Topics

دنیا کی حقیقت

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

تلاوت سورۃ القدر…

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

انا اللہ وملائکہ…یا یھا الذین…

تلاوت دودر ابراہیم…

عز یزان گرامی قدر ،دوستوں ،بزرگوں ،پیارے عظیمی بچوں اسلام و علیکم آج حضور قلندربابااولیاء ؒ کے عرس کی تقریب کا دن ہے اس دن کی شروعات صبح فجرکی نماز کے بعد سے اس کا آغاز ہوا ۔ اس دن سے ایک دن پہلے یعنی کل قرآن کریم اور دیگر علوم کے اوپر ورکشاپ کا انقاد ہوا ۔ورکشاپ میں خواتین و حضرات نے اس دلچسپی کا اظہار کیااور اس یکسوئی کے ساتھ قرآنی آیات کا مطالعہ کیا، وہ یقینا قابل تعریف ہے اور ہماری طرف سے رہنمائی ہے کہ اگر قوم کو تفکر کو دعوت دی جائے تو قوم کے مزاج میں ابھی اتنی زرخیزی موجود ہے کہ وہ اللہ کے کلام میں تفکر کر نے کو اپنی سعادت سمجھتی ہے۔ الحمد اللہ کل کا پروگرام بھی بہت مفید ثابت رہا ۔لوگوں نے اپنی ذہنی سکت اور صلاحیتوں کے مطابق قرآن کریم میں تفکر کیا اور یہ بات بہت ہی زیادہ اہمیت رکھتی ہے کہ قرآن کریم کے ساتھ ساتھ موجودہ زمانے کے سائنسی علوم بھی زیر بحث آئے ۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ سلسلہ عظیمیہ کے کارکنان کو اور عظیمی بہن بھائیوں کومزید ہمت اور تو فیق عطا فر مائے کہ وہ اس قسم کے پرورگرام مستقل طور پر کرتے رہیں۔اور اس طرح لوگوں کی علمی پیاس بجھتی رہے ۔کل سے اب تک کسی نہ کسی عنوان سے روحانیت پر گفتگو ہو رہی ہے۔اب مزید میں کیا کہوں سمجھ میں نہیں آتا اور مزید کہنے کی بات ہے جو آپ کو سنائی جائے۔بہرحال آپ دعا کریں کے اللہ تعالیٰ میرا ذہن کھولے اور میری اپنی صلاحیت اور سننے والوں کی صلا حیت کے مطابق وہ مجھے کچھ عرض کرنے کی تو فیق عطا فر مائے ۔اس تقریب میں جو بھی باتیں ہونگی وہ ظاہر ہے رسول اللہ ﷺ کے حوالے سے کی جائیں گی اورا للہ تعالیٰ کی باتیں کی جائے گئی۔ تو ہم ایسا کرتے ہیں اپنے ذہن کو تیار کرنے کے لئے کہ سب صاحبان تین مرتبہ دورودشریف پڑھیں اور دورودشریف پڑھ کے آنکھیں بند کر کے یا آنکھیں کھلی رکھیں۔ اس بات کا تصور کریں انفرادی طور پر کہ مجھے اللہ دیکھ رہا ہے ۔صلی تعالیٰ علی حببہ محمد وعلیہ وسلم۔ صلی تعالیٰ علی حببہ محمد وعلیہ وسلم، صلی تعالیٰ علی حببہ محمدوعلیہ وسلم تمام حضرات اور خواتین اس بات پر متوجہ ہو ں کہ مجھے اللہ دیکھ رہا ہے وہی اللہ دیکھ رہا ہے جس کے یہاں ہمیں جانا ہے ۔

