Topics

نبئ مکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم


اللہ رب العالمین کے دوست رحمت للعالمین (ہمارے خون کا ایک ایک قطرہ ان پر نثار ہو) سعئ پیہم، جہد مسلسل، توجہ خالص اور یقین و عمل کا مجسمہ تھے۔ جب عبادت کی طرف رجوع ہوتے تو اپنی ساری توجہ اسی طرف مرتکز کر دیتے اور جب کسی کام کا ارادہ فرماتے تو اس کو پایۂ تکمیل تک پہنچائے بغیر چین سے نہ بیٹھتے۔ جب آپﷺ کسی سے گفتگو فرماتے تو اپنا سارا دھیان مخاطب کی طرف مرکوز کر دیتے۔ جب تک خود مخاطب گفتگو ختم نہ کرتا، آپﷺ اس سے گفتگو فرماتے رہتے۔

نماز آپﷺ کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور قلب کے لئے طمانیت تھی۔ آپﷺ ان عبادت گزاروں میں نہیں تھے جو رہبانیت اختیار کر کے گوشہ نشیں ہو جاتے ہیں۔ حقوق العباد پورے کرنے کا حد درجہ اہتمام فرماتے تھے۔ روحانی واردات و کیفیات کی لذت سے سرشار ہو کر دنیا کی لذتوں کو خیر باد نہیں کیا۔ دنیا کے تمام امور کی انجام دہی اور زندگی کی دیگر ضروریات و علائق سے وابستہ ہو کر دینی فرائض اور بالخصوص انتہا درجے کی عبادت کرتے تھے۔

ایک طرف ہمارے پیارے آقا محمد صلی اللہ علیہ و سلم اپنے اہل و عیال، خاندان اور مسکینوں کی تربیت و سرپرستی کرتے تھے تو دوسری جانب امت کے اہم امور انجام دیتے تھے۔ سیاسی و حکومتی ذمہ داریاں بھی پوری فرماتے تھے۔ بادشاہوں کے پاس اپنے سفیر روانہ کرتے اور انہیں اسلام میں داخل ہونے کی دعوت دیتے تھے۔ الغرض آپﷺ نے ہر شعبۂ حیات میں جو مثالی کردار پیش کیا ہے وہ بلاشبہ تاریخ عالم میں ایک سنہرا باب ہے۔

تین اشخاص رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے گھر آئے اور آپﷺ کی ازدواج مطہراتؓ سے آپﷺ کی عبادت کا حال پوچھا۔

جب انہوں نے آپﷺ کی عبادت کے بارے میں بتایا تو ان میں سے ایک نے کہا۔ ’’میں ہمیشہ رات بھر نماز یں پڑھتا رہوں گا۔‘‘

دوسرے نے کہا۔ ’’میں ہمیشہ روزے رکھا کروں گا اور افطار نہ کروں گا۔‘‘ تیسرے نے کہا۔ ’’میں کبھی شادی نہ کروں گا۔‘‘

اللہ پاک کے محبوب صلی اللہ علیہ و سلم تشریف لائے اور فرمایا۔ ’’کیا تم لوگوں نے ایسا کہا ہے؟ سنو! قسم اللہ کی میں تم سے زیادہ اللہ کا احترام کرتا ہوں لیکن میں روزہ بھی رکھتا ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں، نماز بھی قائم کرتا ہوں اور سوتا بھی ہوں، شادی بھی کرتا ہوں۔ جو شخص میرے طرز عمل سے روگردانی کرے گا وہ میری امت سے نہیں۔‘‘

یہی وہ میانہ روی اور اعتدال کے ساتھ زندگی کی روش جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں قائم رہنے کی ہدایت فرمائی ہے۔ آپﷺ کو ہمیشہ خیال رہتا تھا کہ کہیں لوگ اعتدال کی راہ سے نہ ہٹ جائیں۔ جس طرح آپﷺ دنیاوی امور انجام دیتے اور شجاعت و بہادری کے جوہر دکھانے میں لاثانی تھے، اسی طرح آپﷺ کی عبادت اور اطاعت خداوندی بے مثال تھی۔

ارشاد خداوندی ہے:

