Topics

ٹائم اینڈاسپیس کی نفی کر نے کا طریقہ

 اعوذ با اللہ من الشیطٰن الرجیم

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

لو أنزلنا هذا القرآن   لو أنزلنا هذا القرآن على جبل لرأيته خاشعا…ھو الالذی لا الہ اللہ ھو…

عزیزان گرامی قدر ، محترم خواتین و حضرات، پیارے دوستوں،بھائیوں ،بچوں، بچیوں اور عظیمی خاندان کے چاند ستاروں، آپ کے اوپر اللہ تعالیٰ کی سلامتی نازل ہو ۔آپ کو میرے انتظار میں کا فی زحمت اٹھا نا پڑی ،دیر بھی کا فی ہو گئی مجھے اس با ت کا احساس ہے ۔لیکن انتظامی مجبوریاں کچھ ایسی ہوتی ہیں کہ نہ چاہتے ہو ئے بھی بہت ساری باتیں ایسی ہو تی ہیں کہ وہ ہو جاتی ہیں ۔میں کوشش کروں گا کہ تھوڑے وقت میں اتنی باتیں عرض کردوں کہ آپ کا ذوق اور آپ کے شوق کی تسکین ہو جائے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اللہ کے رسول کی طرف سے اور سیدنا حضور علیہ الصلوٰ ۃ والسلام کے علوم کے وارث حضور قلندر بابااولیا ء ؒکی طرف سے جو ڈیوٹی مجھے توفیض ہو ئی ہے ۔ میں اس کو پورا کر نے کا اہل ثابت ہو سکوں۔ عزیزان گرامی قدر کل یہاں ورکشاپ کی مجلس کا انقاد ہوا اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اور لوگوں کے ذوق و شوق سے پانچ سو سے زیادہ حضرات نے اس مجلس مزاکرہ میں شرکت فرمائی اللہ تعالیٰ کے انعا م و اکرام سے مادرعلمی بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے اس ورکشاپ کی نگرانی فرما ئی اور ورکشاپ کی کامیابی کا ہم سب کومژدہ سنا یا ۔یہ کائنات اور کائنات کی تمام مخلو قات اور مخلوقات کے تمام افرادکے بارے میں اگر کچھ کلا م کیا جا ئے تو اس ایک بات کے علاوہ دوسری کو ئی نئی بات نہیں کہی جا سکتی کہ یہ ساری کائنات ایک علم ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے جب اس کائنات کو پھیلا نا چا ہا۔ اللہ تعالیٰ نے جب اس کائنات کا مظاہرہ کر نا چا ہا،  ا للہ نے بے شمار نوع کو ایک دوسرے سے متعار ف کروانا چا ہا،  تو اللہ تعالیٰ کے علم نے ایک کروٹ بدلی اور جب اللہ تعالیٰ کے علم نے کروٹ بدلی تو وہاں سے آوازآئی’’ کن‘‘ ۔کائنات اللہ تعالیٰ کے ذہن میں جس طرح موجود تھی کائنات کے نقش و نگار جس طرح اللہ کے ذہن میں موجود تھے ۔کائنات کی ضروریات زندگی جس طرح اللہ کے علم میں تھی ۔ کائنات کے حیات و ممات کا فلسفہ جو اللہ کے ذہن میں تھا۔جب اللہ نے کن کہا یا اللہ کے علم نے کروٹ بدلی تو وہ سارا ذخیرہ ،سارا خزانہ وہ سارا مفصل پلان جو اللہ کے ذہن میں تھا اس کا مظاہر ہ ہو گیا ۔اب یوں کہیں گے کائنات دراصل اللہ تعالیٰ کے مخفی علوم کا مظاہرہ ہے ۔’کن ‘  ہو جا،  کیا ہو جا؟ کن کے اوپر جب ہم غور کر تے ہیں یا اس کے اوپر ذہن مرکوز جا تا ہے ۔جس کے ہو جا نے کا حکم دیا جا تا ہے جس کا مظاہر ہ کرنے کا حکم دیا جا تا ہے۔ کن ہو جا ــ ’’فیکون ‘‘ ہو گیا یعنی اللہ تعالیٰ کے ذہن میں جو کچھ تھا، اللہ تعالیٰ کے ارادے میں اس کا مظاہرہ پیدا ہوا تو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کن ہو جا اور وہ ہو گیا ،کائنات علم کے علاوہ کچھ نہیں ہے ۔پہلے یہ علم اللہ تعالیٰ کے ذہن میں محفو ظ تھا اب بھی ہے ،پھر اس علم کو جس قدر اللہ تعالیٰ نے ظاہر کر نا چا ہا اس کو ظاہر فرما دیا ۔ کائنات کے افراد میں جو قابل توجہ، قابل ذکر جو مخلوقات ہیں وہ تین ہیں ۔ فرشتے جنات اور انسان۔ فرشتے کا جب ہم ذکر کر تے ہیں تو ہمارے ذہین میں یہ بات وارد ہو تی ہے کہ فرشتے اللہ کی ایک مخلوق ہیں ۔جو مسلسل اللہ کے حکم کی تعمیل میں مصروف عمل ہیں ۔فرشتہ جب تعمیل حکم میں مصروف ہے تو یاملااعلیٰ کے ذہن میں یہ بات ہے مجھے اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کس طرح کر نی چاہئے۔  دو سری مخلوق جنات ہیں ۔جنات کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے جنات ایک ایسی مخلوق ہے کہ جو مکلف ہے ۔ یعنی جزااور سزااس کو دی جائے گی جزا اور سزا کا قانون ہے اچھائی اور برائی کے تصور سے آگاہی حاصل ہے ۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ جنات بھی اچھائی اور برائی کا علم جانتے ہیں ۔اچھائی اور برائی کے تصور سے آگاہ ہیں ۔تیسری مخلوق انسان ہے انسان کے بارے میں بھی یہی ہے کہ وہ اچھائی برائی کے تصور سے آگاہ ہے ۔اللہ تعالیٰ نے اسے ایسے علوم سکھا  دئیے ہیں کہ جس کا قرآن نے وضاحت کے ساتھ تذکر ہ فرمایا اور اللہ تعالیٰ خود علم کے بارے میں فرما تے ہیں وعلما انسان معالم یعلم …کہ ہم نے انسان کو وہ علم سکھا د یا ہے جو یہ نہیں جا نتا ۔ زمین کو جب ہم کریدتے ہیں زمین کی تہہ کو الٹ پلٹ کر، ا س کے اندر تفکر کرتے ہیں وہاں بھی ہمیں یہی بات نظر آتی ہے کہ زمین کا ہر ذرہ ایک مکمل علم ہے جب ہم ایٹم کا ذکر کر تے ہیں اور ایٹم کے الیکٹرون کی گردش کا تذکر ہ کر تے ہیں ۔اس کی طاقت کا تذکرہ کر تے ہیں تو ا س کا مطلب یہ ہے کہ اس ایٹم کے اندر تعمیر اور تخلیق دونوں کاعلم چھپا ہوا ہے ۔پانی کا ذکرکرتے ہیں تو پانی کے اندر جب ہم کھوج لگا تے ہیں تو وہاں بھی یہی علم ملتا ہے کہ پانی کے اندر علوم کے ذخیرے چھپے ہوئے ہیں تو کائنات علم کے علاوہ کچھ نہیں ہے ۔اب علم کی دو قسمیں ہیں ایک علم کی قسم یہ ہے کہ انسان او ر حیوانات دونو ں کو وہ علم حاصل ہے ۔لیکن اس علم کی تشریح انسان اور حیوان دونوں نہیں کر سکتے مثلا ً ایک خرگوش کو بھی بھوک لگتی ہے خرگوش کو بھی اس بات کا علم ہے مجھے کیا کھانا چاہئے۔ انسان کو بھی بھوک لگتی ہے انسان کو بھی اس بات کا علم ہے مجھے کیا کھانا چا ہئے اور کیا نہیں کھا نا چاہئے ۔خرگوش بھی سو تا ہے خراٹے لیتا ہے۔انسان بھی سو تا ہے جس طرح خرگوش سو نے کے بعد بیدار ہو نے پر مجبور ہے اس طرح انسان بھی سو نے کے بعد بیدار ہو نے پر مجبور ہے اور بیدار ہو نے کے بعد سو نے پر مجبور ہے ۔دکھ درد کا احساس ایک خرگوش کو بھی ہے دکھ درد کا احساس ایک انسان کو بھی ہے ۔غم کا احساس ایک خرگوش کو بھی ہے،غم  کااحساس ایک انسان کو بھی ہے۔لیکن جب انسان سے یا خرگوش سے یہ پوچھا جائے کہ غم کیا ہے دونوں کے پاس اس کا جواب خاموشی کے علاوہ کچھ نہیں ہے ۔آپ تشریح تو کرسکتے ہیں، کہ غم سے مراد آدمی نڈھال ہو جا تا ہے ،غم سے مراد یہ ہے کہ آدمی کی صحت برباد ہو جا تی ہے ،غم سے مراد یہ ہے کہ آدمی کے بال سفیدہو جاتے ہیں ، غم سے مراد یہ ہے کہ آدمی کی کمر جھک جا تی ہے ،غم سے مراد یہ ہے کہ آدمی کا نظام ہاضمہ خراب ہو جا تا ہے ،آدمی چڑ چڑا ہو جاتا ہے بھئی خوشی کیا  چیز ہے یا خوشی کا مطلب یہ ہے آدمی ہلکا پھلکا رہتا ہے صحت اچھی ہو جا تی ہے، عمر دراز ہوجاتی ہے ،خوش رہنے والا بندہ خوش اخلاق ہو جا تا ہے ،مزاج سے چڑ چڑا پن ختم ہوجا تا ہے ۔