Topics

مقدمہ کا فیصلہ


                اب……میں نے حیدر آباد میں قیام کر لیا۔ میں نماز پابندی سے پڑھنے لگا۔ اور لوگوں کی جیبیں کاٹنے کے بجائے محنت مزدوری کر کے پیٹ بھرنے لگا……اللہ کا بڑا کرم یہ ہوا کہ رزق حلال کے وسائل اور ذرائع پیدا ہو گئے اور میں اس مقدمے کی کارروائی میں ہمیشہ ایک تماشائی کی حیثیت سے شامل ہوتا رہا۔ یہ مقدمہ پورے دو سال تک چلتا رہا۔ مقتول عورت کے رشتے کا بھائی تھا جس سے اس کے ناجائز تعلقات تھے۔ اور عورت کا پورا خاندان اس بات کی گواہی دے رہا تھا کہ قاتل نے محض شک کی بناء پر اسے قتل کر دیا……ملزم یا قاتل کی طرف سے کوئی گواہ ایسا نہیں تھا جس کے بیان پر مجرم چھوٹ جاتا……گو کہ عینی شاہد صرف قاتل کی بیوی تھی لیکن اس بے رحم کے دل میں اپنے شوہر کے لئے ذرہ برابر بھی محبت نہیں تھی……بلکہ وہ اپنے رشتے داروں اور وکیل کے ساتھ مل کر اس کوشش میں رہی کہ قاتل کو جو کہ اس کا شوہر ہے یا تو پھانسی ہو جائے یا عمر قید کی سزا ہو جائے۔

                آخر کار وہ دن آ ہی گیا جب کہ جج نے فیصلہ سنانے کا اعلان کیا……کمرہ عدالت، عورت کے رشتے داروں اور مقتول کے لواحقین سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا……جب کہ قاتل کے صرف بوڑھے والدین عدالت میں موجود تھے……پولیس والوں نے مجرم کو لا کر کٹہرے میں کھڑا کر دیا۔ اور ایک وکیل نے کھڑے ہو کر کچھ بولنا چاہا……اس کے ساتھ ہی میرے کان میں اللہ رکھی کی آواز سنائی دی……وقت آ گیا ہے کہ اب تم اعتراف جرم کر لو۔ اس سے پہلے کہ جج فیصلہ سناتا میں اپنی جگہ کھڑا ہوا۔ اور عدالت سے مخاطب ہوا……جج صاحب……اس سے پہلے کہ آپ اس مقدمے کا کوئی فیصلہ سنائیں……ابھی اس مقدمے کا عینی شاہد باقی ہے۔

                حاضرین عدالت تعجب سے میری طرف دیکھنے لگے……جج نے پوچھا……وہ عینی گواہ کون ہے……

                ابھی بتاتا ہوں……میں نے جواب دیا……وہ عینی گواہ شاہد ایک ‘‘جیب تراش’’ ہے۔

                یہ کیا بکواس ہے……مقتول کا وکیل اپنی جگہ سے اٹھ کر چلایا……ایک جیب تراش کس طرح عینی شاہد ہو سکتا ہے……پھر وہ جج سے مخاطب ہوا۔

                جناب والا! میں سمجھتا ہوں کہ اب……جب کہ اس مقدمے میں تمام مطلوبہ گواہوں کے بیانات قلمبند ہو چکے ہیں……یہ گواہ ملزم کی جانب سے فراڈ معلوم ہوتا ہے۔

                یہ سنتے ہی ملزم کا وکیل بھی اپنی جگہ سے کھڑا ہو گیا۔ اور نہایت ہی بلند آواز سے بولا۔

                جناب والا! اس مقدمے کا فیصلہ سنانے کا دن آ گیا ہے۔ لیکن دو سال کے دوران ایسا نہیں ہوا کہ اچانک ہی کوئی عینی شاہد رہ گیا ہو……لیکن اس اجنبی کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ ……قاتل کی بیوی کے علاوہ کوئی اور بھی عینی شاہد موجود ہے……وہ کون ہے……میری عدالت سے درخواست ہے کہ اس کا بیان بھی سن لیا جائے۔

                یہ کہہ کر ملزم کا وکیل اپنی جگہ پر بیٹھ گیا……اور جج بڑے ہی تحمل سے بولا……عینی شاہد کو پیش کیا جائے۔ میں نے کہا……حضور والا……پہلے میرا بیان سن لیجئے۔

