Topics
بسم
اللہ الرحمٰن
لو
انزلنہ ھذا…یاتفکرون…
ھو الذی لا اللہ الا ھو …ثم یشکرون…
مہمانان
ِگرامی جناب میاں انواراسلام صاحب ممبر قومی اسمبلی پارلیمانی سیکریٹری اورجناب
سرور منیر راؤ صاحب ، جنرل مینجر جناب سردار محمد اسلم صاحب ،ایڈوکیٹ سپریم کوٹ ،
عزیزی جناب پروفیسراقبال بخت صاحب ، علامہ
اقبال یونیورسٹی ، خواتین و حضرات ،دوستوں ، بہنوں،بھائیوں ،بزرگوں اسلام وعلیکم
؛تقریب رونمائی کتاب محمد رسول اللہ ﷺ کی پر نو ر اس تقریب میں دل وجان سے حاضر ہو
نا چاہتا تھا مگر طبیعت کی ناسازی اور ڈاکٹروں کے مشورے بلکہ شدید دباؤ کے تحت اس
مبارک او ر سعید محفل میں جسمانی طور پر عدم شرکت کا مجھے انتہائی درجے افسوس ہے
بلا شبہ آپ کو مبارک ہو اور سعید ہیں کہ اللہ کے محبوب محمد رسول اللہﷺ کی کتاب
کی رہنما ئی کی اس تقریب میں آپ کو اللہ تعالیٰ نے شریک ہونے کی توفیق دی ۔آپ نے
معزز مہمانان گرامی کی تقاریر سنیں جو انہوں نے کتاب کے او صاف آپ کے سامنے پیش
کئے اس کی جتنی تقاریر آپ نے سنیں وہ بھی اللہ کی دی ہو ئی توفیق کے ساتھ اور
رسول اللہ ﷺ کی جو ان کے اندر محبت ہے اس
کے تحت انہوں نے تیاری کی اور آپ کے سامنے اپنی معروضا ت پیش کیں ۔رسول اللہ ﷺکے
بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے …اللہ
تعالیٰ فرماتے ہیں میرے محبوب رسول اللہ ﷺ
سے جو جتنی بھی محبت کر تا ہے ۔میں اس سے کئی گناہ زیادہ محبت کر تا ہوں ۔دوسری
بات قرآن پاک میں یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں میں اور میرے فرشتے رسول
اللہ ﷺ کے اوپر درودبھیجتے ہیں۔اے
مسلمانوں تم بھی درود و سلام بھیجو ۔مختصر یوں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کائنات کو جب
بنا یا اور تخلیق کیا تو اللہ تعالیٰ کا ایک مقصد تھا اور تخلیق کے پیچھے جو مقصد
تھا وہ رسول اللہ ﷺ نے حدیث قدسی کی زبان
میں اس طرح بیان فرمایا ہے کنت کنزہ مخفیا…اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں میں چھپا ہوا
خزانہ تھا ۔میں نے مخلوق کو محبت کے ساتھ اس لئے تخلیق کیا تاکہ مخلوق مجھے
پہچانے۔ اس پہچان کے لئے اللہ تعالیٰ نے پروگرام بنایا اور اس پروگرام میں جو
بنیادی بات سامنے آئی وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بحیثیت خالق کے مخلوق سے یہ چاہتے
ہیں کہ مخلوق اللہ تعالیٰ کو جان لے پہچان لے اور یہ اس وقت ممکن ہے جب مخلوق کو
اپنے مخلوق ہو نے کا ادراک حاصل ہو ۔مخلوق میں اللہ تعالیٰ نے فرشتے بنائے ۔ جنات
بنا ئے اور آخر میں آدم علیہ السلام کی تخلیق عمل میں آئی آدم علیہ السلام جب