مزاج میں مروت و حلاوت ہو جا تی ہے نر می پیدا ہو جا تی ہے ۔لیکن اگر یہ سوچا جائے کہ یہ تو غم کے تاثرات ہیں ۔جو آپ بیان کر رہے ہیں ۔فی الواقع غم کیا چیز ہے ۔تو نوع انسانی کے پاس اس کا جواب نہیں خوشی کیا چیز ہے ۔ آپ خوشی کے تصورا ت تو بیان کر دیں گے فی الوقع خوشی کیا چیز ہے ۔جس طرح خرگو ش خاموش ہے اسی طرح آپ بھی خاموش ہیں ۔ایک تو علم کی تعریف یہ ہو ئی آپ اس علم کے تاثرات بیان کرتے ہیں اس سے واقف تو ہیں۔لیکن وہ علم کیا شئے ہے آپ واقف نہیں ہوگے نہ خرگوش واقف ہے نہ کوئی اور واقف ہے ۔دونوں حیوان اور انسان دونوں اس میں ایک بھائی ہیں ایک دوسرے کے ساتھی ہیں۔ اور دونوں کا ایک دوسرے کے ساتھ اشتراک ہے ۔ دونوں غم اور خوشی پر مجبور ہیں ۔دونوں پیدا ہو تے ہیں دونوں مر جا تے ہیں ۔دونوں جوان ہوتے ہیں ،دونوں بوڑھے ہوتے ہیں ۔دونوں مرنے کے بعد مٹی میں مل جا تے ہیں۔ مٹی کے ذرات بن جاتے ہیں۔ایک خرگوش کو آپ قبر میں دبا دیں ۔ایک انسان کو قبر میں دبا دیں ۔وقت معین پر قبر کھولیں تو دونوں کا وجود معدوم ہو گا مٹی کے ذرات میں تبدیل ہو چکے ہونگے ۔تو یہ بات طے ہو گئی کائنات ایک علم ہے تو کائنات کے ذرات بھی ایک علم ہیں ۔کائنات کے سارت ذرات کائنات میں بسنے والی مخلوق ہے اور ایک علم یہ ہے کہ اس علم کی شریعت معرفت اور حقیقت کا ادراک ہو جائے ۔ جب اللہ تعالیٰ یہ فرما رہے ہیں وعلم الاانسان ما لم یعلم …کہ ہم نے انسان کو وہ علم سکھا  دیا جو وہ نہیں جا نتا تھا ۔اب آپ خرگوش کی زندگی کو اور انسان کی زندگی کا جب تجزیہ کریں تو اس کا مطلب یہ ہوا خرگوش کو اللہ تعالیٰ نے وہ نہیں سکھا یا جو انسان کو سکھا دیا و، علم لاانسان مالم یعلم …اس سے یہ ثابت ہوا انسان کی اگر فضلیت کچھ ہے دوسری تمام مخلوقات پر انسان کو شرف حاصل ہے ۔تو وہ ایک مخصوص علم ہے ۔و علم لاانسان مالم یعلم …اب انسان کا شرف یہ ہوا کہ انسان کے پاس اللہ کے سکھا ئے ہوئے وہ علوم ہیں جو دوسری مخلوقات کے پاس نہیں ہیں ،اب انسان کی فضلیت یہ ہو ئی ایک طرف تو انسان اور حیوان برابر برابر پھر اس کو دوبارہ دوہرا لیں یاد رہے بھوک سب کو لگتی ہے ،پیاس سب کو لگتی ہے ، سوتے سب ہیں ،جاگتے سب ہیں ،جنسی تقاضہ سب کے اندر ہو تا ہے، بچے سب کے پیدا ہو تے ہیں ،بچوں سے محبت سب کر تے ہیں اس میں انسان حیوان کی کو ئی تخصیص نہیں ہے ۔تو یہ بچے پیدا کر نا ،بچوں کی پر ورش کر نا ، بچوں کو سکھا  نا ، بچوں کی حٖفاظت کر نا ، اس کو آپ کسی بھی طرح علم کے دائرے سے باہر نہیں کر سکتے تو انسان کی دوہری خصوصیات ہے انسان کو ایک علم وہ آتا ہے جو کائنات کی ہر مخلوق کو آتا ہے اور انسان کو ایک علم وہ آتا ہے جو کائنات کی دوسری مخلوقات کو نہیں آتا، کیونکہ کا ئنات کی دوسری مخلوقات کو علم حاصل نہیں ہے ۔اس لئے انسان کائنات کی تمام مخلوقات سے ممتاز اور افضل ہو گیا ۔اللہ تعالیٰ نے آدم کو پیدا کیا،  پیدا کر نے کے بعد اسے علم الاسماء سکھا  یا ۔ وعلم الآدم الاسماء کلھا…فرشتوں کے سامنے آدم کوکر کے آدم سے کہا حکم دیا ہم نے جو تجھے علوم سکھا  دئیے ہیں ۔تو بیان کر جب آدم نے فرشتوں کے سامنے جب وہ علوم بیان کئے جو اللہ تعالیٰ نے آدم کو سکھا ئے تھے تو فرشتوں نے کہا قالو لا علما لا نا …انا انت العلیم حکیم …کہ پروردگار عالم ہمارے خالق ہمارے رب ہم تو اتنا ہی جا نتے ہیں جتنا آپ نے ہمیں سکھا  دیا ہے اس کا مطلب یہ ہوا فرشتوں نے آدم کی فضلیت ، شرف کو اس بنیاد پرقبول کر لیا آدم نے وہ علوم بیان کئے جو فرشتے نہیں جا نتے تھے ۔ جب فرشتوں نے آدم کاشرف قبول کر لیا باقی تمام مخلوقات نے آدم کے شرف کو قبول کر لیا یعنی آدم کا ممتاز ہو نا اس لئے ہے آدم کو اللہ تعالیٰ نے وہ علوم سکھا  دئیے جو فرشتے نہیں جانتے تھے اور دوسری مخلوقات بھی نہیں جانتی تھیں ۔ اللہ تعالیٰ نے جب آدم کو تخلیق کر کے علم سکھا  کر اس کو شرف عطا کر دیا تو ظاہر ہے ساری کا ئنات میں ممتا ز ہو گیا ۔عزت اور احترام سے گلے لگانے لگاعزت اور احترام ملا تو اسے پروٹوکول بھی ملناچا ہئے تھا اللہ تعالیٰ نے پروٹوکول کو قائم رکھنے کے لئے، آدم کاامتیاز بر قرار رکھنے کے لئے، آدم کی فضلیت اور شرف کو محفوظ رکھنے کے لئے آدم کے اوپر ایک او ر انعام کیا اور وہ انعام یہ ہے اب تم کیونکہ کائنات میں معزز ترین فرد ہو، کائنات کی ہر مخلوق تمہاری محکوم ہے علم کی بنیاد پر، لہذا تمہاری زندگی تمہا را ماحول تم جس مقام میں رہتے ہو وہ مقام ایسا ہو گا جو فرشتوں کو بھی نصیب نہیں ہے اور جو جنات کو بھی نصیب نہیں ہے ۔ لہذا ہم نے تمہاری فضلیت کو سامنے رکھتے ہو ئے ہم نے تمہیں جنت عطا کی ۔کہیں ذکر نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہو اس آدم کے قصے میں فرشتے جو ہیں جنت میں رہتے ہیں۔جنات جنت میں رہتے ہیں یا کائنات کی دوسری مخلوق جنت میں رہتی ہے فضلیت کی بنیاد پر آدم کو جنت میں بھیج دیا گیا اور اللہ تعالیٰ نے اسی فضلیت اور علم کی بنیاد پرآدم سے فرمایا جو علم تمہیں حاصل ہے جو علم تمہیں عطا کیا گیاہے اس علم کی حیثیت یہ ہے کہ اس میں پابندی نہیں ہے اس علم کی دوسری تعریف یہ ہے کہ جب تک تم اس علم کے دائرے میں رہو گے اس علم کے دائرے سے باہر نہیں نکلو گے تمہارے اوپر پریشانی نہیں ہو گی تمہیں غم نہیں ہو گا ۔آباد رہو گے آزاد رہو گے۔ اللہ تعالیٰ نے انعام اکرام کے بعد آدم سے فر مایا یا آدم سکن …یا آدم سکن …اے آدم سکونیت اختیار کرو تو اور تیری بیوی یاآدم سکن انتا و زوجہ جنہ…اے آدم تو اور تیری بیوی جنت میں رہو ہم نے تمہیں انعام میں یہ جنت عطا کردی ۔فکلوا منھا…کھا ؤ پئو عیش کرو کوئی غم نہیں کو ئی پر یشانی نہیں۔۔ فکلوامنھا… اس میں سے کھا ؤ پئو ۔۔رغداً …خوشی خوشی کھا ؤ پئو جب تک تم جنت میں رہو گے خوش رہو گے فکلو منھا رغداًحیث شئتما…جہاں سے دل چاہے اگر جنت کا رقبہ ایک کروڑ میل پر پھیلا ہوا ہے تو یہ ایک کروڑ میل کی اسپیس تمہارے لئے ایسی ہے جیسے ایک کمرہ ہو ۔ارادے کے تحت اسپیس لپٹے گی ۔ ارادے کے تحت اسپیس کم ہو جا ئے گی ۔تم یہ چاہو کہ سو میل دور جا کر پانی پیو اب یہ تمہارے اوپر ہے اگر تمہارے اندر جو میٹر لگا ہوا ہے تم اس کی رفتار سو میل منٹ کر دیتے ہو تو تم ایک منٹ میں سو میل طے کر لو گے ۔ پانچ منٹ میں سو میل کر دیتے ہو تو پانچ منٹ میں کر لو گے اور اگر بالکل اسپیس کو توڑ دو گے تو ایک سیکنڈ کے ہزاویں حصے میں تم سو میل پہنچ جا ؤ گے حیث شئتما …جہاں سے دل چاہے فکلو منھا رغداًحیث شئتما…ولا تقربا …لیکن یہ سب انعام و اکرامات تم کو دئیے گئے ہیں اتنا بڑا کام دیاگیا ہے اس کے کچھ اصول ہیں ۔