                ٹھیک ہے……جج بولا……تم جو کچھ کہنا چاہتے ہو کہو……لیکن اس کے لئے تم کو حلف اٹھانا ہو گا۔ اس کے ساتھ ہی……عدالت کا ایک اہلکار قرآن ہاتھ میں لے کر میرے پاس آ گیا۔

 

                قرآن پر ہاتھ رکھ کر میں نے سچ……سچ بولنے کی قسم کھائی۔ اور بیان ریکارڈ کرانے لگا……میں نے کہا……حضور والا……یہ سچ ہے کہ ایک جیب تراش اس جرم کا عینی شاہد ہے۔ وہ جیب تراش ملزم کے پیچھے کراچی سے لگا تھا……کیونکہ ملزم بھینسوں کا بیوپاری تھا اور اس دن وہ بھینس فروخت کر کے دس ہزار کی رقم لے کر چلا تھا……اس جیب تراش کو اس بات کا علم ہو گیا۔ اور وہ دس ہزار کی رقم اڑانے کے چکر میں اس کے پیچھے لگ گیا……اور ملزم کے گھر میں داخل ہو گیا……اور صبح کے وقت قتل کا جو واقعہ پیش آیا۔ وہ خود اس نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔

                اس کے بعد میں نے تھوک نگلا……اور جس طرح میرے سامنے قتل ہوا تھا……وہ بیان کر دیا۔ عدالت میں موجود ہر شخص حیرت زدہ نظروں سے میری جانب دیکھ رہا تھا۔ اور بیوپاری کی عورت کا رنگ خوف سے زرد ہو رہا تھا……اچانک اس کا وکیل اپنی جگہ سے اٹھا……اس نے جج صاحب سے اجازت لی کہ وہ مجھ سے چند سوال کرنا چاہتا ہے۔

                جج صاحب نے اسے اجازت دی……اجازت ملتے ہی وہ تیزی سے پلٹا اور مجھ سے بولا……تم نے جو کچھ کہا……اسے سچ اسی وقت مانا جائے گا……جب کہ تم یہ بتائو گے……کہ وہ جیب کترا کہاں گیا۔

                بتاتا ہوں……بتاتا ہوں……میں نے جواب دیا……اس واقعہ کے بعد……اس جیب تراش نے اپنے پیشے سے توبہ کر لی۔ اور حیدر آباد میں رہائش اختیار کر لی……وہ مقدمہ کی ہر کارروائی میں بحیثیت تماشائی شامل ہوتا رہا……

                لیکن وہ کہاں ہے……جج نے جھنجھلا کر پوچھا۔

                حضور……وہ آپ کے سامنے کٹہرے میں کھڑا ہے۔

                عدالت میں موجود ہر شخص کی حیرت و استعجاب سے چیخیں نکل گئیں……اسی دوران جج کی آواز بلند ہوئی……تمہیں قتل کے جرم میں گرفتار کیا جاتا ہے۔

                حکم ملتے ہی سپاہی آگے بڑھے اور انہوں نے میرے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ڈال دیں……میں نے بیوپاری اور اس کی بیوی کی طرف دیکھا……بیوپاری کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے جب کہ اس کی بیوی شرم و ندامت سے سرجھکائے رو رہی تھی۔

                پولیس نے ایک مجسٹریٹ کی موجودگی میں میرا بیان قلمبند کیا……جو کہ حرف بحرف وہی تھا جو کہ میں اس سے قبل عدالت میں دے چکا تھا……ایک ہفتہ بعد……اس مقدمہ کی نئے سرے سے پیشی ہوئی……اور پہلی سی پیشی پر ملزم‘‘بیوپاری’’ کو رہا کر دیا گیا……پھر مجھے بھی ضمانت پر رہا کر دیا گیا……اور بیوپاری کی بیوی کو گرفتار کر لیا گیا……جھوٹی گواہی کے الزام میں بیوپاری کی بیوی کی طرف سے پیش ہونے والے تمام گواہوں کو بھی گرفتار کر لیا گیا پھر مجھے سزا سنائی دی گئی۔ سزا کی مدت پوری ہونے کے بعد رہا کر دیا گیا۔