جنت سے اس دنیا میں تشریف لا ئے آدم علیہ السلام کا جو مشن تھا وہ یہی تھا کہ
انہوں نے خالق اور مخلوق کے درمیان جو رشتہ مخفی ہے اس کو ظاہر فرمایا مثلا ً حضرت
آدم علیہ السلام نے جب توبہ استغفارکی تو سب سے پہلے فرمایا اللہ تعالیٰ کے ارشاد
کے مطابق فرمایا ربنا ، ظلمنا ، انفسنا،والم تغفرلنا…اے رب ہم نے اپنے اوپر ظلم
کیا ہے آپ سے معافی کے حق دارہیں۔ اگرآپ
نے ہمیں معاف نہیں کیا تو ہمارے لئے حقارت کے علاوہ دوسری کو ئی شئے باقی نہیں ہے
۔اس آیات مبارکہ میں غور کر نے سے واضح طور پر اس بات کا ثبوت فراہم ہو جاتا ہے
حضرت آدم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ ربوبیت اور بندگی کا رشتہ قائم کیا
ہے۔ اور ساتھ ساتھ بحیثیت مخلوق کے آدمی کو اللہ تعالیٰ کا بھی دیدار فرمایا
۔آدم علیہ السلام کے بعد بیشمار پیغمبر آئے سب کی تعداد ایک لاکھ چوبیس ہزار
بتائی جاتی ہے ۔ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں میں جو نمایاں سلسلہ ہے وہ حضرت
ابراہیم علیہ السلام کا ہے ۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بعد جو پیغمبرو ں کا جو
سلسلہ شروع ہوا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد نے حضرت اسمعیل علیہ السلام اور
حضرت اسحاق علیہ السلام دنیا میں تشریف لائے حضرت اسمٰعیل علیہ السلا م کی اولاد
میں سید نا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا نام گرامی ہمارے سامنے ہے اور حضرت اسحاق
علیہ السلام کی اولاد میں حضرت موسیٰؑ، حضرت عیسیٰؑ، حضرت سلیمانؑ، حضرت داؤدؑاور
تقریبا ً پچیس پیغمبروں کا تذکر ہ ملتا ہے ۔ان پیغمبروں کی تعلیمات پر اگر غور کیا
جائے تو ہر پیغمبر نے یہی اعلان کیا ہے کہ اللہ ایک ہے جس نے تمہیں پیدا کیا ہے
اور وہی اللہ ہے جس نے تمہیں پیدا کر کے تمہارے لئے زندگی کے وسائل فراہم کئے ۔اور
وہ وسائل کس طرح فراہم کئے ہیں کے اس میں کوئی تمہارا ذاتی عمل دخل نہیں ہیں ۔اللہ
تعالیٰ نے بس چونکہ تمہیں زندگی گزارنی ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے اوپرذمہ
داری لے لی ہے کہ تمہارے لئے وسائل عطا فرمائے ہیں۔اسی بات کو اللہ تعالیٰ نے
فرمایا ہے انا اللہ …پیغمبرو ں کا یہ سلسلہ چلتا رہا پیغمبر آتے رہے اللہ تعالیٰ
نے قرآن پاک میں یہ بھی فرمایا ہے کہ زمین کا کوئی چپہ ایسا نہیں ہے جس میں اللہ
تعالیٰ نے ایسے ہادی نہ بھیجے ہوں کہ جنہوں نے یہ نہ بتایا ہوکہ واحد ذات اللہ کی
ہے اور باقی ہر شئے اللہ کی محتاج ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں سورہ اخلاص میں
