Topics

مسلمان کی بھلائی تفکر کرنے میں ہے

 

تلاوت درودابراہیم شریف…

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم   ۔تلاوت سورہ الفاتحہ…

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم  ۔ وما ارسلنک…

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم   ۔  انااللہ وملا لکتہ…

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم   ۔  یسلونک عن الروح…

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم   ۔  انا ما امروح…

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم   ۔  صل اللہ تعالی …

عزیزان گرامی قدر،محترم بزرگوں، پیارے دوستوں اور ساتھیوں آج کی یہ محفل اللہ کے محبوب، تخلیق کائنات میں موجودات باعث تخلیق کائنات یا رحمت اللعالمین حضرت محمد رسول اللہ  ﷺکی مداحت منقبت اور تعریف اور توصیف کے لئے منعقد کی گئی۔ آپ تمام خواتین و حضرات کا شریک ہونا اتنی دیر تک اللہ کے محبوب کی شان میں نعتیں سننا اورسرکار نبی ﷺ کا رسول اللہ  ﷺ کا پورا خاکہ اول ابتدا کا مختصر وقت میں بیان کیا گیا ہے۔ یہ سب سعادت اور نصیب کی بات ہے رسول اللہ  ﷺ کی تعریف و توصیف میں تمام عالم اسلام میں با لخصوص پاکستان میں ہر سال میلا النبی  ﷺ کے نام سے محفلیں سجائی جاتیں ہیں۔ لوگ عقیدت کے پھول نچھاور کرتے ہیں۔ رسول اللہ  ﷺ کی حیات طیبہ کو مختلف انداز سے پیش کیا جاتا ہے  ،محبت سے جو حیات طیبہ کے پردے اٹھا ئے جاتے ہیں ۔ان کو سنتے ہیں اور ان پر عمل کرنے کی جدوجہد یا کوشش کرتے ہیں۔ رسول اللہ  ﷺ سے پہلے روایات کے مطابق ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر تشریف لائے ۔ہر پیغمبر کی تعلیمات کا خلاصہ اور نچوڑ یہی رہا ہے کہ ’’اللہ وحدہ لاشریک ہے اللہ کے علاوہ عبادت اور پرستش کے کوئی لائق نہیں ‘‘عبادت اور پرستش کرنے کے لئے ضروری ہے کہ صلوٰۃ قائم کی جائے ،روزے رکھے جائیں،حج کیا جائے ،زکوۃ اداکی جائے اور جہاد کیا جائے۔ تمام انبیاء اکرام علیہ والسلام نے یہی باتیں دوہرائی ہیں۔ حضرت آدم علیہ السلام سے سیدناحضور الصلوٰۃ والسلام پر رسول اللہ  ﷺ کی جو تمام انبیاء اکرام کی فضیلت اور خصوصیات ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ  ﷺ پر دین کی تکمیل فرمادی اور اللہ تعالیٰ اُن سے راضی ہوگیا ۔دین کی تکمیل ہوگئی الیومہ  ……دین کی تکمیل ہوگئی تمام انبیاء اکرام ؑکی بشارتیں پوری ہوگئیں تو جب حضور الصلوٰۃ والسلام تشریف لائے گئے ۔اب مزید کسی پیغمبر کے آنے کی ضرورت باقی نہ رہ گئی۔ اسلئے رسول اللہ  ﷺ پر نبوت پوری ہوگئی ۔رسول اللہ  ﷺ کے بعد اب کوئی نبی نہیں آئے گا ۔ یہ اللہ تعالیٰ کا اعلان ہے قرآن پاک میں ۔توجہاں تک نماز ،حج ،روزہ ،زکوۃ کا تعلق ہے اور شریعت مطہرہ سے ہے۔ حقوق العباد ہیں ،کاروبار کس طرح کیا جائے،پڑوسیوں کے کیا حقوق ہیں ، والدین کے کیا حقوق ہیں ،رہن سہن کس طرح کا ہو ،معاشرت کیا ہو ، ان شریعتوں کو تمام پیغمبروں نے بیان کی ہیں کسی پیغمبر نے یہ نہیں کہا کہ جھوٹ بولنے میں کچھ رعایت ہے ،کسی پیغمبر کی شریعت میں یہ بات نہیں بتائی گئی کہ کم تولنا کسی بھی طرح جائز ہو سکتا ہے اور اس کو رسول اللہ  ﷺ نے بھی فرمایا ہے کہ میں کوئی نئی بات نہیں کہہ رہا ہوں میں وہی بات کہہ رہا ہوں جو میرے بھائی پیغمبروں نے کہی ہیں ۔لیکن ایک بات بہت زیادہ دماغ ،میں آتی ہے جب سوچتا ہوں تو بار بار آتی ہے کہ ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں کی بہت سی کتب و تصانیف میں ردوبدل ہوا، یہ کوئی نئی بات ہے کہ شریعتیں تبدیل ہوئیں ۔ لیکن شریعتیں تبدیل کس طرح ہوئیں، ان شریعتوں میں دخل  اندازی کی گئی ان کو صحیح کیا گیا۔ رسول اللہ خاتم النبیین کی تعلیمات پر ہم غور کرتے ہیں تو اور قرآن پاک کا مطالعہ کرتے ہیں تو قرآن پاک کی تعلیمات میں یہ بات بڑے واضح طور پرنظر آتی ہے کہ رسول اللہ  ﷺ نے انسان کی بشری تقاضوں اور روحانی تقاضوں کو کھول کھول کر بیان کیا اور رسول اللہ  ﷺ کی تعلیمات ہمیں اس طرف متوجہ کرتی ہے کہ بشریت فانی اورعارضی ہے ۔لیکن بشریت کو قائم رکھنے والی روح عارضی اور فانی نہیں ہے۔ روح قائم ہے اور بشر در خلق ہے ۔بعد میں یہ دیکھے کہ آدم علیہ السلام سے لیکر اب تک کھربوں انسان زمین پرپیدا ہوئے کھربوں انسان کے جو گوشت پوست کے جسم تھے۔ وہ سب نہ صرف مردے ہوگئے ۔ مٹی کے ذرات میں تبدیل ہوگئے لیکن آج بھی اگر روحانی اور پر مخلص بندہ ملاقات کرنا چاہے تو یہ ممکن ہے وہ عالم اراو ح کی زندگی کا مشاہدہ کرے ۔ وہاں ان کی روح سے ملاقات ہو سکتی ہے۔عرض کرنا چاہتا ہوں کہ آدم علیہ السلام سے لیکر اب تک کھربوں انسان تشریف لائے۔ جی ہاں اب اس دنیا میں چھ ارب انسان ہیں اس دنیا میں پیدا ہوئے اور مر گئے، کھپ گئے ،لیکن ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ جس روح کی بنیاد پر ہمارے گوشت پوست کے جسم زندہ تھے ،متحرک تھے ،چلتے تھے ،پھرتے تھے ،اڑتے تھے ،کھاتے تھے، پیتے تھے،وہ فنا ہوگیا ۔وہ سب کچھ موجود ہے تورسول خاتم النبیین  ﷺ کی تعلیمات کایہ اعجاز ہے کہ قرآن کریم ہمیں اس طرح متوجہ کرتا ہے کہ یہ گوشت پوست کا جسم آنی جانی چیز ہے… کل نفس ذائقتہ الموت…  جو بھی اس دنیا میں پیدا ہوگا اس کے اوپر موت ضرور وارد ہوگی، اس دنیا میں آیا ہے وہ تو اس دنیا سے رخصت ہوگا۔جو بھی اس دنیا سے رخصت ہوکر قبر میں جا سویا ۔اس کا جسم مٹی کے ذرات میں تبدیل ہوگیا ۔لیکن روح برقرار رہی اور وہ روح جس طرح یہاں سوتی تھی ،بولتی تھی،ایک میڈیم کے ذریعے اس طرح وہ اب بھی موجود ہے رسول اللہ  ﷺ کا ارشاد اعلیٰ مقام ہے :

