Topics
بسم
اللہ الرحمٰن الرحیم
تلاوت
سورۃ …الحمد اللہ رب العالمین …قل یا یھا …
معزز
حاضرین اساتذہ کرام محترم ڈاکٹر صاحبان السلام و علیکم تصوف کے موضوع پر کچھ بیان
کرنے سے پہلے اگر تصوف کی تعریف بیان کر دی جا ئے تو میرے خیال میں زیادہ مناسب
رہے گا اللہ تعالیٰ نے یہ جو کا ئنات بنائی اس کا ئنات کی بنیاد کا جو منشاءاللہ
تعالیٰ نے بیان فرمایا وہ یہ ہے کہ میں نے اپنے بندوں کو اس لئے تخلیق کیا کہ بندے
میری عبا دت کر یں۔ عبادت سے مراد یہ ہے کہ بندے میرے سے رابطہ قائم کر یں تعلق
قائم کریں۔ عبادت کا تعلق یہ ہے کہ بندے مجھے پہچا نے بحیثیت خالق کے، مخلو ق مجھے
پہچانے دو سری بات یہ واضع طور پر بیان کی گئی ہے کہ یہ دنیا جس دنیا میں ہم رہتے
ہیں یہ عارضی قیام گاہ ہے یا تکلیف دہ زندگی گزارنے کا ایک تسلسل ہے ۔جو بھی اس
دنیامیں آتاہے با لاخر اسے یہاں سے چلے جا نا ہے کہاں چلے جا نا ہے اس کے بارے
میں ہزاروں سا ل سے ہم نے اپنے بزرگوں سے سنا ہے آدمی مر نے کے بعد دو سری دنیا
میں چلے جا تا ہے اور وہ دو سری دنیا آخرت ہے اللہ تعالیٰ نے کسی سورۃ میں یہ بھی
فرمایا ہے کہ پیدا کرنے والا میں ہوں پیدا بھی میں کر تا ہے ہوں اور رب العالمین
بھی ہو ں رب العالمین کا مطلب یہ ہے کہ میں پیدا ہونے کے بعد جو زندگی کے وسائل کی
ضرورت ہے اس کا بھی انتظام میں کر تا ہوں اور یہ وسائل کا جو انتظام ہے اس میں کو
ئی شک نہیں آدمی مسلمان ہو آدمی کسی مذہب سے تعلق رکھتا ہو یا وہ خدا کا مقرب
ہو۔ رب العالمین۔۔میں وسائل پیداکر نے والاہوں اور زندگی کی جو بھی آپ کی ضروریات
ہیں ان کا کفیل ہوں اس کی مثال یہ ہے کہ ہر شخص وہ بو ڑھا ہو جوان ہو بچہ ہو ،اس
بات سے واقف ہے کہ جب وہ پیداہو تا ہے تو پیدا ئش سے پہلے ہی نو مہینے تک اللہ
تعالیٰ اس کو رزق فراہم کرتے ہیں اب رزق کی فراہمی کا جو انتظام ہے وہ یہ ہے کہ
ماں کو اللہ تعالیٰ نے وسیلہ بنایا، پیدائش کے بعدبھی انسان دیکھتا ہے کہ اللہ
تعالیٰ نے ماں کو بچوں کے لئے وسیلہ بنایا اور ماں کے سینے کو بچوں کا دستر خوان
بنادیا بچہ رزق حاصل کر تا ہے براہ راست ماں سے تو یہ ایسی صورت حال ہے نو مہینے
ماں کے پیٹ میں جو رزق ملتا ہے اور پیدا ئش کے بعد ماں سے جو ہمیں دودھ فراہم ہو
تا ہے اس میں ہماری کسی محنت کو، کسی عقل کو یا کسی بھی قسم کی فہم یا تدبیر کا کو
ئی عمل داخل نہیں ہو تا پھر ایک دور آتا ہے بچہ یا ہم دودھ پینے کے زمانے سے
نکلتا ہے پھر اس کی تعلیم و تربیت کا دور ہوتا ہے۔ تعلیم و تر بیت کے لئے اس کے
وسائل کا ہونا مثلا ً اسکول ہو نا ،کا لج ہو نا ، اساتذہ کا ہونا،والدین کا تعلیم
وتربیت کے لئے محنت اور جدو جہد کر نا اپنی اولاد کے لئے، اس میں بھی بچے کا کو ئی
ذاتی عمل داخل یا محنت نہیں ہوتی وہ بھی اللہ تعالیٰ کے تحت خصوصی نظام کے تحت بچہ