بھی فرمایاقل ھواللہ احد… اللہ صمد…احد کہ اللہ ایک ہے آپ غور فرمائیں مخلوق ایک
نہیں ہو تی مخلوق ہمیشہ کثرت ہوتی ہے ۔اللہ صمد …اللہ محتاج نہیں ہے کسی چیز کا
مخلوق کی تعریف ہی یہ ہے کہ وہ پیدائش کی محتاج ،کھا نے پینے کی محتاج ، جوانی کی
محتاج ،بوڑھاپے کی محتاج ،پیدائش کی محتاج ، موت کی محتاج اسی طرح لم یلد ولم یولد…اب
مخلوق کے لئے یہ بھی ضروری ہے وہ کسی کی اولاد ہو ، کسی کی باپ ہو ،ولم یکن لہ …مخلوق
کا کوئی خاندان بھی ہو تا ہے جب کہ اللہ کا کوئی خاندان نہیں یعنی اس صورت میں
اللہ تعالیٰ نے پیغمبروں کے ذریعے یہ بات بتائی ہے کہ خالق ایک ایسی ہستی ہے کہ جو
مخلوق سے بہرحال ہر طرح ماورا ہے یعنی مخلوق اور خالق کے رشتے میں یہ بات مخفی ہے
کہ خالق کی تمام صفات مخلوق کی صفات کے برعکس ہے ۔ خالق کی کوئی احتیاج نہیں ہے
مخلوق احتیاج کے بغیر پوری ہو تی ہی نہیں ہے ۔خالق نہ کسی کا باپ ہے نہ بیٹا ہے ۔
مخلوق کے لئے ماں بیٹے کے علاوہ مخلوق کا تذکرہ ہو ہی نہیں سکتا ۔اللہ ایک ہے
مخلوق کبھی ایک ہو تی ہی نہیں ہے دیکھیں کبوتر ہے ، پرندے ہیں ،چرندے ہیں ،درندے
ہیں ،درخت ہیں ،پھول ہیں، نباتا ت ہیں ،جمادات ہیں بندے کی مخلوق ہے تو مخلوق کا
جب یہ تذکرہ ہوتاہے تو آپ اس کو کثرت سے باہر کبھی نہیں کر سکتے ۔اس آیت مبارکہ
کا پوری سورۃ کا یہی مفہوم ہے کہ پیغمبروں نے یہ بتایا ہے کہ مخلوق اور خالق کے
رشتے میں بنیادی فرق یہ ہے کہ مخلوق جو ہے وہ ہمیشہ محتاج ہو تی ہے ۔کسی نہ کسی کی
محتاج ہو تی ہے اوروہ بھی کسی کا محتاج ہے اور نتیجہ اس بات پر ختم ہو تا ہے کہ اللہ
کے علاوہ یہاں کو ئی نہیں ہے جو حکمرانی کے قابل ہو اور جس کی بزرگی اور برتری
اتنی ہو کہ اس نے پوری کائنات کا احاطہ کیا ہوا ہو۔یہی بات تمام پیغمبروں نے ہمیں
بتائی او ر سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کہا، اللہ نے ہم کو اپنی صفت پر
پیداکیا ہے آپ نے ایک شعر سنا ہوگا حسن
یوسف دم عیسیٰ …اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کا حسن عیسیٰ علیہ
السلام کے دم جس سے وہ مردے زندہ کرتے تھے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا یدبیضامشہور
ہے کے بھئی حضرت موسیٰ علیہ السلام کا جو بغل میں ہاتھ ڈالتے تھے اوربعد میں جب وہ
لوگوں کے سامنے کرتے تھے ۔ تو وہ سورج کی طرح روشن ہوجاہو تا ہے ۔ تو جتنے بھی
پیغمبران ِعلیہ السلام دنیا میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کےآنے سے پہلے تشریف لائے
جن کی تعداد ایک لاکھ چوبیس ہزار بتائی جاتی ہے ۔ان تمام کی خوبیاں اللہ تعالیٰ نے
