Topics
عبدمناف کے گھرانے میں
شکار کا گوشت تیار ہو رہا ہے۔ چولہے پر بڑی سی دیگ چڑھی ہوئی ہے اور عبدمناف کی
بیوی اس میں لکڑی کا بڑا سا چمچہ چلا رہی ہے……کھانے کے انتظار میں اہل خانہ فرش پر
دائرہ بنائے بیٹھے ہیں……پورے کمرہ میں گوشت کی خوشبو پھیلی ہوئی ہے۔ کچھ دیر بعد
دیگ میں چمچہ چلاتے ہوئے عبدمناف کی بیوی اپنے شوہر سے پوچھتی ہے……تم نے عبدالمطلب
کی بات کے بارے میں کیا سوچا ہے۔
میں ابھی تک اسی کے بارے
میں سوچ رہا ہوں……ادھیڑ عمر عبدمناف نے جواب دیا۔
ارے۔ تم ابھی تک فیصلہ
نہیں کر پائے……اس کی ہم عمر ایک خاتون نے قدرے پریشانی سے کہا……اس نیک کام میں دیر
کرنا مناسب نہیں۔
عبدالمطلب کے بیٹے کے لئے
لڑکیوں کی کمی نہیں ……اس بار ایک مرد بولا……لوگ تو خواہش کر رہے ہیں کہ
‘‘عبداللہ’’ کا پیام ان کی لڑکی کے لئے آ جائے تو وہ اسی وقت نکاح کر دیں گے۔
مجھے معلوم ہے ……عبدمناف
نے جواب دیا۔
اور پھر بھی تم دیر کر
رہے ہو……اسی مرد نے دوبارہ کہا……جبکہ عبداللہ کے باپ سید القریش ہیں۔ اور بنو ہاشم
سارے عرب میں عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں……تم اس معاملے میں دیر نہ کرو……تمہاری
بیٹی ‘‘آمنہ’’ بھی لاکھوں میں ایک ہے……ان دونوں کا نکاح ہونا ہمارے لئے باعث فخر
ہے۔ اورپھر کھانے کے دوران ہی اس بات کا فیصلہ ہو گیا۔ اور عبدالمطلب کے بیٹے
عبداللہ کا پیام آمنہ کے لئے منظور کر لیا گیا۔
بات طے ہو گئی۔ عبدالمطلب
کے پاس جواب بھیج دیا گیا……ہمیں یہ رشتہ منظور ہے……دونوں طرف خوشی کے شادیانے بجنے
لگے……عبداللہ باپ کا لاڈلا اور ذبیح اللہ تھا۔
اس کی شرافت……نیکی اور
پارسائی کی لوگ مثالیں دیتے تھے۔
اس طرح ‘‘آمنہ’’ عفت و
حیا کا پیکر تھی……عرب کی عورتیں میلوں میں بے باکی سے شریک ہوتی تھیں۔ نائو نوش سے
شغل کرتیں……غیر مردوں کو آسودگی بخشتیں……لیکن آمنہ کی جبلت ان سب سے مختلف تھیں۔
وہ تو اپنے خاندان کے مردوں سے بھی باتیں کرتی ہوئی شرماتی تھیں……سر اور سینہ سے
کبھی چادر نہ ہٹتی تھی……وہ سنجیدہ اور متین تھی……انہیں دوسری لڑکیوں کی طرح باتیں نہیں
آتی تھیں……گو کہ انہوں نے جوانی کے بحر تلاطم میں قدم رکھ دیا تھا، اس کے باوجود
شوخی ان میں نام کی بھی نہیں تھی……یہی وجہ تھی کہ ان کے گھر والے نہ صرف ان سے
محبت کرتے تھے……بلکہ ان کا احترام بھی کرتے تھے۔
عبدالمطلب رئوسا قریش اور
اپنے خاندان والوں کے ہمراہ عبدمناف کے گھر پہنچے۔ وہاں بارات کے استقبال کا پہلے
ہی سے انتظام تھا……حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس سنت کو نہایت ہی سادگی سے ادا
کیا گیا……اعلان ہوا……کہ عبداللہ بن عبدالمطلب اور آمنہ بنت وہب ایک دوسرے کے نکاح
میں آ گئے ہیں اور آج کے بعد وہ دونوں ایک دوسرے کے دکھ سکھ کے ساتھی ہوں گے……نکاح
میں شریک لوگوں نے مبارکباد دی……عبدالمطلب نے اللہ کا شکر ادا کرنے کے لئے آسمان
کی جانب ہاتھ اٹھا دیئے……دو تقدیروں کے ستارے مل گئے تھے……دو زندگیاں ایک ہو گئی
تھیں……دونوں حسن صورت اور حسن سیرت میں یکتا تھے……عبداللہ آفتاب تھے تو آمنہ
ماہتاب تھیں……دونوں نیکی اور شرافت کا نمونہ تھے……دونوں ایک دوسرے کا جواب
تھے……عبداللہ کو چھپائو تو آمنہ فرشتہ تھیں۔ اور آمنہ کو چھپائو تو عبداللہ نیکی
کا مجسمہ تھے۔
عبداللہ اور آمنہ کی شادی
کو تقریباً تین ماہ ہو چکے تھے۔ عبدالمطلب کے گھر کے بڑے صحن میں اونٹوں کے کجاوے
کسے جا رہے تھے……ستو کی تھیلیاں بھری جا رہی تھیں……چھاگلوں میں پانی بھرا جا رہا
تھا……تلواروں کی نیامیں درست کی جا رہی تھیں……ترکشوں میں زہر کے بجھے ہوئے تیر
سنوارے جا رہے تھے……عبدالمطلب اپنے بیٹوں کے ہمراہ تجارتی قافلہ شام کی طرف روانہ
کر رہے تھے……جب اونٹوں پر سامان تجارت بھی لادا جا چکا اور خاندان کے تمام افراد
اہل قافلہ کو الوداع کہنے کے لئے جمع ہو گئے……انہی میں سے ایک عمر رسیدہ شخص
عبداللہ سے مخاطب ہوا……اے ابن عبدالمطلب میں نے سنا ہے کہ یہاں سے سات فرسنگ کے
فاصلے پر جو نخلستان ہے وہاں قافلے لٹ جاتے ہیں……یہ جملہ نئی نویلی دلہن آمنہ نے
بھی سنا۔ اور ان کا دل کسی انجانے خوف سے دھڑکنے لگا۔ عبداللہ نے اس جملہ کے جواب
میں اپنی تلوار کی جانب دیکھا اور مسکرانے لگے……پھر باپ کی موجودگی میں ان سب
بھائیوں نے اہل خاندان کو الوداع کہا……اور اپنے اپنے اونٹوں پر سوار ہو گئے……اونٹ
قطار میں یکے بعد دیگرے دروازہ کی جانب بڑھ گئے……عبداللہ کا اونٹ سب کے آخر میں
تھا۔ آمنہ جو دیر سے دروازہ کی آڑ میں کھڑی حسرت بھری نظروں سے قافلہ کو دیکھ رہی
تھیں دوڑتی ہوئی اپنے شوہر کے قریب آئیں اور بڑی ہی چاہت سے بولیں……اللہ تمہیں
اپنی حفظ و امان میں رکھے……کب تک واپس آ جائو گے۔
گھبرائو نہیں……عبداللہ نے
جواب دیا……میں تمہارے ماں بننے تک واپس آ جائوں گا۔
یہ جملہ سن کر آمنہ کے
چہرہ پر حیا کی سرخی پھیل گئی……انہوں نے شرما کر نگاہیں جھکا لیں۔ اور نہایت ہی