تعلیم بھی حاصل کر تاہے تدبیر بھی حاصل کر تا ہے اور ایک وقت ایسا آجا تا ہے کہ
وہ اپنے پیروں پر کھڑا ہو جا تا ہے لیکن جب بچہ اپنے پیروں پر کھڑا ہو جا تا ہے اس
وقت بھی ہم خالق کا ئنات سے کسی بھی طرح اپنا رشتہ توڑ نہیں سکتے ،جڑا ہوا دیکھتے
ہیں مثلاً اگر اللہ تعالیٰ دماغ نہ دے تو ہم کو ئی کام نہیں کرسکتے مثلاًاب اللہ
تعالیٰ ہاتھ پیر کو کچھ کر دے، فالج گر جائے تب بھی ہم کچھ نہیں کرسکتے ،اللہ
تعالیٰ معذور کر کے تب بھی ہم کچھ نہیں کر سکتے، اللہ تعالیٰ اندھا کر دے تب بھی
ہم کچھ نہیں کرسکتے تو اب ہم کہہ تو رہے
ہیں اپنے پیروں پر کھڑے ہو کر محنت مزدوری کر تے ہیں ۔ہم اپنی رو زی کما رہے ہیں
لیکن اس رو زی میں بھی اللہ تعالیٰ کی جو مد د ہے برا ہ را ست ہماری شامل حال ہے
ہمارا ذہن ہے ہمارا دماغ ہے ہمارے ہاتھ پیر ہیں محنت مزدو ری کرنے کی صلاحیت ہے تو
جب اللہ تعالیٰ نے یہ فرما یا کہ میں نے کائنات کو تخلیق کیا اور کائنات کو تخلیق
کر نے کے بعد کا ئنات کے جو افراد ہیں ان کو زندگی دینے کے لئے میں نے وسائل بھی
بنا ئے اور تھوڑی سی اس کی وضاحت ہو جا ئے مثلا ً یہ ہوا نہ ہو،انسان زندہ نہیں
رہے سکتا اب ہوا کہ بنانے میں کسی انسان کا کو ئی داخل نہیں ہے ، آکسیجن نہ
ہوانسان زندہ نہیں رہے سکتا اب آکسیجن کے بنا نے میں کسی انسان کا کوئی داخل نہیں
ہے ، دل اب اللہ تعالیٰ نے دل بنایا اب دل کا ایک سسٹم ہے، پمپنگ سسٹم ہے دل کا،
اگر دل بند ہوجائے تو انسان کچھ بھی نہیں کرسکتا اب اللہ تعالیٰ کا جو منشاء ہے وہ
یہ ہے کہ میں نے کا ئنات کو تخلیق کیا وما خلقت
الجن والإنس إلا ليعبدون …میں نے انسانوں کو پیدا
کیا اس لئے کہ وہ میری عبا دت کر یں عبادت سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے قربت
حاصل کر یں، اللہ تعالیٰ کو جانے، اللہ
تعالیٰ کو پہچا نے، اللہ سے قربت حاصل کر یں اور بحیثیت ہما را خالق اللہ ہے اب اس
کو اللہ تعالیٰ نے پھیلا نے کے لئے ،قائم کر نے کے لئے ایک نظام بنا نے کے لئے ایک
نیٹ ورک بنانے کے لئے پیغمبروں کا سلسلہ جا ری کیا حضرت آدم علیہ السلام سے حضرت
محمد رسول اللہ ﷺ تک بتا یا جا تا ہے
روایتاً ایک لاکھ چو بیس ہزار پیغمبر آئے ایک لا کھ چو بیس ہزار پیغمبرو ں نے جو
لوگوں کا علم سکھا یا اس کی جو تعریف
ہمارے سامنے ہے وہ یہ ہے کہ ایک علم کا نا م ہم نے شریعت رکھا اور دوسرے علم کا
نام ہم نے طریقت رکھا شریعت سے مرا د یہ ہے کہ ہمیں کس طرح زندگی گزار نی ہے ۔
مثلا ً ہمارا اخلاق اچھا ہو نا چاہئے مثلا ً یہ ہم کسی کی حق تلفی نہ کر یں ہم کسی
کا دل آزاری نہ کر یں ہمارے کرا دار کا ایک معیار ہو کہ نہ ہم لوگوں کو ستائیں نہ
لوگ ہمیں ستا ئیں اور ساتھ ساتھ یہ کہ ہمیں اس بات کا ادراک ہو کہ ہم مخلو ق ہیں