جنت کے مقام پر رہنے کے لئے جنت میں رہنے کے لئے کچھ قاعدے ہیں کچھ ضابطے ہیں اس لئے کہ کو ئی علم قاعدہ ضابطوں کے بغیر نہیں ہوتا ۔ ہر چیز ایک نظام کے تحت ٹھیک لگتی ہے ۔اور ہر چیز ایک نظام کے تحت چلتی ہے ۔اور ہر چیز ایک نظام کے تحت فنا ہو تی ہے ۔ولا تقربا ھذہ الشجرہ…یہ جو درخت ہے اس کے قریب نہ جا نا اور اگر تم نے ہماری بات پر دھیان نہیں کیا چاہے تم سے بھول چوک ہو جائے تو پھر تم ظالموں میں ہو جا ؤ ں گے یعنی فرمانبراد نہیں رہو گے اگر حکم عدولی ہو گی چاہے غلطی سے ہو، تو تمہارے ذہن کے اندر تمہارے دماغ کے اندرجو ٹائم اسپیس سے آزاد ہو نے کا پیٹرن بن گیا ہے اس پیٹرن کے اندر محدودیت پیدا ہو جا تی ہے ۔ولا تقربا ھذہ الشجرہ وتکونا من الظالمین …آدم علیہ السلام سے سہو ہوا،  بھول ہو ئی اور وہ درخت کے قریب چلے گئے ۔وہ درخت کیا ہے اگر اس کی تشریح بیان کی تو میرا خیال ہے پوری رات گزر جائے گی اس کو ذرا ایک طرف رکھتے ہیں ۔جیسے ہی آدم علیہ السلام اس درخت کے قریب گئے تو سب سے پہلے اس حکم عدولی کا نتیجہ یہ مرتب ہوا کہ آدم علیہ السلام نے اپنے آپ کو برہنہ دیکھا، اب اس کا ایک مطلب تو یہ بھی ہو تا ہے کہ آدم علیہ السلام تو جنت میں کپڑے پہنتے تھے تو یہ جب حکم عدولی ہو گئی اور جنت کے کپڑے اتر گئے جو ہمارے بزرگ ہمیں بتا تے ہیں اور ایک مطلب یہ بھی ہے وہاں سترپوشی کا کو ئی تصور ہی نہیں تھا مثلاً چھوٹے بچے ہیں، چھوٹے بچوں میں ماں باپ رشتے دار بار بار انہیں کپڑے پہناتے ہیں وہ اتار اتار کر پھنکتے ہیں ۔آپ نے دیکھا ہو گا بچے ننگے ہو کر زیادہ خوش رہتے ہیں یہ تو والدین ان کی ستر پوشی کر تے ہیں ۔ شیم، شیم شیم۔ بہرحال آدم علیہ السلام نے خود کو ننگا محسوس کیا ۔اب آپ غور فرمائیں جنت ایک ایسا مقام ہے کہ جہاں آدمی خوش رہتا ہے ۔جنت ایک ایسا مقام ہے جہاں کسی قسم کی پابندی نہیں ہے اچھا جہاں پابندی نہیں ہے وہاں تغیر نہیں ہے جہاں تغیر ہے وہاں پابندی ہے جہاں پابندی ہے وہاں تغیر ہے ۔ یہ دونوں لازم ملزوم ہیں جب آدم علیہ السلام نے جنت کی فضاء کو رد کر دیا تو آدم علیہ السلام کی زندگی میں ا یک تغیر پیدا ہوا ۔پہلا تغیریہ پیدا ہوا آدم علیہ السلام نے خود کو عریاں محسوس کیا ،دوسرا تغیر یہ پیدا ہوا کہ جنت نے انکار کر دیا کہ اب تم جنت میں نہیں رہ سکتے ۔آدم علیہ السلام جنت سے زمین پر آگئے دوسرا تغیر یہ پیدا ہوا آدم علیہ السلام جنت کی نورا نی فضاء سے نکل کر زمین کی کثیف ،گندی متعفن فضاء میں آگئے ۔بھوک لگی عادت تو یہ پڑی ہو ئی تھی کہ بھوک لگی،  جس چیز کا دل چاہا چیز موجود ہو گئی حضرت جبرائیل علیہ ا لسلام نے آکر کہا …بھولے بادشاہ اب محنت کر نی پڑے گی ۔ وہاں بغیر کچھ کئے اللہ کی نعمتیں ملتی تھیں اب وہ یہاں نہیں ملیں گی وہ جنت میں ہی ملتی ہیں آدم علیہ السلام نے کھیتی باڑی شروع کر دی ۔تیسرا تغیر یہ پیدا ہواکہ پہلے کچھ بھی نہیں کر نا پڑتا تھا سب کچھ مل جا تا تھا اب کچھ کرو گے تو ملے گا پھر یہ تغیر پوری زندگی میں داخل ہوگیا اب آدم علیہ السلام کی اولاد پر آجا ئیے آدم علیہ السلام کی اولاد مذکر اور مونث دو رخ ہیں ۔جب تک انسان شادی نہیں کر تا اس کی زندگی ایک جگہ پر قائم رہتی ہے ۔لیکن جب انسان شادی کر لیتا ہے وہ لڑکا ہو یا لڑکی ہو تو اس کو ہم یہی کہیں گے اب اس کی زندگی میں ایک انقلاب آگیا ہے تغیر پیدا ہو گیا ہے ۔پہلے ایک یونٹ تھا اب دو یونٹ بن گئے اب پھر اس میں یہ تغیر آیا کہ انسان کے اندر جو خون دوڑ رہا ہے ۔اس خون میں کیمیکل تغیرات ہو کر لوتھڑا بنا،  لو تھڑے کو آپ کسی بھی طرح خون میں تغیر کے علاوہ دوسرانام نہیں دے سکتے ۔پھر وہ رحم مادر میں متغیرہو تا رہا اُلٹتا رہا ۔پلٹتا رہا ایسا کروموسومز یا جراثمہ جو خوردبین سے بھی نظر نہیں آتا اتنا تغیر ہو ااتنا تغیر ہوا کہ وہ جیتی جاگتی تصویر بن گئی ۔اس میں وزن بھی نہیں تھا وہ وزن بھی اتنا کم وزن کے اس کو کسی طرح تولا ہی نہیں جا سکتا اس میں اتنا تغیر ہوا اس کو اتنا الٹا پلٹا کیا کہ وہ سات پونڈ آٹھ پونڈ نو پونڈ میں تبدیل ہو گیا ۔اس تغیر کے بعد حضرت آدم کے صاحبزادے اس دنیا میں تشریف لا ئے گوشت کے ایک لوتھڑے کی طرح تھے ۔نہ کروٹ بدل سکتے تھے نہ بیٹھ سکتے تھے ،نہ اٹھ سکتے تھے ،نہ پہچان سکتے تھے ،نہ کھا سکتے تھے ،نہ پی سکتے تھے ،تغیرات نے اتنا ردوبدل کیا کہ وہ حضرت آدم کے صاحبزادے بیٹھنے لگے ، چلنے لگے ،پھرنے لگے ،بڑے ہو گئے بھاگنے لگے ،دوڑنے لگے ،جوان ہو گئے ، پڑھ لکھ کر فارغ ہو گئے جب بچہ دو سال کا تھا اسے a b c d  نہیں آتی تھی جب وہ اٹھارہ سال کا ہوا تو اسے ایم اے ہو گیا کیا یہ تغیر نہیں ہے ایک بچہ جو چند پونڈ کا تھاوہ ڈیرھ من کا ہو گیا دو من کا ہو گیا یہ تغیر نہیں ہے ۔ایک بچہ جو ایک فٹ کا تھا وہ چھ فٹ کا ہو گیا کیا یہ تغیر نہیں ہے ۔یہ تغیر مزید متعین ہوا او ر ا نسان جوانی سے بوڑھاپے میں داخل ہو گیا ۔بوڑھاپے سے موت میں داخل ہو گیا ۔یہ سارا تغیر ہے اور اس تغیر کو سمجھ لینا علم ہے یہ تو سب جانتے ہیں کہ بچہ چھوٹا سا ہو تا ہے بڑا ہو کر چھ فٹ کا ہو گیاجوان ہو گیا، بوڑھا ہو گیا،مر گیا یہ اس بات کو خرگوش بھی جا نتا ہے اس بات کو بلی بھی جا نتی ہے ،یہ کو ئی علم نہیں ہے ۔علم یہ ہے کہ تغیرات کے پیچھے کونسا علم ہے جو انسان کو متغیر کر رہا ہے، متغیر کر رہا ہے، ۔تغیر کیا ہوا پھر جنت میں چلتے ہیں جنت کا آپ تصور کریں جنت ایک بہت بڑا رقبہ ہے اس میں بہترین خوبصورت باغ ہیں ۔سلیقے سے درخت لگے ہو ئے ہیں ۔ درخت کے پتے شاخیں ایسے ہیں جیسے گول چھتری پھولوں کا یہ عالم ہے ایک پھول میں کئی کئی سو رنگ ہیں ۔ہر رنگ ایک ٹیوب لائٹ کی طرح چمکتا ہے ۔ایسا لگتا ہے اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ کو ایسے وسیلے عطا فرما ئے کہ ہم جنت دیکھ سکیں جب آدمی جنت دیکھتا ہے تو گم ہو جا تا ہے ۔حواس معطل ہو جاتے ہیں ۔ جنت میں حوریں ہیں …حوریں اتنی خوبصورت ہیں کہ ان کی جو آنکھیں ہیں آنکھوں کی جو پتلی ہیں ایسا لگتا ہے وہ پتلی سچے موتیوں کو کوٹ کر بنا ئی گئی ہوں حوریں …نشہ ہے اس میں خمار ہے اس میں۔ آدم نے جب جنت کو چھوڑا یا جنت نے جب آدم کو رد کیا تو ا س کے اندر ایک تغیر پیدا ہوا اور تغیر بڑھتے بڑھتے اتنا بڑھا کہ ایک انسان اسی نوے سال تک ردوبدل ہو تا رہا ۔