ڈیٹیل ہے ۔

میزبان صاحبہ  :  اچھا اچھا یہ ایک اور سوال آیا ہے آزاد کشمیر سے پرو فیسر را ٹھور انہوں نے پو چھا ہے کہ ٹیلی پیتھی کیا ہے؟اس کے با رے میں کچھ بتا ئیں ؟

خواجہ صاحب : ٹیلی پیتھی کا Concept ہے وہ آج کل یہ ہے کہ الفا ظ کو استعمال کئے بغیر خیال کے ذریعے اپنی بات دو سرے تک پہنچا نا مثلا ً اب جیسے میں کچھ سوچتا ہوں آپ اسے سمجھ جا ئیں گی میں نہ ہونٹ ہلا ؤں نہ زبان سے کو ئی لفظ ادا کروں۔تو اس کو انتقال خیال بھی کہتے ہیںٹیلی پیتھی کا مطلب یہ ہے کہ بغیر گفتگو کئے ہوئے بغیر فاصلے کا تعین کئے ہو ئے جی مثلاً یہاں بیٹھ کر کو ئی آپ کی سہلی ہے امریکہ میں آپ یہاں بیٹھ کر خیال کر یں آپ کی سہلی وہاں سن لے گی آپ کیا کہنا چا ہتی ہیں اس کے لئے مرا قبے کی مشقیں کر ائی جا تی ہیں اچھا ا س کے لئے بھی مرا قبے کی مشقیں کی جا ئیں گی یہ ٹیلی پیتھی سیکھئے جو کتاب ہے اس کے اندر آٹھ مہینے کا کورس ہے اور ہر مہینے کاالگ مرا قبہ ہے الگ ہر مہینے کی پرکٹس ہے جب آدمی اس میں کامیاب ہو جا تا ہے اس کے بھی بہت شا گردہیں جب یہ کامیاب ہو جا تا ہے تو وہ اپنے خیالات کے ذریعے دوسرے کو مطلع بھی کر دیتا ہے اور دو سروں کے خیالات پڑھ بھی لیتا ہے مثلا ً آپ بیٹھی ہو ئی ہیں آپ کی سہلیاں آئی ہو ئی ہیں اب آپ کی بہن آجا تی ہے کمرے میں آپ اس کو اشا رے سے دیکھتی ہیں کہ بھئی یہاں نہ آؤ آپ نہ گر دن ہلا تی ہیں نہ زبان استعمال کر تی ہیں وہ آپ کی بہن سمجھ جا ئے گی وہاں سے چلی جا ئے گی کبھی تجربہ کر لیںنا اچھا صحیح تو اس کا مطلب ہے ٹیلی پیتھی کی صلاحیت بھی موجود ہے

میزبان صاحبہ  :  صرف پریکٹس کی ہے

خواجہ صاحب  :  جیسے یہ جانور ہیں یہ سب خیالات کے ذریعے گفتگو کر تے ہیں ہم چو نکہ زبان بولتے ہیں لفظ بولتے ہیں اس لئے ہم اس سے دور ہو گئے لیکن اگر ہم یہ پریکٹس کر تو انتقال خیال کی صلاحیت ہمارے اندر موجود ہے ہم اسے استعمال کر کے فا ئدہ اٹھا سکتے ہیں ۔

میزبان صاحبہ  :  سوال تو ہمارے پاس بہت ہیں دل کر رہا ہے آپ سے با تیں کئے جا ئیں کیوں کہ بہت ہمیں اچھی معلومات مل رہی ہے اور نئی چیزوں کا پتاچل رہا ہے اور کال بھی آرہی ہیں لیکن چو نکہ ہمارے پاس پروگرام میں وقت تھوڑا ساکم ہے اس لئے انشا اللہ پھر کبھی آپ کوinvite کریں گے اور آپ سے مزید معلومات لیں گے بہت بہت شکریہ آپ ہمارے پروگرام میں تشریف لا ئے ۔

خواجہ صاحب  :  اب لوگوں نے مجھے اس Studioمیں بلا یا اور نا ظرین کے سامنے مجھے کچھ کہنے کا مو قعہ فراہم کیا اس کے لئے میں آپ سب کو بہت شکر گزار ہوں

 

 

 

Topics


Khutbat Khwaja Shamsuddin Azeemi 01


اللہ کا شکر ہے پہلی جلد جس میں 73 تقاریر کو شامل کیا گیا ہے۔حاضر خدمت ہے۔ بہت سی جگہ ابھی بھی غلطیاں ہونے کا امکان ہے۔ برائے مہربانی ان سے ہمیں مطلع فرمائے۔اللہ تعالی میرے مرشد کو اللہ کے حضور عظیم ترین بلندیوں سے سرفراز کریں،  اللہ آپ کو اپنی ان نعمتوں سے نوازے جن سے اس سے پہلے کسی کو نہ نوازہ ہو، اپنی انتہائی قربتیں عطاکریں۔ ہمیں آپ کے مشن کا حصہ بنائے۔ ناسوت، اعراف، حشر نشر، جنت دوزخ، ابد اور ابد الاباد تک مرشد کا ساتھ نصیب فرمائے۔آمین

مرشد کا داس