کسی نے ہمیں یہاں بھیجا ہے اور ہم یہاں رہنا ہے اور کچھ دن کے بعد واپس جا نا ہے مُسْتَقَرٌّ
وَمَتَاعٌ إِلَى حِينٍ …کہ ہم نے تمہیں یہاں
کچھ دونوں کے لئے بھیجا ہے کچھ واقفے کے لئے بھیجا ہے اس وقفے کو آپ کو پیغمبروں
کی تعلیمات کے مطا بق پو را کر نا ہے۔ شریعت ایک اصول ہے ، ایک ضابطہ ہے ، ایک قاعدہ ہے کہ انسان معاشرتی
اعتبار سے کس قسم کا ماحول کریٹ کر ے اسے کیا کر نا ہے اگر اسے یہی کر نا ہے کہ
اچھا ئی پھیلا نی ہے برا ئیوں کو رو کنا ہے خواہشات اور منکرا ت سے بچنا ہے اب
شریعت کے ساتھ ساتھ دو سرا جو کام ہے یعنی اصول ضوابط اور قواعد کے ساتھ ساتھ
زندگی کے گزارنے کے ساتھ ساتھ اس کا جو نتیجہ حاصل کر نا ہے اسکا نتیجہ یہ حاصل کر نا ہے کہ ہمیں اللہ کو
پہچاننا ہے ، وما خلقت
الجن والإنس إلا ليعبدون …اس لئے انسان اور جنات پیدا کئے گئے کہ اللہ کو پہچا نا جا
ئے جب اللہ کو پہچا نے کا سلسلہ جب ہم شروع کر تے یا جوڑتے ہیں تو اللہ کو پہچانے
کا ذریعہ ایک تو یہ ایسا کو ئی طریقہ کار ہوں جو ہمیں اللہ تک پہنچا ئے ظاہر ہے
اللہ غیب میں ہے غیب میں داخل ہو ئے بغیر آدمی اللہ کو نہیں پہچان سکتا تو اب غیب
کے را ستے کا تعین ہے ۔ غیب کے راستے پر
جو منزلیں ہیں ان منزلوں سے گزرنے کا جو عمل تسلسل ہے اس کا نام تصوف ہے ۔ بالکل
ایسی بات جیسے ایک ڈاکٹر ہے ڈاکٹر اگر ایک تسلسل سے میڈیکل سائنس سے نا گزے تو وہ
ڈاکٹر نہیں ہوتا ایسے ایک انجنیئر ہے اگر اگر وہ انجینئر نگ کی کتابیں نہ پڑھے تو نجینئر
نہیں بنتا ایسی صورت سے ایک سائنٹسٹ ہے اگر اس کے اندر ریسرچ نہ ہو اور ریسرچ کر
نے کی صلاحیت کو استعمال نہ کر ے مسلسل ارتقاء سے ذہن کے ساتھ ایک نقطے پر توجہ مر
کوز کر کے اس ایٹم کی کھو ج نہ لگا ئے تو وہ اس ایٹم کو توڑ نہیں سکتا تو یہ را
ستے ہیں، بہت سارے دروازے ہیں، توتصوف کی تعریف میرے نزدیک یہ ہے کہ غیب کی
دنیا میں سفر کرنے کا جو طریقہ کار ہے اس کا نام تصوف ہے اور غیب کی دنیا میں
آدمی داخل جب ہو گا جب اللہ اور اللہ کے پیغمبر علیہ الصلوٰ ۃ والسلام اور رسول
اللہ ﷺ کی تعلیمات پر عمل کیا جا ئے گا با
لکل اسی طرح جس طرح مثلا ً ڈاکٹر پڑھنے کے بھی ایک آداب ہیں انجینئرنگ پڑھنے کے
بھی آداب ہیں ٹیچنگ کے بھی ایک آداب ہیں ۔تو اسی طرح غیب کی دنیا میں داخل ہونے
کے بھی آداب ہیں۔ اب صورت حال یہ ہے کہ ایک بہت بڑا طبقہ یہ کہتا ہے غیب کی دنیا
میں ہم داخل نہیں ہوسکتے غیب تو ہم سیکھ ہی نہیں سکتے جو اولیا ء اللہ ہے یہ کہتے
ہیں نہیں سب سے زیادہ آسان عمل ہی غیب کی دنیا میں جانے کاہے اس لئے کہ جب ہم اس
دنیا میں نہیں آئے تھے اس وقت ہم غیب میں تھے یعنی ہماری رو حیں غیب میں تھی اور
اس وقت جب ہم اس دنیا سے جائیں گے تب بھی غیب میں جا ئیں گے پیدا ہونے سے پہلے بھی