اب روددل ہو نے کے بعد تغیر شروع ہو گیا دوسرے عالمین کا مسئلہ ہے آپ حضرات ماشاا للہ سب پڑھے لکھے ہیں یہ سوال کر ناچاہتا ہوں بحیثیت دوست کے بحیثیت استاد کے بحیثیت بڑے کے کہ اگر ہم جنت میں جا نا چاہیں تو ہمارے اندر کس قسم کا تغیر پیدا ہو جنت ہمیں قبول کر لے ؟ یہ میرا آپ لو گوں سے سوال ہے ۔بات سمجھ میں آتی ہے کیا سمجھ میں آئی میں جنت میں جانا چاہتا ہوں تو جب بات آئے گی مذہبی دانش وروں کی تو سیدھی سی بات ہے نیکی کرو جنت میں چلے جا ؤ گے ۔بہت آسان نسخہ ہے بھئی نیکی کرو جنت میں چلے جا ؤ گے ۔ بات یہ ہے کہ جنت میں جب آدم تھے اس وقت آدم کس کیفیت میں تھے ۔ایک کیفیت تو یہ تھی وہ خوش تھے وہ خوش رہتے تھے ۔دوسری کیفیت یہ تھی ٹائم اسپیس سے آزاد تھے،تیسری کیفیت یہ تھی اللہ کے فرمانبدارتابیدارتھے تو جب تک یہ تینوں چیزیں آدم کے بیٹے میںیا آدم کی بیٹی میں جمع نہیں ہو نگیں ۔تو کیا کو ئی آدم کابیٹا یا بیٹی جنت میں جا سکتا ہے کیوں بھئی …اچھا کیوں نہیں جا سکتا ؟اس لئے نہیں جا سکتا اس دنیا میں تو کوئی بھی آدمی ایسا نہیں ہے جو ٹائم اسپیس سے آزاد ہو، چھ ارب کی آبادی ہے چھ ارب کی آبادی میں ایک بندہ بھی ایسا آپ کو نہیں ملے گا۔ جو ٹائم اسپیس سے آزاد ہو جو اللہ تعالیٰ جن کو مستشنہ کر دیا ایک بندہ بھی ایسا نہیں ملے گا جو ناخوش نہ ہو تا ہو ۔تو ا س کا مطلب یہ ہوا جنت سے نکلنے کا سب سے بڑا کردار ہے جوسب سے بڑا عمل ہے ۔وہ یہ ہے کہ آدم کی زندگی میں ایک تغیر پیدا ہوا اللہ تعالیٰ کی ایک نافرمانی کی وجہ سے ایک تغیر پیدا ہوا ۔جب تک وہ تغیر ختم نہیں ہوگا کو ئی انسان جنت میں نہیں جا ئے گا ۔اب اللہ تعالیٰ کے قانون کے مطابق اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اللہ کے علاوہ ہر چیز فانی ہے ۔ہر چیز فانی ہے اللہ باقی ہے ۔باقی سے مراد اللہ میاں کو تغیر نہیں ہے ۔اللہ جیسا ہے نہ اللہ بچہ ہے ،نہ اللہ جوان ہے ،نہ اللہ بوڑھا ہے، نہ اللہ خوش ہو تا ہے، نہ اللہ نا خوش ہو تا ہے، نہ اللہ کو کوئی غم ہے، نہ اللہ کو کو ئی پریشانی ہے، نہ اللہ کی کوئی ضرورت ہے،اور جب ہم آدم علیہ السلام کی پوزیشن اور جنت کی پوزیشن کو جب ہم دیکھتے ہیں  تو وہاں ہماری یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ آدم جب تک جنت میں رہے care of Allha  سوچتے رہے ۔اللہ نے کہا خوش ہو کر کھا ؤ ں خوش رہے اللہ نے کہا ٹائم اسپیس کی پابندی نہیں انہوں نے ٹائم اسپیس کی پابندی کو کبھی محسوس ہی نہیں کیا اب سوال یہ ہے کہ جب ہم جنت سے نکلے تو ہمارے اوپر مختلف ادوار گزر گئے ۔ماں کے پیٹ کا دور، نو مہینے کا دور،ایام رضاعت کا دور، دودھ پینے کا سوا دو سال ،بچپن کا دور ، آٹھ دس سال کا بارہ سال کی عمر کا جوانی کادور ،بوڑھاپے کا دور،اب اگر ہمیں جنت میں جا نا ہے تو ہمیں ان تغرات کو بجائے مستقبل کے ماضی میں منتقل کر نا پڑا ۔ اگر ایک اسی سال کا بوڑھا آدمی ہے تو اسے اسی سال سے جوانی میں جا نا پڑے گا ۔ جوانی سے بچپن میں جا نا پڑے گا ۔بچپن سے پیدائش کے دور میں جا نا پڑے گا ۔پیدائش سے پیدائش سے پہلے کے دور میں جا نا پڑے گا او ر اس کے پہلے دور میں جنت میں جا نا پڑے گا ۔آپ یہ کہیں  کہ یہ بڑی منطق ہے صاحب اسی سال کا آدمی دو سال کا ہو جا ئے گا اور وہ تو دو مہینے کاہو جا ئے گا وہ تو زمانہ گزر گیا چلا گیا اسی سال ہو گئے ۔اسی سال کے زمانے میں جب آپ کھڑے ہو تے ہیں اور اسی سال کی عمر میں بارہ سال کی بات یاد کر تے ہیں ۔آپ کو یاد آجا تی ہے یا نہیں آتی ؟ سب بولیں بھئی …میں نے پہلے بھی اس قسم کی باتیں کی ہیں آپ لو گ تھوڑا تھک بھی گئے ہو نگے ۔آنکھیں بند کر لیں ریلیکس ہو جائے بالکل ۔تین دفعہ یا حیی یا قیوم پڑھیں اور بارہ سال کی عمر کا کو ئی واقعہ یا د کریں ایک منٹ کا یہ مراقبہ ہے ۔یعنی دیکھنا یہ ہے میں چالیس سال کا ہوں ،تیس سال کا ہوں،بیس سال کا ہوں،اسی سال کا ہوں ،ساٹھ سال کا ہوں کتنے سال کا بھی ہوں جو آدمی جتنے بھی سال کا ہے بہرحال بارہ سال کی عمر سے تو گزر کر وہ آیا ہے کوئی آدمی یہ نہیں کہہ  سکتا میں بارہ سال کا ہوا ہی نہیں میں بارہ سال کے بارے میں کیا سوچوں آنکھیں بند کر لیں بارہ سال کی عمر کا کو ئی واقعہ یا د کرناہے مثلا ً اماں نے مارا ،ابا نے کچھ کہا ،اسکول میں گئے کو ئی شرارت کی ،کوئی خوشی کی بات یا د آجائے ،کوئی غمی کی بات یادآجائے بہرحال بارہ سال کی عمرکے بارے میں آپ تین دفعہ یا حیی یا قیوم پڑھ کر آنکھیں بند کر کے تصور کریں کہ میں بارہ سال کی عمرمیں ہوں اور بارہ سال کی عمر میں فلاح واقعہ اس طرح ہوا تھا ۔ بسم اللہ …جی …ایک منٹ ہو گیا …کتنے لوگ ایسے ہیں جن کو کوئی بارہ سال کی عمر کا کوئی واقعہ یاد آیا ۔کوئی ہلکا سا نقش کو ئی خاکہ ابھر اہوذہن میں یہاں تو اندھیرا ہو رہا ہے مجھے کچھ نظر نہیں آرہا بھئی یہ بتی جل نہیں سکتی کیا؟  ہاتھ اٹھائیں ماشااللہ…  50 فیصدسے زیادہ ہاتھ اٹھائے ہو ئے ہیں ۔تو اس کا مطلب یہ ہوا یہاں آپ ایک منٹ کے غورو فکر کے ساتھ بارہ سال کی عمر میں پیچھے پلٹ سکتے ہیں اگر آپ اس پریکٹس کو جاری رکھیں تو دس منٹ میں کیاآپ دو سال کے بچے نہیں بن سکتے ؟ہماری پریشانی یہ ہے ہم جب بھی تذکرہ کر تے ہیں مستقبل کا ہی رو نا روتے ہیں ۔ہمیں جب بھی فکر لاحق ہوتی ہے مستقبل کی فکر لاحق ہو تی ہے ۔ہم کہتے یہ ہیں کہ رازق اللہ ہے ہمارا تجربہ بھی یہی ہے رازق اللہ ہے ۔ماں کے پیٹ سے اٹھارہ ،بیس سال کی عمر تک اللہ نے ہمیں اس طرح رزق عطا کیا کہ ہم نے کوئی محنت مزدوری نہیں کی اور جب بیس سال کے ہوتے ہیں تھوڑا سال پڑھ لکھ لیتے ہیں ۔بازوں میں تھوڑی جا ن آتی ہے تو ہم کہتے ہیں محنت مزدوری نہیں کریں گے تو روٹی کہاں سے کھا ئیں گے ۔اس کا مقصد ہرگز یہ نہیں ہے کہ آپ محنت مزدوری نہ کر یں ۔محنت مزدوری اس لئے کریں کہ اللہ چا ہتا ہے محنت مزدوری کریں جب زکر آتا ہے اللہ کا تو زبان سے آدمی سو دفعہ اللہ کاذکر کر تا ہے جب ذکر آتا ہے د نیا کا تو اس میں ذہن اس طرح شامل ہو جا تا ہے یہ نظر ہی نہیں آتا کہ آدمی کو اس دنیا سے جا نا بھی ہے ۔مراقبہ ایک ایسا عمل ہے جو انسا ن کی بنی ہو ئی فلم کو دیکھنے کے قابل بنا دیتا ہے مراقبہ کا مطلب یہ ہے کہ ہم تصوراتی طور پر اگر ہمارا دل چاہے تو ہم ایک لاکھ سال آگے چلے جا ئیں اور ہمارا دل چاہے تو ہم سو سال پیچھے یا اپنے بچپن میں چلے جا ئیں ۔