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔

زمین پر موجود جتنی بھی مخلوقات ہیں۔ ان مخلوقا ت میں سب سے ممتاز مخلوق انسان ہے ۔انسان کی کہانی یہاں سے شروع ہوتی ہے کہ وہ پیدا ہو تا ہے۔ جب وہ پیدا ہو تا ہے تو آنکھ ،کان ،ناک ،منہ سب کچھ ہو نے کے باوجود اس کے اندر حوا س نہیں ہوتے ۔ اگر حواس ہو تے ہیں تو ان حواس کو ہم دنیاوی حواس نہیں کہہ  سکتے ۔یعنی پہلا احساس یا پہلے دن کا انسانی بچہ شعوری اعتبار سے دنیاوی اعتبار سے کورا کاغذ ہو تا ہے۔ اس کے اندر کچھ نہیں لکھا ہوا ہو تا ۔نہ اس کو اس بات کا پتا ہو تا ہے کہ دن کیا ہے؟ نہ اس کو اس بات سے واقف ہو تا ہے کہ دن کے بعد رات کیوں آتی ہے ؟اور رات دن میں کیوں تبدیل ہو جاتی ہے؟ ۔نہ اسے رشتے ناطوں کا پتا ہو تا ہے ۔اس کو اگر اپنی ماں سے فوری طور پر جدا کر دیا جائے تو وہ اپنی ماں کو بھی نہیں پہچانتا۔بھائی بہن دوسرے رشتے ناطے وہ کسی سے بھی واقف نہیں ہو تا۔جسمانی طاقت کا یہ حال ہو تا ہے کہ وہ خود سے کروٹ نہیں بدل سکتا ، چہرے پر اگر مکھی بیٹھ جائے اسے اڑا نہیں سکتا،اٹھ کر بیٹھ نہیں سکتا ، ٹانگیں اتنی کمزور ہو تی ہے کہ ان پر کھڑا نہیں ہو سکتا ،آواز کا پلوشن اس کے لئے اتنا زیادہ ناگوار گزرتا ہے کہ اگر اس کے سامنے اخبار کا صفحہ پلٹا جائے تو اخبار کی آواز سے وہ سہم جاتا ہے،ڈر جاتاہے ،اس کے سامنے ذرا اونچی آواز سے بات کی جائے تو وہ رونے لگتا ہے ،رونے کا صاف مطلب یہ ہے کہ زیادہ اونچی آواز سنے کی اس کے اندر سکت برداشت نہیں ہوتی، پھریہی بچہ جو ایک طرح سے گوشت کا لو تھڑا ہو تا ہے اس کے اندرسماعت کو قبول کرنے کی صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے،دیکھنے کی صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے ، بولنے کی صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے ، اپنی مرضی سے کروٹ بھی لیتا ہے ،بیٹھ بھی جاتا ہے ،گٹھنوں کے بل چلتا ہے، بعد میں ٹانگوں پر کھڑا بھی ہو جاتا ہے اور ایک زمانہ ہو نے کے بعد اس کا جسم اتنا تواناا ور مضبوط ہو جاتا ہے کہ وہ بچہ جو خود کروٹ نہیں لے سکتا تھا دو ڈھائی من بوریاں اپنی کمر پر رکھ کر بڑی آسانی سے اٹھا لیتا ہے۔ہاتھوں میں ٹانگوں میں اور جسم میں اتنی طاقت بھر جاتی ہے کہ وہ بچہ جو کچھ نہیں کر سکتاتھاکئی کئی آدمیوں کا مقابلہ کر کے ان کو شکست دے دیتا ہے۔اگرارادہ کا پکا ہو اور یقین اس کے اندر کام کرتا ہو۔ پہاڑوں کو کاٹ ڈالتا ہے ،زمین کو کھود دیتا ہے ،زمین کی تہہ سے پانی نکال لیتا ہے ،پٹرول دریافت کر لیتا ہے،دشت کے بارے میں معلومات حاصل کر لیتا ہے ،جس بچے کو الف کہنا نہیں آتا وہ phd کر لیتا ہے اور پھر کتابیں پڑھنے لگتا ہے ۔کیسی عجیب کہا نی ہے کہ ایک بچہ جوعقل وحواس شعور کے نام سے واقف ہی نہیں ہو تا وہ دنیا میں دانش ور کہلا تا ہے ۔اور دانشوری کی بڑی بڑی باتیں بھی کرتا ہے ۔یہ ایک اللہ تعالیٰ کا نظام ہے جوآدم سے شروع ہوا اور ہمارے زمانے تک بلاترددعمل پذیر ہے ۔یہ بات سمجھنے کی ہے کہ جب بچہ پہلے دن اس زمین پر آیا تو اس کے اندر جوشعور نہیں تھا ۔یہ شعور اس بچے کے اندریہ بات ذرا بھاری آپ کو لگ رہی ہو گی میں سمجھ رہا ہو آپ سوچ رہے ہو نگے کے یہ کیسا خشک مضمون لیکر بیٹھ گئے ۔لیکن جب یہ بات کھلے گی تو آپ کو اچھا لگے گا ۔بھئی کہتے ہیں ۔بچہ جس ماحول میںآتا ہے ۔ اس ماحول میں جو کچھ بھی رائج ہے ۔اچھا برا وہ سب بچہ قبول کر لیتا ہے اور جس ماحول میں اس بچے کی پرورش ہو تی ہے ۔ اسی قسم کا بچے کامزاج بن جاتاہے ۔اگر وہ جھوٹے لوگوں میں ،بے ایمان لوگوں میں ،چار سو بیس لوگوں میں ،غصہ والے لوگوں میں  اسکی پرورش ہو تی ہے تو تقریبا ً اس کا وہی مزاج ہو جاتا ہے۔اچھے لوگوں میں اس کی پرورش ہو تی ہے تووہی اس کا مزاج بن جاتا ہے اور آہستہ آہستہ اس کے مزاج میں اتنی پختگی آجاتی ہے کہ وہ اس ماحول کے علاوہ دوسری کوئی بات سوچتا نہیں ہے ۔مثلاً اگراسے دنیا کی محبت میں اور دنیا کی ہوس میں اور دنیا کی دلچسپیوںمیں زیادہ مصروف کر دیا جائے تو وہ دنیا دار بندہ بن جاتا ہے اگر اسے ایسی مصروفیات دی جائے تو جن میں دنیاوی ضروریات تو موجود ہوں لیکن اس کو اس بات کا بھی علم دے دیا جائے کہ یہ دنیا ایک عارضی جگہ ہے ایک مسافر خانہ ہے یا کچھ روز کے لئے قیام کرنا ہے تو اس کی دنیا وی دلچسپیاں اتنی نہیں ہو تی جتنی عام طور سے لوگوں کی ہو تی ہیں۔اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فر مایا ہے کہ: یہ دنیا میں ہم نے انسان کو اس لئے بھیجا ہے تاکہ وہ دنیا کی تمام دلچسپیاں،  دنیا کی تمام آسائشیں حاصل کر کے اپنے آپ کو متوازن اور بیلنس رکھے ۔وہ اس دنیا میں بھی رہے اور اس بات کو ذہن میں رکھے کہ وہ کہیں سے آیا ہوں۔  اللہ تعالیٰ نے جب انسان کو آدم کو تخلیق کیا تو یہ آپ سب جانتے ہیں ۔اس کو تخلیق کرنے کے بعد علم سے آراستہ کر کے جنت میں بھیجا ۔جنت میں آدم اور اماں حوا دونوںکو بھیجا …یاآدم اسکن…اے آدم تو اور تیری بیوی دونوں جنت میں رہو اب یہ کہنا کہ آدم جنت میں تھے ۔اداس ہو گئے ،پریشان ہو گئے انہوں نے یہ سوچا میرا کوئی ہمدرد پیدا ہو تو اللہ تعالیٰ نے ان کی اس اداسی کو دور کرنے کے لئے حوا کو پیدا کیا۔ جسے قرآن میں صاف صاف بیان کیا ہے کہ اللہ تعالی ٰ نے …یا آدم سکن …اے آدم تم اور تمہاری بیوی جنت کے باغ رہو۔اور یہاں سے جنت میں رہنے کے بعد خوش ہو کر کھاؤں پیوں ۔جہاں سے دل چاہے جنت میں آدم اور حوا دونوںرہے اس سے اس بات کا بھی پتا چلتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے آدم کو علم الاسماء سکھایا تو حوا کی موجودگی بھی ضرور زیر بحث آتی ہے ۔ یہ اس لئے کہ جب اللہ تعالیٰ آدم کو جنت میں بھیج رہے ہیں تو میاں بیوی دونوں کو بھیج رہے ہیں۔ اس کا مطلب حوا موجود تھیں ۔تو علم الاسماء آدم کو اللہ تعالیٰ نے سکھایا تو حوا کو بھی علم الا سماء سیکھنے  کی صلاحیت عطافرمائی ۔