ہم غیب میں تھے ہماری رو حیں غیب میں تھیں اور مر نے کے بعد بھی ہم غیب میں چلے گے
پھر اور مزید اس کی تشریح کی جا ئے مثلاً میں ایک بچہ تھا کسی زمانے میں ایک دن کا
بچہ تھا سب بھی ایک دن کے بچے ہو نگے جب میں دو دن کاا ہوا تو میرا ایک دن غیب میں
چلا گیا میں اسے دیکھو نہ دیکھولیکن میر ا ایک دن غیب میں چلا گیا جب میں با رہ سال
کا ہوا تو میرے بارہ سال غیب میں چلے گئے اسی صورت سے آج میں بوڑھا آدمی ہوں
میرالڑکپن ، میرا بچپن ، میری جوانی سب
غیب میں چلی گئی ۔ مجھے یاد ہے میری اپنی
جوانی، مجھے یا د ہے بچپن میں بھی یاد ہے لڑکپن میں بھی یاد ہے لیکن وہ غیب میں
چلی گئی اور ایک وقت ایسا آئے گا یہ بوڑھاپا بھی غیب میں چلے جا ئے گا ۔اسی کانام
ہم موت رکھتے ہیں اللہ تعالیٰ نے ہمیں پیغمبروں کے ذریعے یہ بھی پیغام پہنچا یا ہے
کہ یہاں جو چیز دنیا میں پید اہوئی اس کو فنا ضرور ہو ناہے کل نفس ذائقہ الموت …اس
نے موت کاجو سفر ہے وہ ضرور کرنا ہے یعنی ہر چیز جو یہاں موجود ہے کسی نہ کسی وقت
اس کے اوپر فنا آئے گی فنا سے مراد یہ ہے اس ظاہری دنیا سے وہ غیب ہوجا ئے گا ۔
تو جس طرح دو سرے علوم سیکھنے کے لئے اسکول ہیں اور ان اسکول میں کو رس اور نصاب
پڑھا ئے جاتے ہیں تو اسی طرح اللہ کا عرفان حاصل کر نے کے لئے، اللہ کی مخفی دنیا،
فرشتو ں کی دنیا ،جنات کی دنیا ،آسمانوں کی د نیا ، کہکشانی نظام سورج چاند
،ستارے ان سب کو دیکھنے کے لئے بھی کو رس اور نصاب ہے ان کورس کو اور نصاب کوتصوف
کہا جاتا ہے۔ لیکن آداب کیا ہیں آداب یہ
ہیں کورس وہی بندہ پڑ ھا سکتا ہے جس کے اوپر حضور پاکﷺ کی تعلیمات پر عمل کر نے کا
جذبہ ہو ،شوق ہومثلاً نماز ہے ،رو زہ ہے ،حج ہے ،زکوٰۃ ہے ابھی ڈاکٹر صاحب نے
فرمایا خوش اخلاقی ہے ،دو سروں کا دوکھ درد بٹنا ہے ،اللہ کی مخلوق کی خدمت کرنی
ہے اب دیکھئے آپ غور فرما ئیں میں نے اپنے مر شد کریم حضور قلندرباباااولیا ء ؒ
میرے مرشد ہیں تو الحمد اللہ میں نے ان کی خدمت میں شب روز سولہ سال گزارے ہیں پھر
ایک دفعہ ان سے سوال کیا کہ صاحب ہم اللہ میاں سے کیسے مل سکتے ہیں ؟میں نے پو چھا
کیا مل سکتے ہیں تو اس پر انہوں نے فرمایا کہ اللہ میاں نے تمہیں پیدا ہی اس لئے
کیا ہے کہ اللہ چا ہتا ہے تم اللہ سے ملو، پیدا ہی اس لئے کیا ہے ۔عالم ارواح سے
عالم ظاہرمیں اس لئے بھیجا گیا ہے تا کہ تم اپنا ارادہ اختیار استعمال کرکے ان
راستوں پر چلو جو ایک لا کھ چو بیس ہزار پیغمبر نے نشاندہی کی ہے اور جس پر رسول
اللہ ﷺ نے خود عمل کر کے دیکھا یا ہے ان
را ستوں پر چلو ۔تو جب ان راستوں پر چلو گے تو ہر پیغمبر کی تعلیمات کا نچوڑ ہی یہ
کہ تمہارا اللہ سے را بطہ قائم ہوجا ئے کہ تم اللہ سے ملوتو کیسے ملو پھر انہوں نے
مجھ سے سوال کیا آپ یہ بتا ئیں کہ آپ کسی سے دو ستی کر نا چا ہتے ہیں تو آپ کیا