اے کپڑوں میں لپٹنے والے، رات کو کھڑے رہا کرو، مگر تھوڑی سی رات، کبھی نصف رات یا اس نصف سے کسی قدر کم کر دیا کرو یا نصف سے کچھ بڑھا دو اور قرآن کو خوب صاف صاف پڑھو، ہم تم پر ایک بھاری کام ڈالنے کو ہیں، بے شک رات کے اٹھنے میں دل اور زبان کا خوب میل ہوتا ہے اور بات خوب ٹھیک نکلتی ہے۔‘‘

عبداللہ بن عمرو بن عاصؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ ’’خدا کو داؤد علیہ السلام کی نماز سب سے زیادہ پیاری تھی اور ان کا روزہ تمام اعمال سے زیادہ عزیز تھا۔ آپ نصف رات سوتے اور باقی تیسرے حصے میں عبادت کے لئے کھڑے ہو جاتے اور پھر چوتھے حصے میں سوتے۔ ایک روزہ رکھتے اور ایک دن افطار کرتے۔‘‘

آنحضور صلی اللہ علیہ و سلم نے ہر چیز میں اعتدال پسندی اور میانہ روی کے جو اوامر و احکام نافذ کئے وہ تمام صحابہ کے دل میں سرایت کر گئے۔ انہوں نے اپنے اور رہبر اعظم کے مقصد کو پہچان لیا اور ان ہی قوانین و اصول پر کاربند رہے۔

ایک مرتبہ حضرت سلمان فارسیؓ ابو درداء کے گھر آئے۔ یہ وہ اشخاص تھے جن کے درمیان آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے مدینے میں برادری اور بھائی چارہ پیدا کر دیا تھا۔ سلمانؓ نے دیکھا کہ ابو درداء کی بیوی غم زدہ بیٹھی ہوئی ہیں۔ انہوں نے اس کا سبب دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ ابو درداء کو دنیا سے کوئی سروکار نہیں رہا۔ اتنے میں ابو درداء بھی آ پہنچے۔ انہوں نے اپنے بھائی کے لئے دسترخوان چنا اور کہنے لگے آپ تناول فرمایئے، میں روزے سے ہوں۔ سلمانؓ نے کہا۔ ’’میں تمہارے بغیر نہیں کھاؤں گا۔‘‘ چنانچہ یہ سن کر وہ بھی کھانے میں شریک ہو گئے۔ جب رات ہوئی تو ابو درداء نے جانے کا قصد کیا تو انہوں نے کہا سو جایئے تو وہ سو گئے۔ کچھ دیر بعد اٹھ گئے اور جانے کا ارادہ کیا۔ پھر انہوں نے کہا سو جائیے۔ جب رات کا آخری حصہ آپہنچا تو سلمانؓ نے کہا۔ ’’تم پر اپنے پروردگار کا حق ہے، اپنے نفس کا حق ہے اور اپنے گھر بار والوں کا حق ہے۔ تم ہر حق دار کا حق ادا کرو۔‘‘

اس کے بعد سلمانؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور یہ ماجرا بیان کیا۔ آپﷺ نے سن کر فرمایا۔ ’’سلمان نے سچ کہا ہے۔‘‘

Topics


Tajaliyat

خواجہ شمس الدین عظیمی

دنیا کا ہر فرد اپنی حیثیت کے مطابق آپ ّ کی منورزندگی کی روشنی میں اپنی زندگی بہتر بناسکتاہے ۔ قرآن نے غوروفکر اورتجسس وتحقیق کو ہر مسلمان کے لئے ضروری قراردیا ہے ۔ اس حکم کی تعمیل میں عظیمی صاحب نے قرآن کی آیات اورحضورصلی اللہ علیہ وسلم  کی احادیث مبارکہ پر غوروفکر فرمایا اورروحانی نقطہ نظر سے ان کی توجیہہ اورتفسیر بیان فرمائی ہے جو کہ "نورالہی نورنبوت" کے عنوان سے ہر ماہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی صفحات کی زینت بنتی ہے ۔ کتاب " تجلیات" اس مستقل کالم میں سے چند کالمز کا مجموعہ ہے ۔

انتساب

ان سائنسدانوں کے نام

جو پندرہویں(۱۵) صدی ہجری میں

موجودہ سائنس کا آخری عروج

دُنیا کی تباھی

دیکھ کر ایک واحد ذات خالق کائنات

اللہ کی تجلی کا

عرفان حاصل کر لیں گے۔