Topics

غیب یقین اور مشاہدہ

عرس مبارک (حضور قلندر بابا اولیاء )ؒ2006-

اعوذ بااللہ

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

تلاوت سورۃ البقرہ …

محترم خواتین و حضرات تمام قابل اساتذہ اکرام دوستوں ،بزرگو ں ،بھائیوں اور عظیمی بچوں آپ کے اوپراللہ کی سلامتی نازل ہو اللہ کی رحمتیں آپ کے اوپر بارش کی طرح برسیں۔ آپ کا حال مستقبل روشن تابناک ہو جائے ۔ اللہ تعا لیٰ آپکو اس مقام پر پہنچائے جس مقام کا اللہ تعالیٰ نے انسان سے وعدہ کیا ہے ۔پروگرام شروع ہونے میں ناگزیر وجوہات کی وجہ سے تاخیر ہو ئی۔ ورنہ پروگرام یہ تھا کہ زیادہ سے زیادہ سوا گیارہ یا ساڑے گیارہ بجے تک پروگرام کو ختم کر دیا جائے گا۔تاکہ کراچی کے معززخواتین و حضرات اپنے گھروںمیں بر وقت پہنچ جائیں کیونکہ لنگر کے سلسلے میں ہمیں بہت زیادہ مہمان گرامی کو سنبھالنا پڑا وہ ہمارا جو شیڈول ہے وہ آگے ہو گیا ۔بات کرنے کے کئی طریقے ہیں ۔ایک بات اس طرح بھی کی جاتی ہے کہ اس کی تفصیلات میں جتنا زیادہ آدمی مصروف ہو جائے کہ بات طویل سے طویل ہو تی چلی جائے ۔ایک بات ذہن میں یہ بھی آئی کہ تھوڑے سے لفظوں میں بہت کچھ کہہ دیا جائے۔ کیونکہ وقت بہت طویل ہو گیا ہے۔ اس لئے میری کوشش یہ ہے کہ میں تھوڑے سے وقت میں کم سے کم جملے استعمال کر و کہ بات ذہن نشین ہو جائے ۔جس کے لئے میں آپ کے سامنے کچھ کہنے کے لئے حاضر ہو اہوں اور جس کے لئے آپ دور دراز ملکوں سے یہاں تشریف لائیں ہیں ۔ ابھی میں نے سورۃ البقرہ کا پہلا رکوع تلاوت کیا۔ یہ رکوع سب کو اگر یاد نہیں ہے تو اس رکوع کو لوگ بار بار سنتے ضرور ہیں۔سورۃ الفاتحہ کے بعد قرآن پاک کا یہ دوسرا باب شروع ہو تا ہے ۔اس کا ترجمہ بہت آسان اور سہل ہے کہ یہ کتاب لاریب فی یہ کتاب ایسی کتاب ہے جس میں شک اور شبہہ نہیں ہے ۔پہلی بات تو یہ ہے کہ جو قرآن پاک کے علوم ہیں۔وہ شک اور شبہ سے ماورا ہیں ۔شک اورشبہے کی گنجائش قرآن میں بالکل نہیں ہے ۔اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق ذالک الکتاب لاریب فی یہ کتاب ایسی کتاب ہے جس میں کوئی شک اورشبہ نہیں ہے ۔ھدی اللمتقین اور یہ کتاب ان لوگوں کے لئے ہدایت کا ذریعہ بنتی ہے ان لوگوں کو راستہ دیکھاتی ہے جو متقی ہیں۔متقی کون لوگ ہیں ؟اللہ تعالیٰ فر ماتے ہیں متقی وہ لوگ ہیں جو میرے غیب پر یقین رکھتے ہیں ۔کوئی بھی ہاتھ میں قرآن شریف اٹھا کر دیکھ لیں تو یقین کی Definition یہی ہے کہ اس سے انکار ممکن نہ ہویعنی وہ چیز مشاہدے میں آجائے تو یہ کتاب ان لوگوں کو ہدایت کا ذریعہ ہے۔ جن لوگوں کا اللہ کے ساتھ تعلق قائم ہو جاتا ہے اور جب کوئی آدمی اس کتاب سے ہدایت حاصل کر لیتا ہے ۔