کر یں گے میں نے کہا صاحب اس کے ساتھ اخلاق سے پیش آئیں گے اس کو تحفے دیں گے اس
کی بات سنیں گے اس کو ووقت دیں گے تو انہوںنے کہا اگر بھئی تم اس کو تحفے تحائف
نہیں دو گے وقت نہیں دو گے پھر کیا ہو گا، پھر کیا ہوگا پھر میں نے کہا دو ستی
نہیں رہے گی خیر وہ دو چار سوال تھے میں اس کا جواب نہیں دے سکا تو انہوں نے خود
ہی فرما یا دیکھو دوستی اگر آپ کوکسی سے کر نی ہے تو اس کی جو دلچسپیاں ہیں
ہو، انہیں اختیار کرو اب ایک نماز ی سے
آپ دو ستی کرنا چا ہتے ہیں تو آپ باقاعدگی سے مسجد میں نماز پڑھنے جا ئیں دعا
سلام کریں پکی دو ستی ہو جا ئے گی ۔ایک شرا بی سے کو ئی بندہ دو ستی کر تا ہے تو
ظاہر ہے وہ اس کے ساتھ جو کچھ وہ کر رہا ہے اگر وہ کر ے گا تو دو ستی ہو جا ئے گی
اگر ایک سنیما دیکھنے والے کے ساتھ سنیما جا کر دیکھ لیں دو ستی ہو جا ئے گی مطلب
یہ ہے کہ جو اس کی دلچسپیاں ہیں جو اس کی سوچیں ہے اگر وہ آپ اختیار کر لیں گے تو
اس سے دو ستی کرنے میں آسانی پیدا ہو جا ئے گی تو انہوں نے کہااچھا یہ بتا ؤ اللہ
میاں کیا کر تے ہیں تو میں نے کہا اللہ میاں پیدا کر تے ہیں اللہ میاں وسائل دیتے
ہیں ،اللہ میاں حفاظت کرتے ہیں ،اللہ میاں دعائیں قبول کر تے ہیں اور اللہ تعالیٰ
پر یشانیوں سے نجات دیتے ہیں ،تو انہوں نے کہایہ سب صحیح ہے، ایک لفظ میں بیان کرو اللہ تعالیٰ کیا کر تے
ہیں اس کا بھی میں جواب نہیں دے سکا تو انہوں نے فرما یا اللہ تعالیٰ اپنی مخلو ق
کی خدمت کر تے ہیںاب دیکھا نا، پا نی با رش بر سانامخلوق کی خدمت ہے ،ہوا مخلوق کی
خدمت ہے ،آکسیجن مخلوق کی خدمت ہے ،ماں کے پیٹ میں رو زی فراہم کر نا مخلوق کی
خدمت ہے ، حفا ظت کر نا مخلوق کی خدمت ہے ، بس انہوں نے کہا ٹھیک ہے اگر اللہ سے
تمہیں دو ستی کر نی ہے تو اللہ مخلوق کی خدمت کر تا ہے آپ بھی مخلوق کی خدمت کر
نا شروع کر دیں ، اللہ سے دو ستی کے لئے تو تصوف کی جو بنیاد ہے وہ یہی ہے کہ
انسان کے اندر وہی آداب وہ خصلتیں وہ صفات پیدا ہوجا ئیں جو اللہ تعالیٰ کی صفات
ہیں دیکھے اللہ تعالیٰ کی صفات پیدا ہو نے کا منشاء ہرگز یہ نہیں ہے نعوذ با اللہ یہ نہیں ہے کہ کو
ئی آدمی اللہ تعالیٰ کی صفات حاصل کر لے گا تو نعوذ با اللہ وہ خود خدا بن جا ئے
گا نعوذ با اللہ ایسا نہیں ہے ۔اللہ تعالی ٰرحیم ہے آپ بھی رحم کر سکتے ہیں اللہ
تعالیٰ سخی ہے آپ بھی سخی بن سکتے ہیں اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کی خدمت کرتے ہیں
آپ بھی کرسکتے ہیں سب کر تے ہیں جس کو جو مو قع ملتا ہے خصوصاً آپ کا جو ڈاکٹری
کا جو علاج مالج کا حکیم ڈاکٹر ہو کو ئی بھی شعبہ وہ علاج کا تو ا س میں تو بہت
زیادہ خدمت کے موقع ملتے ہیں اور لوگ کر تے ہیں اب ڈاکٹر لوگ میں نے دیکھا ہے کیمپ
لگاتے ہیں جو بھی جس شعبے کا ہے اب ایک مخلوق کی خدمت ہے تو سب سے مراد یہ ہے کہ