مدہم آواز میں بولیں……میں بھی یہی چاہتی ہوں کہ جب ہمارے آنگن میں چاند اترے تو تم
بھی میرے پاس ہی ہو۔
مجھے یقین ہے، ایسا ہی ہو
گا……عبداللہ نے جواب دیا۔ پھر شوخی سے آنکھیں جھپکا کر بولے……تم اس وقت تک میرا
انتظار کرنا۔
یہ بھی کوئی میرے بس کی
بات ہے کیا……آمنہ نے اپنے شوہر کی بات سمجھتے ہوئے جواب دیا۔
جواب سن کر عبداللہ زور
سے ہنسنے لگے……اس کے ساتھ ہی عبدالمطلب نے انہیں اونٹ باہر لانے کو کہا……عبداللہ
اونٹ دروازہ کی طرف ہانکتے ہوئے نہایت وثوق سے کہنے لگے……میں تمہاری خوشی کے وقت
تک ضرور آ جائوں گا……تمام اونٹ باہر آ گئے۔ عبدالمطلب نے انہیں چند ہدایتیں دیں
اور پھر عبدالمطلب نے قافلہ کی سلامتی کی دعا مانگی۔ باری باری بیٹوں کی پیشانی کو
چوما……جب عبداللہ کی پیشانی کو چوما تو سب سے چھوٹے بیٹے کی جدائی سے آنکھوں میں
آنسو آ گئے……ہونٹ کپکپانے لگے اور ساتھ ہی سفید داڑھی بھی ہلنے لگی……دوسرے بھائی‘‘عباس’’
نے باپ کو تسلی دی……تیسر ے بھائی ‘‘حمزہ’’ نے کجاوے میں بیٹھے بیٹھے محبت سے چھوٹے
بھائی کا ہاتھ تھاما اور اپنے پیچھے اونٹ پر بٹھا دیا……آمنہ خاندان کی دوسری
عورتوں کے ساتھ دروازہ سے لگی کھڑی تھیں……کوئی ان کے دماغ میں چپکے چپکے کہہ رہا
تھا……اپنے شریک حیات کو جی بھر کر دیکھ لو۔
عبداللہ نے بھی چلتے چلتے
بنو ہاشم کے مکانوں پر حسرت کی نگاہ ڈالی ، جیسے وہ ہمیشہ کے لئے رخصت ہو رہے
ہوں……ان کی آنکھوں میں ابدی جدائی چمک رہی تھی……قریش کے گھرانوں سے تو روز ہی
قافلے جاتے تھے لیکن اس انداز سے تو کوئی بھی رخصت نہیں ہوتا تھا……جدائی کے اس
منظر نے ہر ایک کو اداس کر دیا تھا……شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ خاندان بنو ہاشم کے
اکثر مرد اور عبدالمطلب کے تمام بیٹے اس قافلہ میں شامل تھے……پھر……پھر……اونٹوں کی
گھنٹیوں کی آواز دورہوتی چلی گئی……آمنہ اور تمام خواتین چھت پر کھڑی قافلہ کو جاتا
ہوا دیکھ رہی تھیں……اور جب قافلہ ان کی نگاہوں سے اوجھل ہو گیا تو وہ سب نیچے
اترآئیں……صرف آمنہ ہی ایک ایسی تھیں جو کہ قافلہ کے اوجھل ہونے کے بعد بھی اسی
جانب تکے جا رہی تھیں۔ پھر انہوں نے ‘‘خانہ کعبہ’’ کی جانب اپنا رخ کیا اور
کپکپاتے ہونٹوں سے بولیں……رب کعبہ! عبداللہ کو عافیت کے ساتھ واپس لانا۔ تو نے جس
طرح ان کی پیٹھ دکھائی ہے اسی طرح ان کا چہرہ دکھانا۔
دن گزرتے رہے، چاند گھٹتا
اور بڑھتا رہا……جوں جوں دن گزرتے جاتے تھے، آمنہ کی بے چینی بھی بڑھتی جاتی
تھی……عبداللہ کو شام گئے ہوئے کئی ماہ ہو چکے تھے……آمنہ ابھی تک ان کی وہ حسرت
بھری نگاہیں نہیں بھولی تھیں……آمنہ کو اپنے گھر کے ہر کونے میں ان کی جھلک دکھائی
دیتی تھی……ان کی نگاہوں کے سامنے ہر وقت عبداللہ کا مسکراتا ہوا چہرہ رہتا
تھا……اور ان کے کانوں میں اپنے شریک حیات کے قہقہے گونجتے رہتے تھے……وقتی جدائی نے
ان کے دل میں شوہر کی بے پناہ محبت پیدا کر دی تھی……وہ جانتی تھیں کہ وقت نہیں رک
سکتا، اسی طرح میرا شوہر بھی وعدہ خلاف نہیں ہو سکتا……انہوں نے چلتے وقت وعدہ کیا
تھا……کہ تمہارے ماں بننے کے وقت تک ضرورواپس آ جائوں گا……لیکن وہ ابھی تک واپس
نہیں آئے تھے۔ اور آمنہ کے ماں بننے کا وقت قریب آ تا جا رہا تھا……وہ شدت جدائی سے
تڑپ کر خاندان کے لوگوں سے پوچھتیں……شام سے مکہ کاسفر کتنے دن کا ہوتا
ہے……عبدالمطلب جب شام جاتے تھے تو کتنے دن میں واپس آ جاتے تھے……ان باتوں سے وہ
اپنے دل کو تسلی دیتی تھیں……احساس جدائی کو تھپکیاں دیتی تھیں اور غم فرقت کو
بھلانے کی کوشش کرتی تھیں……کبھی قبیلہ قریش کے چھوٹے چھوٹے قافلے والے……عبدالمطلب
کو بتاتے کہ انہوں نے فلاں پہاڑی کے دامن میں ان کے بیٹوں کے قافلہ کو دیکھا ہے۔
کبھی کوئی بتاتا……کہ فلاں نخلستان میں قافلہ والے اپنے اونٹوں کو چارہ کھلا رہے
تھے مگر شام سے واپسی کا حال کوئی نہیں بتاتا تھا……جس راستے سے عبداللہ گئے تھے وہ
ہر روز سورج نکلنے سے پہلے اور سورج چھپنے کے بعد……چھت پر چڑھ جاتیں اور اپنی
نگاہیں اس کے راستہ پر جما دیتیں……وہ سمجھتی تھیں کہ اسی راستہ پر کھجوروں کے جھنڈ
کے پیچھے سے وہ چاند کی مانند نکلیں گے……ان کے سرخ اونٹ کی گردن میں بڑی سی گھنٹی
بندھی ہو گی……اور پانی کی چھاگلیں جن کا تسمہ میں نے خود باندھا تھا لٹکی ہوں
گی……پھر قبیلہ والے آگے بڑھ کر انہیں خوش آمدید کہہ رہے ہوں گے……اور ان کے سسر
عبدالمطلب صحن کے بیچ میں بیٹھ کر اپنے بیٹوں کے لائے ہوئے درہم و دینار گن رہے
ہوں گے……اور وہ اپنے شوہر کے لئے ستو تیار کر رہی ہوں گی……عبداللہ کو ستو بہت پسند
تھے۔ اور جب سے شادی ہوئی تھی……آمنہ کے ہاتھ کے بنائے ہوئے ستو تو بہت ہی مزیدار
ہوتے تھے……عبداللہ کی فرمائش پر وہ خاص طور سے ستو تیار کرتی تھیں……اسی کیفیت میں
چنددن اور گزر گئے ……اب تو عبدالمطلب کو بھی بیٹوں کی فکر ہونے لگی……ان کے خیال کے
مطابق اب قافلہ کو……واپس آ جانا چاہئے تھا……وہ اپنے بیٹوں کے انتظار میں ہر روز
گھر سے باہر نکل کر اس شاہراہ پر بیٹھ جاتے تھے، جس شاہراہ سے ان کے بیٹے گئے