’’کہ جب بھی قبرستان جاؤ قبرستان میں جا کر کہو …السلام وعلیکم یا اھل القبور…اور قبر میں رہنے والے لوگ تمہارے سلام کا جوب دینگے ۔مکے جاتے ہوئے جب رسول اللہ  ﷺ بدر کے مقام سے گزرے۔ وہاں جنگ کے وقت اجتماعی قبریں بنا دیں گئی تھیں ۔ایک جگہ حضور پاک  ﷺنے قیام فرمایا اور مشرکین کو مخاطب کر کے کہا کہ مجھ سے اللہ تعالیٰ نے جو وعدہ کیا تھا میں نے اسے پورا ہوتا ہوادیکھ لیا ہے ۔تم سے جو اللہ نے کہا کیا تم نے بھی دیکھ لیا ؟صحابہ اکرام  ﷺوہاں تشریف فرما تے ہیں انھوں نے استفسار کیا،   یا رسول اللہ! کیا یہ لوگ سنتے ہیں ؟اسلئے وہ تو قبر میں کافی عرصہ وقت گزر گئے تھا۔ حضور پاک ﷺ نے فرمایا یہ تم سے زیادہ سنتے ہیں اورتمہاری بات کا جواب بھی دیتے ہیں۔ لیکن تم نہیں سن سکتے ۔اس کا کیا مطلب ہوا وہاں ان کے جسم تو موجود نہیں تھے تو اس کا صاف صاف مطلب یہ ہوا کہ انسان کی روح کبھی نہیں مرتی انسان کی روح عالم ارواح سے آتی ہے۔ یہاں ایک روح جب آتی ہے ۔مادی اناء ،ایک مخصوص لباس تیار کرتی ہے ۔اس لباس کو بڑا کرتی ہے ،لمبا کرتی ہے ،پھیلا تی ہے سمیٹتی ہے اور اس لباس کو… مُسْتَقَرٌّ وَمَتَاعٌ إِلَى حِينٍ …کہ قانون کے مطابق جب وقت پورا ہوجاتاہے اس لباس کو چھوڑ دیتی ہے اور لبا س کا جو حشر ہوتا ہے۔ وہ آپ سب دیکھ ہی چکے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کی ہر اُمتی پر یہ فرض اور ذمہ داری آئی ہوئی ہے کہ رسول ا للہ  ﷺتعلیمات کی روشنی میں رسول اللہ ﷺکا اُّمتی یہ جانتا ہوں کہ مادی جسم عارضی ہے۔ اس مادی جسم کو چلانے والی ،مادی جسم کو دوڑانے والی ،اس مادی جسم کو سلانے والی ،اس مادی جسم کو نیند سے بیدار کرنے والی ،روح ہے ،اسلئے ہمارا مشاہدہ یہ ہے کہ جب آدمی مرجاتا ہے تو نہ وہ سوتا ہے ،نہ وہ بیدار ہوتا ہے ،نہ وہ چلتا ہے ،نہ وہ پھرتا ہے،نہ وہ حرکت کرتا ہے ۔