آپ کے اندر مخفی کر دیں اور آپ کو عطا فر ما دیں اس کی قرآن پاک یہ تصدیق کر تا
ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں …الیو م اکملت دینکم…کہ آج کے دن دین کی تکمیل ہو
گئی اور میں تم سے یعنی تمہارےاللہ سے راضی ہو گیا ۔یہ کسی بھی پیغمبر کے بارے میں
اللہ تعالیٰ نے نہیں فرمایا… الیو م اکملت دینکم …اس بنیاد پر کہ رسول اللہ ﷺ کی رسالت کے اعلان کے لئے اللہ تعالیٰ نے
بحیثیت اعلان کے منانے کے لئے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر مبعوث فر مائے ۔اور جب ایک لاکھ چوبیس
ہزار پیغمبروں کی تعلیمات سے نوع انسانی کا شعور آشنا ہو گیا اور نوع انسانی کے
شعور میں اتنی سکت پیدا ہو گئی کہ وہ دین کی تکمیل کا مظاہرہ اپنی آنکھوں سے دیکھ
سکیں تواللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو مبعوث فرمایا۔ کتاب محمد رسول اللہ کی دو
جلدیں ابھی تک لکھی گئی ہیں اور اللہ تعالیٰ کا بہت انعام و اکرام ہے اس نے مجھ
حقیر فقر کو یہ سعادت عطا کی کہ میں نے سیرت طیبہ کے اوپر بڑی سوچ وبچار کے بعد
بہت زیادہ احتیاط کے بعد علمی اور انکساری کی ،بے انتہاء شوق کے ساتھ قلم اٹھایا
اور اللہ تعالیٰ نے میری رہنمائی فرمائی اور رسول اللہ ﷺ کی نسبت مجھے حاصل رہی میں نے اللہ کی دی
ہوئی توفیق کے ساتھ دو کتابیں لکھی ہیں ۔ جلد اول محمد رسول اللہﷺ۔۔اس میں اس بات
پر میں نے زور دیا ہے کہ لوگ یہ سمجھیں کہ محمد رسول اللہ ﷺنے دین کی تبلیغ کے لئے اور اسلام کی تبلیغ کے
لئے کتنی کتنی مصبتیں اور پریشانیاں برداشت فرمائی ہیں ۔رسول اللہ ﷺ کی زندگی کا جب ہم مطالعہ کر تے ہیں تو اسے
دو حصوں میں تقسیم کر تے ہیں۔ایک حصہ نبوت سے پہلے کا ہے چالیس سال تک اور ایک حصہ
نبوت کے بعد کا ہے تئیس سال کا ان چالیس او رتئیس سالوں کی زندگی کا جب ہم مطالعہ
کر تے ہیں تو ہمیں ایک ہی بات نظر آتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اللہ کا پیغام پہچانے کے لئے توحید کا
پرچار کرنے کے لئے کسی بھی قسم کی تکلیف پریشانی سے مصیبت سے اپنے آپ کو بچانے کی
کوشش نہیں کی مقابلہ کیا ،صبر کیا، عفودرگزر سے کام لیا اور اللہ کا پیغام پہنچاتے
رہے ۔کتاب محمد رسول اللہ ﷺ سے پہلے
لاکھوں کتابیں تصنیف ہو چکی ہیں بڑے بڑے لوگوں نے، عالم دین نے اس کے اوپر، حضور ﷺ
کے اوپر بہت کچھ لکھا ہے مسلمان ہونے کے رشتے سے جس طرح ہر مسلمان رسول اللہ ﷺ سے محبت عقیدت اورعشق ہے، میں بھی کیوں کہ
ایک مسلمان ہوں ،مجھے بھی حضور پاک ﷺ سے
ایک تعلق ہے ایک محبت ہے اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ مجھے اور آپ کو رسول