                رہا ہونے کے بعد ……بیوپاری نے مجھے ایک خطیر رقم دینا چاہی لیکن میں نے لینے سے انکار کر دیا……پھر بھی بیوپاری کے رشتہ داروں نے زبردستی میری جیب میں معقول رقم ڈال دی……یہ امداد غیبی تھی۔ اس رقم سے میں نے حیدر آباد میں کاروبار شروع کر دیا……خدا کا کرنا ایسا ہوا……اس کاروبار میں مجھے دن دونی اور رات چوگنی ترقی ہوتی چلی گئی……میں کراچی آ گیا……اور محمدی ہائوس میں دفتر کھول لیا۔

                اب میرے پاس کار تھی۔ اور سوسائٹی میں شاندار بنگلہ تھا……زندگی میں بہت سے نشیب و فراز آئے……مجھ سے نہایت ہی اچھے اور فیشن ایبل گھرانے کی لڑکیوں نے شادی کرنے کی خواہش ظاہر کی……لیکن ‘‘عورت ذات’’ پر سے میرا اعتبار اس طرح اٹھ گیا……کہ میں نے ہمیشہ شادی سے انکار ہی کیا……البتہ انہی دنوں کچھ دوستوں نے مجھ سے فلم بنانے کا مشورہ کیا……یہ ایک طرح سے ذہنی عیاشی تھی جسے میں نے بخوشی منظور کر لیا اور اس طرح میں فلمی کاروبار میں بطور پروڈیوسر کے داخل ہو گیا۔

                فلم بن کر تیار ہو گئی……اور دلچسپ بات یہ ہوئی……کہ اس فلم نے پاکستان میں خاطر خواہ بزنس کیا……جس سے کہ میرے حوصلے بلند ہو گئے……اور میں نے دو مزید فلمیں بنانے کا اعلان کر دیا……میرے مستقل فلم ڈائریکٹر نے مشورہ دیا……کہ ان فلموں کی ففٹی پرسنٹ شوٹنگ مغربی ممالک میں کرائی جائے تو یہ فلمیں سپرہٹ ہوں گی……اس کا یہ مشورہ کسی حد تک درست تھا۔ لیکن کسی بھی فلم کی شوٹنگ غیر ممالک میں کرنا ‘‘جوئے شیر’’ لانے سے کم نہیں تھا……اس کے لئے نہ صرف کافی سرمایہ درکار ہوتا ہے بلکہ اخراجات بھی بہت زیادہ ہوتے ہیں……اداکاروں کے کرایہ وغیرہ کے ساتھ ساتھ ان کی رہائش وغیرہ کا انتظام بھی کرنا پڑتا ہے……سرمایہ کی میرے پاس کمی نہیں تھی ۔ اس لئے یہ کوئی مسئلہ نہیں تھا……میں نے ڈائریکٹر سے کہہ دیا……کہ وہ اسکرپٹ تیار کرائے۔ اور کہانی کے مطابق اداکاروں سے ایگریمنٹ کر لے……ڈائریکٹر تو میرے کہنے کے مطابق فلم کا اسکرپٹ تیار کرنے لگا۔ اور مجھ سے کہا……جتنے عرصہ میں فلم کا اسکرپٹ تیار ہو گا……آپ لندن کے بہترین تفریحی مقامات دیکھ آیئے گا۔ تا کہ جب ہم فلم کی شوٹنگ کے لئے ‘‘یونٹ’’ لے کر چلیں تو کوئی دشواری نہ ہو لہٰذا میں نے پاسپورٹ بنوایا۔ اور لندن جانے کی تیاری کرنے لگا۔

 

                میں تنہا شخص تھا۔ لندن جانے کی تیاری کرنی تھی……دوستوں نے بتایا تھا کہ اس ملک میں پورے سال سردی پڑتی ہے۔ اور شدید سردی کے موسم میں برف باری بھی ہوتی ہے۔ لہٰذا چار پانچ گرم سوٹ بنوا لیے……سوٹوں کی تیاری میں کوئی ایک ماہ لگ گیا اور میرے اس ایک ماہ کے دوران دوستوں نے لندن کے بارے میں مبالغہ کی حد تک قیاس آرائیاں کر ڈالیں۔