اللہ سے بندے کا تعلق قائم ہو جا ئے اور بندے کے اندر وہ صفات پیدا ہوجائیں جو اللہ
کی اپنی صفات ہیں اور جن صفات کے لئے اللہ تعالیٰ یہ پسند کر تا ہے کہ میری مخلوق
بھی ان صفات پر عمل کرے ۔تو ہمارے پاس جیسے میں نے ابھی عرض کیا کہ بھئی ایک تو
پاس شریعت ہے ، شریعت سے مراد یہ ہے کہ
رسول اللہ ﷺ نے تمہارے ساتھ جو کچھ کیا وہ
ہمارے لئے سنت ہے ، قرآن پاک میں جو بیان کیا وہ ہمارے لئے شریعت ہے ،حدیث میں جو
بیان ہوا وہ ہمارے لئے شریعت ہے مثلا ً اللہ تعالیٰ نے فرمایا غصہ نہ کرو ، جو لوگ
غصہ نہیں کرتے اور لوگوں کو معاف کر دیتے ہیں اللہ ایسے احسان کر نے والے بندوں سے
محبت کر تا ہے ۔یعنی جو بندے غصہ نہیں کر تے ان سے اللہ محبت کر تا ہے اب حضور
پاک ﷺ کی سیرت طیبہ کا جب ہم مطا لعہ کر
تے ہیں تو ہمیں وہاں عفو درگزر ہوتا ہے ۔ مثلا ہندہ نے امیر حمزہ کا کلیجہ چبا یا
کان ناک کاٹ کے رسی میں پیرویا گلے میں ڈالا۔اس سے بڑی بر بریت اور ظلم اورو حشی
پن دنیا کی تا ریخ میں کہی نہیں ملتا ۔لیکن جب وہ حضور پاکﷺ کی خدمت میں حاضرہو ئی
اس نے اسلام قبول کیا حضور نے اسے معاف کر دیا۔
تو اللہ تعالیٰ کہتے ہیں غصہ نہ کر و غصہ کر نے والے لوگ جو ہیں وہ خود
مصیبت میں، پر یشانی میں، مبتلا اب دیکھئے ایک آدمی غصہ کر تا ہے اللہ میاں کو
کیا اس سے نقصان ہو گا بھئی اللہ میاں کو کیا نقصان اس سے پہنچے گا یا اللہ میاں کوفا
ئدہ کیا پہنچے گا لیکن جو غصہ کر نے والا بندہ ہے اگر وہ مسلسل غصہ کر تا رہے تو
یہ بات یقینی بن سکتی ہے کہ وہ ہائی بلڈ پر یشر کا مر یض بن سکتا ہے یہ بات یقینی
ہو سکتی ہے کہ اس کا اسٹومیک سسٹم سارا خراب ہو جائے گا یہ بات بھی ہو سکتی ہے کہ
اس کے اندر ایسی جھنجھناہٹ پیدا ہو جا ئے کہ لوگ اس سے محبت کرنا چھوڑ دیں لیکن
ایک آدمی غصہ نہیں کر تا لوگ اُسے ستا تے ہیں پر یشان کر تے ہیں وہ اللہ کے لئے
اسے معاف کر دیتا ہے رسول اللہ ﷺ کی سیرت
طیبہ کو سامنے رکھتے ہو ئے اس کو معاف کر دیتا ہے ۔یقینا وہ بندہ دنیا میں عزیز ہو
جائے گا ۔جیسے کہ آپ پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام دنیا میں ہر پل عزیز ہو ئے ۔تو
تصوف کو ئی چیز نہیں ہے کو ئی ایسی بات نہیں ہے کہ بھئی تصوف سمجھنے میں آنے والی
چیز نہیں ہے تصوف سے مراد یہ ہے کہ حضور پاک
ﷺ کے دئیے ہو ئے پرو گرام پر عمل کر کے حضور کی سیرت طیبہ کو پڑھ کر ، سمجھ
کر، ذہن نشین کرکے ان کی طرز فکر کے مطابق زندگی گزار کر ایسے راستے پر چلنا جس
راستے پر چل کرہمیں اللہ کا عرفان حاصل ہو جا ئے یہ تصوف ہے اس کے لئے بہت بڑی بڑی
کتا بیں لکھی گئی اولیا ء اللہ بھی سامنے آئے لیکن جب ہم ولی اللہ جیسے خواجہ
غریب نواز ہیں ، حضرت داتا گنج بخش ہیں یہاں لال شہباز قلندر ہیں،شاہ عبد الطیف