جب ہم اپنے ارادے سے اختیار سے تصوراتی شکل میں بار بار… بار بار دس سال کی عمر میں جا ئیں گے تو دس سال کی عمر میں جانے کا مطلب یہ ہو گا دس سال کی عمرکے بچے میں جو تصورات ہیں ،دس سال بچے کی جو زندگی ہے ،دس سال کے بچے کا جو ایٹ مسوفئیرہے آپ اس میں منتقل ہو جا ئے جب اس میں منتقل ہو جا ئیں گے تو آپ کے اوپر وہ ساری کیفیات مراتب ہو جا ئیں گی جو آٹھ سال اور دس سال کے بچے کی ہو تی ہیں دس سال کا بچہ بھی چلتا پھر تا ہے،دس سال کا بچہ بھی کھا تا پیتا ہے ، دس سال کا بچہ بھی کپڑے پہنتا ہے ،اگر ایک چالیس سال کا آدمی پو رے عقل و شعور کے ساتھ ہوش وحواس کے ساتھ ساری دنیا کے کام کرے اور اس کی ذہنی کیفیت دس سال کے بچے کے برابر ہو جا ئے تو اس کے اوپر ایک سکون ،استغناء ، قناعت ،لا پر واہی کی ایک کیفیت طاری ہو جائے گی ۔ حضور قلندر بابااولیا ء ؒ نے مجھ سے ایک دفعہ فرمایا اگر خوش رہنا ہے،اگر جنت کی زندگی میں واپس پلٹنا ہے ،اگر دنیا کی پریشانیوں سے دنیا کی بیماریوں سے بدوقتیوں سے آزاد ہو نا ہے تو تمہارا جسم کتنا ہی بڑا ہو جا ئے ۔تمہاری کیفیت اللہ کے ساتھ سات آٹھ سال کے بچے سے زیادہ نہیں ہو نی چا ہئے ۔جب کسی بندے کی حیثیت سات آٹھ سال کے بچے جیسی ہو جا ئے گی اللہ کے ساتھ، تو جس طرح ماں باپ بچے کی ہر ضرورت کا خیال رکھتے ہیں ۔تو خو اللہ تعالیٰ آپ کی ضرورت کا خیال کر ے گا صورت یہ ہے کہ آپ جب بڑے ہو گئے آپ نے کہا کہ صاحب میں کما ؤ ں گا نہیں تو کھا ؤ ں گا کہاں سے ،میں جوتا ہی نہیں خریدوں گا توپہنو ںگا کہاں سے میں محنت مزدوری کر کے بازار سے نہیں خریدوں گا ۔ٹیلر ماسٹر کو نہیں دو گا تو میں کپڑے کہاں سے پہنوں گا ۔یہ تکلیفیں خود آپ نے اپنے اوپر مسلط کر لی ہیں ۔جب آپ اللہ کیساتھ اپنے رشتے کو آٹھ سال کی عمر سے وابستہ کر لیں گے تو آپ کے رزق میں بر کت ہو گی آپ کی صحت میں بر کت جس طرح والدین آپ کی کفالت کر تے ہیں ۔آپ کی ہر ضرورت کا خیال کرتے ہیں جن چیزوں کی آپ کو ضرروت نہیں ہو تی وہ بھی خرید کر لا تے ہیں ۔اسی طرح اللہ کا ایک نظام ہے کہ فرشتے انسان کی خدمت میں دستہ بستہ کھڑے ہو جاتے ہیں ۔اور اس کی ہر ضرورت کی کفالت اللہ کی طرف سے ہے ۔ایک قصہ غوث شاہ علی صاحب نے اپنی کتاب میں لکھاایک بڑا شہر تھا بازار میں کساد بازاری آگئی آہستہ آہستہ بازار اجڑ گیا ۔لوگوں نے نقل ومکانی شروع کر دی ۔تو وہاں اس بازار میں دو سوداگر آئے انہوں نے خرید و فروخت شروع کر دی ۔اور ہر چیز کی انہوں نے خریداری شروع کر دی ۔جب انہوںنے خریداری شروع کی تو آہستہ آہستہ وہ جو دو کان دار وہاں سے چلے گئے کاروبار نہ ہو نے کی وجہ سے انہوں نے واپس آنا شروع کر دیا ۔وہ کافی ونوں تک وہ دونوں سو داگر وہاں شہر میں موجود رہے سامان خریدتے رہے پانی کے جہاز انہوںنے سمندر کے کنارے کھڑے کر دئیے وہ سامان بھر تے رہے خریدتے رہے ،بھر تے رہے خریدتے رہے بھر تے رہے ۔ان کے ساتھ ایک آدمی بھی لگ گیا محنت مزدوری میں۔ دیکھتے ہی دیکھتے بازار پر رونق ہو گیا زمین کی قیمت بڑھ گئی لوگوں کے وارے کے نیارے ہو گئے ۔غریب امیر ہو گئے ۔ امیر سو دا گر بن گئے اب وہ دونوں سو داگر وہاں سے چل پڑے تو ان کے ساتھ جو منشی جی تھے وہ بھی ساتھ ساتھ چلے تو ان سوداگروں نے کہا کہ بھئی ہمارا تمہارا ساتھ نہیں تم حساب کتاب کرو جو پیسے ٹکے لینے ہیں لو اور جا ؤ اس نے کہا جی میرا تو کو ئی ہے ہی نہیں میں تو اکیلا ہی ہوں اس دنیا میں ، میں نے کہاں جا نا میں نے تو تمہارے ساتھ ہی رہنا ہے ۔جہاں بھی تم جا ؤ گے میں وہی رہوں گا ۔قصہ کوتاہ یہ ہے کہ وہ دونوں سوداگر سمندر کے کنارے پہنچ گئے اور ان کو منشی جی کو بھی جہاز میں بیٹھا لیا اور یہ کہا بھئی اب یہ جہاز ہم ڈبو دیں گے لہذا تم یہ کرو یہ کشتی لو اور سمندرکے کنارے چلے جا ؤ بات یہ ہے کہ یہ شہر اجڑ گیا تھا کسادبازاری اتنی آگئی تھی کہ بازار بے رونق ہو گے بر باد ہو گئے تو ہم فرشتے ہیں اللہ نے ہمیں یہاں اس لئے بھیجا کہ اس بستی کو دو با رہ آباد کرو ہم نے اس بستی میں خرید اور فروخت شروع کر دی ۔اللہ کی مہربانی سے یہ بستی آباد ہو گئی ۔ہم نے ان چیزوں کا کیا کر نا ہے ہم نے تو اس جہاز کو سمندر کے بیچ میں لیجا کر ڈبو دینا ہے ۔اور تم جا ؤ اس کو وہاں سے اتارا کشتی میں بیٹھا یا سمندر میں گئے سمندر میں جا کر وہ جہاز کو پا نی میں ڈبو دیا ۔اس قصے کے پیچھے اگر آپ غور کریں ہمیں نہیں معلوم کے بازار میں کتنے فرشتے آکر خرید و فروخت کرتے ہیں ۔جن کی وجہ سے آپ کے بازار آباد ہو تے ہیں ۔آپ نے کبھی سوچا ہے بازار وہی ہے اتنے بازار اب بڑھنے لگے پہلے تو بڑھتے نہیں تھے لیکن جس تیزی سے بازار بڑھ رہے ہیں ۔اس تیزی سے پیدا ئش نہیں ہو رہی ہے ۔عید بقرعید میں آپ دیکھیں کوئی غریب ہوامیر ہو مزدور ہو جس کی جیب میں دیکھو پیسے بھرے ہو ئے ہیں ۔ کچھ ایسا اللہ کا نظام بنا ہواہے ۔کہ عید بقرعید میں سب کے پاس پیسے ہو تے ہیں ۔ میں نے اپنے مرشد حضور قلندر بابااولیاء ؒ سے پو چھا کہ صاحب ایک مثال تو میری بھی ہے مجھے تنخواہ وہی ملی میں اس زمانے میں برسر ملازم تھا کہ مجھے تو تنخواہ وہی ملی مجھے تو سو روپے لے کو ئی دس بھی نہیں ملے۔میرے اخراجات بھی وہی ہیں پھر عید بقر عید میں کہاں سے پیسے میرے پاس آئے کہ میں نے سب کو عیدی بھی دے دی اور یہ شیر خورمہ بھی آگیا اور فلاں بھی آگیا تو حضور قلندر بابااولیا ء ؒ نے فرمایا کہ اللہ کے نظام میں ایک کیٹگری ہے مر دان ہے غیب کی ، مردان غیب کہا جا تا ہے ان کی یہ ڈیوٹی ہے سوچنے کی بات آپ غور سے سنیں ان کی یہ ڈیوٹی ہے جب انسان کسی ایسے  ماحول  میں ہو جس میں خوشی ہو ، تو خوشی کی ہر چیز مہیاکر یں ۔تاکہ کل کو انسان یہ نہ کہے کہ ہم تو خوش رہنا چاہتے تھے۔ہمارے پاس اگر پیسے ہو تے تو ہم خوش رہنا چاہتے تھے ہم اس لئے خوش نہیں ہے کہ ہمارے پاس پیسے نہیں ہیں اللہ تعالیٰ کا ایک ایسا نظام ہے کہ ہر انسان کو وہ چیز فراہم کر دی جا تی ہے جس کی وہ خواہش کرتا ہے۔اور جب انسان ناخوش ہو نا چاہتا ہے تو آپ نے دیکھا ہو گا گاڑی بھی ہے، بنگلہ بھی ہے ،نوکر بھی ہیں ،بینک بیلنس بھی ہیں ،صحت بھی ہے اور آدمی پھر بھی نا خوش ہے ۔اگر خوشی کا تعلق پیسے سے ہے ، دولت سے ہے، بنگلے کوٹھے سے ہے ،کاروں سے ہے تو امیروں کو تو بہت زیادہ خوش ہو نا چاہئے ۔لیکن آپ،اگر سروے کریں تو سروے میں آپ کو تویہی بات ملے گی امیر آدمی زیادہ نا خوش رہتا ہے مجھے اس کا تجربہ ہے کہ میں بھی کچھ عرصہ امیر رہ چکا ہوں ۔ کبھی سکون نہیں ملا،کبھی پریشانی سے نجات نہیں ملی ،پولیس کا خوف اِس کا خوف اُس کا خوف اگر دولت نہیں رہی تو کوئی عزت نہیں کرے گا، اگر دولت نہیں رہی تووہ مجھے سلام نہیں کرے گا ،اگر یہ نہیں ہوا تو یوں نہیں ہوا پریشانی ہی رہی کوئی آدمی ملنے آیا پیار محبت سے خلوص سے تو اسے اچھا یہ پیسے مانگنے آیا ہوگا ۔