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے ۔مکمل ضابطہ حیات کا مطلب یہ ہے کہ اس دنیا میں بھی رہن سہن قاعدے اور ضابطے مقرر کرتا ہے اور مرنے کے بعد بھی زندگی کے لئے قاعدے اور ضابطے مقرر کرتا ہے ہر انسان کو اس کے اعمال کی سزا اور جزا ملے گی… فمن یعمل مثقال ذرۃ خیرایراومن یعمل مثقال ذرۃ شرایرا…محفل میلاد النبی  ﷺ کا مقصد یہ ہے کہ انسان ہر سال رسول اللہ  ﷺکی تعلیمات کی تجدید کرے اس کو یہ بات معلوم ہونی چاہئے کہ خاتم النبیین  ﷺکے اوصاف حمیدہ میں کونسا ایسا وصف ہے جس کی بنیاد پر وہ تمام انبیاء اکرام فضیلت رکھتے ہیں ……اللہ تعالی ٰنے فرمایا  بعض رسولوں کوبعض رسولوں پرفوقیت ہے اور رسول اللہ  ﷺ کی فضلیت ہے کہ رسول اللہ  ﷺ پر دین کی تکمیل ہوئی …الیومہ…جب تک مسلمان اپنی روح وجسم کے رشتے سے واقف نہ ہوگا ۔اس وقت تک اسلام کی تکمیل نہیں ہوگی۔ اسلئے جب روح اور جسم کے رشتے سے واقف ہی نہیں ہوگا ۔تو آدمی جزا ،سزا ،اعمال ،آخرت، دوزخ ،جنت یہ ساری چیزیں زیر بحث نہیں آتیں۔رسول اللہ  ﷺ ٓکی احادیث پر آپ جب غور فرماتے ہیں …من عرف نفسہ…’’جس نے اپنی روح کو پہچان لیا ،اس نے رب کو پہچا ن لیا‘‘یعنی جسم کو پہچانے سے رب کی پہچان نہیں ہوتی روح کو پہچانے سے رب کی پہچان ہوتی ہے …کل نفس ذائقتہ الموت… اسکو موت ضرور آنی ہے اور موت کوئی ایسا عالم نہیں ہے کہ بس مر گیا آدمی کہیں غائب ہو گیا۔ بھئی اعمال ،اشکال ،اقوال ، کردار،اخلاق سب کا حساب کتاب ہوگا اچھے اعمال ہیں تواللہ تعالیٰ جزا عطافرمائیںگئے اور برے اعمال ہیں تو سزا کا مستحق ہوگا ۔اگر انسان اپنی اصلی یعنی روح سے واقفیت حاصل نہیں کرے گا تو آخرت کی زندگی پر اس کا یقین مکمل نہیں ہوگا ۔آخرت کی زندگی کا مشا ہدہ اس وقت ممکن ہے جب انسان اپنی روح سے واقفیت حاصل کرے گا ۔ واقفیت کا طریقہ یہی ہے کہ اللہ ،اللہ کے رسول ﷺ نے ہمارے لئے زندگی گزرنے کے جو قاعدے اور ضابطے بنا دئے گئے ہیں ۔یعنی احکام شریعت پر پوری طرح عمل کیا جائے اور ساتھ ہی ساتھ یہ کہ ان میں غیب کے حصول کے لئے جدوجہد اور کوشش کی جائے ۔ہمیں یہ کرنا ہوتا ہے کہ کسی علم کو سیکھنے کے لئے اس کی طرف متوجہ ہوتے ہیں ہم باربار اس علم کو ابتدا ۔ا،ب،پ کو یاد کرتے ہیں،پڑھتے ہیں ،وقت دیتے ہیں ،مستقل طور پر اس علم کی طرف متوجہ رہتے ہیں۔ اس طرح روحانی علم کو بھی اگر سیکھناچاہے تو جس طرح دنیا کے علوم کے لئے ہمیں وقت درکار ہے اسلئے روحانی علم بھی ہم سیکھ سکتے ہیں۔ اب مثلا ً نماز ہے، نماز کا مفہوم ہی یہ۔ ہے کہ نماز قائم کرو یعنی جب آپ نماز میں کھڑے ہوجاتے ہیں ۔ہاتھ باندھ کر ایک غلام کی طرح دربار میں حاضر ہوجائیں تو اسکا مطلب یہ ہے کہ بندہ نماز میں اللہ کی حضور حاضر ہوگیا۔ نماز میں بندہ اللہ کے ساتھ رابطہ قائم ہوگیا۔ نماز میں یہ دیکھتا ہے کہ میں کس کوسجدہ کر رہا ہوں ،کس کو رکوع کر رہا ہوں ۔اگر نماز میں مرتبہ احسان حاصل نہیں ہوا تو ٹھیک ہے نماز ہے اس میں اللہ تعالی ٰکی مرضی ہے۔ قبول فرمائے یا جزا دئے۔ لیکن عمل پورا نہیں ہوا عمل مکمل نہیں ہوا عمل کی تکمیل جب ہی ہوتی ہے ۔ جب عمل کاجو مقصد ہے وہ پورا ہوجائے نماز کا مطلب کیا ہوا کہ اللہ کی طرف متوجہ ہونا۔ اللہ کی آیات تلاوت کرنا اور اللہ کی آیات میں اللہ تعالیٰ کے جو ارشادات ہیں ان کو سمجھنا جب سبحان اللہ ربی الاعلیٰ کہہ آدمی تو اس بات کا اقرار کرنا  ’’ بیشک پاک ذات اللہ ہے اور وہی سب سے بڑا ہے‘‘۔