تھے……جب تک عبدالمطلب گھر کے باہر رہتے، آمنہ دروازہ کی چوکھٹ سے لگی کھڑی رہتی
تھیں کہ شاید ان کے سسر قافلہ کی واپسی کی خوش خبری لے کر آئیں۔
پھر ایک صبح جب کہ گھر
والے سو کر اٹھے ہی تھے کہ اونٹوں کی گھنٹیوں کی آواز سنائی دی۔ اور اس سے پہلے کہ
عبدالمطلب دروازہ تک جاتے، ان کی بیٹوں کے اونٹ صحن میں داخل ہو چکے تھے۔ عورتیں
اور بچے دوڑ دوڑ کر اونٹوں کے گرد جمع ہو گئے……آمنہ بھی تیزی سے صحن کی طرف دوڑیں،
ان کا دل خوشی سے اچھل رہا تھا……بھائی عباس نے باپ کو بتایا……واپسی پر ‘‘عبداللہ’’
کو بخار آگیا لہٰذا یثرب میں رک گئے ہیں……آمنہ نے یہ سنا تو تیزی سے دل دھڑکنے
لگا……ان کا محبوب شوہر بیمار ہو گیا……اور……اور وہ اتنی دور ہے کہ اس کی تیمارداری
بھی نہیں کر سکتی……عبدالمطلب بھی یہ سن کر فکر مند ہو گئے……انہوں نے بہو کی طرف
دیکھا……وہ غم کی تصویر بنی کھڑی تھیں……جہاندیدہ عبدالمطلب نے خود کو سنبھالا……وہ
جانتے تھے کہ شوہر کی بیماری کا سن کر جوان بیوی کے دل پر کیا گزر رہی ہے۔ لہٰذا
اپنے غم کو چھپاتے ہوئے بڑے ہی حوصلہ سے بولے……سفر کی تھکاوٹ سے ‘‘عبداللہ’’ کی
طبیعت خراب ہو گئی ہے……وہ یثرب میں ٹھہر گیا ہے……میں کل حارث کو بھیج دوں گا۔ وہ
اسے لے آئے گا……یہ سن کر آمنہ کے دل کو ڈھارس سی بندھی……وہ آہستہ آہستہ چلتی ہوئی
اپنے کمرہ میں گئیں۔ اور غم کی چادر اوڑھ کر بستر پر لیٹ گئیں……خیالات کی
پرچھائیوں نے ان کا گھیرائو کر لیا۔ عبداللہ یثرب میں تھے۔ اور ان کا سایہ آمنہ
مکہ میں……آمنہ کی آنکھیں خشک تھیں۔ لیکن دل رو رہا تھا۔ طرح طرح کے خیالات ان کے
ذہن میں آتے تھے، ملاپ کی امید بندھتی تھی تو خوشی سے آنکھیں چمک اٹھتی تھیں……اور
آس ٹوٹتی تھی تو چہرہ پر غم کی دھند چھا جاتی تھی……بچے اور عورتیں اپنے اپنے
شوہروں کے ساتھ مل گئے……کنیزیں خدمت گزاری میں لگ گئیں……عبدالمطلب لوگوں کے جھگڑے
نمٹانے دارالندوہ چلے گئے……مگر آمنہ کا جسم پلنگ پر پڑا تھا۔ اور‘‘روح’’ یثرب میں
تھی……پاکباز عورت کی دنیا تو صرف‘‘شوہر’’ ہی ہوتا ہے۔
آمنہ شوہر کی بیماری کی
وجہ سے پریشان رہتیں……عبدالمطلب نے عبداللہ کو لے آنے کی خاطر ‘‘حارث’’ کو یثرب
بھیج دیا تھا۔ اور اس کے ساتھ ہی آمنہ کی خوشیوں کا ٹھکانہ نہیں تھا……وہ غنودگی کے
عالم میں خود کو کہکشائوں میں محو پرواز دیکھتیں…………کبھی انہیں نہایت ہی حسین و
جمیل خواتین نظر آتیں۔ جو ان کی دلجمعی کی خاطر باتیں کر کے بہلاتیں…………اور کبھی
کوئی ان کے کان میں سرگوشی کرتا کہ خوش ہو جا……نوید مسیحا اور دعائے ابراہیم کا
وقت قریب ہے۔
آمنہ سوچتیں یہ سرگوشی
کیسی ہے……حسین و جمیل خواتین کون ہیں……کیا میرا شوہر اللہ کا خاص مقرب بندہ ہو گیا
ہے جو اس کے بارے میں اس قسم کی پیش گوئیاں کی جا رہی ہیں……سوچتے جاگتے میں آمنہ
جو کچھ دیکھتی تھیں، وہ اتنا عجیب اور غیر متوقع ہوتا کہ اکثر ڈر جاتی تھیں……کبھی
یوں بھی ہوتا کہ وہ کسی جانور کے قریب سے گزرتیں تو وہ نیاز سے اپنا سر ان کے
قدموں میں رکھ دیتا۔ کبھی وہ کسی سوکھے درخت کے پاس سے گزرتیں تو دوسرے ہی دن وہ
سرسبز و شاداب ہو جاتا۔ کبھی وہ چھت پر کھڑی ہو کر کعبہ کی طرف دیکھتیں تو یوں
محسوس ہوتا کہ جیسے ‘‘کعبہ’’ سے ان تک نور کی ایک پگڈنڈی سی بن گئی ہے اور حوریں
اس پگڈنڈی پر دو رویہ قطاروں میں استقبالیہ انداز میں کھڑی ہیں……آمنہ ان واقعات کو
نہ چھپا سکیں……ان واقعات نے انہیں ہراساں کر دیا……اور بالآخر انہوں نے سب کچھ اپنے
سسر کو بتا دیا۔
عبدالمطلب کو اللہ نے
اپنے گھر کو متولی بنایا تھا……انہوں نے بہو کی تمام باتیں غور سے سنیں اور استغراق
میں ڈوب گئے……آمنہ اور خاندان کے دیگر تمام افراد یہ دیکھ کر ان کے گرد جمع ہو گئے
کیوں کہ وہ جانتے تھے……کہ عبدالمطلب پر ‘‘مراقبہ’’ کی کیفیت اسی وقت طاری ہوتی ہے
جب کوئی اہم معاملہ زیر غور ہو……کچھ دیر بعد عبدالمطلب نے اپنا سر اٹھایا……ان کی
آنکھیں چمک رہی تھیں اور چہرہ کسی انجانی خوشی سے دمک رہا تھا……انہوں نے اشارہ سے
آمنہ کو قریب بلایا……شفقت سے ان کے سر پر ہاتھ پھیرا……اور نہایت ہی ٹھہرے ہوئے
لہجہ میں بولے……خوش ہو جا……کہ تو ایک عظیم انسان کو جنم دینے والی ہے……اس کی وجہ
سے ‘‘بنو ہاشم’’ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے سربلند ہو جائیں گے۔
وہ…………وہ…………کب تک آئیں
گے…………آمنہ نے شرما کر پوچھا۔
صبر کر بیٹا……عبدالمطلب
نے لرزتے ہونٹوں سے کہا……عبداللہ اب کبھی نہیں آئے گا……حارث نے اطلاع بھجوائی ہے
کہ عبداللہ اس کے پہنچنے سے قبل ہی انتقال کر گیا تھا۔ اور میرے سسرال والوں نے
اسے دفن کر دیا ہے……مجھے عبداللہ کی جدائی کا غم نہیں……کیونکہ اب جو اس گھر میں
آنے والا ہے وہ بنو ہاشم کی سربلندی کا پیغامبر بن کر آئے گا اور……
عبدالمطلب بول رہے
تھے……لیکن اب……آمنہ وہاں نہیں تھیں……وہ اپنے کمرے میں چمڑے کے بستر پر لیٹی آنسو
بہا رہی تھیں۔
ابھی دن رات ملے جلے سے