                بہرحال خدا خدا کر کے وہ دن آ ہی گیا جب میری نشست ہوائی جہاز میں مخصوص ہو گئی۔ اس 146فٹ لمبے طیارہ میں 113مسافروں کی نشستیں تھیں۔ اور دس عملہ کے افراد شامل تھے……میں یہ تمام تفصیل اس وجہ سے تحریر کر رہا ہوں……کہ اس سفر کے دوران میں جن حیرت انگیز واقعات سے دوچار ہوا……آپ ان کی کوئی توجیہہ کر سکیں……ویسے میں اپنی زندگی کے اس حیرتناک واقعہ کو کبھی نہیں بھول سکتا……یہ واقعہ اتنا عجیب ہے کہ اگر میں کسی کے سامنے بیان کروں……تو وہ اسے میرے دماغ کی خرابی سمجھے گا اور جو لوگ……روحانیت سے واقف نہیں ہیں، وہ تو مجھے پاگل سمجھیں گے۔

                بہرحال میں نے دوستوں کو خدا حافظ کہا۔ اور جہاز میں سوار ہو گیا……میں جس جہاز میں سفر کر رہا تھا، اسے رات کے آخری حصہ میں اڑنا تھا۔

                وقت مقررہ پر جہاز رن وے پر دوڑنے لگا۔ اور چند منٹ بعد فضا میں بلند ہو گیا۔

                جہاز نے چونتیس ہزار فٹ کی بلندی پر پہنچ کر عمودی پرواز شروع کر دی تو دستور کے مطابق ہمیں سیفٹی بیلٹ کھولنے کو کہا گیا۔ اس کے بعد……نہایت ہی پر وقار انداز میں ‘‘چیف پائیلٹ’’ کی آواز بلند ہوئی۔ اور اس نے مسافروں کو ‘‘خوش آمدید’’ کہتے ہوئے۔ جہاز کی سطح سمندر سے بلندی اور اس کی رفتار بتائی پھر موسم کا حال اور آخر میں چار گھنٹہ بعد ‘‘ریاض’’ ائیر پورٹ پہنچ جانے کی خوشخبری سنائی۔

                جس زمانے کا یہ واقعہ ہے، اس زمانے میں ‘‘سعودی عرب’’ کے راستے لندن تک سفر طے کیا جاتا تھا……چیف پائیلٹ کے خاموش ہوتے ہی خوبرو اور خوبصورت ائیر ہوسٹسوں نے مسکرا مسکرا کر مسافروں کے سامنے کافی کے کپ اور بسکٹ رکھنے شروع کر دیئے۔

                میں نے اطمینان سے ٹانگیں پھیلا دیں……اور اپنے اطراف کا جائزہ لینے لگا……دائیں جانب کی نشست پر ایک غیر ملکی جوڑا بیٹھا کافی کے مزے لے رہا تھا……جب کہ بائیں جانب والی نشست پر ایک نہایت ہی ماڈرن قسم کی خاتون بیٹھی شیشے سے باہر جھانک رہی تھی……گو کہ مجھے اس خاتون کا آدھا چہرہ نظر آ رہا تھا۔ اس کے باوجود بے اختیار میری زبان سے نکل گیا……اللہ رکھی۔

                اس نام کے ساتھ ہی خاتون نے مڑ کر میری جانب دیکھا……اور مجھ پر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے اور واقعی اللہ رکھی نے مسکراتے ہوئے کہا……کہو۔ خان کیا حال ہے۔

                تم زلزلہ کے بعد کہاں غائب ہو گئی تھیں……میں نے الٹا اسی سے پوچھا۔

                میں کہاں غائب ہو گئی تھی……اس نے قدرے اچنبھے سے جواب دیا……میں تو اسی شہر کراچی میں تھی لیکن مجھے بتائے بغیر کہاں چلی گئی تھیں۔ میرے لہجہ میں شکایت تھی……ٹھٹھہ سے سیدھا تمہارے پاس آیا تھا۔ لیکن تم اپنے ملازم شمرال کے ساتھ غائب تھیں۔

                ارے ہاں۔ اسے جیسے یاد آ گیا……وہ تمہارے دوست کو شمیم مل گئی نا۔

                ہاں……ہاں۔ مل گئی……میں نے اکتائے ہوئے لہجہ سے کہا……لیکن تم خود کہاں غائب ہو گئی تھی۔