اللہ ﷺ کی مزید محبت اور عشق عطا فرمائے ۔میں
نے یہ دیکھا کہ اس موضوع کے اوپر کسی صاحب علم نے قلم نہیں اٹھایا ۔کیوں نہیں اٹھا
یا یہ پتا نہیں ہے کیوں نہیں اٹھایا ۔ایک محرو می ہے کمی ہے خلا ءہے، تو میں نے
رسول اللہ ﷺ کے اس عنوان پر حضورپاک ﷺ سے جو معجزات سرزد ہوئے ہیں ۔کوشش کی ہے کہ
موجودہ سائنسی علمی دور میں بالغ شعور لوگوں کے سامنے تشریح اس طرح پیش کی جائے کہ
ا ن کے ذہن نشین ہو جائے ، کہ جومعجزات رسول اللہ
ﷺ سے ثابت ہو ئے ہیں ان کے پیچھے بھی اللہ کی ایک حکمت ہے ۔رسول اللہ ﷺ کی ہر بات مکمل ایمان ہے ۔قرآن پاک کی ہر
بات مکمل حکمت ہے اس حکمت کا شعورہمیں اس وقت ہو سکتا ہے کہ جب ہم قرآن پاک کی
آیت کی تلاوت پڑھ کر تفکر کریں اور رسول اللہ
ﷺ کے ہر پہلو میں غوروفکر کریں غوروفکرکے نتیجے میں اللہ سے ، اللہ کے رسول سے، قرآن سے اور حدیث سے رہنمائی حاصل کر یں اس
صورت میں ہمارے اوپر دنیا کے بہت سے مشاہدات ہو نگے ،ہمارے علم میں ترقی ہو گی،
ہمارے دین میں استحکام پیدا ہوگا ۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے قالو …یہ لوگ کہتے ہیں
کہ مسلمان ہیں ولم …لیکن ابھی انکے دلوں میں ایمان داخل نہیں ہوا ۔ حاضرین اکرام
یہ بہت غور طلب بات ہے سب کے لئے کہ ہم مسلمان تو ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے ارشاد
کے مطابق ہمارے دلوں میں ایمان داخل نہیں ہوا۔ایمان سے مراد اللہ پر یقین سے۔۔ اگر
آپ دیکھیں وہ یہ ہے کہ ایمان سے آدمی کے اندر یقین پیدا ہو تا ہے اور یقین سے
آدمی کے اندر مشاہدے کی قوت پیدا ہو تی ہے ۔آج کے مسلمان میں جو کمی ہے وہ یہی
ہے ہمارے اندر مشاہداتی جو قوت ہے وہ نہ صرف یہ کہ کمزور پڑھ رہی ہے بلکہ ایسا
لگتا ہے کہ معدوم ہو گئی ہے ۔ آپ غور فرمائیں رسول اللہ ﷺ نے جو نمازیں ہمیں عطا فرمائیں ان نمازوں میں
کوئی ردوبدل نہیں ہوا۔ رسول اللہ ﷺ نے جو
ہمیں قرآن عطا فرمایا اس کے زیر زبر حروف نقطے کسی میں کو ئی فرق نہیں آیا
، رسول اللہ ﷺ کی جو صحیح احادیث جو ہم تک پہنچی ہیں ان میں
کو ئی رد عمل نہیں ہو ا ۔ حج میں رد وبدل نہیں ہواپھر کیا وجہ ہے کہ آج کے دور
میں سب سے زیادہ بدنام اگر ہے کسی قوم میں تو مسلمان قوم بد نام ہے۔اس کی بنیادی
وجہ میری سمجھ کے مطابق یہ ہے کہ ہم نے ایمان کی طرف توجہ دینا بند کر دیا ہے اور
ہمارے اندر سے ایمان اور لاشعور کی جو طاقت ہے وہ نکل گئی ہے ۔میں اکثر اپنے
دوستوں سے عرض کر تا ہوں آپ کی خدمت میں یہ عرض گزار ہوں کہ ہم لوگ جو نمازیں
پڑھتے ہیں نماز میں جو سورتیں پڑھتے ہیں پانچ ،چھ ،سات ،آٹھ الحمد اللہ…ہر نمازی