بھٹائی ہیں ، امام بری صاحب ہیں پنڈی میں،
میاں امیر صاحب ہیں بابا فرید گنج شکر ہیں ہم جب ان کی زندگی کا مطالعہ
کرتے ہیں تو ہمیں ان کی زندگی میں قرآن کی جھلک ملتی ہے اور سیدنا حضور علیہ
الصلوٰ ۃ والسلام کی جو سیرت ہے اس کا عکس بھی ہمیں نظر آتا ہے او ر اس عکس کی بد
ولت ہمیں رسول اللہﷺ کی تعمیل ارشاد کے مطابق جب ان لوگوں نے اپنی ز ندگیاں گزاری
تو انہیں غیب کی دنیا میں داخل ہو نے کا را ستہ مل گیا اور وہ خدا گزیدہ ہو گئے ۔
دو سری جو تصوف ہمیں جو بات بتا تا ہے وہ بڑی اہم ہے اور اس کو عرض کر نا ضروری ہے
اور وہ یہ ہے کہ جو بھی انسان یہاں آتا ہے وہ چلا جا تا ہے اب ایک بات بہت زیادہ
غور طلب ہے جو ہمیں تصوف بتا تا ہے یہ جو مادی جسم ہے ہمارا یہ با اختیار تو ہے
لیکن یہ ایک حد تک بااختیار ہے لا محدو د اختیارات ایسے حاصل نہیں ہیں مثلا ً کو
ئی آدمی پیاس پر کنٹرول تو حاصل کر سکتا ہے لیکن مستقل پیا سا نہیں رہے سکتا کو
ئی آدمی بھوک پر کنٹرول حاصل کر کے چلئے ایک روٹی کھا لے گا لیکن یہ نہیں کہ وہ
کھا نا ہی چھوڑ دے اور آزاد ہو جائے کھا نے سے، کوئی آدمی نیند سے نہیں آزاد ہو
سکتا کو ئی آدمی بیداری سے نہیں آزاد ہو سکتا۔
دوسری بات یہ ہے کہ یہ جو ہمارا جسم ہے مادی جسم فزیکل باڈی جسم کہتے ہیں
آپ لوگ تو اس کے بارے میں بہت کچھ جا نتے ہیں تو اب تو سائنس سے اتنی زیادہ ترقی
کر لی ہے کہ سب کچھ ہو نے کے بعد ایک ڈاکٹر آپریشن کر تا ہے بڑا ما ہر ہے لیکن
آپریشن کے دوران وہ بندہ مر جا تا ہے دل بھی موجو د ہے ڈاکٹر صاحب بھی موجود ہے
اس کی فزیکل باڈی کی ہرچیز موجود ہے لیکن آپریشن نہیں ہوگا، اب پھر اس بندے میں
روح کسی صورت سے آجائے پھر آپریشن کامیاب ہوجا ئے گا تو فزیکل باڈی اس وقت تک
فزیکل باڈی ہے جب تک اس کے اندر روح ہے اگر روح اس جسم سے رشتہ توڑ لے پھر اس کی
کو ئی حیثیت نہیں ہے میرے مرشد کر یم حضور قلند ر بابااولیاء ؒ نے ایک کتاب لکھی
لوح قلم اس میں جب وہ شروع کر تے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ یہ کتاب انسانوں کے لئے
لکھی جارہی ہے انسان کی ساخت ایسی ہے کہ اس میں مختلف طبعیتیں ہو تی ہیں کو ئی نر
م مزاج ہوتا ہے ،کوئی گرم مزا ج ہوتا ہے ، کوئی حساس ہوتا ہے ،کو ئی حساس نہیں
ہوتا لیکن کو ئی بھی آدمی جو با ہو ش حواس ہے ایسے لباس پہنے کی ضرورت پیش آتی
ہے قمیض شلوار پہنے، کوٹ پتلون پہنیں لباس کی ضرورت پیش آتی ہے تو وہ مثال بیان
کرتے ہیں ایک آدمی نے قمیض پہنی ہو ئی ہے جسم کے اوپر تو اگر اس آدمی سے یہ
کہاجا ئے کہ بھئی تم نے جو یہ قمیض پہنی ہو ئی ہے تو ایسا کرو تم ہاتھ ہلاؤ اور یہ
آستین نہ ہلے تو کہتے ہیں یہ نہیں ہوسکتا ۔اگر اس بندے سے یہ کہا جائے کہ آستین
ہلے ہاتھ نہ ہلے یہ بھی نہیں ہو سکتا لباس کی ہر حرکت تابع ہے جسم کے، جب تک جسم کے اوپر یہ لباس ہو گا لباس میں حر