                ارے بھئی! بتا تو دیا۔ اسی شہر کراچی میں تھی……اس نے اپنی بات پر زور دیتے ہوئے کہا۔

                لیکن مجھے تو تم کہیں نہیں ملیں……میں نے شکوہ کیا۔

                تم نے مجھے ڈھونڈا ہی کب تھا……اللہ رکھی نے برجستہ جواب دیا……اور میں نے ندامت سے آنکھیں جھکا لیں۔

                اس نے میری ندامت دور کرنے کی خاطر پوچھا……اب تو تمہارے حالات بہت اچھے ہو گئے ہیں……تم کہاں جا رہے ہو۔

                میں……میں نے جواب دیا……اپنی فلم کی شوٹنگ کے سلسلہ میں لندن جا رہا ہوں۔

                ارے تم تو بس یونہی ہو……اس نے مجھے ٹہوکا مارتے ہوئے کہا……فلم کے چکر میں تم‘‘اسلام اور روحانیت’’ سے بہت دور ہوتے جا رہے ہو۔

                اس میں رکھا بھی کیا ہے……میں نے سنجیدگی سے جواب دیا……یہ دنیا بڑی ہی حسین ہے۔ اور مجھے اللہ نے موقع دیا ہے کہ اس کی نعمتوں سے فائدہ اٹھائوں۔

                مذہب تمہیں فائدہ اٹھانے سے منع تو نہیں کرتا……اللہ رکھی نے کہا۔

                لیکن مذہب اپنے قانون میں گرفتار تو کر لیتا ہے……میں نے کہا……اور……

                تم ابھی تک گرفتار بلا ہو……اس نے میری بات کاٹی……زندگی کے نشیب و فراز سے بھی تم نے کچھ نہیں سیکھا۔

                تمہیں معلوم ہے……میں نے پوچھا……کہ میں کن حالات سے گزر چکا ہوں۔

                اس نے کوئی جواب دینے کی بجائے ‘‘اقرار’’ کے انداز میں سر ہلایا۔

                مجھے یقین نہیں آتا……میں نے اس کے اقرار کی تردید کی۔

                تمہیں تو اس وقت یقین آتا ……وہ دانت پیس کر بولی……جب پھانسی کا پھندا گلے میں پڑ جاتا۔

                اس کے اس ایک جملہ سے میں چونک اٹھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ وہ میرے حالات سے واقف ہے……لیکن یہ کس طرح ممکن تھا……میں نے سوچا……میں اللہ رکھی سے کئی سال جدا رہا تھا……پھر……پھر میں امیر ہوتا چلا گیا……اور اب……جب کہ میں نے فلمی کاروبار شروع کر دیا تھا……اللہ رکھی بالکل ہی میرے ذہن سے نکل چکی تھی……میں لندن جا رہا تھا تو بالکل اتفاقیہ طور سے وہ مجھے مل گئی تھی۔

                میں یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اس سے اس طرح ‘‘ہوائی جہاز’’ میں ملاقات ہو جائے گی۔

                وہ مجھے سوچ میں گم دیکھ کر نہایت ہی اپنائیت سے بولی……ارے تم۔ مجھے بھول گئے تو کیا ہوا میرے دل سے تو تمہاری یاد نہیں گئی۔

                اللہ رکھی……کیا واقعی تو مجھ سے محبت کرتی ہے……میرے دل میں اس کے لیے ایک دم جذبہ محبت……اجاگر ہو گیا۔

                لو……اللہ کی مخلوق سے کوئی نفرت کی جاتی ہے کیا……اس نے مسکرا کر جواب دیا۔ میں نے لاجواب ہو کر موضوع بدلتے ہوئے پوچھا……اب تمہاری ‘‘روحانیت’’ کا کیا حال ہے۔ ٹھیک ہے……اس نے لاپرواہی سے جواب دیا۔

                تم……تم……کہا ں جا رہی ہو……میں نے پھر پوچھا۔

                سرکار دو عالمﷺ نے بلایا ہے……اللہ رکھی نے جواب دیا……انہی کے دربار میں‘‘مکہ مدینہ’’ جا رہی ہوں۔