توآدم سے حوا سے بھول چوک ہو گئی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں جنت سے نکال دیا اور زمین پر بھیج دیا ۔تو یہاں بھی دو میاں بیوی یہاں جنت سے دونوں میاں بیوی زمین پر آگئے۔ ایسا نہیں ہوا کہ خالی آدم زمین پر آگئے ہوں یا حوا زمین پر آگئی ہوں ۔ تو قرآن پاک میں کئی جگہ اللہ تعالیٰ یہ بھی ارشاد فر ماتے ہیں کہ ہم نے جوڑے جوڑے بنائے ہیں ۔مذکر و مونث بنائے ہیں ،  جوڑے جوڑے بنا ئیے ہیں ۔اس سے یہ بات پتا چلتی ہے کہ آدم علیہ السلام اور اماں حوا دونوں جب تک ایک جگہ نہیں ہو تے یونٹ کی تکمیل نہیں ہو تی ۔یہ بھی مثال کے طور پر آیا ہے کہ آدم علیہ السلام اور حوا علیہ السلام دونوں یہاں کام کرتے ہیں۔ جب پیدائش کا عمل ہو تا ہے وہ لڑکا ہو یا لڑکی ہو ۔لڑکی کے اندر بھی روح ہو تی ہے اور لڑکے کے اندر بھی روح ہو تی ہے ۔ لڑکا بھی کورا کاغذ ہو تا ہے اور لڑکی بھی کورا کاغذہو تی ہے ۔لڑکی کو کوئی شعور حاصل نہیں ہو تا اور لڑکے کو بھی کوئی شعور حاصل نہیں ہوتا۔اگر لڑکا کروٹ نہیں بدل سکتا تو لڑکی بھی کروٹ نہیں بدل سکتی ۔اگر لڑکا اپنی ٹانگوں پر کھڑا نہیں ہو سکتا تو لڑکی بھی اپنی ٹانگوں پر کھڑی نہیںہوسکتی۔تو اس سے یہ پتا چلتا ہے آدم اور حوا دونوں ایک دوسرے کے لازم ملزوم ہیں اور دونوں کو اللہ تعالیٰ نے علم سیکھنے  کی صلاحیت عطا فرمائی ہے اور دونوںکو علم سکھایا ہے  اوریہ بات کہ عورت کو آدم کی پسلی سے پیدا کیا اور وہ بڑے پریشان تھے جنت میں یہ بات کسی طرح بھی ذہن قبول نہیں کرتا۔جب آدم جنت سے عالم ارواح سے اس زمین پر آئے زمین بچے پیدا ہونگے ۔لیکن ان میں شعورتو تھا ۔ ان میں دیکھنے کی صلاحیت  تو موجود تھی ۔ بچہ آواز بھی سنتا تھا ،بچہ دیکھتا بھی تھا یعنی روتا تھا ،وہ بچہ ہاتھ پیر بھی ہلاتا تھا ،بچہ ہنستا بھی تھا ،اس کو کوئی آواز ناگوارگزاتی تھی تو وہ منہ بھی بنتا تھا  وہ ڈر بھی جاتا تھا خوف بھی تھا اس کے اندرلیکن دنیاوی شعور اس طرح نہیں تھا جس طرح دس سال یا چھ سال کے بچے میں ہو تا ہے ۔یہاں یہ سوال پیدا ہو تا ہے کہ جب بچہ پیدا ہو تا ہے۔ تو اس کی آنکھ بھی کام کر رہی ہو تی ہے ،کان بھی کام کر رہے ہوتے ہیں ،اس کی ناک بھی کام کر رہی ہوتی ہے،اس کے ہاتھ پیر میں بھی جان ہوتی ہے۔ وہ کون سی ایسی چیز ہے جو دنیا میں آنے کے بعد بچے میں نہیں تھی۔ وہ چیز یہ ہے کہ نوع انسانی کے اندر وہ دنیاوی چپک ہے ،دنیاوی خواہشات ہیں ،دنیاوی ناقص طرز عمل ہے وہ بچے کے اندر نہیں تھا۔ بچے کے اندر شعور تھا وہ شعور پاکیزہ شعور تھا ۔اس شعور میں کھوٹ اور ملاوٹ نہیں تھی ۔ جیسے آپ دیکھئے کہ اس  بات پرسب واقف ہیں۔بچہ جیسے جیسے بڑا ہو تا رہتا ہے اسی مناسبت سے وہ جھوٹ بھی بولتا ہے ،  چوری بھی کر تا ہے ، ڈاکا بھی ڈالتا ہے ،  چوری نہیں بھی کرتا ہے ،نیک کام بھی کرتا ہے ،برے کام بھی کرتا ہے ،لیکن وہی پیدا ہو تے ہی نہیں کرتا اس کے لئے کم از کم دس بارہ سال اس شعور کے دیکھنے میں لگتے ہیں اور بارہ سال سے اٹھارہ سال کی عمر میں دنیاوی نقطہ نظر سے وہ بالغ شعور کہلاتا ہے۔ اب اس سے یہ ثابت ہو اکہ جو بچہ پیدا ہوا ۔اس کے اندر دیکھنے کی صلاحیت ہے وہ روح کی صلاحیت ہے بھی یعنی عالم ارواح میں جس کان سے وہ سنتا تھا ،اگر اس کے اندر بولنے کی صلاحیت ہے تو وہ اصل روح کی صلاحیت ہے جو اس دنیا میں آنے کے بعد جسمانی توازن اس کے اندر منتقل ہو تا ہے ۔والدین خاندان ماں جس قسم کی بھی طرز فکر اس کے اندر ڈال دیتے ہیں بچہ اس طرز فکر سے مانوس ہو جاتا ہے۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے جب بچہ پیدا ہوا۔ اس کے اندر دیکھنے کی صلاحیت نہیں تھی، آنکھیں تھیں اس کی روشنی بھی تھی اور دیکھتا بھی تھا ۔لیکن ابھی ماں کو باپ کو دیکھ کر پہچانے کی صلاحیت اس کے اندر موجود نہیں تھی ۔جیسے جیسے وقت گزرا اس نے ماں کو بھی پہچانا، باپ کو بھی پہچانا اور بہن بھائیوں کو بھی پہچانا ،چلنے پھرنے بھی لگا باتیں بھی کرنے لگا ، چوریاں بھی کرنے لگا ،نیکیاں بھی کرنے لگا ،عبادت بھی کرنے لگا،چوری سے پر ہیز بھی کرنے لگا۔ اب ہم آج بھی اپنے تیس سال کی چالیس سال کی یا پچاس سال کی پو زیشن پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں دو باتوں کا پتا چلتا ہے۔ ایک بات یہ ہے کہ ہماری جو حرکت ہے ہماری جو زندگی ہے۔ وہ جسمانی تو ہے لیکن جسم اسکے تابع ہے ۔جسم کی ذاتی حرکت کوئی نہیں اور اس کی ایک تو مثال بچپنا ہی ہے اور دوسری مثال ایک آدمی چالیس سال کا ہے۔ اس کے اوپر موت وارد ہو جاتی ہے۔ موت وارد ہونے کا کیا مطلب ہو ایعنی پیدائش سے پہلے وہ جس عالم میں تھا اس عالم  میں چلا گیا ۔عالم ارواح سے آیا تھا وہ مرنے کے بعد عالم ارواح میں چلا گیا ۔جب وہ عالم ارواح میں چلا گیا تو جسم موجود ہے۔ جسم میں کان بھی موجود ہے ۔آنکھیں بھی ہیں ، ہاتھ پیر بھی ہیں ،دل بھی ہے ۔لیکن وہ جس عالم سے آیا تھا عالم ارواح سے روح اس جسم کو چھوڑ کر دوبارہ عالم ارواح میں چلی گئی ۔تو اب بچے کے اندر کوئی صلاحیت نہیں ہے۔ اس کی پوزیشن پہلے جیسی ہو گئی جس طرح بچہ کروٹ نہیں بدل سکتا اس طرح مردہ آدمی بھی کر وٹ نہیں بدل سکتا ۔جس طرح بچہ بیٹھ نہیں سکتا اس طرح مردہ بیٹھ نہیں سکتا ۔جس طرح ایک دن کا بچہ ایک گھونٹ پانی نہیں پی سکتا اس طرح مردہ بھی ایک گھونٹ پانی نہیں پی سکتا ۔جس طرح ایک بچہ وزن نہیں اٹھا سکتا ایک مردہ آدمی بھی وزن نہیں اٹھا سکتا ۔اس ساری تفصیل کا مطلب یہ ہواکہ انسان کا جو جسم ہے وہ ماں کے پیٹ میں تشکیل پاتا ہے وہ روح بناتی ہے اور اس جسم کو جب وہ روح ماں کے پیٹ سے باہر لاتی ہے اس کے لئے نشوونما بھی ضروری ہوتی ہے۔ اس لئے اگر پہلے دن کے بچے میں سے روح نکل جائے تو نشوونما رک جاتی ہے۔ اگر تین سال کے بچے میں سے روح نکل جائے توجسم کی نشو ونما نہیں ہو گی۔ اگر دس سال کے بچے کی روح نکل جائے تو گیارہ سال کا بارہ سال نہیں ہو گا۔ ایسا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ جو ہمارا جسم جس کو آپ مادی جسم کہتے ہیں عناصر سے بنا ہوا جسم مٹی ،آگ ،پانی ،ہوا سے بنا ہوا جسم ہیں۔ اس کی ذاتی حیثیت کوئی نہیں ہے۔جب تک عالم ارواح سے اس جسم کا کیا ہے؟ لین د ین کا تعلق رہتا ہے۔ اس جسم کی حیثیت برقرار رہتی ہے ۔یعنی کہ جب عالم ارواح سے اس جسم کا تعلق ٹوٹ جاتا ہے تو اس جسم کی کوئی حیثیت نہیں رہتی اس کی وہی حیثیت ہو جاتی ہے ایک دن کے بچے کی ۔ میں آپ خواتین و حضرات کو یہ بات سمجھانا چاہتا ہوںیہ جو مادی جسم ہے ہمارا آگ،ہوا،پانی، مٹی کا بنا ہوا نہ تو یہ خود بنتا ہے اور نہ اس کے اندرخود کسی قسم کی کوئی صلاحیت ہے۔بولنے کی سننے کی کھانے کی سوچنے کی اس کی ساری صلاحتیں روح کی وجہ سے ہیں، کہ روح جب تک اس جسم کو سنبھالے رہتی ہے یہ جسم کھڑارہتا ہے۔ اب آپ یہ بتائیںہم اپنی زندگی میں منوں اور ٹنوں کے حساب سے کھانا کھا جاتے ہیں ۔ٹنوں کے حساب سے پانی پی جاتے ہیں ۔اگر ہمارے اندر سے روح نکل جائے تو ہم پانی پی سکتے ہیں؟کھانا کھا سکتے ہیں ؟تو ہم جو یہ کھا نا کھا رہے ہیں یہ کون کھا رہا ہے؟ہم یہ جو کھانا کھا تے ہیں۔ پیدائش سے شروع اور ماں کے دودھ سے تو مرغے کے مرغے کھا جاتے ہیں ۔یہ کون کھا رہا ہے ؟ جسم کھا رہا ہے، اگر جسم کھا رہا ہے کیوں بھئی ؟تو جب روح نے جسم سے تعلق توڑ لیا تو جسم کو کھانا چاہئے ،اگر یہ جسم پانی پی رہا ہے تو مردہ آدمی کو بھی پانی پینا چاہئے ،اگر یہ شورشر ابہ ہنگامہ جسم کر رہا ہے تولیکن جب اس جسم میں سے روح نکل جاتی ہے تو یہ زور سے ہنگامہ بھی نہیں کر تا ۔تو یہ سارا ہنگامہ ہے کیا ؟کو ن کر رہاہے ؟ جسم کر رہا ہے یا روح کر رہی ہے ؟جب آپ زور سے بولیں گے تو میں سمجھونگاکہ آپ کے بات سمجھ میں آرہی ہے ورنہ ۔میں سمجھوں گا کہ میں خوامخواہ تقریر کر رہا ہوں ۔ اچھا جب سب روح کر رہی ہے تو یہ جسم کیا ہے ؟ہم یہ کہیں  گے کہ جسم جو ہے روح نے ایک میڈیم بنا یا ہوا ہے۔ جب تک روح اس میڈیم سے کام لیتی ہے ۔میڈیم کام کر تا ہے اور جب روح اس سے اپنا رشتہ توڑ لیتی ہے تو میڈیم بیکار ہو جاتا ہے ۔ ہمارا کھانا ،ہمارا پینا، انتہاء یہ ہے بچے پیداہونا۔تاریخ انسانی میں تین ارب سال بتاتے ہیں کہ کوئی ایک مثال ایسی نہیں ملی کے کسی مردہ ماں نے بچے کو جنم دیا ہو ۔ پوری تاریخ انسانی میں کو ئی ایسی مثال نہیں ملتی کہ کسی مردہ مرد کو شوہر تسلیم کر دیا جائے ،پوری تاریخ انسانی میں کوئی ایک مثال ایسی نہیں ملتی کہ ایک آدمی مر گیا ہو اوروہ مل بھی چلاتا ہو ،تاریخ انسانی میں کوئی ایسی مثال نہیں کہ کسی مری ہو ئے ٹیچر نے کسی اسٹوڈنٹ کو تعلیم دی ہو۔ سبق پڑھایا ہو۔کیوں جناب آپ کے پاس ایسی کو ئی مثال ہے کسی مردہ طالب علم کو پڑھایا ہو جی میں آپ سے سوال کر رہا ہوں تو آپ نے اپنے student کو علم سکھایا تو آپ سکھا رہے ہیں یا آپ کی روح سکھا رہی ہے ؟آپ کے student مردہ  ہو آپ اسے علم سکھائیں  گے؟تو اس کا مطلب ہے کہ روح علم سکھا رہی ہے ۔بات صرف پردے کی ہے روح نے دو بندوں کے درمیان خود کو پردہ قائم کیا ہوا ہے خود چھپ گئی ہے جسم کو آگے کر دیا ہے۔جب تک وہ جسم کے اندر رہتی ہے روح، جسم متحرک رہتا ہے اور جب روح جسم سے رشتہ توڑ لیتی ہے تو جسم کی کوئی حیثیت نہیں رہتی ۔ایک اور بات ہے ایک زندہ آدمی ہے ۔اس کے سوئی چبھوئیں کیا ہوا؟ ایک زندہ آدمی ہے اس کو سوئی چبھوئیں کیا ہوگا ؟اس کو چبھن کو احساس ہو گا ؟ایک مردہ آدمی ہے کلہاڑی لیکر اس کی ٹانگ کاٹ دیں کیا ہو گا ؟جی کیا نہیں ہو گا تو جب تک تکلیف کا احساس نہیں ہو گاتو جب پیر کاٹا اور تکلیف نہیں ہو ئی تو مادی جسم کی کیا حیثیت ہوئی؟اگر روح وہ اس کو اپنا میڈیم بنا یا ہو ا ہے۔ تو جناب آپ سوئی چبھوئیں پیر کے انگھوٹھے میں تکلیف کہاں ہو گی یہاں آن ًفاناً سوئی کی چبھن دماغ میں جاتی ہے ۔ کب جب روح موجود ہوتی ہے۔ اس کا مطلب ہے روح ایک ایسا جال ہے۔ ایک ایسابجلی کا کرنٹ کا ایک ایسا سسٹم ہے کہ اسکے اندر کرنٹ اسپس کا بھی کوئی حساب نہیں ہو تا ۔جب پیر کے انگھوٹھے میں سوئی چبھی دماغ میں محسوس ہو ئی تو اس کا آپ کسی بھی طرح وقت نہیں ناپ سکتے ۔یہ نہیں کہہ  سکتے کہ ایک سیکنڈ کا ہزار نہیں آپ وقت کو ناپ ہی نہیں سکتے ۔ایک ماں ہے ، کیسے وہ ماں بن گئی ۔اللہ نے اسے ماں بنا دیا اس کا بچہ پیدا ہو گیا وہ فوراً مر گئی۔ہوتے ہیں ایسے کیس ہو تے ہیں کہ ماں کے سینے میں دودھ اترے گا یا نہیں جب ماں نے اپنے بچے کو دودھ پلا یا تو ماں کے جسم نے پلا یا یا ماں کی روح نے پلا یا ؟اگر ماں کے جسم نے دودھ پلا یا تو مردہ جسم  کوبھی دودھ پلانا چاہئے اس کا مطلب ہے یہاں جو کچھ بھی ہو رہا ہے۔ ماں کے جسم کی کو ئی بھی حیثیت ہی نہیں ہے وہ ایک دکھاوا ہے۔ جھل فریب نظر ہے کچھ بھی نہیں ہے۔ جو کچھ ہے سب روح ہے ۔روح ہی کھانا کھاتی ہے ، روح ہی دودھ پلا تی ہے اورروح ہی دودھ پیتی ہے پھر آپ ایک مثال لیں ایک ماں ہے بچہ پید ا ہو ا سینہ بھرا ہوا ہے دودھ سے ٹپک رہا ہے۔ بچے کا انتقال ہو گیا ۔اللہ سب کے بچوں کو زندگی عطا فر مائے ۔۔ اب بچے کا انتقال ہو گیا کیا ماں کے بھرے ہو ئے سینے سے کیا وہ بچہ دودھ پی سکتا ہے ؟پی ہی نہیں سکتاجی تو دودھ کس نے پیا ؟تو اگر ماں دودھ پلا رہی ہے وہ روح کو دودھ پلار ہی ہے اگر بچہ دودھ پی رہا ہے تو روح دودھ پی رہی ہے ۔اس لئے روحانیت میں کہا جاتا ہے کہ مادی جسم فکشن ہے ۔فریب ہے الوشن ہے دھوکا ہے کچھ بھی نہیں ہے۔جو کچھ ہے یہاں وہ روح ہے تو پھر چوٹ بھی روح کے لگتی ہے دیکھئے مردہ آدمی کے چوٹ بھی نہیں لگتی۔ایک مردہ آدمی ہے۔ہندو جلا تے ہیں لا شیں آج تک کوئی ایسی بات سننے میں آئی کہ وہ مردہ  کہے ہائے مجھے کیوں جلا رہے ہوں ہائے مجھے بچاؤ، ہائے ،مجھے آگ میں کیوں ڈال دیا لیکن زندہ آدمی کو آپ ذرا آگ کے قریب لیجائیں وہ شور مچا دے گا ۔مجھے کیوں جلا رہے ہو، مجھے کیوں جلا رہے ہوتو آج کی مجلس میں سو چنا یہ ہے کہ اس مادی جسم کی کیا تعریف کریں گے ہم اچھا نماز پڑھ رہے ہیں۔ کسی مردہ آدمی نے نماز نہیں پڑھی اب مردہ آدمی پر نماز فرض بھی نہیں ہے۔ یہ بھی بات ہے تو اب فرض بھی معاملہ ایسا ہوا کہ اب یہ روح ہے تو فرض ہے روح نہیں تو فرض ہی نہیں۔ہم جو اس دنیا میں جو کچھ کر رہے ہیں۔ ہم یہ سمجھ کر رہے ہیں کے ہم جو کچھ بھی کر رہے ہیں وہ ہمارا جسم کر رہا ہے ہمارا یہ مادی جسم کر رہا ہے ۔جب کہ حقائق کیا ہیں؟حقائق کیا ہیں؟ زورسے بولو جو مجھے پتا چلے کہ میری بات آپ کے سمجھ میں آرہی ہے ۔اچھا جب پھر روح سب کچھ کر رہی ہے تو اس سے بڑی کوئی دنیامیں جہالت اور ظلم ہو سکتا ہے ؟کہ آپ ساری زندگی دھوکے میں گزار رہے ہیں۔کام روح کر رہی ہے کہہ  رہا ہے جسم کر رہا ہے ،کھا نا روح کھا رہی کہہ رہیں ہیں کہتے ہیں میرا پیٹ کھا رہا ہے، منہ کھا رہا ہے، حلق کھا رہا ہے۔ مرنے کے بعد حلق ختم نہیں ہو جاتا ہے۔ لیکن ایک مردے کے منہ سے حلق میں ایک قطرہ پانی آپ نیچے نہیں اتار سکتے یا اتار سکتے ہیں ؟ایک قطرہ ، ٹنوں کے حساب سے پانی پیتا ہے آدمی لیکن اگر مر جائے حلق موجود ہے ایک قطرہ پانی اس کے پیٹ میں نہیں اتر سکتا تو کیا ثابت ہو اکہ جسم کچھ نہیں ہے اور یہی وہ سب سے بڑا پردہ ہے ۔جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فر مایا لا تکرابا… یہ درخت ہے اس کو ہم جسم سے بھی مثال دیتے ہیں ،یہ فریب ہے فریب نظر ہے دھوکا ہے اگر تم دھوکے میں پڑ گئے تو تم اپنے اوپر ظلم کر وگے وتکونامن الاظالمین…آپ سوچیں کھا نا روح کھا رہی ہے پڑھ روح ر ہی ہے اور پڑھا بھی روح رہی ہے ،سو بھی روح رہی ہے ، جاگ بھی روح رہی ہے ،ہم کہہ  رہے ہیں ہمارا جسم کام کر رہا ہے ۔ہم سو رہے ہیں ،ہم کھا رہے ہیں ،ہم نے یہ تیر مارا وہ تیر مارا یہ کارنامہ انجام دے دیا اب پھر آپ وہی آجائیں ایک دن کا بچہ،  ایک دن کا بچہ ہے آنکھ، ناک، کان سب ہیں ۔ سنتا بھی ہے وہ دیکھتا بھی ہے لیکن دیکھتا ہے معنی نہیں پہنا سکتا ،سنتا ہے اس کو یہ علم نہیں کہ اس نے کیا بات کہی اب جسے جسے اس کا وقت گزرتا ہے۔ کئی سال گزرتے ہیں روح نے جو علم سکھا ہوا ہے تو روح اپنے اس بچے کو جو اس نے میڈیم بنا ہوا ہے۔ فہم عطا کرتی ہے، عقل عطا کرتی ہے،حواس عطا کرتی ہے، جذبات عطا کرتی ہے ،لمس عطا کر تی ہے ، شامہ عطا کرتی ہے اور جب روح اس میڈیم سے اپنی توجہ ہٹا لیتی ہے تو نہ شامہ ہے ،نہ ذائقہ ہے، نہ لمس ہے ،نہ جذبات ہیں، نہ احساسات ہیں، نہ گرمی ہے ،نہ سردی ہے، نہ بھوک ہے ،نہ پیاس ہے ،نہ رنج ہے ،نہ غم ہے، نہ تکلیف کا احساس ہے ،نہ خوشی کا احساس ہے بات مشکل ہے میں بار بار repeat اس لئے کر رہا ہوں جب کوئی بات سمجھ میں نہیں آتی تو بار بار بار بار دوہراؤ اللہ تعالیٰ فر ماتے ہیں …وسبحان اللہ… مثالوں سے آدمی جلدی سمجھ جاتا ہے تو آپ نے یہ جو کچھ سنا اس وقت اس کو ہمارے پرانے جتنے بھی بزرگ حضرات ہیں۔ انہیں باتوں کو کہتے ہیں کہ صاحب روح جو ہے ایک راز ہے میری بات سمجھ میں آئی روح راز ہے تو آدمی دھوکے میں ہے فریب میں ہے ،ایلوشن میں ہے اگر آدمی اس فریب کو سمجھ لے تو اس کے اوپر روح کا راز علم بن جاتا ہے اور جب انسان کسی کو یہ رازبتا دیتا ہے تو کہ مادی جسم کچھ نہیں ہے اصل روح ہے تو وہ اصل کی طرف لازماً متوجہ ہو تا ہے ۔ وہ کہتا ہے کہ میرا جسم دھوکا ہے تو اصل کیا ہے؟حقیقت کیا ہے ؟Realltyکیا ہے ؟تو اس کا جواب ملتا ہے Realltyروح ہے۔ تو جب انسان کو روح کا پتا چل جاتا ہے ۔روحانی علوم سے وہ آشنا ہو جاتا ہے تو سب سے پہلے اسے اس بات کا علم ہوتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو تخلیق کیا ۔اللہ تعالیٰ کے ذہن میں کائناتی پرگرام جس طرح تھا اس کو ظہور میں لائے یا ظہور میں لا نا چاہا تو جو بھی دماغ میںتھااس کے لئے اللہ تعالیٰ نے کہا ’’کن‘‘ میرے دماغ میں جو پروگروم ہے ۔اللہ رب العزت کے جو دماغ میں پروگرام ہے کائنات سے متعلق وہ displayہو جا،  کن displayاور جسے ہی اللہ تعالیٰ نے کن کہا وہ سارا پروگرام display ہو گیا فیکون پروجیکٹر پر ہو جا اور پروجیکٹر نے ظاہر کردیا،  سارا پروگرام اور جب وہ پروگرام ظاہر ہو گیا۔ اب اس پروگرام کی دوسری تعریف یہ ہو ئی کہ ابھی اس پروگرام کو اللہ تعالیٰ نے displayتو کر دیا لیکن ابھی اس displayہونے والے پروگرام کو حواس نہیں ملے ۔افہام وتفہیم اس کے اندر منتقل نہیں ہوا ۔ جب اللہ تعالیٰ نے یہ چاہا کہ اس پروگرام کے اندر افہام و تفہیم پیدا ہو۔ اس کو اپنے ہونے کا احساس ہو ۔اس کو اس بات کا علم ہو کہ میرا بنا نے والا کوئی ہے میری ذاتی حیثیت کوئی نہیں ہے ۔تو اللہ تعالیٰ نے کہا… الست بربکم…کائنات بن گئی ابھی اسے کچھ پتا نہیں کہ وہ کیا ہے ؟ کیوں ہے ؟کس لئے بنا یا ؟کیا صورت ہو ئی ؟میرے اندر احساس ہے اس احسا س میں اللہ تعالیٰ نے گہرائی پیدا کرنے کے لئے اس احساس کو تقسیم کرنے کے لئے فر مایا …الست بربکم …میں نے کہا اس طرح ہو جا جو کچھ میں چاہتا ہوں ہو جا وہ سب ہو گیا ۔فلم بن گئی سامنے آگئی اسکرین پر آگیا سب کچھ ہو گیا۔  عالم ارواح کو آپ اسکرین کا نام دے دیں۔اب اللہ تعالیٰ نے فر مایا …الست بربکم … وہ مخلوقا ت تھیں ان کو اللہ تعالیٰ نے مخاطب کیا ، یہ چاہا کہ مخلوق اس بات سے واقف ہو کہ تمہارا کوئی بنانے والاہے ۔تمہیں کوئی پیدا کرنے والا ہے۔جب مخلوق نے اللہ کی آواز سنی… الست بربکم… تو سب سے پہلے آواز سنی،  جیسے ہی آواز سنی…اصل سامنے کیا ہے   رسول اللہ ﷺ نے فر مایا :کہ جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا ۔رسول اللہ ﷺنے نہیں فر مایا کہ جس نے اپنے جسم کو پہچان لیتا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا یہی ہے نہ یا جس نے اپنی روح کو پہچان لیا اس نے رب کو پہچان لیاکیوں ؟کہ روح ازل میں اللہ کو دیکھ چکی ہے۔روح ازل میں اللہ کی آواز سن چکی ہے ۔روح ازل میںاللہ کو دیکھ کر اس کی ربوبیت کا اقرار کر چکی ہے۔ کوئی بھی انسان اگر جب اپنی روح سے واقف ہو جائے گا ۔روح تو اللہ کو ازل میں دیکھ چکی ہے اس لئے وہ اللہ سے متعارف ہو جائے گا۔ اور جب کوئی بندہ اللہ سے متعارف ہو جا ئے گا۔ اس نے اپنی زندگی کا مقصد حاصل کر لیا کہ چھپا ہوا خزانہ تھا رسول اللہ ﷺسے اللہ تعالیٰ نے فر مایا کہ میں چھپا ہوا خزانہ تھا۔ میں نے محبت کے ساتھ مخلوق کو تخلیق کیا ۔ کیوں تاکہ مخلوق مجھے پہچانے ،مخلوق جو کچھ بحیثیت روح کے دیکھ چکی ہے۔ اس سے وہ واقف ہو جائے تو انسان کی تخلیق کا مقصد انسان کی پیدائش کا مقصد کھانا، پینا بچے پیدا کرنا نہیں ہے ۔یہ تو زندگی کے مراحل ہے ۔ اگر بچے پیدا کرنا زندگی کامقصدہے تو پھر یہ کیسی زندگی کا مقصد ہے انسان کا تو ایک بچہ پیدا ہو تا ہے کتے کے چار ہو تے ہیں۔اس نے تو زیادہ منشاء پورا کیا ۔اگر کھانا پینا زندگی کا مقصد ہے تو کھانا پینا تو درخت بھی کھا نا کھا تے ہیں ،پرندے بھی کھانا کھا تے ہیں ،چوپائے بھی کھا نا کھا تے ہیں ،اور اگر سونا زندگی کا مقصد ہے تو درخت بھی سوتے ہیں یہ ثابت ہو گیا۔ درخت بھی سوتے ہیں۔  ا گر زندگی کا مقصد بولنا ہے تقریریں کرنا ہے تو رات بھر کتے بھوکتے رہتے ہیں ۔میرا خیال ہے کتے ہی سمجھتے ہو نگے کہ تقریر ہی کر رہا ہے ۔ زندگی کا مقصد نہ کھانا پینا ہے زندگی کا مقصد نہ سونا جاگنا ہے۔ زندگی کا مقصد اللہ کو پہچاننا ہے اور پہچاننا کس طرح ممکن ہو گا۔ اپنے جسم سے توجہ ہٹانانہیں کہ جسم خراب ہو جائے گا۔ اپنے جسم کو ایک لباس سمجھ کر اس کی حفاظت کرنی ہے۔ جسم میں اور لباس میں بڑا فرق ہے ۔آپ لباس اتار کے پھینک دیتے ہیں ۔لباس تبدیل بھی کرتے ہیں۔ جسم کوئی تبدیل نہیں کرتا یا کسی ایک نے اپنا جسم تبدیل کیا ہے؟ لیکن آج جو سرجری ہو جاتی ہے۔ لیکن تبدیل نہیں ہو تا ۔کھال اتر کے دوسری لگا دیتے ہیں ۔ اب ہمیں کرنا کیا ہے ۔ہمیں یہ کرنا ہے یہ جو واقعہ قرآن میں درج ہے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں نے جو کچھ بتایاہے۔ہمارےآخری بنی  ﷺ نے جس کی تاکید فر مائی کہ انسان کی روح ازل میں اللہ کی آواز سن چکی ہے ، انسان کی روح ازل میں اللہ کو دیکھ چکی ہے ،انسان کی روح ازل میں اللہ کو دیکھ کر اس کی ربوبیت کا اقرار کر چکی ہے بلکہ عہد کر چکی ہے …قالوابلیٰ…جی ہاں آپ ہمارے رب ہیں ۔ہم اس بات کا عہد کرتے ہیں کہ آپ ہمارے رب ہیں ۔جب انسان محض جسم کو زندگی سمجھتا ہے تو رب سے دور ہو جاتا ہے جتنے آپ تقاضے پو رے کریں گے آپ اللہ سے دور ہو چکے ہیں۔ یہ قانون ہے ابھی آپ کے جسم کو پنکھا چاہئے ،ابھی آپ کے جسم کو  ac  چاہئے ،ابھی آپ کے جسم کو ہیٹر چاہئے ،ابھئی آپ کے جسم کو گاڑی چاہئے ،ابھی آپ کے جسم کو تھوڑا کمروں کا گھر چاہئے ،ابھی آپ کے جسم کو باغ چاہئے ،ابھی آپ کے جسم کو چائے چاہئے ، بس چاہئے،  یہ چاہئے ، وہ چاہئے ، ہر وہ چیز چاہئے جو آپ ساتھ نہیں لے جا سکتے ۔آپ یہ بتائیں یہاں ماشااللہ اتنے سارے لوگ ہیں انہوں نے اپنے والدین کو دادا کو نانا کو یہاں سے جاتے دیکھا ہی ہو گا نا،  نا نا دادا کوئی اپنے ساتھ اس دنیا کی کیا چیز لے گیا ہے جی …؟ہم کوتو پتا ہی نہیں ہے کچھ چاہئے تو کیا چاہئے؟  ۔ایک فقیر تھے وہ ننگے رہتے تھے ۔کپڑے نہیں پہنتے تھے ۔مگر لوگ پہلے ان کے پاس جاتے تھے ۔ فقیری کے شان کے اتنے کم کپڑے پہنے گا کہ لوگوں کی نظر میں بہت بڑا فقیر ہے ۔یہ جتنی زیادہ مکھیاں بھنکیں گیں اتنا زیادہ بڑا وہ وفقیر ہے۔ جو وہ بولوگا پتے کے نمبر بولے گا۔ تو وہ بھی کپڑے نہیں پہنتے تھے لوگوں ان کے پاس پہنچ جاتے تھے لوگو ں نے کہا سرکار کپڑے پہن لیجئے انہوں نے کہا بھئی کپڑے کیوں پہنو کہ ہم آپ کے پاس آتے ہیں ہمیں اچھا نہیں لگتا انہوں نے کہا نہیں آیا کرو میں نے کبھی بلا یاتمہیں۔  تو انہوں نے کہا سرکار خواتین بھی آتی ہیں ان کی بڑی بے عزتی ہو تی ہے انہوں نے کہا میں نے تو کبھی خواتین کو نہیں بلا یا منع کردوتو ان کو،  ہوا کچھ یو ں کہ جی وہ انہوں نے رات دن صبح شام تقاضے کر کے ان کو فقیر کو اس بات پر راضی کر لیاکہ چلو اگر کپڑے نہیں پہنتے تو لنگوٹ باندھ لو۔ وہ کہنے لگے چلو بھئی اتنے سارے لوگ کہہ  رہے ہیں اچھا بھئی لوگ جناب گئے بہترین قسم کا کپڑا خریدہ ٹیلر ماسٹر سے ایک لنگوٹ سلوا کر ان کے باندھ دیا ۔اب بڑے خوش تھے ،بڑے خوش کہ اب ہمیں شرم نہیں آئے گی ۔  وہ بچارے اکیلے رہتے تھے ۔ کھا ناخود پکاتے تھے۔آٹا گوندہ پھر وہ لنگوٹ کو آٹا لگ گیا۔رات کو چوہوں نے پریشان کیا ۔وہ تو بڑی مصیبت میں لاحول ولا قوۃیہ مجھے کس عذاب میں پھنسا دیا ۔مجھے ان لوگوں نے وہاں پھر لوگ جمع ہو گئے انہوں نے کہا بھئی میں تو اس سے بڑا پریشان ہوا اپنی لنگوٹی لے جاؤ بھئی… میری تو رات خراب ہو گئی ساری نہ عبادت ہو ئی نہ مراقبہ ہو ا نہ کچھ بھی نہیں ہوا۔  لوگوں نے کہا حضور ہوا کیا ہوا،  تو کہنے لگے چوہوں نے پریشان کیا کہنے لگے وہ ہم انتظام کر دیں گے وہ ایک بلی خرید لائے اور یا سرکار آپ بالکل فکر نہ کریں چوہے آپ کو پریشان نہیں کریں گے ۔یہ بلی بڑی مضبوط بلی ہے تگڑی ہے یہ چوہے کھائے گی ٹھیک ہے ۔بھئی وہ جو مرید جناب وہ بلی کے لئے کوئی چھیچڑے لا رہا ہے کویہ گوشت لا رہا ہے کوئی دودھ لا رہا ہے بلی پی کے توانا ہو گئی دو دن کے بعد انہوں نے کہا بھئی ہماری فیروزہ لاتی ہوگی فیروزہ نے سوچا منظور جاکے لائے آئی ہو گی۔ منظور نے سوچا صدیقہ لے آئی ہو گی صدیقہ نے سوچا صفیہ لے آئی ہو گی۔ وہ دودھ آنا بندہو گیا ۔جب دودھ آنا بند تو بلی تو ہے پھر چوہوں سے ان کی حفاظت میں خلل آگیا پھر لوگ جمع ہو گئے انہوں نے کہا بھئی یہ لنگوٹی لو واپس بھئی حضور اللہ کے واسطے خدا کے واسطے ایسا نہیں کرناکچھ انتظام کرتے ہیں کوئی بندہ گیا۔ اب جاکر بکری خرید لایا اب وہ کہتے ہیں بھئی دیکھئے یہ بکری دودھ پلا ئے گی بلی کو اور پھر جناب کوئی بکری کے لئے پٹھے لا رہا ہے کویہ دانہ لا رہا ہے کوئی چنے لا رہا ہے تھوڑے دن میں پھر وہی ہوا کہ میاں  صاحب نے سوچا کہ میرا بھائی وقار صاحب لے گئے ہو نگے وقار صاحب نے سوچا۔ وہ صاحب لے گئے ہو نگے اس طرح چارا آنا بند ہو گیا ۔وہ اس لئے کہ بلی کیا پئے بکری کے دودھ نہیں اترا بلی بھوکی ہو گئی بڑی پریشان ہیں کہ بکری بھیں بھیں کر رہی ہے۔ بلی میاؤں میاؤں کر رہی ہے ۔