تو اس کے یقین میں، اس کے عقیدے میں، اس کے تجربات میں یہ بات شامل ہوجاتی ہے کہ وہ اس بات کو محسوس کر لیتا ہے اور یہ بات یقین بن کر اس کے علم میں اتر جاتی ہے کہ زندگی میں جو وسائل میں استعمال کر رہاہوں وہ اللہ کی طرف سے ہیں اور یہ کتاب اس بات کی ہدایت فراہم کرتی ہے کہ فرشتے بھی ہیں ، اور یہ کتاب آخری کتاب قرآن ہے۔ اس سے پہلے بھی اللہ تعالیٰ نے کتابیں نازل کیں اور اس دنیا کے بعد ایک اور دنیا ہے ۔ وہ دنیا بھی ان کے یقین اور مشاہدہ میں ہوگی ۔یعنی وہ مرنے کے بعد کی زندگی کو اس دنیا میں دیکھ لیتے ہیں اولٰئک ہم المفلحون…اللہ تعالیٰ فر ماتے ہیں کہ یہی ہیں وہ لوگ جنہوں نے فلاح پا لی اور ہدایت حاصل کر لی۔ بات بہت آسان اور سیدھی سی ہے کہ کتاب میں شک نہیں ہے ۔جس انسان کے اندر شک ہو گا۔ وہ اس کتاب سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا ۔جو آدمی متقی نہیں ہو گا ۔وہ اس کتاب سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا اور جس آدمی کے مشاہدے میں غیب نہیں ہوگا۔ وہ متقی نہیں ہو گا اور جو متقی ہو گاجس کا مشاہدہ غیب بن جائے گا ۔اس کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق اور ربط قائم ہوجائے گا اور جب اس کا اللہ تعالی ٰکے ساتھ ربط اور تعلق قائم ہو جائے گا تو اس کے اوپر یہ بات روشن ہو جائے گی  کہ میری حیات وممات کا سارا سلسلہ اللہ کے یہاں ہے ۔اللہ نے مجھے پیدا کیایعنی میرے لئے وسائل بنائے ،اللہ ہی نے مجھے اس دنیا میں رکھا اور اللہ ہی مجھے اس دنیا سے لے جائے گا۔یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے جس میں بہت زیادہ دماغ لگانے کی ضرورت ہو، پریشان  ہو نے کی ضرورت ہو، اب ان آیات کوپڑھ کر اس کے معنی اور مفہوم پر غور کرتے ہیں کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے فر مایا ہے :یہ چیزیں کیا ہمیں حاصل ہے یا ہمیں ان کو حاصل کرنا ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ ان کا یقین ہو تا ہے کہ وہ جو کچھ خرچ کریں  گے وہ اللہ کے دیئےمیں سے خرچ کرتے ہیں ۔ پیدائش کے مرحلے آپ غور فر مائیں تو جب ماں کے پیٹ میں بچہ آگیا۔ تو بچے کی نشوونما کے لئے جو وسائل فراہم کئے ہیں۔ وہ سب کے سب اللہ نے بنائے ۔ ماں بھی اللہ نے بنائی اور نو مہنیے تک اللہ تعالیٰ نے ماں کے پیٹ میں پرورش کا جو انتظام کیا ۔اس میں کسی بھی طرح اس بچے کا کوئی بھی عمل دخل نہیں ہے ،تو جب آدمی پیدا ہو ا اس دنیا میں ظاہر ہوا اور جب ظاہر ہوا تو اس بچے نے اپنے لئے کوئی ایک نئی چیز نہیں بنائی ۔جب پیدا ہوا تو زمین تھی ، جب پیدا ہو ا تو ہوا بھی تھی، آسمان بھی تھا اور اسکی غذا ماں کے سینے میں محفوظ رکھی تھی۔ تو اللہ تعالیٰ یہ فر ما رہے ہیں کہ ان کا یقین بن جاتا ہے اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ انسان کے اپنے یقین میں شک کی دراڑیں ڈال دی ہیں۔ اس لئے اس کے ذہن سے یہ بات اوجھل ہو جاتی ہے کہ حیات و ممات کا مالک اللہ ہے۔ اور میں ایک ایسی تخلیق ہوں جو ہر ہر قدم پر محتاج ہو۔ قرآن پاک کو پندرہ سو سال ہو گئے نازل ہو ئے ۔ لوگ پڑھ رہے ہیں ۔تفسیریں کر رہے ہیں ہر زبان میں ترجمے ہو گئے ہیں ۔ لیکن بڑی عجیب بات ہے کہ قرآن کے اندر اللہ تعالیٰ نے جو ذخیرہ محفوظ فر مایا ہے عرفان نفس ،عرفان الہی،عرفان کائنات کاا س سے لوگ بے خبر ہیں ۔کیوں بے خبر ہیں ؟اس لئے بے خبر ہیں کہ انسان سارا کا سارا شک کا بنا ہوا ہے ۔ قرآن نے اس کی تکمیل کر دی ہے کہ جس آدمی میں شک ہو گا وہ قرآن سے استفادہ نہیں ہو سکتا۔ ذالک الکتاب لا ریب فی اس کتاب میں شک اور شبہہ کی گنجائش ہی نہیں ۔جس بندے کے اندر شک اور شبہ نہیں ہو گا اس کے اندر یقین کی طاقتیں پیدا ہو نگی ۔اور جب یقین کی طاقت پیدا ہو گئی تو سب سے پہلے غیب سے مشاہدے میں آئے گا اور جب غیب مشاہدے میں آجائے گااس کا تعلق اللہ سے ہو جائے گا اس کو اس بات کا یقین بھی حاصل ہو جائے گا کہ میری زندگی کا دارومدار ،میری پیدائش ،میری نشوو نما ،میری جوانی ، میرابوڑھاپاسب اللہ نے دیئے،  اللہ ہی چاہتا ہے تو انسان دنیا میں آتے ہیں ۔اب یہ زمین ہے اب دیکھئے اب زلزلہ آیا تھا ۔یہ دہشت ساری دنیا میں پھیل گئی ۔اگر اللہ تعالیٰ نہ چاہے یہ زمین کورکھنا ،تو بارش برس جائے طوفانی بارش تو ساری دنیا ختم ہو جائے گی طوفانی ہوا آجائے تو ساری دنیا ختم ہو جائے گی۔سورج نہ نکلے ،چاند نہ نکلے اس گلوب سے آکسیجن ختم ہو جائے تو انسان کا وجود کیا ہے ؟تو قرآن کا فائدہ ہمیں اس لئے نہیں پہنچ رہا ہے ۔ہمارے اندر وہ یقین کا  patternنہیں بنا جو یقین  patternمیں مشاہدہ بھی کرتا ہواور قیامت تک بھی اگرانسان قرآن کی ہدایت کے خلاف عمل کرتا رہا تو قیامت تک اسے قرآن کی ہدایت نہیں ملے گئی ۔قرآن کی ہدایت کا فارمولا ہی یہ ہے سب سے پہلے انسان کے اندر شک شبہ نہ ہو، انسان کے اندر مشاہدہ  اس نظر کا جاگ اٹھے جوغیب میں بھی دیکھتا ہوں اللہ کا تعلق ،غیب میں بھی دیکھتا ہے اورساتھ ساتھ غیب میں دیکھنے کے ساتھ ساتھ اسکا اللہ کے ساتھ تعلق بھی قائم ہے ۔یہ غیبی دنیا میں بھلے وہ آسمان دیکھتا ہو اور اللہ سے تعلق قائم نہ ہو تو غیب کی  definitionپوری نہیں ہویقین اور غیب کی definition   ہی یہی ہے کہ غیب میں اس کی نظر کام کرتی ہو اور وہ اللہ کو دیکھے ، اس کی قربت حاصل ہو اور ایک تعلق قائم ہو قلبی، اللہ کے ساتھ اور اس بات کو قرآن پاک میں کئی جگہ فر مایا ہے:کہ میں تمہاری رگ جان سے زیادہ قریب ہوں ۔ تم ایک خلاء سے بنا ہوا پتلا تھے ۔