تھے……کیونکہ دونوں نے ایک ساتھ چمکنا تھا……سپیدہ سحر نمودار ہو ہی رہا تھا……غنچوں
کی گرہیں کھل ہی رہی تھیں……لالہ و گل کے لبوں پر مسکراہٹ بکھر رہی تھی۔ بنفشہ و
شفیق کی نازک پتیوں پر شبنم کے موتی ڈھلک رہے تھے……سرووشمشاد کے پودوں نے مہک پا
کر انگڑائی لی تھی……طائرانہ خوشنوا کی چہکاروں سے تمام فضا نغمہ زار بن گئی
تھی……منیٰ کی وادی……مروہ کے سنگ ریزے……قبیس کی چوٹیاں……اور عرفات کا میدان نور سے
چمک رہا تھا……نیلے آسمان پر جھلملاتے ہوئے ستارے نیچے اتر آئے تھے……آمنہ درد زہ سے
مسرور تھیں……یہ درد انہیں ایسا سرور بخش رہا تھا جسے صرف محسوس ہی کیا جا سکتا
ہے……اتنے میں نہایت ہی دلکش آواز آمنہ کو سنائی دی……آمنہ! ذبیح اللہ اسماعیل علیہ
السلام کی ماں تشریف لاتی ہیں……پھر آواز آئی……آمنہ! یہ عیسیٰ روح اللہ کی والدہ
کنواری مریم ہیں……آمنہ نے آنکھیں پھاڑ کر دیکھا……دونوں خواتین نور کے پیکر میں ان
کے دائیں بائیں کھڑی تھیں……حضرت اسماعیل ؑ کی والدہ نے نہایت ہی شیریں لہجہ میں
کہا……دعائے ابرہیم مبارک ہو……عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ مریم بولیں……نوید مسیحا
نے فرش خاکی پر قدم رکھ دیا ہے……خاندان کی بوڑھی عورتیں جو آمنہ کے گرد جمع تھیں،
خوشی سے چلائیں……عبدالمطلب کو مبارکباد دو کہ اس کے گھر پوتا ہوا ہے……عبدالمطلب
اپنی عبا کے دونوں دامن تھامے ہوئے گھر میں داخل ہوئے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا، وہ
دوڑتے ہوئے آئے ہیں……انہیں دیکھتے ہی آمنہ نے شرم سے منہ پر چادر ڈالی……عبدالمطلب
نے آگے بڑھ کر نومولود جو کہ سبز رنگ کے بڑے سے ریشمی رومال میں لپٹا ہوا تھا،
اٹھا لیا……نومولود کے چہرے پر نظر پڑتے ہی وہ دنگ رہ گئے……دنیا کا واحد جلوہ افروز
چہرہ ان کے سامنے تھا……کائنات میں موجود چاند، سورج، کہکشاں، پھول اور غنچے غرض کہ
کسی بھی حسین سے حسین شئے سے اس چہرہ کو تشبیہ دی جا سکتی تھی۔
عبدالمطلب نے چاند سے اس
چہرہ کا بوسہ لیا……اس لمحہ جب کہ وہ بوسہ لے رہے تھے، ان کے ذہن میں پوتے کا
نام‘‘احمد’’ آیا اور وہ خوشی سے بولے……میں نے اپنے لخت جگر کا نام ‘‘احمد’’تجویز
کیا ہے تا کہ دنیا میں اس کی تعریف کی جائے۔
صرف دنیا ہی میں
نہیں……عبدالمطلب کو غیبی سرگوشی سنائی دی……آسمانوں پر بھی اس کی حمد و ثناء کی
جائے گی۔
عبدالمطلب چونکے……اس کا
مطلب ہے، اس کا نام ‘‘محمد ﷺ’’ ہوا۔
سسر کی بات سن کر آمنہ کا
دل خوشی سے اچھلنے لگا……عبدالمطلب نے وہ بات کہہ دی تھی جو کہ آمنہ سوتے جاگتے
سنتی رہتی تھیں۔
میں نے دیکھا کہ وادی
فاطمہ میں کچی مٹی سے بنی ہوئی ایک خانقاہ ہے۔ اس خانقاہ میں عمر رسیدہ
راہب‘‘عیص’’ رہتا تھا، جو دنیاوی آسائشوں سے آزاد تھا اور ہر وقت عبادت و ریاضت
اور مراقبہ میں مصروف رہتا تھا……مکہ کے اکثر لوگ اس کے پاس اپنے مسائل کا حل
پوچھنے آتے تھے۔ عبدالمطلب سے بھی اس کی جان پہچان تھی۔ وہ جانتا تھا کہ اس سید
القریش کے گھر میں وہ چاند نمودار ہونے والا ہے جس کی روشنی سے عالم منور ہو گا۔
لیکن اس نے یہ بات کسی پر ظاہر نہیں کی……عبدالمطلب نے سوچا کہ کافی دن ہو گئے
ہیں……اپنے راہب دوست ‘‘عیص’’ سے نہیں ملا، چلو آج اس سے مل لوں۔ اور اپنے پوتوں کے
بارے میں بھی کچھ پیش گوئیاں معلوم کروں گا۔ یہ سوچ کر عبدالمطلب وادی فاطمہ کی
جانب چل دیئے۔ اور جب ان کا ناقہ اس خانقاہ کے سامنے پہنچا تو عیص راہب پہلے ہی سے
دروازہ پر کھڑا تھا……عبدالمطلب جونہی ناقہ سے اترے۔ عیص نے آگے بڑھ کر ان کا
استقبال کیا……عبدالمطلب سمجھے کافی دن بعد ملاقات ہوئی ہے اس وجہ سے عیص پذیرائی
کر رہا ہے……عبدالمطلب نے اسے بتایا۔ میرے سب سے چھوٹے بیٹے عبداللہ کے ہاں بیٹا
ہوا ہے۔
مبارک ہو……عیص نے جواب
دیا……اس کی پیشانی پر سوچ کی لکیریں ابھر آئی تھیں……تم نے اس کا کیا نام رکھا ہے۔
‘‘محمد ﷺ’’……عبدالمطلب نے
جواب دیا۔
کیا اس کی ولادت دو شنبہ
کو ہوئی ہے……عیص نے گہری سوچ سے پوچھا۔
عبدالمطلب نے اثبات میں
سر ہلایا اور قدرے پریشانی سے پوچھا۔ تمہیں یہ سب کیونکر معلوم ہوا۔
سنو……عیص نے آسمان کی طرف
دیکھتے ہوئے کہا……میں نے بار بار تمہیں بتایا تھا کہ عنقریب بنو ہاشم کو وہ سعادت
نصیب ہونے والی ہے جو دنیا میں کسی کو نصیب نہیں ہو سکے گی، اور دو شنبہ کی رات
تمہیں وہ سعادت حاصل ہو گئی ہے……رب کعبہ جب دنیا میں کسی خاص بندہ کو خاص کام کے
لئے بھیجتا ہے تو آدھی رات کو بطور نشانی ایک خاص ستارہ کو طلوع کرتا ہے جسے صرف
اس کے برگزیدہ بندے ہی پہچان سکتے ہیں۔ میں تیس سال سے اس ستارے کے طلوع ہونے کا
انتظار کر رہا تھاا ور آخر کار دو شنبہ کی رات وہ خاص ستارہ آسمان کے افق پر نظر آ
ہی گیا۔
اے عبدالمطلب! کاش تم
اپنے پوتے کا جاہ و جلال دیکھنے کے لئے زندہ رہ سکتے……عیص نے آخری جملہ ادا کیا۔
پھر اس نے عبدالمطلب سے الوداعی مصافحہ کیا اور اپنی خانقاہ میں چلا گیا۔ جہاندیدہ
عبدالمطلب بھی راہب کے ایک ایک جملہ پر غور کرتے ہوئے واپس لوٹ گئے۔