                اچھا……میں نے تمسخر سے کہا۔

                تم ملو گے……اس نے پوچھا……مکہ مدینہ دیکھ لو گے تو لندن بھول جائو گے۔

                مجھے تو معاف ہی رکھو……میں نے ایک بار پھر اس کا مذاق اڑایا……کہاں یہ تپتا ہوا صحرا……کہاں لندن۔

                میری بات مانے گا تو صحرا بھی گلستان بن جائے گا……اس نے پیار سے میرا کاندھا تھپتھپایا۔ میں ساتھ ہوں۔ چل تجھے دربار رسالتﷺ میں پہنچا دوں۔

                ایسے نہیں……میں نے اسے آزمایا……مزہ جب کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے آبائو اجداد سے ملا دے۔

                تو میرا ہاتھ تو پکڑ……اس نے بڑے ہی پیار سے میر اہاتھ پکڑتے ہوئے کہا……عالم اعراف میں جس سے کہے گا……ملاقات کرا دوں گی۔

                سچ……میں نے تعجب اور خوشی کی ملی کیفیت سے کہا۔

                نہیں تو کیا جھوٹ……اللہ رکھی نے جواب دیا……اور پھر چونک کر بولی……تم نے کچھ غور کیا۔ کیا ہے……میں نے پوچھا۔

                جہاز کی رفتار تیز نہیں ہے کیا……اس نے جواب دیا۔ اور اس کے ساتھ ہی مجھے احساس ہوا کہ واقعی جہاز کی رفتار وہ نہیں ہے جو کہ پہلے تھی۔ بلکہ وہ نہایت ہی تیزی سے اڑ رہا تھا……اور اس کے انجنوں کا شور لمحہ بہ لمحہ بڑھ رہا تھا……میں نے گھبرا کر ادھر ادھر دیکھا……ایک تو رات کا پچھلا پہر پھر کافی کی لذت نے مزہ دو چند کر دیا……اور نیند جس کے بارے میں مشہور ہے کہ سولی پر بھی آ جاتی ہے……جہاز میں آموجود ہوئی……میں نے دیکھا کہ تمام مسافر حالات سے بے خبر آرام سے سیٹوں پر سو رہے ہیں اور میں بھی جہاز کے ماحول سے بے خبر ہو گیا ہوں۔ لاشعور میں دیکھا کہ جہاز کو اس طرح جھٹکے لگنے لگے جیسا کہ سڑک پر چلتی ہوئی کار کو پیٹرول ختم ہونے سے لگتے ہیں۔

                جب کراچی سے یہ پرواز روانہ ہوئی تھی تو رات کا کافی حصہ گزر چکا تھا۔ تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ بعد ہی صبح صادق کے آثار نمودار ہونے والے تھے……یہ ہوائی جہاز اکیس ہزار فٹ کی بلندی پر پہنچ کر دھنکی ہوئی روئی کی طرح تہہ بہ تہہ بادلوں کو چیرتا ہوا نکلا اور نیلم جیسے شفاف آسما ن تلے متوازن ہو کر منزل کی طرف بڑھنے لگی۔ ابھی اسے چونتیس ہزار فٹ کی بلندی پر پہنچے زیادہ دیر بھی نہیں ہوئی تھی……کہ نامناسب حالات کا سامنا کرنا پڑ گیا……اللہ رکھی نے……شاید خوف کی وجہ سے میرا ہاتھ پکڑ رکھا تھا……جہاز کو یکے بعددیگرے اس طرح جھٹکے لگ رہے تھے جیسے کنویں سے پانی بھرنے کی خاطر بار بار ڈول کر اوپر اٹھا کر چھوڑا جاتا ہے……یہ میرا پہلا ہوائی سفر تھا۔ لہٰذا پریشان ہونا قدرتی بات تھی……میں بار بار چاروں طرف دیکھتا تھا……پائیلٹ نے بیلٹ باندھنے اور ایمرجنسی کا اعلان کر دیا تھا……ہر مسافر گھبرایا ہوا تھا……ائیر ہوسٹس……اور اسٹیورڈ بھی خوفزدہ سے چپ سیٹوں پر بیٹھے تھے……ابھی مسافر اس صورتحال کو اچھی طرح سے سمجھنے بھی نہیں پائے تھے……کہ ایک تیز سفید اور گرم روشنی کا کوندا سا لپکا……ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے آسمانی بجلی نے ہوائی جہاز کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہو……ہر مسافر اپنی آنکھوں کو اس طرح سے ملنے لگا جیسے……وہ اندھا ہو چکا ہے……میں نے خوفزدہ ہو کر اللہ رکھی کے ہاتھوں کو مضبوطی سے پکڑ لیا……چند لمحہ……بعد……روشنی کی لہر ختم ہو چکی تھی۔ اور طیارہ بھی پہلے ہی کی طرح بڑے ہی پر سکون انداز میں اڑ رہا تھا……اس کے ساتھ ہی پائیلٹ کی آواز سنائی دی……

                خواتین و حضرات!