میں نے تمہیں خلا ء سے بنا یا پتلا بنایا میں نے اس کے اندر اپنی جان ڈال دی اپنی روح ڈال دی، تخلیق کے وقت میں نے اپنی جان میں سے جان ڈال دی۔اللہ تعالیٰ یہ بھی فر ماتے ہیں : کہ میں تمہارے اندر ہوں تم مجھے دیکھتے کیوں نہیں ؟اللہ تعالیٰ یہ بھی فر ماتے ہیں کہ اللہ کا ذکر اگر قلب کے ساتھ کیا جائے تو قلب متحرک ہو جاتا ہے اس کی دنیا روشن ہو جاتی ہے تو یہ تو یقین کی صورت حال ہے اس کو بیدار کرنا ، متحرک کرنا ہی روحانیت اور تصوف ہے ۔دنیا کا کوئی بھی علم آپ کے اندر مشاہدے کی نظر ہے۔ وہ بیدار نہ ہو تو دنیا کو کوئی بھی علم یقین کاآپ کے اندر وہ  patternنہیں بناتا وہ  pattern  جوزمین سے باہر بھی دیکھتاہے ،زمین کے اوپر بھی دیکھتا ہے، زمین کے اندر بھی دیکھتاہے۔روحانیت ایک ایسا علم ہے کہ جب آدمی اس کو پڑھتا ہے اور اس کی تحصیل کرتا ہے تو سب سے پہلے انسان کے اوپر سے شکوک وشہبات کی تہہ کرش ہوجاتی ہے۔  تو اس کے اندریقین کا patternہے اور جب یقین کا patternبنتا ہے تو ظاہرہے اس یقین سے وہ فرشتے بھی دیکھتا ہے ،عرش بھی دیکھتا ہے، کرسی بھی دیکھتا ہے اور انتہا یہ کہ وہ اللہ کو بھی دیکھتا ہے…واقیموالصلوٰۃ…اس کا اللہ کے ساتھ تعلق قائم ہو تا ہے ۔اگر یقین کی دنیا روشن نہ ہو اس کے لئے اللہ تعالیٰ فر ماتے ہیں :ختم اللہ علی ٰقلوبہم…کہ جب انسان شک کاپرستار ہو جاتا ہے اور شک اس کا احاطہ کر لیتا ہے ۔ تو اللہ تعالیٰ اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیتا ہے تب اس کے قلب ،دل پر مہر لگ جاتی ہے کانوں پر اس کے مہر لگ جاتی ہے ،آنکھوں پر اس کے دبیز پردے ڈال دیئے جاتے ہیں تاکہ اب وہ غیب کی دنیا کا مشاہدہ نہ کر سکے ۔تو آج کے دور میں اگر ماحول دیکھا جائے توجو مسلمانوں کی حالت زار ہے ایسا لگتا ہے کہ مسلمان گئے ختم اللہ علی ٰقلوبہم……روحانیت کا اصل اصول یہ ہے کہ اگر آدمی کے اندر شک ہو گا۔ تو کبھی وہ غیب کی دنیا میں داخل نہیں ہو سکتا ۔شک سے مراد یہ نہیں ہے کہ معاف کیجئے گا کہ اگرآپ میرے گھر میں چوری ہوجائے گی تومجھے احتیاط کے لئے سپاہی رکھ لوں یا تالا لگا دو یا کنڈی لگا دوں ۔یہ شک نہیں ہے اس کو احتیاط کہتے ہیں ۔احتیاط بالکل الگ چیز ہے اور شک بالکل الگ چیز ہے۔قرآ نی فارمولے کے مطابق کوئی آدمی اس وقت تک روحانی نہیں ہو سکتا ۔جب تک اس کے اندر شک ہو ۔اب ما شا اللہ ہم یہاں اتنے سارے لوگ بیٹھے ہو ئے ہیں۔ ہر آدمی اپنے آپ  کوٹٹو لے کے اس کے اندریقین کتنا ہے؟ شک کتنا ہے؟ دیکھے ذراغور کریں ایک منٹ کے لئے ، شک کے علاوہ یقین کا کوئی اشارہ ہی نہیں ہے ۔ہر آدمی شک کی زندگی گزارتا ہے ۔مستقبل کا خوف کیا ہے یہ بھی شک ہے ،نقصان کا خوف یہ بھی شک ہے ،بہت امیدیں یہ بھی شک ہے یہ بات طے ہو گئی۔ آپ لوگوں کہ سمجھ میں آگئی کہ یقین کیا ہے جس آدمی کے اندر شک ہوگا۔وہ روحانیت حاصل نہیں کر سکتا ۔کیوں بھئی یہ بات سمجھ میں آگئی یا اور وضاحت کریں۔جی سب بولیں ایک ساتھ بات یہ سمجھ میں آگئی کہ شک جس آدمی کے اندر ہو گا۔ وہ روحانی آدمی نہیں بنے گا۔ دنیا کا کوئی بھی آدمی بن جائے ۔عالم فاضل بن جائے ،phd بن جائے ۔کچھ بھی بن جائے بہر حال وہ روحانی نہیں بنے گا ۔تمام انبیاء جتنے تشریف لائے انہوں نے اسی بات کی تلقین کی ہے کہ انسان کے اندر اگر یقین نکل جائے ۔یقین نکل جائے تو وہ اللہ کے عرفان سے محروم ہے اور جس انسان کے اندر یقین شامل ہو جاتا ہے اس کی زندگی میں تو وہ اللہ کی صفات کا عارف بن جاتا ہے ۔اب اس مسئلے کو کیسے حل کریں کہ شک سے نکل کے یقین کے pattern میں داخل ہو جائے۔ ہماری زندگی کا یہ مشاہدہ ہے کہ جب ہم کھاتے ہیں ،پیتے ہیں،چلتے ہیں ،پھرتے ہیں ہماری اولاد ہمیں اللہ تعالیٰ عطا فر ماتا ہے ۔یہ سارے کام بحز جسمانی وجود کے نہیں ہیں؟  ۔جسمانی وجود ایک طرح سے ایک mediumکا کام کرتا ہے۔ اس کی مثال دیکھئے کئی بار آپ کو بتا چکا ہوں کہ دنیا کی تاریخ میں ایک بھی مثال ایسی نہیں ہے کہ کسی مردہ ماںنے بچہ جنم دیا ہوا ، پوری تاریخ انسانی میں ایک مثال ایسی نہیں ہے کہ کسی مردہ آدمی نے کھانا کھا یا ہو،پوری تاریخ انسانی میں کوئی ایسی مثال نہیں ہے کہ کسی مردہ جسم نے سوچا ہو ،کچھ لکھا ہو ،کوئی تقریر کی ہو ،پوری انسانی تاریخ میں کوئی بھی ایسی مثال نہیں ملتی کے وہ مردہ آدمی نے کار چلائی ہو ،جہاز چلا یا ہو ،پیدل چلا ہو یعنی زندگی کے جتنی بھی حرکات و سکنات ہیں ۔جب آپ ان کے اوپر غور کریں گے تو آپ کو ایک ہی بات نظر آئے گی کہ جسمانی وجود کی کوئی اپنی ذاتی حرکت نہیں ہے ۔روح جب چاہتی ہے جسم حرکت کرتا ہے۔روح نہیں چاہتی توجسم حرکت نہیں کرتا ۔اب یہ ایسی بات ہے کہ اگر ہم اپنی زندگی کا موازنہ کریں ۔پیدائش سے لیکر مرنے تک کی زندگی کا محاسبہ کریں ،اپنا محاسبہ کریں،احتسا ب کریں تو ہمارے یقین میں یہ بات شامل ہو جائے گی کہ یہ جسمانی وجود کی کوئی حیثیت نہیں ہے ۔حیثیت کس کی ہے ؟روح کی حیثیت ہے ۔جب آپ کے ذہن میں جسمانی وجود کی حیثیت ختم ہو جائے گی اور روحانی وجود کی حیثیت قائم ہو گی ۔تو روح آپ کے سامنے آجائے گی ۔ روح نور کے علاوہ کچھ نہیں ہے اور روح غیب کے علاوہ کچھ نہیں ہے ۔اب مثلاً ہم یہاں اتنے لوگ بیٹھے ہو ئے ہیں۔ تو جب ہم یہ تذکرہ کرتے ہیں کہ ہم زندہ ہیں تو ہم اس بات کو دوہرا رہے ہیں کہ ہمارے اندر جو روح ہے ۔جو غیب ہے ۔اس غیب نے ہمیں زندہ رکھا ہوا ہے ۔اس لئے کہ روح تو ہمیں نظر نہیں آتی اور جب وہ غیب اس جسم سے رشتہ توڑ لیتا ہے تواس جسم کی کوئی اپنی حیثیت برقرار نہیں رہتی ۔