وہ پہلے ہی رو نارو دیتا میرے پاس تو کچھ ہے ہی نہیں بڑا مندہ ہے وہ کہتا ہے بھا ئی میں آپ کے پاس پیسے مانگنے نہیں آیا میں تو بھائی بنا کر آیا ہوں،  ہاں نہیں جی میں نے ایسا ہی کہا آج کل بڑا مندہ ہے بڑا یو ں ہے ویوں ہے ۔ لیکن جب انسان خوش رہنا چاہتا ہے تو ا س کا مطلب اپ سمجھتے ہیں کیا ہو گا اس کا مطلب یہ ہوا اب وہ جنت کی زندگی کو اپنا نا چاہتا ہے وہ ریکارڈ اس کے پاس پو را ہے ۔ حضورقلند ربابا اولیاء ؒفرماتے ہیں یہ جو آدم کے ساتھ مسئلہ درپیش ہوا یہ آدم کو علم الاسماء سکھا  یا اللہ تعالیٰ نے پھر فرشتوں سے سجدہ کروایا ۔پھر جنت میں بھیجا ۔ جنت میں آدم خوش رہا کھا یا پیا عیش کئے ۔ پھر آدم شجر ممنوعہ میں چلے گئے پھر وہاں سے جنت سے نکالا ملا ، دنیا میں آنے والا ہر آدم ذاد اس روش سے گزر کر دنیا میں آتا ہے ۔ آپ یہ نہیں سمجھیں آپ یہی دنیا میں پیدا ہو گئے ۔یہاں کہاں سے پیدا ہو گئے ۔آپ یہ نہیں کہتے عالم ارواح سے روح آگئی عالم ارواح میں کہاں سے آئی بھئی یہ جو روحیں اتنی ساری آرہی ہیں کہاں سے آئیں ہر آدم ذاد کو اللہ تعالیٰ علم الاسماء سکھا  تا ہے ۔ہرآدم ذاد جنت میں رہے کر اس دنیا میں آتا ہے ۔اور ہر آدم ذاد اس دنیا میں رہ کر واپس جنت میں جائے گا قالو انا للہ انا الہ رجعون …ہر چیز اللہ کی طرف سے آرہی ہے اللہ کی طرف لوٹ رہی ہے ۔رسول اللہﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ دوزخ کی آگ ٹھنڈی ہو جا ئے گی ۔اس کا مفہوم یہ ہے کہ دوزخ رہے گی نہیں جنت ہی جنت رہے جا ئے گی ایک دفعہ میں نے مرشد کریم  قلندر بابا سے پو چھا کہ صاحب یہ جو حساب کتاب ہو گا حشر میں حشر نشر میں اللہ تعالیٰ عدالت بن جائیں گے اور گناہ ثواب اور یہ گواہی دینگے ہاتھ بھی گواہی دینگے پیر بھی گواہی دینگے اور آنکھیں بھی گواہی دینگی اگر نیکی کی ہو گی توآدمی نیکی کا اقرار کر ے گااگر اس نے ذرابرابر برائی کی تو برائی کا اقرار کر ے گا فمن یعمل مثقال ذرۃ خیرایرا…ومن یعمل مثقال ذرۃ شرایراگر تم نے ایک ذرہ برابرنیکی کی ہے تو اس کو تولا جائے گا اور تول کر اس کا اجر دیا جا ئے گا اور اگر تم نے ایک ذرے کے برابر شئر کیا ہے تو اس کو تو جب پیش ہونگے ، تو لوگو ں کو پتا ہو گاہم نے کیا ۔ مرشد کریم حضور قلندر بابااولیاء ؒ فرمایا کر تے تھے کہ انسان کو پتہ ہے جو کچھ کر تا ہے۔ کیا کو ئی ایک انسان جو اتنے بڑے ہال میںمجمعے میں بیٹھا ہوا ہے اس بات سے انکار کر سکتا ہے کہ اس نے جو برائی کی ہے وہ اس کو یاد نہیں ہے اس لئے  انسان اس کو بھی یاد رکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے اس نے کو ئی نیکی کی ہو وہ بھی اسے یاد ہے تو جب یہاں یاد ہے تو حشر میں کیسے نہیں یاد ہو گا بھئی …وما ادرک ما علین …وما ادرک ماسجین …کتاب المرقوم …جو تم یہاں کر رہے ہواس کی بھی ویڈیو فلم بن رہی ہے جو تم برائیاں کر رہے ہواس کی بھی ویڈیو فلم بن رہی ہے ۔جب وہاں حشر میں کھڑے ہو گئے جا کرتو وہاں ویڈیو فلم کھول کر اسکرین پر دیکھا دی جائے گی ۔ہر آدمی کو پتہ ہو گا میں یہ کر کے آیا ہوں ۔ حضور قلندر با باا ولیا ء ؒ نے فرمایا کہ بھائی ہم نے تو یہ دیکھا کہ حشر میں ہر آدمی کو لرزتا ہو ا ہو گا ڈرا ہوا ہو گا سہما ہوا ہو گا کہ اللہ تعالیٰ کا جلال سامنے ہوگا ۔ لوگ کھڑے ہو نگے سر جھکائے ہو ئے دعائیں مانگ رہے ہونگے رو رہے ہونگے۔پیغمبر جو ہیں وہ سفارش کر رہے ہونگے ۔ سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام مغفرت کی دعا مانگ رہے ہوں گے واسطے دے رہے ہوں اللہ کی رحمت کے، تو اللہ میاں بیٹھے بیٹھے فرمائیں گے کہ ہم نے تمہیں نہیں بتا دیا تھا کہ برائی کی سزا ہے اور بھلائی میں خیر ہے ہم نے کیا فرشتوں کے ذریعے تمہیں انسپائر نہیں کیا ہم نے کیا پیغمبر نہیں بھیجے ۔ہم نے اولیاء اللہ نہیں بھیجے ۔اب لوگ کیا جواب دے اللہ معاف فرمادیں ۔اللہ تعالیٰ فرمائیں گے یہاں سے چلا جا ؤ ۔حضور قلندر با باا ولیا ء ؒ جب یہ فرما رہے تھے میرے ذہن میں بالکل اس طرح ۔۔میں جیسے فلم دیکھتا ہوں ۔۔ آپ لوگ بھی دیکھتے ہیں ہوں گے۔۔ اللہ میاں نے کہا چلے جا ؤ تو اسی مجمعے میں سے دوذخی لو گ الگ ہو جا ئیں گے جنتی لو گ الگ ہو جائیں گے دوذخ کے لوگ دوذخ کی طرف چلے جائیں گے جنت کے لوگ جنت کی طرف چلے جا ئیں گے ۔آٹو میٹک اللہ نہیں کہے گا دوذخ میں چلے جا ؤ اللہ کی شان ربوبیت کے خلاف ہے یہ بات کہ اللہ اپنے کسی بندے کودوذخ میں ڈال دے ۔بندہ خود ہی دوذخ کا انتخاب کر لے گا اس لئے کہ وہ اپنی فلم دیکھ رہا ہے جنت والے جنت میں چلے جا ئیں گے دوذخ والے دوذخ میں چلے جا ئیں گے ۔کچھ عرصے بعد اللہ تو رحیم ہے اللہ تو کریم ہے ۔اللہ ستار العیوب ہے غفار الذنوب ہے ۔ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرنے والا ہے ۔کچھ عرصے کے بعد اللہ تعالیٰ فرشتوں کو بلائے گا ۔فرشتے حاضر ہو جا ئیں گے ۔اللہ میاں پوچھیں  گے بھئی یہ شور کیسا ہے لوگ رو کیوں رہے ہیں ۔کیوں چیخ رہے ہیں تو فرشتے کہیں گے یااللہ آپ کی مخلوق ہے دوزخ میں پریشان ہے،  تواللہ میاں کہیں  گے ہم نے سمجھا نے کے لئے پیغمبر نہیں بھیجے تھے ۔پیغمبروں کی تعلیمات کا پرچار کر نے والے لوگ نہیں بھیجے تھے ۔فرشتے کہیں  گے اللہ میاں سب کچھ آپ نے تو اپناوعدہ پو را کیا لیکن یہ بڑے کمزور ہیں آپ کی مخلوق ہیں ۔ان سے تکلیف برداشت نہیں ہو رہی اللہ میاں تو حضور قلندر بابااولیا ءؒ نے ایسے مزے سے کہا خوش ہوکر اللہ میاں کہیں  گے انہیں چپ کرو ۔۔بھئی دوزخ ٹھنڈی ہو گی تو چپ ہونگے۔۔ انہیں چپ کرو، شور مچا رہے ہیں ۔اتنا سمجھا یا اب آپ رسول اللہﷺ کی ارشاد سنیں ایک وقت ایسا آئے گا دوذخ کی آگ ٹھنڈی ہو جا ئے گی ۔جب دوذخ کی آگ ٹھنڈی ہو گئی تو جنت ہی تو بن گئی بھئی دوذخ میں اگر آگ نہیں ہے تو جنت ہی تو ہو گئی ۔ اللہ تعالیٰ ذر ہ نواز ہیں ۔ معاف کر نے والے ہیں ۔لیکن اللہ کی مخلوق کی حیثیت سے اللہ کے بندے ہو نے کی حیثیت سے ہمارے اوپر  ذمہ داری عائد ہو گی اور وہ ذمہ داری یہ ہے کہ ہم اس بات کی پریکٹس کریں ۔اس عادت کو اپنی زندگی میں داخل کر لیں کہ اگر ہم پیدا ہو ئے تو اللہ نے پیدا کیا اگر ہم رزق کھا تے ہیں تو اللہ کا دیا ہوا کھا تے ہیں اور یہ تو کوئی جھوٹ بات ہے ہی نہیں ۔اللہ سورج نہ بنائے تو آپ کو گندم مل سکتی ہے تو اللہ کادیا ہوا ہی کھارہے ہو نا ۔اگر اس بات کوکہہ  بھی دو بھئی ہم اللہ کا دیا ہوا کھا رہے ہیں تو آپ کا کیا بگڑ گیا آپ کہیں  گےجی ہم تو محنت مزدوری کرتے ہیں تب چار پیسے کماتے ہیں اللہ آپ کے اندر طاقت نہ دے بازوں کو شل کر دے فالج ذدہ ہو جائیں اگر آپ محنت مزدوری کر رہے ہیں توکس کی دی ہو ئی طاقت سے کر رہے ہیں ۔ تو کہو بھی تو صحیح اللہ نے ہمیں طاقت دی ہم محنت مزدوری کر رہے ہیں ۔آپ کھانا کھا رہے ہیں آپ کا معدہ قبول نہ کرے کھا نا کھا نے کواللہ معدہ ہی نہ بنا ئے ۔آنتیں ہی نہ بنائے ،جگر ہی نہ بنا ئے ،پِتّا نہ بنا ئے ،تلی نہ بنا ئے ،پھیپھڑے نہ بنا ئے ،دل نہ بنائے تو آپ کا کھا نا کدھر گیا بھئی اللہ ہی نے بنائے ہوئے ہیں نہ سارے تو آپ جب کھا ناکھا ئیں تو کھا نا کھا نے کے بعد آپ یہ کہہ  دیں یا اللہ تیرا شکر ہے تو کون سا آپ بینک کرپٹ ہو جا ئیں گے ۔عملی زندگی میں اللہ کو شامل کر لو الذین یو منونا با لغیب …وہ لوگ جو متقی ہیں پاکیزہ ذہین ہیں، یقین رکھتے ہیں، صاحب مشا ہدہ ہیں ،صاحب ایمان ہیں وہ یہ کہتے ہیں ہم جو کچھ خرچ کر تے ہیں وممارزقنھم یون فیکون …ہم جو کچھ خرچ کر تے ہیں اللہ ہمیں دیتا ہے تب ہم خرچ کر تے ہیں ۔تو اس بات کو آپ اگر اپنی زندگی میں داخل کر لیں کہ جب آپ کچھ خرچ کریں آٹومیٹک آپ کے ذہن میں یہ بات آئے گی اللہ نے مجھے دیا تو میں خرچ کررہا ہوں۔لیجئے آپ کا کام ہو گیا ۔ آپ کا کوئی نقصان نہیں ہو االلہ تعالیٰ اپنے بندوں سے یہ چاہتے ہیں کہ میرے بندے میں نے انہیں بڑی محبت سے پیدا کیاان کے لئے وسائل بنائے ان کو خوبصورت بنایا ھو الذی یصورکم …کیا تم سوچتے نہیں ہو کہ میں ماں کے پیٹ میں کیسی کیسی خوبصورت تصوریں بناتا ہوں ۔میں نے ان کو پیدا کیا میں نے ان کو پیدا کر نے کے بعد ان کی ماں کے سینے کو دودھ سے بھر دیا میں نے ماں کے دل میں ممتا ڈال دی ،ماں کے دل میں شفقت پیدا کر دی ،میں نے ان کو جوان کیا میں نے ان کوبوڑھا کیا میں نے ان کے لئے وسائل فراہم کئے ،سعید اولادیں دیں ،تو اللہ یہ چاہتا ہے جو کچھ میں نے ان کے ساتھ احسان کیا اس کو یاد کر و ۔میں اسے چھین نہیں رہا ہوں ۔اگر یہ کھا نا کھا کر یہ کہیں  گے یا اللہ تیرا شکر ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے میں ان کی دو روٹی کے بجائے ایک روٹی کردوں ایک روٹی چھین لو ں گا …عربی آیت …اللہ تعالیٰ حضرت داؤدکے قصے میں کہتے ہیں حضرت داؤد کو اپناشکرگزاربندہ بنا دواس لئے کہ شکر کر نے ولاے بندے بہت کم ہیں ۔اگر آپ کوواپس جنت میں جا نا ہے تو اس کاآسان نسخہ جو میری سمجھ میں آیا ہے وہ یہ ہے کہ آپ جو بھی کام کریں اس میں اللہ کو شامل کرلو۔برائی اگر کریں اس میں بھی اللہ کو شامل کرلو برائی میں اللہ کو کیسے شامل کر یں گے جیسے ہی برائی ہو آپ کا ضمیر آپ کو ملامت کر ے آپ ہاتھ جوڑ کر بیٹھ جا ئیں ربنا ظلمنا انفسناوان لم تغفرلناوترحمنا لن کوننا من الخسرین …اللہ نے تو آدم کو معاف کر دیا تو اللہ نے جب آدم کو معاف کر دیا تو اللہ آدم کی اولاد کو کیوں معاف نہیں کر ے گا ۔اللہ تو چاہتا ہی یہ ہے کہ بندہ میرے ساتھ جڑارہے چمٹا رہے  ۔میرے بندوں مجھ سے مانگومیں دونگا ۔اللہ یہ نہیں کہتا مجھ سے نہیں مانگو ۔ماں باپ سے کتنا مانگ لیں گے آپ دو دفعہ تین دفعہ مانگ لیں گے ماں بھی ناراض ہو جا ئے گی باپ بھی ناراض ہو جا ئے گا ڈانٹیں گے بس بس ہر وقت مانگتا ہے ۔اللہ سے آپ روزانہ ایک لاکھ خواہشات مانگیں حضور قلندر بابااولیاء ؒ فرمایا کر تے تھے اللہ سے ایک لاکھ چیزیں مانگو روز اللہ اس بات پر قدرت  رکھتا ہے اللہ تعالیٰ ایک لاکھ چیزیں دے دیں گے چاہے آپ،ایک لاکھ سال تک مانگتے رہو۔جو اتنا بڑا دیالو ہے دینے والاہے اس سے جب آپ مانگتے ہیں تو آپ،کی زبان ہلتی ہے زبان کا گوشت ہلتا ہے اور آپ جب اپنے سیٹھ سے، کارخانے کے فیکٹری کے مالک سے یا جنرل منیجر سے مانگتے ہیں تو آپکا دل دھک دھک کر تا ہے ۔یہ مجھے نکال دے گا میری ترقی رُک جا ئے گی ۔میری تنخواہ کم کر دے گا مجھے ایک بزرگ نے قصہ سنا یا کہ ایک بہت پریشان حال آدمی بادشاہ کے دربار میں جا پہنچا وزیر نے کہا بادشاہ ابھی مصروف ہیں ۔تم انتظار کرو ملاقات تمہاری کروادیتے ہیں وہ کچھ لوگوں میں تاک جھانک کی عادت ہو تی ہے یہاں جھانک لیا وہاں جھا نک لیا مسلمانوں میں تو بہت ہی ہے خصوصاً پاکستان میں وہ ہر وقت یہ عینک لگاتے ہیں کہ دوسرا آدمی کیا کر رہا ہے ۔تاکہ اپنے عیب نظر نہیں آئے ۔تو وہ بھی تاک جھانک کاآدمی تھااس نے یہ دیکھا کہ بادشاہ جو ہے وہ دعا مانگ رہا ہے ہاتھ جوڑے ہو ئے اسے تو بڑی حیرت ہو ئی کہ بادشاہ یہ کیا کر رہا ہے تو اس نے وزیر سے پو چھا کہ بھئی بادشاہ کیا کر رہا ہے؟ انہوں نے کہا بادشاہ مانگ رہا ہے۔ تو کہنے لگے بادشاہ بھی مانگتے ہیں ؟کہا ہاں بھئی بادشاہ بھی مانگتے ہیں ۔کہنے لگے کس سے مانگ رہا ہے ؟کہنے لگے بھئی وہ اللہ سے مانگ رہا ہے ۔کہا اچھا بادشاہ بھی اللہ سے مانگتا ہے ۔ بھئی میں تو بڑا پاگل آدمی ہوں بادشاہ سے مانگنے آگیا میں تو اس سے مانگو گا جس سے بادشاہ مانگ رہا ہے ،السلام وعلیکم ۔ آپ  لو گ جو توقعات قائم کر تے ہیں وہ تو مجبور ہیں یہ جتنے بڑے بڑے صنعت کار یہ بڑے بڑئے فیکٹروں والے مل والے یہ آپ کو نظر آتے ہیں خوشحال ہیں یہ خوشحال وشحال کچھ بھی نہیں ہوتے یہ تو فیکٹری میں جو لیبر ہیں ان کے نوکر ہیں اللہ میاں نے تو دماغ خراب کیا ہوا ہے کہ جی ایک فیکٹری لگا نی ہے جس میں ۳ ہزار بندے کام کریں گے ۔دوسرا کہے گا مجھے فیکٹری لگا نی ہے جس میں ۵ ہزار بندے کا م کر یں گے ۔ا ب وہ سیٹھ صاحب کام چلے یا نہ چلے بازار سے ادھار ملے یا نہ ملے پریشان اِدھر سے اُدھر، اُدھر سے اِدھر کیا ہوا بھئی کہ تنخواہ کے پیسے نہیں ہیں ۔تنخواہ کے پیسے نہیں ہیں فیکٹری بند ہو جا ئے گی ہڑ تال ہو جا ئے گی۔ ارے بھئی پھر کیا ہو گا بے عزتی ہو جا ئے گی ۔ کھا نا پینا حرام جب تک وہ تنخواہ کے پیسے نہیں دے دیں گے ان کو سکون چین نہیں ملتا ۔تو بھائی یہ بتاؤں نوکر سیٹھ ہو ا یا لیبر ہوئی ۔اللہ نے کان میں پکڑ کر اس سے کہا تو سیٹھ ہے تیری تین فیکٹریاں ہیں کو ئی تین فیکٹرویوں سے چار پلنگ پر تو سو تا نہیں ایک پلنگ پر سوتا ہے ،مزدور کھا تا ہے چار روٹی سیٹھ صاحب کھا تے ہیں آدھی روٹی وہ ایک صاحب مجھے اپناگھر دکھا نے لے گئے کلفٹن پر بہت بڑا انہوںنے بنگلہ بنا یا وہ کہنے لگے میں چلا گیا تو وہ کھا نا لگ گیا اب کھا نے میں ان کے پاس ڈونگا چائے کا جو ڈونگا ہو تا ہے ۔بڑا ڈونگااس میں دال آئی بالکل پتلی پانی تو میں سمجھا کو ئی یخنی وخنی کو ئی چیز ہو گی مجھے برا بھی لگا یہ بری بات ہے دستر خوان پر بیٹھ کر آدمی یخنی پئے تو مجھ سے کہنے لگے صاحب آپ بھی لیں گے تو میں نے یہ دیکھنے کے لئے یخنی ہے ،میں نے کہا میں بھی لے لوں گا اس نے جناب ایک  چائے کی پیالی میں مجھے بھی دے دی اب میں نے جو پی وہ تو بالکل ذائقہ دار نہیں نہ اس میں نمک نہ مرچ نہ کچھ میں نے کہا بھئی اس کا کیا مطلب ہے اس نے کہا نہیں جی میری یہی خوراک ہے۔