یا اللہ کس مصیبت میں آگیا یہ کیا شیطانی چکر ہو ا ہے تھک گئے ۔وہ بچارے اونچے اونچے درخت پر چڑھے بکری کے لئے کم ازکم پتے کھلا دوں چڑھنا تو انہیں آتا نہیں تھا ۔وہ درخت سے گرے ٹانگ ٹوٹ گئی ۔پھر لوگ جمع ہو ئے دیکھا کی ٹانگ پر پٹیاں و ٹیاں باندھی ہو ئی ہیں۔ اب سب جگہ مشہور ہو گیا کہ بھئی حضرت صاحب کی تو ٹانگ ٹوٹ گئی کہ حضرت صاحب کی تو ٹانگ ٹوٹ گئی اب سب جمع ہو گئے لوگ سلام کریں اس کا جوب نہ دیں ۔جب سارے لوگ جمع ہو گئے تو انہوں نے جناب کھڑے ہو ئے کھڑے ہو کر تقریر کی اور لنگوٹی کے اوصاف بیان کئے کہ اس نے کہا کس طرح عبادت سے دور گئے۔ کس طرح نیندیں خراب ہو ئیں اور ایک ڈندا مارا بلی کے اور ایک ڈنڈا مارا بکری کے نکلو یہاں سے اور لنگوٹی کھول کے پھنک کے ماری مریدوں پر لے لو اور دفعہ ہو جاؤں یہاں سے۔  تو بھائی جب آدمی مرتا ہے تو اپنے ساتھ لنگوٹی بھی نہیں لے کر جاتاکتنے مر جاتے ہیں۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آدمی دنیا کا کوئی کام نہیں کرے بیزار ہو جائے ، لیکن یہ ضروری ہے کہ انسان دنیاکو محض وقت کے استعمال کی چیزبنائے ۔ اگر وہ وقت کے استعمال کی چیز بن جائے ضرورت کے استعمال کی چیز نہیں بنےگی تو روح کا پردہ بہت گہرا ہو جائے گا۔ انسان چوُر چوُر ہو جاتا ہے اور یہ دنیا کا عجیب دستور ہے کوئی چیز آپ کے پاس ہو گی خوامخواہ دوسری دنیا آکر کھڑی ہو گی مجھے خرید لو دوسری خرید لو تیسری خود آکر کھڑی ہو جاتی ہے کہ جانا نہیں پڑتا کہیں آپ کو،  دنیا خودتر غیب دیتی ہے اور یہ ایسا جال ہے کہ آدمی اس میں خودپھنستا چلا جاتا ہے جب وہ پھنستا چلا گیاپردہ کھڑا ہو تا رہا تو روح سے دوری ہو گئی اور جب روح سے دوری واقع ہو گئی تو اب کیا ہو گا بھئی …کیا ہو گا ؟عالم ارواح میں،  ازل میں اللہ کو دیکھ چکی ہے روح اس سے واقف ہو گی محروم ہوگیاانا ما اموالکم … امواتمہارے گھر، دولت، زمینیں، جاگیریں سب تمہارے لئے فتنہ ہے اولاد بھی فتنہ ہے اگر اولاد کی پرورش آپ اللہ کے لئے کر رہے ہیں پھر اس کا اجر بھی ملے گا۔دنیا کا استعمال اگر آپ اپنی ذات کے لئے کر رہے ہیں تو اللہ کی مخلوق کے لئے کر رہیں ہیں اپنے بھائی بندوں کے لئے کر رہیں ہیں تو اسکا اجر ہے ۔ یہ انسان جو ہے یہ عجیب چیز ہے حضور قلندر بابا اولیاء ؒفر مایا کہ جب حضرت آدم علیہ السلام زمین پر اتر گئے تو بھوک سے رونے لگے ۔ وہاں تو عادت پڑی ہو ئی تھی۔ وہاں تو انگور آگیا ،انار آگیا ، فلاں چیز آگئی ۔ یہاں زمین پر بھی اس طرح نہیں ہو گانہ اب وہ رونے لگے کہ ہم روٹی کہاں سے کھائیں پیٹ میں بھوک لگی ہے ۔حضرت جبرائیل علیہ السلام آسمان سے نیچے اترے انہوں نے کہا کہ بھولے بادشاہوں رونے دھونے سے نہیں کام چلے گا محنت کرو مزدوری کرو …ثم اردناھو اسفل سافلین…اب آپ نے جو کچھ کیا ہے ۔اب جنت میں آپ نہیں ہیں ۔تو آپ محنت مزدوری کریں گے تو کھانے کو ملے گا انہوں نے کہا کہ بھائی کیا محنت مزدوری کروں انہوں نے کہا کھیتی کرو، کہاں کھیتی کریں؟ ۔تو حضرت جبرائیل نے کہا آؤ میرے ساتھ آؤ میں تمہیں بتا تا ہوں۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام آگے آگے حضرت آدم علیہ السلام پیچھے پیچھے انہوں نے حد بندی کی ایک کھیت بنا یا اور یہ کہا حضرت ایک منڈیربناؤں اس میں پانی چھوڑو ایک طریقہ بتا یا تو جہاں انہوں نے کھیت کی حد بندی کی حضرت آدم علیہ السلام وہا ں سے ایک قدم آگے بڑھ گئے یعنی یہاں نہیں یہاں بھی کر دیتے ہیں۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے افسوس کیا کہ افسوس تم نے اپنی اولاد میں لالچ کا بیج بو دیا اب تمہاری یہ اولاد لالچ سے چل سکتی ہے تم نے یہ نہیں سوچا کہ زمین پرتوتمہارے علاوہ کوئی ہے ہی نہیں، لالچ میں دو قدم اور بڑھا دوں تو یہی جبرائیل نے کہا ہے جتنا آدمی دنیا کو آگے رکھتا ہے دنیا اور دو قدم اور بڑھ جاتی ہے اور پھر دنیا ایسا لپیٹ لیتی ہے اسے تو اس کے پاس کچھ بھی نہیں رہتا… الدنیا خسرۃآخرۃ…نہ یہاں کچھ رہا ،نہ وہاں کچھ رہا دونوں جہانوں میں گھاٹا ہی گھاٹا ہے۔ یہ بات جو میں نے آپ کو کہی ہے نہ اس کا اجر مجھے پتا ہے کتنا ہو گا۔ آپ باہر نکلے گئے سب کچھ بھول جائیں گے ۔ پھر دنیا ۔۔ہائے دنیا،ہائے دنیا تو یہ اللہ کا نظام بھی ہے، کہنے والے کہتے نہیں تھکتے، وہ رکتے ہی نہیں ہیں ،سننے والے سنتے ہی نہیں ہیں اور وہ بتاتے رہتے ہیں۔میرا خیال ہے کافی دیر ہوگئی کیا بج گیا بھئی اوہوہو معاف کرنا بھئی کافی دیر ہو گئی بات مختصر سی ہے مختصر یہ ہے کہ یہ آپ کا جسم دنیا ہے اس دنیا کو آپ کو سنبھال کے چلنا ہے اس کی حفاظت بھی کرنی ہے اس کو بیمار بھی نہیں ہونے دینا اس کو اچھا لباس بھی پہنانا ہے، جگہ بھی بہت صاف ستھری رکھنی ہے لیکن دل نہیں لگانا ہے اگر اس نے دل لگا لیاتو آپ روح سے دور ہو جائیں گے ۔اس کی حفاظت کرو اس کی خدمت کرو۔یہ سمجھ کر اس کی ذاتی حیثیت نہیں ہے ۔ یہ دھوکا ہے ذاتی حیثیت اس کی ہے جس نے جسم کو سنبھالا ہوا ہے۔ جب یہ ارادہ آپ کے اندر پختہ ہو جائے گا ۔اسی روز سے آپ کی پوری طرز فکر جو ہے ۔بہت آسان ہو جائے گی… من عرف نفسہ…جس نے اپنی روح کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا ۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق دے کہ جو کچھ ہمیں رسول اللہ  ﷺکی تعلیمات ملی ہیں۔ ان پر عمل کریں اور اس دنیا کو … رسول اللہ  ﷺ کا ارشاد گرامی یہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے ۔اگر آپ یہاں کیکر بوئیں گئے۔ تو آخرت میں کیکر ملے گا ایسا نہیں ہو گا کا آج آپ نے کیکر بویامرنے کے بعد عالم ارواح میں آپ کو آم کا درخت ملے گا ۔اگر آپ نے یہاں آم کا درخت بو دیا تو عالم ارواح نے آپ کو آم کا درخت ملے گا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق دے اگر آپ کے اندر تھوڑی سی ہمت ہو تو مراقبہ کرلیں یا چھٹی کریں۔۔ تھوڑا سا ذکر کریں گے ذکر کے بعد مراقبہ کریں گے اور مراقبہ کے بعد انشا اللہ دعا مانگیں گے ۔