کت ہو گی اور جب یہ جسم کے اوپر سے شلوار قمیض اتر جائے تو اس کی کو ئی حرکت نہیں
ہو گی ۔مثلا ً آپ ایسا کر یں ایک آدمی کو اس طرح کھڑا کر دیں کہ وہ آدمی نظر
آئے لیکن اس لباس کے اندر آدمی نہ ہوتو وہ لباس نہیں چلے گا کھڑا رہے گا اور ایک
آدمی کے اوپر وہ لباس ہے تو جیسے آدمی چلے گا تو لباس بھی اس کے ساتھ ساتھ چلے
گا تو جس طرح لباس جسم سے اتار دیا جا ئے اس کی کو ئی حرکت نہیں ہو تی اسی طرح اگر
روح اس فزیکل باڈی کو اتا رکر زمین پرپھینک دے یا ڈال دے تو اس کے اوپر کو ئی حر کت نہیں ہو تی کو ئی آدمی
تین ارب سال کی تاریخ بتا تے ہیں سائنسدان ایک مثال بھی کوئی ایسی نہیں ہے کسی ڈید
باڈی نے حر کت کی ہو جب کہ ہاتھ بھی ہے پیر بھی ہے دماغ بھی ہے آنکھیں بھی ہیںسب
کچھ ہے ایک دنیا میں ایسی مثال نہیں ملتی کہ مردہ آدمی کی آپ نے شادی کر دی ہو ،
ایک دنیا میں ایسی مثال نہیں ملتی کہ کو ئی ٹیچر ہو اور وہ مرجا ئے اور مر نے کے
بعد اس نے اپنا جو ہے سبق پڑھا دیا ہو ،جتنی بھی مثالیں فزیکل با ڈی اس وقت تک
فزیکل باڈی ہے جب تک اس کے اندر روح ہے اور اگر اس کے اندر سے روح نکل گئی اب یہ
ڈیڈ باڈی ہے فزیکل با ڈی نہیں ہے تو اس کامنشاء کیا ہوا اس کا منشاء یہ ہوا ہمارا
جو جسم ہے روح کا لباس ہے۔ جب تک روح اس
لباس کو پہنے رہتی ہے اس کے اندر حرکت بھی ہوتی ہے یہ دیکھتا بھی ہے سنتا بھی ہے
دماغ بھی اس کا کام کر تا ہے بھوک بھی لگتی ہے پیاس بھی لگتی ہے شادی بھی کر تا ہے
بیاہ بھی کر تا ہے پڑھاتا بھی ہے لکھا تا بھی ہے ،خود بھی پڑھتا ہے محنت بھی کر تا
ہے مزدوری بھی کر تا ہے لیکن اگر اس کے اندر سے روح نکل جا ئے یعنی یہ ڈیڈ باڈی بن
جا ئے اب اس کے بعد اس میں کو ئی حرکت نہیں ہوتی اس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری جو اصل
ہے وہ روح ہے روح کا علم کیا ہے اس کو تصوف کہتے ہیںروح کیا ہے اس کوانرجی کہہ دیجئے آپ اس کو توانائی کہہ دیں آپ اس کو رو شنی کہہ دیں آپ اس کو لہریں کہیں دیں لیکن وہ ایسی چیز
ہے جس کو دیکھا نہیں گیا ابھی تک لیکن تصوف ایک ایسا علم ہے اگر اس کو پڑھ لیا جا
ئے ۔اختتام
Khutbat Khwaja Shamsuddin Azeemi 01
Khwaja Shamsuddin Azeemi
اللہ کا شکر ہے پہلی جلد جس میں 73 تقاریر کو شامل کیا گیا ہے۔حاضر خدمت ہے۔ بہت سی جگہ ابھی بھی غلطیاں ہونے کا امکان ہے۔ برائے مہربانی ان سے ہمیں مطلع فرمائے۔اللہ تعالی میرے مرشد کو اللہ کے حضور عظیم ترین بلندیوں سے سرفراز کریں، اللہ آپ کو اپنی ان نعمتوں سے نوازے جن سے اس سے پہلے کسی کو نہ نوازہ ہو، اپنی انتہائی قربتیں عطاکریں۔ ہمیں آپ کے مشن کا حصہ بنائے۔ ناسوت، اعراف، حشر نشر، جنت دوزخ، ابد اور ابد الاباد تک مرشد کا ساتھ نصیب فرمائے۔آمین
مرشد
کا داس