رکوع میں جب’’ سبحان  ربی العظیم‘‘  آدمی کہہ اس وقت اس کے ذہن میں یقین ہونا چاہئے کہ میں اللہ وحدہ لاشریک ہے کے سامنے جھکا ہوا ہے اور اللہ پاک ہے ارفع ہے ،اعلیٰ ہے اور عظیم ہے اور یہ کب ہوسکتا ہے ۔جب ہوگا ہمیں اس بات کا ادراک حاصل ہوگا کہ ہمارا جسم Independetنہیں ہے ۔ ہمارے جسم کی کوئی حرکت اپنی ذاتی نہیں ہے۔ ہمارے جسم کی ہر حرکت روح کے تابع ہے ۔روح اگر جسم میں ہے تو جسم زندہ ہے ۔روح اگر جسم میں نہیں ہے تو مردہ ہے۔ جب دیکھتے ہیں روزانہ لوگ مرتے ہیں تو رسول اللہ کا اپنی امت پر یہ احسان عظیم ہے کہ رسول پاک نے اپنی امت کو یہ درس دیااپنی امت کو یہ علم عطا فرمایا کہ مومن کی پہچان یہ ہے کہ’’ وہ جب اللہ کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو وہ دیکھتا ہے کہ میں اللہ کو دیکھ رہا ہوں یا وہ یہ دیکھتا ہے کہ اللہ مجھے دیکھ رہاہے ‘‘  یہاں صورت یہ ہے کہ انسان ۸۰ سا ل کا ہو ۹۰ سال کا ہو یا ۱۰۰ سال کو ہو جاتا ہے تو اللہ کی طرف متوجہ رہنے کہ کوشش کرتا ہے ۔پورے سو سال میں ایک دفعہ بھی ایسی کیفیت نہیں ہوتی کہ مسلمان یہ کہے کہ… الحمد للہ… آج میں نے نماز میں اللہ کو دیکھا ہے۔ الحمد اللہ آج میں نے نماز میں یہ دیکھا کہ اللہ نے مجھے دیکھا میں سمجھتا ہوں، ہمارے اسلاف میں اور ہم میں جو فرق ہمارے اسلاف کو اللہ تعالیٰ نے عزت و برکت مرتبت جو عطا فرمائی تھی اور ہمیں جو ذلت اور رسوائی نصیب ہوئی ہے۔ ہمارامقد ر بن گیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے اسلاف رسول اللہ کی روحانی تعلیمات سے آشنا تھے۔ ان کی روحیں بیدار تھیں ۔ان کے لطائف نبوت سے رنگین ہو چکے تھے ۔ان کی روح کو نور جب ان کی آنکھوں کے سامنے آتا تھا۔ مشاہدہ ہوتا تھا انہیں اور جب سے ہم نے روح کو نظر انداز کیا ہم ذلیل وخوار ہوگئے۔ کوئی بھی طاقت ہے جو ا س کے جسم کی رگوں میں خون کو دوڑا رہی ہے اور اس کے جسم سے نکل رہی ہے۔ اس کی وجہ سے خون خالی ہوگیاشریانوں وریدیوں میں دوران خون رک گیا۔ حلق موجود ہے حلق میں آپ پانی کا قطرہ ڈالیں سارا پانی باہر آجائے گا۔یہ اندر نہیں جائے گا۔ اسلئے کہ جسم کو چلانے والی روح نے جسم کا ساتھ چھوڑ دیا ہے۔ جسم کو چلانے والی روح کو سب جانتے ہیں آپ سے کوئی پوچھے کہ مرنے کا کیا مطلب ہے آپ کے گئے کہ جسم میں روح موجودنہیں ہے اور یہ کہ بھئی زندہ رہنے کا کیا مطلب ہے آپ کہ گئے کہ جسم میں روح موجود ہے ۔ رسول اللہ  ﷺ کی ہر امتی پر وہ مرد ہو یا خاتون وہ یہ فرض کردیا ہے رسول اللہ کی تعلیمات دنیا سے متعلق ،غیب کی دنیا سے متعلق ،روح کے متعلق معلومات حاصل کرے رسول اللہ  ﷺ سے کفار نے پوچھا ۔ روح کیا چیز ہے؟ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں جو لوگ تم سے روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں آپ فرما دیجئے  ’’کہ روح میرے رب کے امر سے ہے ‘‘  اس کا علم نہیں دیا گیا۔ لیکن تھوڑا علم دیا گیا ہے ۔ تھوڑا علم دینے کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ آپ کو پورا علم نہیں دیا ۔سوال کرنے والوں کو جواب دیا جاتا ہے وہ لوگ پوچھتے ہیں ۔روح کیا ہے ؟آپ کہہ دیجئے روح میرے رب کے امر سے ہے اور اس کا علم دیا گیا مگر تھوڑا یعنی تھوڑا بھی بہت ہوتاہے۔ ایک سمندر کے برابرہوتا ہے اور اب اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ روح کوبھر پور علم نہیں دیا…من امر ربی ۔۔روح  اللہ کا عمل ہے،  اللہ کا عمل یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو کہتا ہے کن وہ چیز وجود میں آجاتی ہے ۔

                اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ انسان گھڑا ہے۔ بجنی مٹی، کھنکھناتی مٹی ہے، سوکھا دانہ ہے اس کے اندر روح ڈال دی ہم نے پتلے کے اندر اپنی روح پھونک دی اور یہ پتلا چلنے بھی لگا ،بولنے بھی لگا ،اب انسان کے اندرجیسے میں بیٹھاہوں اگر میرے ا ندر سے روح نکل جائے اس وقت میری حیثیت دیکھنے کے علاوہ کچھ نہیں ہوگی۔ یا پھر حیثیت ہے؟ بھئی یہاں کتنے لوگ بیٹھے ہوئے ہیں۔ اگر ہماری روح نکل جائے تو ہماری حیثیت دیکھنے کے علاوہ کچھ ہے؟  کیا بات ہے۔ کیا ہوا جب تک روح سے واقف نہیں ہونگے تب تک اس دنیا کے معاملات سے واقف نہیں ہونگے اور اس دنیا کہ بعد کی زندگی کے بارے میں کچھ واقف نہیں ہونگے اور اس دنیا کے بعد کی زندگی کے بارے میں بھی واقفیت نہیں ہوگی ۔

                رسول اللہ نے اس عمل کو غار حرا میں جاری رکھا۔ حضرت ابراہیم ؑ نے اللہ کی جستجو میں ستاروں کو دیکھا ،چاند کو دیکھا ،سورج کو دیکھا اس کو تلاش کیا جتنے پیغمبر الصلوٰۃ والسلام تشریف لائے ۔ان کی زندگی میں ایک بات لازم ہے کہ وہ اللہ کی نشانیوں پر تفکر کرتے۔اللہ کو ڈھونڈتے، تلاش کریں اللہ کے قریب اور قریب تر ہونے کی جدوجہداور کوشش کریں ۔یہی وہ عمل ہے جس کے نتیجے میں انسان میں تفکر ہے ۔اس تفکر کا نام مراقبہ ہے اور حضرت ابراہیم ؑ نے غور وفکر کرنے کے بعدستاروں کے بارے میں سوچا کہ یہ میرا رب ہے۔ تو یہ تفکر ہے ۔تفکر مراقبہ ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ نے چاند کو دیکھنے کے بعد اس کی پہلی کرنوں سے متاثر ہوکے یہ سمجھا کہ چاند اللہ ہے ۔ یہ بھی تفکر ہے۔ یہ مراقبہ ہے۔ اگر حضرت ابراہیم نے سورج کی کرنوں کو دیکھ کر سوچا کہ اس سے بڑا روشن ستارہ کوئی نہیں ہے۔ یہ اللہ ہے ۔یہ بھی تفکر ہے ْبھئی جب سورج ڈھل گیا زوال ہوا یہ سوچا کہ ڈھلنے والا زوال پزیر ، گھٹنے والا ،بڑھنے والا اللہ نہیں ہوسکتا؟ جب روح کو تلاش کرنے کے لئے مسلمان خواتین و حضرات میں تفکر ہو قرآن میں تفکر کیاجائے ۔اللہ کی نشانیوں میں تفکر کیا جائے انبیاء اکرام ؑ کی سیرت طیبہ پڑھ کررسول اللہ  ﷺ کی حیات کے ہر گوشے پر تفکر ہے ۔جب رسو ل اللہ  ﷺ کی سیرت طیبہ پر تفکر کرتے ہیں، غور کرتے ہیں ۔تو ہمیں ایک ہی بات نظر آتی ہے کہ رسول اللہ  ﷺ جو کچھ کرتے ہیں وہ اللہ کے لئے کرتے ہیں۔ یہی بات مجھے آپ حضرات سے عرض کرنی تھی کہ مسلمان قوم اگر دین ودنیا کی فلاح چاہتی ہے ،مسلمان قوم اگر عروج چاہتی ہے ، مسلمان قوم اگر زندہ قوم بن سکتی ہے تو اسے تفکر کرنا ہوگا ۔اسے اللہ کی نشانیوں پر غور کرنا ہوگا ۔ہر طرف سے ذہن ہٹا کر Concentration کے ساتھ دھونڈنا ہوگا اللہ تعالیٰ نے یہ جو چیزیں بنائی ہیں ۔اس کے پیچھے کیا حقیقت ہے اوراسی کو مراقبہ کہتے ہیں ۔جتنے سلاسل ہیں ان تمام کے اسباق میں مراقبہ شامل ہے ، سلسلہ عظیمیہ اس کے اسباق میں بھی غور تفکر کا بہت بڑا عمل قائم ہے اور ساتھ ہی ساتھ اللہ کے ذکرکا دخل ہے۔ اللہ کا ذکر کیا ہے۔ آپ کہتے ہیں یااللہ،یا رحمن ،یا رحیم جب آپ یا اللہ کہتے ہیں تو اللہ کی ذاتی صفات سے آپ کی روح روشن ہوجاتی ہے۔ جب آپ یا رحمن کہتے ہے تو صفت رحمانیت آپ کے اندر داخل ہوجاتی ہے ۔آپکی روح سرشار ہوجاتی ہے ۔جب آپ کی روح صفات رحمانیت سے سے سرشار ہوتی ہے تو آپ کے جسم پر اسکے اثرات مرتب ہوجاتے ہیں، آپ رحم دل ہوجاتے ہیں، آپ کے اندر عفو درگزر پیدا ہوجاتا ہے ،آپ کے اندر سے غصہ نکل جاتا ہے، آپ کے اندر سے نفرت حسد ختم ہوجاتاہے، آپ سب کو اپنا بھائی سمجھتے ہیں، سارے مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں ۔ساری عورتیں آپس میں بہن بہن ہیں۔ اللہ کا شکر ہے میں اچھی خاصی عمر کا آدمی ہوںمیرا تجربہ تو یہ ہے اگر مسلمان اس طرح سوچووبچار کرتا ہے۔ اگر پان کی دوکان کرتا ہے تو کتنا سوچتا ہے اگر اپنے معاملات میں اللہ کوشامل کرے تو اور اگر اپنے معاملات سلجھانے کے لئے اللہ کی طرف متوجہ ہوتو یہ مسئلہ بہت آسان ہے۔ سالوں کا سفر مہینوں میں ختم ہوسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو یہ توفیق دے کے ،  رسول پاک  ﷺ کی سیرت طیبہ کے متعلق اپنی زندگی گزاریں اور یہ جب ہوگا جب ہم بار بار سوچ کر سیرت طیبہ کامطالعہ کریں ۔تفکر کے سلسلے میں میں نے ابھی مراقبے کا ذکر کیا ہے ۔رسول اللہ  ﷺکی یہ محفل ہے۔ یہاں اللہ کا، اللہ کے رسول اللہ  ﷺ کا ذکر بلند ہوا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ جہاں اللہ کا ذکر ہوتا ہے ۔وہاں نور کی شکل میں آسمان سے فرشتے نازل ہوتے ہیں ۔ ہمیں وہ نظر نہیں آرہے رسول اللہ ﷺ کے ارشاد کے مطابق جتنے ہم ہیں ۔اس سے کتنے سو گناہ ہمارے درمیان میں فرشتے موجود ہونگے ۔