تین دن تک ابو لہب کی
جواں سال کنیز ثوبیہ نے ‘‘محمد ﷺ’’ کو دودھ پلایا……پھر ……پھر مکہ کے……باہر نخلستان
میں رہنے والی عورتیں شہر آئیں۔ ان عورتوں کا ذریعہ معاش مویشی پالنا اور شیر خوار
بچوں کی پرورش کرنا تھا……صحرا میں رہنے والی یہ عورتیں سال میں دو بار شہر میں آیا
کرتی تھیں اور امیر گھرانوں کے بچوں کو پرورش کرنے کی خاطر گود میں لے لیا کرتی
تھیں۔ جن کے عوض میں ان بچوں کے ماں باپ انہیں بھاری معاوضہ دیا کرتے تھے……عرب کا
معاشرہ ہی کچھ اس قسم کا تھا کہ امیر گھرانوں کے لوگ اپنے بچوں کی ابتدائی پرورش
کے لئے دیہات کی ساتھ ستھری فضا کو پسند کرتے تھے……تمام دودھ پلانے والیوں نے شہر
میں داخل ہو کر امیر گھرانے کے شیر خوار بچوں کے لے لیا……بنو سعید کی دائی حلیمہ
جب شہر میں داخل ہوئی تو تمام بچے گود لیے جا چکے تھے اس کی وجہ یہ تھی کہ دائی
حلیمہ کی ناقہ کمزور تھی۔ اس میں وہ برق رفتاری نہیں تھی جو کہ صحرا کے اونٹوں میں
ہوتی ہے۔
عبدالمطلب کے گھر کی طرف
کسی بھی دائی نے توجہ نہیں دی تھی کیونکہ اس گھر میں بے باپ کا بچہ تھا اور ایسے
بچہ کی پرورش کا معاوضہ بھی برائے نام ہی ہوتا تھا……گو کہ عبدالمطلب قریش کے سردار
اور ‘‘خانہ خدا’’ کے نگراں تھے لیکن فیاضی کے باعث وہ امیر نہ تھے……مسافروں کی
مہمان نوازی اور……حجاج کرام کی خاطر مدارت میں ان کے پاس کچھ نہیں بچتا تھا۔
دائی حلیمہ نے سوچا کہ
خالی گود واپس جانا ٹھیک نہیں۔ دوسری تمام عورتیں تمسخر اڑائیں گی۔ اسی خیال کے
تحت وہ عبدالمطلب کے گھر میں داخل ہو گئی……کنیز ثوبیہ محمدﷺ کو گود میں لئے کھڑی
تھی۔ حلیمہ نے گھر میں قدم رکھا تو اسے یوں محسوس ہوا جیسے نور کے دریا میں اتر
گئی ہو……ثوبیہ کی گود سے نور کی کرنیں پھوٹ رہی تھیں……دائی حلیمہ آگے بڑھیں اور
ریشمی رومال میں لپٹے ہوئے نور کے اس ٹکڑے کو سینہ سے لگایا۔ حلیمہ حیرت زدہ نظروں
سے ‘‘محمدﷺ’’ کے چہرہ کو تک رہی تھیں……‘‘محمدﷺ’’ کے چہرہ سے نور کی ہلکی ہلکی
کرنیں پھوٹ رہی تھیں اور عبدالمطلب ان سے کہہ رہے تھے……حلیمہ! ملول نہ ہونا۔ میرا
یہ لخت جگر بڑی ہی شان والا ہے۔ میرے پاس جو کچھ بھی ہے، سب اس کا ہی ہے۔
حلیمہ جیسے خواب سے بیدار
ہوئیں اور بولیں……اے سید القریش! اب سے چند لمحہ قبل واقعی میں ملول اور افسردہ
تھی۔ لیکن جب سے اس چاند کو گود لیا ہے میری خوشی کا ٹھکانہ نہیں ہے۔ اس بچہ پر تو
میرا تن من دھن سب کچھ قربان ہے۔
بیوہ ماں نے یتیم بچہ کو
فرط محبت سے چوما۔ ماں کے پیار بھرے ہونٹوں کے لمس نے ‘‘محمدﷺ’’ کو بے چین کر
دیا……آمنہ کے پلکوں پر بے اختیار نمی چھا گئی……معصوم بچہ کی جدائی کے تصور سے اس
کے باپ کی داغ مفارقت کی یاد تازہ ہو گئی……عبدالمطلب نے بھی دل پر پتھر رکھ کر
پوتے کو الوداع کہا……اور شہر کے باہر فاران کی پہاڑی تک حلیمہ کے اونٹ کے ساتھ
ساتھ گئے……پھر عبدالمطلب رک گئے۔ حلیمہ آگے بڑھ گئے……عبدالمطلب پہاڑ کے دامن میں
اس وقت تک کھڑے رہے جب تک کہ دائی حلیمہ کا اونٹ نظر آتا رہا۔ پھر انہوں نے خانہ
کعبہ کی جانب اپنا رخ کیا اور دعا کے لئے ہاتھ اٹھا دیئے۔
حلیمہ کا اونٹ ریگستان
میں چل رہا تھا اور سب سے پیچھے تھا……لیکن اب ……وہ نہایت ہی تیزی سے دوڑ رہا تھا۔
ایسا معلوم ہوتا تھا کہ زمین اس کے قدموں سے لپٹی چل رہی ہے……اس نے تمام ہم سفروں
کو پیچھے چھوڑ دیا……ساربان، خود حلیمہ اور تمام دوسرے لوگ اس کی سبک رفتاری پر
حیران تھے۔ حلیمہ کو یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے راستہ کی ہر شئے اس کے ناقہ کے
سامنے سرنگوں ہوتی جا رہی ہے۔ ریت کے ٹیلے، پتھریلی گھاٹیاں اور ہوا کی سرسراہٹ، سب
حلیمہ سے سرگوشیاں کر رہی تھیں کہ حق آ گیا اور باطل مٹ گیا……اب دنیا میں کوئی
ظالم،ظلم نہیں کر سکے گا۔ کیونکہ ظلم کو مٹانے اور لوگوں کو صراط مستقیم دکھانے
والا آ گیا ہے……بڑے بڑے شہنشاہوں کے تاج اس کے غلاموں کی ٹھوکروں میں ہوں
گے……انسان کی ہدایت کے لئے اب تک جتنے چراغ روشن کئے جا چکے ہیں ان سب کی روشنی اس
کی ہدایت انسانی کے سامنے ماند پڑ جائے گی……اس کا کلام ‘‘ربانی ’’ ہو گا اور کردار
لافانی……اے دودھ پلانے والی ! تجھے ابدی شہرت حاصل ہو گی……تجھے قریش کے امیر ترین
سردار ہونے میں تول سکتے تھے۔ اس درنایاب کی دائی ہونے کی وجہ سے تجھے جو عزت و
احترام حاصل ہوا ہے وہ کون دے سکتا تھا۔
حلیمہ دائی نے ‘‘محمدﷺ’’
کو دودھ پلایا……اللہ نے اس کے سینے میں ابلنے والے دودھ میں ‘‘محبت’’ کا وہ عنصر
شامل کر دیا تھا جوکہ آگے چل کر ‘‘رحمتہ اللعالمین’’ کہلایا……آمنہ کے بطن سے پیدا ہونے
والا……عبداللہ کا خون‘‘صادق’’ اور ‘‘امین’’ کہہ کر پکارا گیا……حلیمہ نے اپنی ساری
مامتا اور توجہ نور کے اس ٹکڑے کی جانب متوجہ کر دی تھی……محمدﷺ کی ذرا سی تکلیف پر
وہ بے چین ہو جاتی تھیں……وہ گھنٹوں محمدﷺ کو سینہ سے لگائے رکھتی تھی۔ اور اگر
کوئی ضروری کام کرنا ہوتا تھا……تو جھولے میں لٹا دیتی تھی اور وہ جھولا بھی ہر وقت