                ہم جس صورت حال سے دوچار ہیں……اس سے آپ کو آگاہ کرنا اپنا فرض سمجھتا ہوں۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ تاریکی ختم ہو چکی ہے اور مشرق سے سورج کی روشنی نمودار ہو رہی ہے……کچھ دیر قبل جہاز کو شدید قسم کے جھٹکے لگے تھے۔ اور اس کی رفتار حیرت انگیز حد تک بڑھ گئی تھی……دراصل ہم فضا کے ایسے حصہ میں داخل ہو چکے تھے……جہاں جہاز کی رفتار پر قابو رکھنا ناممکن تھا۔ ہمارا جہاز غیر یقینی رفتار سے اڑ رہا تھا۔ شاید اس کی رفتار راکٹ سے بھی زیادہ تیز ہو گئی تھی……ہمارے آلات نے کام کرنا چھوڑ دیا تھا……پھر آپ حضرات نے روشنی کی لہر محسوس کی ہو گی۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم نے وقت کی حد پار کر لی ہے……ہم نے زمانہ حال کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ اور ماضی میں آ گئے ہیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے……میں نے ریاض ائیرپورٹ سے رابطہ قائم کرنا چاہا لیکن وہاں سے کوئی جواب نہیں ملا……میں نے دنیا کے دوسرے ممالک سے رابطہ قائم کیا ۔ لیکن وہاں سے بھی کوئی جواب نہیں ملا……دوسرا ثبوت یہ ہے کہ ہم سرزمین سعودی عرب میں داخل ہو چکے ہیں……لیکن یہ بیسویں صدی کا سعودیہ نہیں ہے بلکہ ماضی کا کوئی غیر معمولی شہر معلوم ہوتا ہے۔

                حضرات!

                جہاز کا ایندھن ختم ہو رہا ہے۔ اور انسانی جانوں کو بچانا میرا فرض ہے……لہٰذا……آپ لوگ آنے والے حالات سے مقابلہ کر لیے تیار ہو جائیں……میں کرش لینڈنگ کر رہا ہوں……آپ کا تعاون درکار ہے……شکریہ!

 

 

 

 

 

 



Allah Rakhee

محمد مونس خان عظیمی

‘‘اللہ رکھی’’ ناول کی طرز پر لکھی گئی ایک کہانی ہے جس میں عورت کی صلاحیتوں کی بھرپور نشاندہی کی گئی ہے۔ یہ کہانی میرے دوست عظیمی بھائی’ محمد مونس خان عظیمی نے لکھی تھی جو قسط وار روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہو چکی ہے۔ عزیز محترم محبوب علی عظیمی نگران مراقبہ ہال ابو ظہبی اور یو اے ای نے عرس کے موقع پر محمد مونس خان عظیمی کے تذکرے میں مجھ سے کہا کہ محمد مونس خان کی خواہش تھی کہ ان کی زندگی میں اللہ رکھی کتابی صورت میں شائع ہو جائے ان کی یہ خواہش پوری کرنے کا جذبہ میرے اندر اتر گیا۔ میں یہ کتاب قارئین کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ میری اس کاوش سے میرے بھائی محمد مونس خان عظیمی کی روح خوش ہو گی۔ قارئین سے التماس ہے کہ وہ ان کے لئے دعائے مغفرت کریں۔

 

                                                                                                                 میاں مشتاق احمد عظیمی

                                 روحانی فرزند: حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی

                                 مراقبہ ہال ۸۵۱ مین بازار، مزنگ لاہور

                                 فون نمبر ۱۴۵۳۴۲۷

                                 ۶۲جنوری ۵۹۹۱؁ء