کو یاد ہے لیکن کتنی عجیب بات ہے کہ انگریزی کی لغات ہمیں یاد ہے لیکن یہ چار پانچ
سورتیں جو ہم نماز میں پڑھتے ہیں اس کے ہمیں ترجمہ یاد نہیں ہیں۔ وہ سورتیں جو ہم نماز میں پڑھتے ہیں ہمیں حفظ
ہیں یاد ہیں ان کا ترجمہ ہمیں یاد ہو اور نمازپڑھتے وقت ان کے ترجمہ پر غور کریں تو
یقینا ہماری نمازوں میں یکسوئی پیدا ہو گی ۔ ہماری نمازوں میں حضور قلب پیدا ہوگا
۔ہمیں حضور قلب حاصل ہو گا ۔اطیمنان قلب حاصل ہو گا اور رسول اللہ ﷺ نے جو قرآن ہمارے لئے چھوڑا ہے، ان علوم کے بارے میں فرمایا ہے کہ اپنے بعد
اپنے پیچھے جو مسلمانوں کے لئے ورثہ چھوڑکے جارہا ہوں ایک کتاب ہے اورایک اہل بیت
ہے ۔اب کتاب کا مطلب یہ نہیں ہے کہ عربی کی ایک کتاب آپکے پاس رکھی ہو ئی ہے آپ
نے اس کو پڑھ لیا ۔غورطلب بات یہ ہے کہ جب آپ نے اس کو پڑھ لیا کتنی بڑی سعادت
آپ کوحاصل ہو گئی اگر اس کا ترجمہ بھی پڑھ لیا جائے اوراس پر غورو فکر بھی کیا
جائے اور ساتھ ساتھ رسول اللہ ﷺکی سیرت
طیبہ کا باربار مطالعہ کیا جائے ۔ہر کام کرنے سے پہلے ہمارے ذہن میں یہ بات آجائے
کہ رسول اللہ ﷺ نے کون سا کام پسند کیا ہے اور کون سا کام نہ پسند کیا ہے تو ہماری
زندگی سدھر جائے گی ۔اور مسلمانوں کی زبوحالی بھی ختم ہو جائے گی ۔ اور ہماری جو
یہ ذلت اور رسوائی ہے ا نشا اللہ ہم اس سے بھی نجات حاصل کر لیں گے ۔آپ حضرات
یہاں اس مجلس میں تشریف لائے ۔ بڑے سعید ہیں اللہ تعالیٰ آپ کی شرکت کوقبول
فرمائے اور آپ سب حضرات کو رسول اللہ ﷺ
کی سیرت طیبہ کا مطالعہ کر کے ان کے کردار پر عمل کر نے کی کوشش عطا فرمائے میرے
لئے بھی دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے رسول اللہ ﷺ کی شفقت سے محبت سے نسبت سے مالامال فرمائے
ایک بار پھر آپ سب حضرات کا بہت بہت شکریہ میں اپنی تقریر کو مختصر کر تاہوں کیونکہ
اب میرا سانس جو ہے اجازت نہیں دے رہا ہے ۔کہ میں مزید کچھ بولوں اس لئے میں آپ
سے معذرت کے ساتھ رخصت ہو رہا ہوں آپ سب حضرات کا بہت بہت شکریہ ۔خدا حافظ
Khutbat Khwaja Shamsuddin Azeemi 01
Khwaja Shamsuddin Azeemi
اللہ کا شکر ہے پہلی جلد جس میں 73 تقاریر کو شامل کیا گیا ہے۔حاضر خدمت ہے۔ بہت سی جگہ ابھی بھی غلطیاں ہونے کا امکان ہے۔ برائے مہربانی ان سے ہمیں مطلع فرمائے۔اللہ تعالی میرے مرشد کو اللہ کے حضور عظیم ترین بلندیوں سے سرفراز کریں، اللہ آپ کو اپنی ان نعمتوں سے نوازے جن سے اس سے پہلے کسی کو نہ نوازہ ہو، اپنی انتہائی قربتیں عطاکریں۔ ہمیں آپ کے مشن کا حصہ بنائے۔ ناسوت، اعراف، حشر نشر، جنت دوزخ، ابد اور ابد الاباد تک مرشد کا ساتھ نصیب فرمائے۔آمین
مرشد
کا داس