ان کی نگاہوں کے سامنے رہتا تھا……دائی حلیمہ ‘‘محمدﷺ’’ کو سلاتیں تو ان کی لوریوں
میں بھی چاند کے اس ٹکڑے کی تعریف ہوتی تھی۔
نیند آنکھوں میں گھل کر
راحت بن جاتی ہے۔ اور انسان دنیا و مافیہا سے بے خبر ہو جاتا ہے……لیکن اللہ بہت
سوں کی آنکھوں کے ساتھ دل کو بھی سلا دیتا ہے……اور بہت سوں کی آنکھیں سوتی ہیں
لیکن دل جاگتے رہتے ہیں اور اللہ انہی لوگوں کے دلوں کو جگائے رکھتا ہے۔ جن سے وہ
کوئی کام لینا چاہتا ہے ……شیر خوار ‘‘محمدﷺ’’ کی آنکھیں سوتی تھیں لیکن دل جاگتا
تھا……اللہ ان سے وہ کام لینا چاہتا تھا جو کہ قیامت تک قائم و دائم رہنا تھا……لیکن
دنیا کو کیا معلوم کہ جھولے میں سونے والا شیر خوار ‘‘محمدﷺ’’ ایک عظیم انقلاب کے
رہبرو رہنما ہے۔
میں نے دیکھا ……کہ دو سال
پلک جھپکتے میں گزر گئے اور شیر خوار ‘‘محمدﷺ’’ پائوں پائوں چلنے لگے……دنیا کو
سلامتی کی راہ دکھانے والا خود بغیر کسی سہارے کے اپنے پائوں پر کھڑا ہو
گیا……‘‘محمدﷺ’’ حیرت انگیز طریقہ سے اپنی ارتقاء کی منزل طے کر رہے تھے……اس معصوم
یتیم کے چہرہ کو جو دیکھتا کھنچتا چلا جاتا……اب وقت آ گیا تھا کہ آمنہ کو ان کی
امانت لوٹا دی جائے……حلیمہ اپنی آغوش محبت میں ‘‘محمدﷺ’’ کو لپٹائے ہوئے بنو ہاشم
کے محلہ میں داخل ہوئیں۔ اور ناقہ سے اتر کر سیدھی عبدالمطلب کے گھر میں داخل ہو
گئیں……آمنہ نے حلیمہ کی گود میں لخت جگر کو دیکھا……تو جوش محبت میں دوڑتی ہوئی
آئیں……اور چاند کے اس ٹکڑے کو سینہ سے لگا لیا……خاندان کی تمام عورتیں اور مرد
آمنہ کو گھیرے کھڑے تھے……‘‘محمدﷺ’’ کو دیکھ دیکھ کر ان کے چہرے خوشی سے کھل رہے
تھے۔ اتنے میں شور اٹھا……سید القریش آ رہے ہیں……لوگوں کا جھمگٹا چھٹنے لگا……اور
عبدالمطلب مکان میں داخل ہوئے……انہیں خبر مل چکی تھی کہ ‘‘پوتا’’ گھر میں آیا ہوا
ہے……اس خبر کے ملتے ہی وہ ‘‘صحن کعبہ’’ سے اٹھ کر سیدھے گھر آ گئے تھے انہوں نے
آتے ہی بہو کی گود سے یتیم پوتے کو اپنی آغوش میں لیا۔ دل بھر کر اس کے روشن چہرہ
کی زیارت کی……پھر عبدالمطلب کے سینہ میں جوش محبت امڈ آیا۔ انہوں نے ‘‘پوتے’’ کے
تابناک چہرہ پر بوسوں کی بارش کر دی۔ پھر جب دل بھر گیا تو حلیمہ سے بولے……شاید
تمہیں معلوم نہیں، مکہ میں ہیضہ پھیلا ہوا ہے ……روز کسی نہ کسی گھر سے جنازہ اٹھتا
ہے۔
ہاں میں نے سنا
تھا……حلیمہ نے جواب دیا……لیکن مجھے دستور کے مطابق آپ کی امانت آپ تک پہچانا بھی
ضروری تھا۔
ہاں یہ تو ہے……سید القریش
نے قدرے پریشانی سے کہا……لیکن میں اپنے لخت جگر کے اس ٹکڑے کو اس شہر پر آشوب میں
نہیں رکھ سکتا……تم اسے واپس لے جائو……عبدالمطلب نے نور کے ٹکڑے کو چومتے ہوئے بات
پوری کی……اور جب اس وبا کا زور ختم ہو جائے تو پھر لے آنا۔
تمہیں اس کا منہ مانگا
معاوضہ ملے گا……سید القریش حضرت عبدالمطلب نے اعتماد سے کہا……اور پچاس دینار کی
تھیلی ان کی طرف بڑھا دی……حلیمہ نے تھیلی کی طرف توجہ دینے کی بجائے……‘‘محمدﷺ’’ کو
ماں کی گود سے لے لیا……وہ تو خود یہ چاہتی تھی کہ اس درنایاب کی خدمت کا مزید موقع
مل جائے……‘‘محمدﷺ’’ کو……اپنی آغوش محبت میں لے کر وہ صدر دروازہ کی جانب تیزی سے
بڑھیں جہاں ان کی ناقہ بیٹھی جگالی کر رہی تھی۔ عبدالمطلب ان کے ساتھ ہی باہر آئے۔
اور انہیں ‘‘محمدﷺ’’ کی خدمت کے صلہ میں بھاری معاوضہ کا یقین دلاتے رہے……ماں نے
دروازہ پر کھڑے ہو کر اپنے ‘‘نور’’ کو الوداع کیا……اور حلیمہ اس چاند کو لے کر
واپس اپنے قبیلہ میں لوٹ آئیں۔
میری نظروں کے سامنے ایک
بار پھر وہ نخلستان آ گیا جس میں قبیلہ ‘‘بنو سعد’’ کے مکانات تھے……تین سال تک
دائی حلیمہ کو یہ سعادت حاصل رہی ……کہ نور نبوت کی پرورش کرتی رہیں……بنو سعد کا
قبیلہ فصاحت میں تمام عرب میں مشہور تھا……اس قبیلہ میں بلند پایہ شاعروں اور شعلہ
بیان مقرروں کی بہتات تھی……عربوں میں ایک مثل مشہور تھی کہ ‘‘بنو سعد’’ کے کھیتوں
میں فصاحت اگتی ہے……لیکن ‘‘محمدﷺ’’ کے میٹھے بول سن کر سب حیرت زدہ رہ جاتے
تھے……بڑے بڑے شاعروں کا کہنا تھا کہ کمسنی میں یہ اعجاز گویائی ہے تو پھر بڑے ہو
کر فصاحت اور حسن تکلم کو ان لبوں پر بڑا ناز ہو گا……پھر یہی نہیں……حق و انصاف کے
تقاضا کو اس طرح پورا کرتے……کہ دائی حلیمہ کی بکری کا دودھ پیتے تو دوسرے تھن کو
منہ نہیں لگاتے……اپنی رضاعی بہن کے لئے چھوڑ دیتے……بچپن میں اس معصوم حرکت کو دیکھ
کر حلیمہ کے گھر والے تعجب سے کہتے ……کہ عبداللہ کا یہ بیٹا بڑا ہو کر دنیا کو
انصاف اور بھلائی سے معمور کر دے گا……اور پھر جب ‘‘محمدﷺ’’ کی عمر پانچ سال ہوئی
تو آمنہ کو پھر امانت لوٹانے کا خیال آیا……ادھر مکہ سے بھی وبا کے ختم ہونے کی
اطلاعات ملنے لگیں تھیں……دائی حلیمہ اور ان کے گھر والے اس درنایاب کو خود سے الگ
نہیں کرنا چاہتے تھے……لیکن امانت لوٹانا بھی ضروری تھا……عربی دستور کے مطابق شیر
خوار بچہ کو واپس والدین تک پہنچانا فرض تھا۔ دائی حلیمہ کو یہ فرض کچو کے دیئے جا