اب اس بات کو آپ لوگ غور سے سنیں کہ زندگی میں کوئی ایک حرکت آ پ نے لاکھوں لاکھوں حر کتیں کیں ہیں ۔ کوئی ایک حرکت ایسی تلاش کریں ۔جو حرکت آپ نے روح کے بغیر کی ہو ۔جیسے کہ سونا ، جاگنا ،چلنا ، پھرنا ،کاروبار کرنا ،سوچنا ،عقل مندہو نا ، بیوقوف ہونا ،پاگل ہونا کوئی بات ایسی نکلتی ہے۔ بھئی جتنے لوگ سمجھ گئے ۔وہ ہاں یا نہ کریں تو (دو آدمی نہیں، انکار) ۔۔نہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ بات آپ کو بات سمجھ میں آرہی ہیں۔  آج تقریر کرنے کا میرا moodنہیں تھا طبیعت میری خراب ہے تو میں یہ چاہا رہا ہوں بات پر بات کریں ہم آج آپ ایک دوسرے سے باتیں کریں اور باتوں میں سے کچھ نکالیں۔آپ یہ بتائیں پوری زندگی میں ایک کروڑ حرکات و سکنات ہیں کسی بندے نے اس ایک کروڑ حرکات و سکنات میں ایک حرکت روح کے بغیر کی ہے؟سیدھی سی بات ہے یہ جو جسمانی وجود جو ہے اس کی حیثیت انسان ہے اصل زندگی ،اصل لائف ،اصل حیات ،اصل توانائی ،انرجی اس کا کچھ بھی نام رکھے وہ روح ہے صرف روح ہے ۔جب آپ روح کو تلاش کر لیں گے تو روح غیب ہے ۔اس لئے کہ ہمیں نظر نہیں آرہی ایسا غیب ہے ۔جس کو اگر تلاش کیا جائے تو وہ نظر آجاتا ہے ،  تو جب کوئی بندہ اپنی روح سے وا قف ہو گیا تو کس چیز سے واقف ہو گیا ؟اللہ کی جا ن سے واقف ہو گیا ۔جب اللہ کی جان سے واقف ہو گیا۔ تو اللہ سے واقف ہو گیا۔یہ جتنے اولیاء اکرام تشریف لائے ۔اس دنیا میں جتنے انبیاء تشریف لائے ۔اس دنیا میں ان کا جو فر مان ہے ،ارشاد ہے، تحقیق ہے ،مشن ہے، وہ یہی ہے کہ جسم مادی جسم جو ہے وہ روح کے ساتھ وقف ہے روح مادی جسم سے وقف نہیں ہے ۔یہ بات طے ہو گئی اب یہ سوچنا ہے جب بچہ پیدا ہوا اس وقت تو مادی وجود سے وہ واقف نہیں تھا ۔اسے پتا ہی کچھ نہیں تھا کہ میں کیا ہوں ؟ آہستہ آہستہ وہ مادی وجود سے واقف ہوتا چلا گیا ۔جب بچہ اس دنیا میں آیا تو بلینک تھا۔ سب کہتے ہیں کہ جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو نہ اس کے دماغ میں نہ کوئی صورت ہو تی ہے نہ کوئی نقش ہو تا ہے نہ کوئی تحریر ہو تی ہے نہ کوئی لباس ہوتا ہے  بلینک ہوتاہے ۔ حضور  ﷺ کا بھی ارشاد ہے کہ بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو خالص پیدا ہوتا ہے اور والدین اسے ہندو مسلمان عیسائی وغیرہ کر دیتے ہیں تو بچہ بلینک ہوتا ہے ۔اب اس بلینک یا دماغ کے اس حصے کو اگر آپ شعور کا نام دیں ۔تو اس کا مطلب ہے کہ بچے کے اندر شعور ہو تا ہی نہیں ہے۔ کہ جب وہ بچہ پیدا ہو تا ہے جب وہ بچہ آواز سنتا ہے ،جب وہ آنکھ کھول کے اس ماحول کو دیکھتا ہے ،جب وہ اپنے عزیزوں کو پہچانتا ہے ۔اس وقت اس کے اندر شعور کی طاقتیں بن جاتی ہے۔ اس مرتبہ روحانی ڈائجسٹ میں جو صدائے جرس لکھا گیا ہے ضرور آپ لوگ پڑھیں۔ اس میں اس کی بڑی تفصیل ہے ۔شعور لا شعور کی کہ جب بچہ پیدا ہو تا ہے تو اسے سب سے پہلے اپنی ماں کا احساس ہو تا ہے۔ خوشبو کے ذریعے یعنی ما ں کی خوشبو جو ہے۔ بچے کی شعور کی پہلی کڑی ہے۔ اس کے بعد آذان ہوتی ہے بچے کے کان میں تکبیرہو تی ہے یا جو بھی طریقہ کوئی گھنٹیاں بجا دیتے ہیں وہ شعور کے لئے تو دوسری کڑی ہے۔ جب بچہ بڑا ہو تا رہتا ہے اسی مناسبت سے شعور بڑھتا رہتا ہے۔شعور کے اوپر نقوش گہرے ہوتے رہتے ہیں ۔لیکن وہ جو شعور ہے۔ پیدائش سے پہلے کا عالم ارواح کا وہ آہستہ آہستہ مدھم اور کم ہو جاتا ہے ۔بارہ سال کی عمر میں انسان اس شعور سے واقف ہو جاتا ہے ۔ جس کو دنیاوی شعور کہا جاتا ہے اور جیسے جیسے اس کی عمر بڑھتی ہے۔ اس کا شعور بڑھتا رہتا ہے ۔اور لا شعور گٹھتا رہتا ہے ۔ تو جب انسان با شعور ہو جاتا ہے۔ تو شعور کی عمر ناپی جاتی ہے ۔چالیس سال یعنی اس چالیس سال میں انسان جو ہے ۔ وہ بالغ ہو جاتا ہے اور جو دنیا کا شعور ہے وہ غالب ہو جاتا ہے ۔اب اگر ہمیں شعور کو بالغ شعور،  لا شعور سے مغلوب کرنا ہے ۔تو ہمیں ان تمام مراحل سے گزرنا ہو گا ۔جس طرح ہم نے شعور کو غالب کر کے لاشعور کو گٹھا یا ہے۔ اب اس کا ایک ہی طریقہ ہے طریقہ یہ ہے کہ آپ شعور کو مغلوب کریں۔ جیسے جیسے آپ شعور کو مغلوب کریں گے ۔لاشعور غالب ہو تا چلا جائے گا ۔شعور کی بنیادی بات جو ہے وہ شک ہے لا شعورمیں شک نہیں ہوتا ۔روح میں شک نہیں ہوتا ۔روح تو غیب کو بھی دیکھتی ہے اور ظاہر کو بھی دیکھتی ہے ۔ظاہر کو جب روح دیکھتی ہے تو اس جسم کو میڈیم بنا لیتی ہے ۔اور جب غیب کو دیکھتی ہے تو براہ راست اور اس کی جو پریکٹس ہے مسلسل اورمتواتر ہے۔  ہر انسان اس سے گزرتا ہے ۔ مثلا ہم سو جاتے ہیں سونے کے بعد ہماری آنکھیں بھی بند ہو تی ہے ،ہمارا جسم بھی ساکت ہو تا ہے ۔لیکن ہم اپنے قالب سے نکلتے ہیں مکے پہنچ گئے یا مدینے پہنچ گئے، کبھی لندن پہنچ گئے، کبھی کہیں پہنچ گئے ،کبھی آسمان پر پہنچ گئے اور یہ پہنچناوہاں کے جو اعمال و اشکال جو ہم کرتے ہیں ایسا نہیں ہے۔ کہ وہ ایسی بے کار بات ہے اس کا مضبوط تاثر ہو تا ہے ۔ روحانی علوم کا منشاء صرف اتنا ہے کہ انسان جس طرح پیدا ہو نے کے بعد آہستہ آہستہ شعو ر کوغالب کر لیتا ہے اور لاشعور کو مغلوب کر لیتا ہے اسی طرح پلٹ کر وہ اپنے ماضی میں جائے اور شعور کومغلوب کرے اور لا شعور کو غالب کرلیں ۔شعور کو مغلوب کرنے کا  منشاء یہ ہر گز نہیں ہے کہ وہ دنیا سے اس کی توجہ ہٹ جائے ۔ توجہ نہیں ہٹے گی ۔اس لئے کہ لا شعور کے تقاضے ہی تو شعورکے اندر منتقل ہو کر شعور بن رہے ہیں ۔پتا ہے پھر وہی بات ہے کے آپ کھا نا کھا ئے۔ اگر آپ کے اندر روح نہ ہو تو آپ کھا نا کھا سکتے ہیں ؟آپ کپڑے پہنتے ہیں اگر آپ کے اندر روح نہ تو کیا آپ کپڑے پہن سکتے ہیں ؟ تو روح کے تقاضے کی تکمیل کر رہا ہے شعور،لیکن وہ اس طرح تکمیل کر رہا ہے کہ وہ روح کو نہیں دیکھ رہا ۔لیکن آواز تو وہ سن رہا ہے لیکن اس بات کا علم نہیں کہ آواز آ کہاں سے رہی ہے ۔یہ مراقبے کے ذریعے ، ریاضت کے ذریعے انسان کے اندر اتنی سکت پیدا ہو جاتی ہے۔ کہ وہ کچھ عرصے کے بعد اس قابل ہو جاتا ہے کہ اس کا شعور مغلوب ہو جاتا ہے اور لا شعور غالب ہو جا تا ہے ۔جب لا شعور غالب ہو جاتا ہے کیونکہ لا شعور روح ہے تو اس کے لئے غیب کی دنیا میں دیکھنا اور غیب کی دنیا سے مانوس ہو نا ،غیب کی دنیا سے تعلق قائم کرنا ۔نہایت آسان عمل بن جاتا ہے ۔اور اس کا طریقہ کار اللہ کے پیغمبروں نے بتایا ہے تفکر ہے، سوچ وبچار ہے اور یکسوئی کے ساتھ کسی ایک نقطے پر ذہن کو مر کوز کرنا ہے ۔بہت آسان عمل ہے اور اللہ تعالیٰ ہم سب کو تو فیق عطا فر مائے۔ اللہ تعالیٰ آپ سب کو خوش رکھے ۔آج کل ذرامیری طبیعت ایسی ہو رہی ہے ۔دل تو میرا بہت چاہتا ہے لیکن میں تھک بھی جاتا ہوں میرا خیال ہے آج کی مجلس میں دیر بھی بہت ہو گئی ہے ۔ بارہ بج گئے ہیں۔ اس مجلس کو اختتام کرتے ہیں اور یہ بات آپ کے ذہن میں ذہن نشین کرانا چاہتا ہوں کہ آپ جسم کا اور روح کا رشتہ ضرور تلاش کریں اور یہ تلاش کریں کہ جسمانی وجود کاکوئی عمل اپنے جسم کا ذاتی ہے۔ تو اگر ایک کروڑ عمل بھی آپ ڈھوندے گے تلاش کریں گے تو آپ کو نہیں ملے گا کہ ایک بھی حرکت ایسی ہے جو جسمانی وجود جو ہے کر کے دیکھا سکے ۔روح کو تلاش کرنا جیسے میں نے بتا یا ہے مرا قبہ کرنا ۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو حضور قلندر بابا اولیاء کی تعلیمات سے آگاہ کریں ۔سیدنا حضور علیہ الصلوٰ ۃ والسلام کے نقش قدم پر چلائے۔ ہماری خطاؤں کو ہماری لعزشوں کو معاف فر مائے ۔اللہ تعالیٰ ہماری اولاد کو سعادت مند بنائے اور اللہ تعالیٰ ہمیں ہمارے حضور کا عرفان نصیب فر مائے ۔شکریہ

 

 

 

Topics


Khutbat Khwaja Shamsuddin Azeemi 01

Khwaja Shamsuddin Azeemi


اللہ کا شکر ہے پہلی جلد جس میں 73 تقاریر کو شامل کیا گیا ہے۔حاضر خدمت ہے۔ بہت سی جگہ ابھی بھی غلطیاں ہونے کا امکان ہے۔ برائے مہربانی ان سے ہمیں مطلع فرمائے۔اللہ تعالی میرے مرشد کو اللہ کے حضور عظیم ترین بلندیوں سے سرفراز کریں،  اللہ آپ کو اپنی ان نعمتوں سے نوازے جن سے اس سے پہلے کسی کو نہ نوازہ ہو، اپنی انتہائی قربتیں عطاکریں۔ ہمیں آپ کے مشن کا حصہ بنائے۔ ناسوت، اعراف، حشر نشر، جنت دوزخ، ابد اور ابد الاباد تک مرشد کا ساتھ نصیب فرمائے۔آمین

مرشد کا داس