آئیے ہم ذکر کی ایک محفل سجاتے ہیں اور پھر مراقبہ کرتے ہیں ۔رسول اللہ  ﷺ کی غار حرا کی جو سنت ہے اس پر عمل کرتے ہیں۔حضرت ابراہیمؑ،حضرت موسیٰ ؑ،حضرت عیسیٰ ؑاور تمام پیغمبروں کی تفکر کا جو شعار ہے۔ اسکی نقل کرتے ہیں تاکہ اللہ ان مقدس اوربرگزیدہ ہستیوں کے طفیل ہماری اندر کی دنیا کو روشن کردے اور ہمارے دنیاوی معاملات بھی اللہ اور اللہ کے رسول اللہ ﷺ کے تعلیمات کے مطابق ہوجائیں ۔آمین

مراقبے سے پہلے:  دودرخضری گیارہ مرتبہ پڑھ لیں،پھر گیارہ دفعہ یا حیی یا قیوم پڑھ لیں پھر اس کے بعد ذکر کر کے مراقبہ کریں ۔مراقبے کا مطلب یہ ہے کہ کسی ایک مرکزی نقطے کی طرف اپنی پوری صلاحیت کو مرکوز کرنا ہر طرف سے ذہن ہٹا کر ایک نقطے پر مرکوز کرنا رسول اللہ  ﷺ کی یہ محفل ہے درود  و  اسلام کی محفل ہے اس لئے ہم تصور کا نقطہ رکھتے ہیں کہ رسول اللہ  ﷺ کا گنبد خضرا۔ ہمیں تصور کرنا ہے آنکھیں بند کرکے کہ ہم رسول اللہ  ﷺکے دربار میں مسجد نبوی میں ہاتھ باندھے کھڑے ہیں اور رسول اللہ ﷺ کا روضہ مبارک ہمارے سامنے ہے اور ہم دل ہی دل میں …الصلوٰۃ والسلام علیہ یارسول اللہ …پڑھتے ہیں پھر مراقبہ کرتے ہیں ۔اختتام


 

Topics


Khutbat Khwaja Shamsuddin Azeemi 01


اللہ کا شکر ہے پہلی جلد جس میں 73 تقاریر کو شامل کیا گیا ہے۔حاضر خدمت ہے۔ بہت سی جگہ ابھی بھی غلطیاں ہونے کا امکان ہے۔ برائے مہربانی ان سے ہمیں مطلع فرمائے۔اللہ تعالی میرے مرشد کو اللہ کے حضور عظیم ترین بلندیوں سے سرفراز کریں،  اللہ آپ کو اپنی ان نعمتوں سے نوازے جن سے اس سے پہلے کسی کو نہ نوازہ ہو، اپنی انتہائی قربتیں عطاکریں۔ ہمیں آپ کے مشن کا حصہ بنائے۔ ناسوت، اعراف، حشر نشر، جنت دوزخ، ابد اور ابد الاباد تک مرشد کا ساتھ نصیب فرمائے۔آمین

مرشد کا داس