آپ یقین کر یں صاحب اس بندے میں وہ جوآدھا کپ یاایک کپ دن میں وہی پیا  اسنے کچھ نہیں کھایا ۔ اس نے کہا میں تو کچھ کھا ہی نہیں سکتا مجھے تو ڈاکٹر نے منع کیا ہوا ہے ۔مجھے اتنا افسوس ہو ا کہ میں نے اس بچارے کی دال میں سے بھی حصہ بٹوا لیا۔مزدور دال نہیں کھا تا مزدور کا حال تو یہ ہے کہ اگر اس کے گھر میں آٹا ہے وہ مزدوری سے نہیں نکلتا بیوی کہتی ہے میاں جی اب دوکان دار نے منع کر دیا ادھار نہیں دے رہا کہے گااچھا ابھی جاتا ہوں ۔سیٹھ کا بھی یہی حال ہے سیٹھ صاحب کی صحت دیکھ لو چلتے ہیں جب ہانپتے ہیں ،لیٹتے ہیں جب ہانپتے ہیں ،بھاگتے ہے جب ہانپتے ہیں ،ان کو نیند ہی نہیں آتی گولیاں کھا کھا کر سوتے ہیں صبح آنکھ کھلتی ہے تو جسم ٹوٹاپھوٹا ہو تا ہے کہ جی کیا ہوا؟ا بھئی نیند کی گو لیاں کھا کر سوئے تھے تو نیند تو آئی ، نہیں مسئلہ نہیں نیند کی ۔یہ اللہ کا ایک نظام ہے اللہ سے جس بندے کا رابطہ اور تعلق قائم ہو جا تا ہے اس میں کو ئی شرط نہیں دولت بھئی ،اللہ سے رشتہ قائم ہو جا تا ہے اگر وہ اللہ سے رشتہ قائم کر نا چاہئے ۔ حضرت ابو حنیفہ کا واقعہ میں نے پڑھا کہ تاجر تھے کپڑے کے جہاز چلتے تھے ان کے تو منشی نے آکر  بتا یا کہ صاحب وہ جہاز جو کپڑے کا تھا وہ ا س کی اطلاع ملی کے ڈوب گیا تو انہوں نے ایک منٹ کے لئے سوچااور یہ کہا یا اللہ تیرا شکر ہے وہ منشی بڑا حیران ہوا کہ یہ کیا  باولے ہو گئے کہ  اتنا بڑا جہاز گیا اللہ کا شکر ادا کر رہے ہیں۔ کچھ عرصے کے بعد اس کی  خبر اس طرح ملی کہ وہ جہاز ابو حنیفہ کا نہیں تھا وہ تو کسی اور کا تھا،  ابو حنیفہ صاحب کا جو جہاز تھا اس میں تو بہت پرافٹ ہے تو اس نے آکر بتا دیا خوشی خوشی تو انہوں نے پھر کہایا اللہ تیرا شکر اس منشی نے پو چھا کہ صاحب یہ تو اللہ کاشکر ہے سمجھ میں آگیا وہ جہاز ڈوبنے والا شکر کیا تھا؟۔کہنے لگے بھائی جب تو نے کہا جہاز ڈوب گیاتو میں نے اپنے دل میں دیکھا میرا دل کیا کہتا ہے تو میرے دل نے کہا اللہ کا دیا ہوا تھا اللہ نے لے لیا اللہ کا شکر جب تو نے آکر یہ کہا ڈبل پرافٹ ہوا ۔پھر میں نے دل کی طرف دیکھا دل کیا کہتا ہے دل نے یہ کہا کہ اللہ نے انعام دیا ہے ۔اللہ کا شکر ہے تو جب انسان کی اللہ کے ساتھ وابستگی ہو جاتی ہے تو انسان کے اندر قناعت پیدا ہو جاتی ہے استغناء پیدا ہو جا تا ہے ۔اللہ سے قربت پیدا ہو جاتی ہے۔جب بندہ اللہ کا ذکر کر تا ہے اللہ کو یاد کر تا ہے اللہ کو اپنے اندر محسوس کر تا ہے اسے اطمینان قلب حاصل ہو جا تا ہے ۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو صراط مستقیم پر قائم رکھے اور ہمیں اورہماری اولادوں کو ہمارے دوستوں کو ہمارے ملک کو ہماری قوم کو صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فر ما ئے ۔اللہ سے ہمارا رشتہ مضبوط اور مستحکم ہو۔دیر بہت ہو گئی ہے اب پتا نہیں آپ۔۔۔ ابھی نہیں ہو ئی دیر۔۔۔ اچھا چلو ۔۔ میں تو بوڑھا آدمی ہو ں میں بھی تو تھکوں گا نہ آپ تو آرام سے بیٹھےہو ئے ہیں میں بولے چلے جا رہا ہوں ۔اب یہ ہے کہ تھوڑا سا میرا خیال ہے ذکر کر لیں ۔ذکر کے بعد پانچ منٹ میں مراقبہ کریں گے۔ا سکے بعد دعا ہوگی انشااللہ جیتے بستے  رہے تو اگلے سال انشاا للہ پھر ملا قات ہو گی ۔ پہلے آپ گیارہ دفعہ یا حیی یا قیوم کا ورد کریں ۔پھر گیارہ دفعہ دورد شریف پڑھیں ۔اس کے بعد میں یاحیی یا قیوم کا ورد کروں گا ۔پہلے مجھے سن لیں دو دفعہ سنیں تیسری دفعہ میرے ساتھ شامل ہو جائیں۔ذکر میں اگر ہم آہنگی ہو ،یکساں آواز ہو تو اس میں گداز پیدا ہو تا ہے اور جب اللہ کے ذکر میں گداز پیدا ہو جا تاہے تو اللہ کے فرشتے آسمانوں سے اتر اتر کر ذکر کرنے والوں کے ساتھ ذکر میں شامل ہو جاتے ہیں ۔ انشااللہ حضور قلندر بابااولیاءؒ کے روحانی تصرف سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نسبت اور اللہ تعالیٰ کی رحمت خاص سے یہ اجتماعی ذکر ہمارے لئے مفید رہے گا ۔اللہ کرے اس ذکر کے انوار و تجلیات ہمارے قلب کو روشن کر دیں ۔ہماری روح میں بالیدگی پیدا ہو ہماری روح اللہ کے حضور سلام کر نے کے قابل ہوجائیں ۔اور اللہ تعالیٰ ہماری چھوٹی بڑی خطاؤں کو معاف کر کے ہمیں آئندہ فرمانبردار بندہ بنے کی توفیق عطا فرمائے ۔بسم اللہ…گیارہ دفعہ یا حیی یاقیوم …یا حیی یاقیوم …یا حیی یاقیوم …صلی تعالیٰ اللہ حبیبہ محمد وسلم …اب ایک سانس میں تین مرتبہ یا حیی یا قیوم پڑھیں گے پہلے سن لیں پھر میرے ساتھ  یا حیی یاقیوم …یا حیی یاقیوم …یا حیی یاقیوم تین تین بھئی تین دفعہ ۔۔۔۔۔  یا حیی یاقیوم …یا حیی یاقیوم …یا حیی یاقیوم ، یا حیی یاقیوم …یا حیی یاقیوم …یا حیی یاقیوم ،صلی تعالیٰ اللہ حبیبہ محمد وسلم…اب ہم مراقبہ کریں گے مراقبے سے مراد یہ ہے کہ اپنی تمام توجہ دوسری باتوں سے ہٹا کر ایک نقطے پر قائم کر نا تمام توجہ ایک نقطے پر قائم کر نے کو مراقبہ کہتے ہیں ۔نقشبندیہ سلسلے سے ہو ،سہرودیہ سلسلے سے ہو ،چشتیہ سلسلے سے ہو ،قادریہ سلسلے سے ہو ،عظیمیہ سلسلے سے ہو ،وہ سب اپنے پیرومرشد کا تصور کریں ۔پیرومرشد کے تصور سے مراد یہ ہے آنکھیں بند کر کے یہ خیال کر یں پیرومرشد کے اندر اللہ تعالیٰ کی عطا کر دہ جو روشنیاں ہیں نور ہیں ۔وہ ہمارے اندرمنتقل ہو رہا ہے اور جو خواتین اور حضرات ابھی بیعت نہیں ہو ئے ہیں کسی سلسلے میں داخل نہیں ہو ئے انہیں چاہئے وہ آنکھیں بند کر کے یہ تصور کریں ۔کہ آسمان سے ان کے اوپر نیلی روشنیو ں کی بارش برس رہی ہے ۔بسم اللہ …قل اللہ احد …قل اللہ احد…بسم اللہ الحمد اللہ رب العالمین …اللھم صلی علیٰ محمد…ولحمد اللہ رب العالمین …یا رب العالمین جو کچھ ہم نے سنا اس پر ہمیں عمل کر نے کی توفیق عطا فرمایا اللہ ہمارے چھوٹے بڑئے گناہوں کو معاف فرما ،یا اللہ آپ ستار العیوب ہیں ،غفارو الذنوب ہیں ،ہماری خطاؤں کو، غلطیوں کو، نادانیوں کو اللہ اپنے فضل سے معاف فرما ۔اختتام


Topics


Khutbat Khwaja Shamsuddin Azeemi 01

Khwaja Shamsuddin Azeemi


اللہ کا شکر ہے پہلی جلد جس میں 73 تقاریر کو شامل کیا گیا ہے۔حاضر خدمت ہے۔ بہت سی جگہ ابھی بھی غلطیاں ہونے کا امکان ہے۔ برائے مہربانی ان سے ہمیں مطلع فرمائے۔اللہ تعالی میرے مرشد کو اللہ کے حضور عظیم ترین بلندیوں سے سرفراز کریں،  اللہ آپ کو اپنی ان نعمتوں سے نوازے جن سے اس سے پہلے کسی کو نہ نوازہ ہو، اپنی انتہائی قربتیں عطاکریں۔ ہمیں آپ کے مشن کا حصہ بنائے۔ ناسوت، اعراف، حشر نشر، جنت دوزخ، ابد اور ابد الاباد تک مرشد کا ساتھ نصیب فرمائے۔آمین

مرشد کا داس