رہا تھا اور بالآخر انہوں نے اس امانت کو واپس کرنے کا فیصلہ ہی کر لیا۔ اور پھر
ایک صبح ان کی ناقہ پر ان کے شوہر نے ‘‘محمل’’ کسا اور دائی حلیمہ کو مکہ کی جانب
روانہ کر دیا۔
‘‘محمد ﷺ’’ کو پا کر
‘‘آمنہ’’ کو ایسا محسوس ہوا جیسے دنیا بھر کا خزانہ مل گیا ہو……انہوں نے ‘‘محمد
ﷺ’’ کی پیشانی کو جی بھر کر چوما۔ اپنے لخت جگر کو سینہ سے لگایا……اور اس کے ساتھ
ہی ان کی آنکھوں کے سامنے اپنے شوہر‘‘عبداللہ’’ کا چہرہ گھوم گیا……اگر آج وہ زندہ
ہوتے تو اپنے بیٹے کو دیکھ کر کس قدر مسرور ہوتے……بی بی آمنہ نے سات سال کا عرصہ بیوگی
میں گزارا تھا……سید القریش عبدالمطلب نے فرشتہ صفت بہو کی ہر طرح سے دلجوئی کی۔
لیکن ‘‘رنڈاپا’’ خود اپنی جگہ ایک مسلسل غم ہے۔ کوئی حسن سلوک اور نیک برتائو اس
غم کا مداوا نہیں کر سکتا۔
آمنہ کی دنیا تو اب بس
‘‘محمدﷺ’’ کے دم سے خوشی تھی……اپنے یتیم بیٹے کو دیکھ دیکھ کر جیتی تھیں۔ ساتھ ہی
ان کے دل و دماغ میں یہ خیال بھی جڑ پکڑتا رہا……اور کچھ نہیں کر سکتی تو بیٹے کو
باپ کی قبر تو دکھا سکتی ہوں۔
حضرت بی بی آمنہ کے
ننھیال کے لوگ ‘‘یثرب’’ میں رہتے تھے ان سے بھی ملے ہوئے ایک زمانہ ہو گیا
تھا……دوسرے رشتہ داروں سے مل کر یوں بھی غم کا بوجھ قدرے کم ہو جاتا ہے۔ اور پھر
یثرب کے قریب ہی ‘‘ابواء’’ میں شوہر بھی دفن تھے……ابدی جدائی کے باوجود آمنہ کے دل
سے شوہر کی محبت نہیں گئی تھی……انہوں نے فیصلہ کر لیا کہ کچھ بھی سہی میں شوہر کی
قبر کی زیارت ضرور کروں گی اور انہیں بتا دوں گی……کہ اے شریک سفر دیکھو کہ تمہاری
امانت کو ابھی تک سینہ سے لگائے جی رہی ہوں……ان امیدوں اور خیالات کے ساتھ ہی آمنہ
نے اپنے سسر سے اجازت لی……اور ایک مختصر سے قافلہ کے ساتھ یثرب روانہ ہو گئیں……پر
اعتماد اور وفادارکنیز‘‘ام ایمن’’ ساتھ تھیں۔
یثرب میں بی بی آمنہ
پہنچی تو یثرب والوں نے بڑی آئو بھگت کی……یوں تو سارا یثرب ہی مہمان نوازی میں
مشہو ر تھا لیکن ‘‘بنو نجار’’ کا تو جواب ہی نہیں تھا……مہمان کسی کا بھی ہو ‘‘بنو
نجار’’ اس کی راہ میں آنکھیں بچھا دیتے تھے۔ حضرت بی بی آمنہ تو ان کی اپنی
تھیں……خوب خاطر تواضع کی اور نہایت ہی مدارات اور وسعت خلق و مروت کے ساتھ پیش
آئے……بڑی بوڑھی عورتوں نے بیوہ آمنہ کو سینہ سے لگایا۔ اور شفقت سے یتیم ‘‘محمد
ﷺ’’ کے سر پر ہاتھ پھیرا……‘‘محمدﷺ’’ نے ان سب کو اپنی نورانی آنکھوں سے
دیکھا……جیسے کہہ رہے ہوں……تم نے مجھے پیار و محبت دیا ہے……میں تمہیں رحمتیں دوں
گا……ماں کی آغوش میں ‘‘محمدﷺ’’ کے وقار اور متانت کو دیکھ کر سب تعجب کرنے لگے۔
خاندان میں اور خاندان کے
باہر چرچے ہونے لگے……کہ مکہ کے خاندان ‘‘بنو ہاشم’’ کا ایک بچہ آیا ہے جس کے لبوں
سے الفاظ موتیوں کی طرح بنے سنورے نکلتے ہیں……جس کی پیشانی سے اقبال و سعادت کا
آفتاب طلوع ہوتا نظر آتا ہے……جس کی باتیں اس قدر دلکش ہوتی ہیں کہ دل چاہتا ہے کہ
‘‘بنو ہاشم’’ کا یہ بلبل ہمیشہ چہکتا رہے……خاندان کے لوگ ملنے تو آمنہ سے آتے تھے
لیکن مرعوب کم سن ‘‘محمدﷺ’’ سے ہوتے تھے……جو ایک بار اس بچہ سے مل لیتا تھا،
گھنٹوں واپس جانے کا نام ہی نہیں لیتا تھا۔
ایک ماہ تک رشتہ داروں
میں رہنے کے بعد حضرت بی بی آمنہ واپس مکہ جانے کے لئے روانہ ہو گئیں……اور راستہ
میں مقام ‘‘ابواء’’ میں ٹھہر گئیں……یہاں مرحوم شوہر کی قبر تھی……ننھے ‘‘محمدﷺ’’ کی
انگلی تھامے شوہر کی قبر پر آئیں اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں……دل کی ایک ایک چوٹ
ابھر آئی……سینہ کا ایک ایک زخم ہرا ہو گیا……اور اللہ سے یتیم بیٹے کی اقبال مندی
کی دعائیں کیں۔ شوہر کی قبر سے لپٹ کر کچھ ایسا شکوہ کیا کہ بستر سے جا لگیں……یوں
معلوم ہوتا تھا کہ شوہر کو بھی بیوی کے بغیر چین نہیں ہے……ہر مرض شروع میں معمولی
ہوتا ہے لیکن جوں جوں وقت گزرتا جاتا ہے مرض کی شدت میں بھی اضافہ ہوتا جاتا ہے
اور پھر اچانک ہی ملک عدم کا سفر شروع ہو جاتا ہے……شوہر کی قبر کی زیارت موت کا
بہانہ بن گئی ورنہ آمنہ تو اس دن مر گئی تھی جس دن ‘‘حارث’’ نے عبداللہ کے مرنے کی
خبر دی تھی……وہ تو صرف اپنے شوہر کی نشانی کو سینہ سے لگائے جی رہی تھیں……اب اللہ
کو ابھی ان دو محبت کرنے والوں کی دوری پسند نہ تھی……اللہ نے آمنہ سے صرف اتنا ہی
کام لینا تھا کہ وہ اس کے بھیجے ہوئے ‘‘نبیﷺ’’کو صرف پائوں پائوں چلنا سکھا دیں۔
اس کے بعد ان کا کام ختم تھا۔
حضرت بی بی آمنہ کو مرنے
سے زیادہ غم اس بات کا تھا کہ میرے بعد……میرے دل کے ٹکڑے کا کیا ہو گا۔ پیدائش سے
پہلے باپ کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ اب کچھ ہوش سنبھالا تھا تو موت ماں کو بھی چھین
رہی تھی……ام ایمن وفادار کنیز تسلی دیتی……ڈھارس بندھاتی……ام محمدﷺ! زندگی سے مایوس
نہ ہو……تم اچھی ہو جائو گی……اس تسلی سے حضرت بی بی آمنہ کے چہرہ پر شادابی آ جاتی۔
مگر دراصل یہ شادابی مرگ ہوتی ہے جو کہ دھوکا تھا۔ جوں جوں وقت گزرتا جا رہا تھا،