ذکر الہیٰ …یا حیی یا قیوم …دوردودخضری…مراقبہ۔

سورۃ الفاتحہ …دوردِشریف ابراہیم…بسم اللہ …یا رب اللعالمین ہم نے جو کچھ سنا ہے۔ اس پر عمل کر نے کی توفیق عطا فرما ،  یا اللہ ہمیں ہماری روحانی صلاحیتوں کو بیدار کرنے کی تو فیق عطا فر ما ، یااللہ ہماری چھوٹی بڑی خطاؤں کو معاف فر ما دے ، یا اللہ ہمارے گناہوں کو معاف فر مادے ،یا اللہ جو پریشان حال لوگ ہیں ان کی پریشانیوں کو دور فر ما،یا اللہ جو بے روز گار ہیں انہیں روز گار عطا فر ما ، یااللہ اپنی رحمت سے جو لوگ صاحب روز گار ہیں ان کی روزی میں برکت عطا فر ما ،یا اللہ جو بیمار ہیں انہیں شفاء عطا فر ما ،یا اللہ سب گھروں کو پریشانی سے محفوظ عطا فر ما ،یا اللہ جو نئی نئی بیماریاں آرہی ہیں ان سے ہماری حفاظت فرما،  یا اللہ ہمارے بچوں کا جو شادیوں کا مسئلہ ہے اس میں آسانی عطا فر ما ، یااللہ ہمیں اپنی روحانی صلاحتیں بیدار ہونے کی توفیق عطا فرما، یا اللہ حضور قلندر بابا اولیاء کے فیض سے ہم سب کو مستفیض فرمائے ، یا اللہ رسول اللہ  ﷺ کی محبت اور عشق عطا فر ما ،  یا اللہ اپنا عرفان نصیب فر ما ،  یا اللہ ہمیں سکون عطا فر ما ،  یا اللہ ہمیں یقین عطا فر ما ، یا اللہ ہمیں شیطانی نفرت سے اور شک سے ہماری حفاظت فر ما،یا اللہ اس مجلس میں جو دور دراز سے تشریف لا ئے ہیں یا اللہ ان کے سفر کو قبول فرما اور ان کے گھروں میں برکت عطا فر ما ،ان کو صحت اور تندوستی عطا فر ما ،یا اللہ عرس کے سلسلے میں لوگوں نے جس طرح بھی تعاون کیا ہے یا اللہ اس تعاون کو قبول فر ما کراس سے ہمیں اجر عطا فر ما ،… ربنا …آمین ۔آپ سب کی تشریف آوری کا بہت بہت شکریہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو پھر اکھٹا کریں اور دوبارہ ملاقات نصیب فر مائے ۔ایک بات میں آپ پر اللہ تعالیٰ نے مجھے فضلیت دے دی ہے میں عمر کے لحاظ سے ویسے تو میں بزرگ ہوں نہیں عمر میں آپ سے بڑا ہوں وہ یہ ہے کہ ہر ماں باپ کی خواہش ہوتی ہے۔ میری بھی ہے کہ سب عظیمی بہن بھائی دوست احباب آپس میں پیار محبت سے رہے۔ اگر ان کو ایک دوسرے سے کوئی شکایت ہویا ایک دوسرے کی طرف سے کوئی غلط فہمی پیدا ہو جائے تو اس کو دل میں نہ رکھئے اس غلط فہمی کو دور کریں برملا اظہار کریں بھئی ہم نے یہ سنا ہے تم نے ہمارے لئے یہ کہا ۔یا ہمیں تمہاری طرف سے یہ تکلیف پہنچ اگر وہ سوری کر لے تو پھر اس کی زیادہ کرید نہ کریں اسے معاف کریں گلے سے لگائیں۔ پیار اور محبت سے رہیں۔ سلسلہ عظیمیہ میں الحمد اللہ، اللہ کا شکر ہے کہ لوگ مثال دیتے ہیں کہ اس کے عظیمی بہن بھا ئی آپس میں بہت محبت کرتے ہیںبہت ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں ۔لیکن بشری تقاضوں کے تحت ایک ایسی بھی باتیں سنے میں آئیں ہیں کہ ایک دوسرے کے خلاف لوگوں کے دلوں میں غلط فہمیاں پیدا ہوئیں ہیں۔ تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ دلوں میں غلط فہمیاں کو غرق کر کے اپنی بات کو صاف کر لیں بلکہ ایک دوسرے کو معاف کر دیں ۔سلسلہ عظیمیہ میں اغراض و مقاصد میں پڑھا ہو گا آپ سب کو یاد ہے وہ یہ ہے کہ اگر آپ کی ذات سے کسی کو تکلیف پہنچ جا ئے چاہے وہ چھوٹا ہو بڑا ہو ذات والا ہو ۔اگر آپ کو یہ احساس ہو جائے کے آپ کی وجہ سے اسے تکلیف پہنچی ہے تو آپ اللہ کے لئے اسے معاف کردیں اور اگر آپ کی ذات سے کسی کو تکلیف پہنچ جائے تو اور آپ کو احساس ہو جائے کے مجھ سے بڑا کوئی  یا مجھ سے چھوٹے کو کوئی تکلیف پہنچی ہو تو اس سے اللہ کے لئے معافی مانگ لیں۔ اللہ تعالیٰ معاف کرنے کو پسند فر ماتے ہے …اللہ تعالیٰ کی صفت میں ستار العیوب غفارالذنوب… اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے عیب چھپاتا ہے اور اپنے بندوں کی کمزوریوں کو معاف کرتا ہے ستا ر العیوب ہے غفارالذنوب ہے ۔تو ہم بھی اللہ کے بندے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی صفات بندوں کے اندر موجود ہے صرف بندے کو اللہ کی صفت سے فائدہ اٹھا نا ہے ہر بندے کے اندر صفت ہے کہ اپنے عیب چھپاتا ہے اپنے بہن بھا ئیوں کے عیب بھی چھپا لو بھئی ،  اپنے آپ کو تو معاف کرتا ہے اپنے بہن بھائیوں کی غلطیوں کو بھی معاف کر دے ۔ایک میری آپ سے درخواست ہے غلط فہمیاںآپ دل میں نہ رکھیں۔ سلسلے والوں کی طرف سے یا کسی بھی طرف سے اگر غلط فہمی ہو تو اس سے صفائی کر لیں اور اس کو معاف کر دیں اگر آپ کو معاف نہیں کر تا نہ کرے اس کا معاملہ اللہ جانے وہ جانے آپ اسے معاف کردیں اور کسی کے خلاف دل میں عداوت نہ رکھیں ۔دوسری بات یہ ہے کہ آپ سب عظیمی بھا ئی بڑے شوق سے سلسلے میں داخل ہو ئے۔ آپ اپنے پیرومرشد کے امام حضور قلندر بابا اوولیاء ؒکے جناب حضور ﷺ سے محبت کرتے ہیں اس محبت کا یہ تقاضہ ہے آپ اپنے اسباق میں ناغہ نہ کریں ۔مراقبے میں کوتاہی نہ کریں ۔اگر اسباق میں کوتاہی ہو گی مراقبہ میں کوتاہی ہو گی وہ جو روحانی تربیت ہو نی ہے۔جو حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے کرنی ہے روحانی طور پر یا رسول اللہ  ﷺ کے دربار سے تربیت ہو نی ہے۔ اسباق پڑھنے کے نتیجے میں اس سے پھرمحروم رہے جائیں گے۔ تو اس محرومی کو ختم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ سلسلے کے اسباق جو ہیں۔مراقبہ ہے اس کو کریں پہلے دوسری بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو پانے کے لئے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لئے قریب ترین راستہ یہ ہے کہ رسول اللہ  ﷺ کی سیرت طیبہ کا مطالعہ کیا جائے  رسول اللہ  ﷺ کی ۔۔ روزانہ کتاب رکھ لیں تکیے کے نیچے یا کوئی بھی سیرت کی کتاب رکھ لیں ۔جو آپ کو پسند ہو سونے سے پہلے دو چار صفحات ضرور پڑھیں۔ سیرت بار بار سیرت پڑھنے سے رسول اللہ  ﷺکی طرز فکر آپ کے اندر منتقل ہو گی اور جو کچھ رسول اللہ  ﷺنے کیا ہے وہ سب آپ کرتے چلے جائیں اور جو کچھ رسول اللہ  ﷺنے نہیں کیا اس کو آپ انتہائی حد تک کوشش کریں کہ اس کو بھول جائیں …جب کوئی بندہ رسول اللہ  ﷺکی سیرت بار بار پڑھتا ہے۔ تواس کے اندر رسول اللہ  ﷺ کی محبت پیدا ہوتی ہے عشق پیدا ہو تا ہے۔ رسول اللہ  ﷺ کی طرزفکر زندگی گزانے کا شوق پیدا ہو تا ہے ۔یہی محبت ہے جب ہم رسول اللہ  ﷺ سے محبت کریں گے تواللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بھی ہم سے محبت کرے گا …سوچنے کی بات یہ کہنا چاہتا ہوں کہ سلسلہ عظیمیہ کو زیادہ سے زیادہ لوگوں میں متعارف کرانے کی کوشش کریں اور اس کاایک طریقہ تو یہ ہے کہ اپنے گھروں میں ذکر کریں خواتین خواتین کو جمع کریں مرد ،مردوں کو جمع کریں اللہ کا تذکرہ کریں ۔پھرآپ سیرت طیبہ کی کتاب پڑھ کر تذکرہ کریں۔ تو گھر گھر جب یہ سلسلے کا پیغام پہنچے گا ۔تو اس سے انشاااللہ سلسلے کا پھیلا ؤ بھی ہو گا اور سلسلے کی تعلیمات پھیلانے کے سلسلے میں اللہ اور اللہ کے رسول اللہ  ﷺ کی طرف سے انعام و اکرامات کی یقینابارش ہو گی ۔اللہ بھی خوش ہو گا اللہ کا رسول بھی خوش ہو گا۔ حضور قلندر بابا اولیاء کی ؒتوجہ اس طرف آئے گی ۔دین دنیا آخرت سب آپ کے لئے اچھی ہو جائے گی ۔آپ دوردراز سے تشریف لائے ایک بار پھر میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔اللہ تعالیٰ آپ سب سے دوبارہ ملاقات کرائے انشااللہ اگلے سال زندگی رہی پھر ملے گے ایک بار پھر آپ کا شکریہ خدا حافظ۔اختتام

Topics


Khutbat Khwaja Shamsuddin Azeemi 01


اللہ کا شکر ہے پہلی جلد جس میں 73 تقاریر کو شامل کیا گیا ہے۔حاضر خدمت ہے۔ بہت سی جگہ ابھی بھی غلطیاں ہونے کا امکان ہے۔ برائے مہربانی ان سے ہمیں مطلع فرمائے۔اللہ تعالی میرے مرشد کو اللہ کے حضور عظیم ترین بلندیوں سے سرفراز کریں،  اللہ آپ کو اپنی ان نعمتوں سے نوازے جن سے اس سے پہلے کسی کو نہ نوازہ ہو، اپنی انتہائی قربتیں عطاکریں۔ ہمیں آپ کے مشن کا حصہ بنائے۔ ناسوت، اعراف، حشر نشر، جنت دوزخ، ابد اور ابد الاباد تک مرشد کا ساتھ نصیب فرمائے۔آمین

مرشد کا داس