حضرت بی بی آمنہ کی حالت بگڑتی جا رہی تھی……اپنے لخت جگر ‘‘محمدﷺ’’ کو شفقت سے
قریب بلایا اور بڑے ہی پیار سے سر پر ہاتھ پھیرا جیسے بیٹے سے رخصت ہو رہی ہوں……یہ
آخری ہاتھ ماں کے پیار کا آخری لمس تھا……بی بی آمنہ نے کچھ کہنے کی خاطر ہونٹوں کو
جنبش دی لیکن نزع نے کہنے کی مہلت ہی نہ دی……ڈبڈباتی آنکھوں سے بیٹے کو دیکھتی رہ
گئیں……‘‘محمدﷺ’’ پردیس میں بے یار و مددگار رہ گئے……شوہر کی محبت نے آمنہ کے پائوں
کو ایسا جکڑا کہ جلد ہی ان کے پاس پہنچ گئیں۔
‘‘محمدﷺ’’ نے اتنی چھوٹی سی
عمر میں پہلا سانحہ دیکھا تھا……ماں کی ابدی جدائی اور وہ بھی پردیس میں……ام ایمن
نے ‘‘محمدﷺ’’ کو روتا دیکھ کر کلیجہ سے لگا لیا اور تسلیاں دیں۔ مگر یتیم
‘‘محمدﷺ’’ کے لئے ماں کے مرنے کا غم بڑا ہی درد انگیز تھا۔
سید القریش عبدالمطلب کو
ہر وقت بہو اور پوتے کی واپسی کا انتظار رہتا تھا……ام ایمن چند دن کے بعد یتیم
‘‘محمدﷺ’’ کو لے کر مکہ کی طرف روانہ ہوئیں……میری نگاہیں ناقہ ام ایمن کے تعاقب
میں تھیں……سرسبز و شاداب خطہ کو پیچھے چھوڑتے ہوئے ان کا ناقہ صحرا میں داخل
ہوا……اور کچھ دور چلنے کے بعد ریت کے بڑے ٹیلوں کے پیچھے غائب ہو گیا……میں ناقہ کے
تعاقب میں دوڑا اور گرتا پڑتا مشکل سے ریت کے ٹیلے پر چڑھ گیا۔ لیکن یہ کیا……میرے
سامنے ایک دوسرا ہی منظر تھا……ٹیلے کی دوسری جانب‘‘رن وے’’ تھا۔ اور ایک نیا جہاز
کھڑا تھا۔
دنیا میں کئی ایسے ترقی
یافتہ ممالک ہیں جنہوں نے جنگلوں اور صحرائوں میں ایسے ‘‘رن وے’’ قائم کر رکھے ہیں
جہاں کسی بھی غیر اتفاقی حادثہ کی صورت میں جہاز کو ہنگامی طور سے اتارا جا سکتا ہے……میرے
جہاز کو کب اور کس قسم کا حادثہ پیش آیا تھا مجھے اس کا قطعی علم نہیں……مجھے تو
صرف اتنا یاد تھا کہ ‘‘اللہ رکھی’’ نے میری پیشانی پر ہاتھ رکھا تھا۔ اور میں نے
اس سے حضور اکرمﷺ کا زمانہ دکھانے کو کہا……میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے
والد ماجد کی جوانی سے لے کر حضورﷺ کی والدہ کی وفات تک کا زمانہ دیکھا
تھا……پھر……پھر میں اس مبارک ماضی سے اچانک ہی نکل آیا تھا اور غیر معروف ہوائی اڈہ
پر موجود تھا جہاں میرے جہاز کے کریش لینڈنگ کی تھی……مسافر ایک دوسرے جہاز میں
سوار ہو رہے تھے……میں نے آنکھیں پھاڑ کر اللہ رکھی کو تلاش کیا۔ لیکن وہ کہیں نظر
نہیں آئی……میں بھی بادل نخواستہ جہاز میں سوار ہو گیا اور جب میں جہاز کے دروازہ
سے اندر داخل ہوا ‘‘اللہ رکھی’’ ائیر ہوسٹس کے لباس میں کھڑی مسکرا رہی تھی……اللہ
رکھی……میں نے تعجب سے کہا،
اللہ رکھی ائیر ہوسٹس……اس
نے جملہ پورا کیا۔ پھر سرگوشی سے بولی……روحانی انسان کے لئے وقت اور زمانہ کوئی
اہمیت نہیں رکھتے۔
میں ابھی کچھ کہنا ہی
چاہتا تھا کہ اس نے مجھے بازو سے پکڑ کر آگے بڑھاتے ہوئے کہا……اپنی سیٹ پر بیٹھ
جائو۔ اور میرے ساتھ گزرے ہوئے زمانہ پر غور کرو……انشاء اللہ اب تم سے ملاقات
‘‘حرم کعبہ’’ میں ہو گی۔
میرے ذہن میں ہزاروں
سوالات تھے جو میں اس سے پوچھنا چاہتا تھا لیکن کوشش کے باوجود نہ پوچھ سکا……میں
نے سوچا……اب ‘‘حرم کعبہ’’ ہی میں اس سے بات کروں گا……ہوائی جہاز اس غیر معروف
ہوائی اڈہ سے اڑا اور ریاض پہنچ گیا……پھر……پھر میں وہاں سے ‘‘حرم کعبہ’’ گیا۔ اور
اللہ رکھی کو تلاش کرنے لگا۔ لیکن اسے نہ ملنا تھا اور نہ ملی……اس دوران میں نے
‘‘عمرہ’’ ادا کیا۔ اور ‘‘اللہ رکھی’’ کی تلاش سے مایوس ہو کر لندن چلا گیا……اب
میری زندگی کے دن ہنسی خوشی گزر رہے ہیں لیکن ‘‘اللہ رکھی’’ کی یاد دل سے نہیں جاتی
اور آج بھی کبھی کبھی آپ کو کراچی کی پرہجوم سڑکوں پر اور مصروف بازاروں میں ایک
خوش پوش ادھیڑ عمر کا شخص ملے گا جس کی پیشانی پر تجسس کی لکیریں نمایاں ہوں
گی……اور اس کی چمکتی آنکھیں کسی چہرہ کی متلاشی نظر آئیں کہ وہ کسے تلاش کرتا ہے
اللہ رکھی کو……یا ماضی کو۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محمد مونس خان عظیمی
‘‘اللہ
رکھی’’ ناول کی طرز پر لکھی گئی ایک کہانی ہے جس میں عورت کی صلاحیتوں کی بھرپور
نشاندہی کی گئی ہے۔ یہ کہانی میرے دوست عظیمی بھائی’ محمد مونس خان عظیمی نے لکھی
تھی جو قسط وار روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہو چکی ہے۔ عزیز محترم محبوب علی عظیمی
نگران مراقبہ ہال ابو ظہبی اور یو اے ای نے عرس کے موقع پر محمد مونس خان عظیمی کے
تذکرے میں مجھ سے کہا کہ محمد مونس خان کی خواہش تھی کہ ان کی زندگی میں اللہ رکھی
کتابی صورت میں شائع ہو جائے ان کی یہ خواہش پوری کرنے کا جذبہ میرے اندر اتر گیا۔
میں یہ کتاب قارئین کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ میری اس کاوش سے
میرے بھائی محمد مونس خان عظیمی کی روح خوش ہو گی۔ قارئین سے التماس ہے کہ وہ ان
کے لئے دعائے مغفرت کریں۔
روحانی فرزند: حضرت خواجہ
شمس الدین عظیمی
مراقبہ ہال ۸۵۱ مین بازار، مزنگ لاہور
فون نمبر ۱۴۵۳۴۲۷
۶۲جنوری
۵۹۹۱ء