Topics
حضرت الیسع علیہ السلام کی ذات سے صادر ہونے والے بے شمار معجزات ہیں۔ توراۃ کتاب سلاطین ۲ میں آپ کے معجزات اور آپ کی پیشنگوئیاں اس طرح بیان ہوئی ہیں۔
ایک روز اہل اربجانے حضرت الیسع علیہ السلام سے چشمے کے کھارے پانی کی شکایت کی۔ آپ نے فرمایا کہ ایک نئے پیالے میں نمک ڈال کر لے آؤ۔ لوگ پیالے میں نمک ڈال کر لے آئے۔ آپ نے کھارے پانی کے چشمے میں پانی ڈال دیا اور دعا فرمائی۔ چشمے کا پانی شیریں ہو گیا۔
ایک دفعہ ایک عورت حضرت الیسع علیہ السلام کی خدمت میں گریہ و زاری کرتی ہوئی آئی۔ اس نے بتایا کہ شوہر کے انتقال کے بعد قرض خواہ قرض ادا نہ کرنے کی صورت میں میرے دونوں بیٹوں کو غلام بنانا چاہتے ہیں۔
حضرت الیسع علیہ السلام نے فرمایا! ’’گھر میں کچھ ہے؟‘‘
عورت نے کہا! ’’ایک پیالہ تیل کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔‘‘
آپ نے فرمایا! ’’پڑوسیوں سے خالی برتن ادھار لے کر ان برتنوں میں تیل انڈیلنا شروع کر دو۔ جب تمام برتن بھر جائیں تو انہیں بیچ کر قرض ادا کر دو اور جو باقی بچے اس سے گزر اوقات کرو۔‘‘
عورت نے حسب ارشاد عمل کیا۔ تیل میں اتنی برکت ہوئی کہ پڑوس کے تمام برتن بھر گئے اور اس نے قرض ادا کر دیا۔
حضرت الیسع علیہ السلام جب شونیم (Shunem) پر مقیم تھے تو ایک دولت مند خاتون روزانہ آپ کی دعوت کرتی۔ اس نے آپ کے آرام کی خاطر اپنے گھر سے متصل ایک کمرہ بھی بنوا دیا۔ حضرت الیسع علیہ السلام جب بھی شونیم آتے اس کے گھر میں قیام فرماتے۔ ایک روز حضرت الیسع علیہ السلام نے اپنے خادم جیحازی کے ذریعے اس عورت کو بلوایا اور فرمایا!
’’اس خدمت کا کیا صلہ چاہتی ہو؟‘‘
عورت نے کہا!’’میرے پاس سب کچھ موجود ہے لیکن اولاد کی نعمت سے محروم ہوں۔‘‘
حضرت الیسع علیہ السلام نے اس کے حق میں دعا کی اور فرمایا:
’’آئندہ موسم بہار میں تیری گود بھر جائے گی۔‘‘
حضرت الیسع علیہ السلام کی دعا قبول ہوئی اور اللہ نے اس عورت کو بیٹے کی نعمت سے نوازا۔ وہ بچہ جب لڑکپن میں داخل ہوا تو ایک روز باپ کے ساتھ کھیت پر کام کرنے گیا۔ کام کرتے ہوئے اچانک اس کے سر میں شدید درد ہوا۔ درد اس قدر شدید تھا کہ اس کی تاب نہ لا کر مر گیا۔ ماں مردہ بچے کو حضرت الیسع علیہ السلام کے کمرے میں لٹا کر آپ کی تلاش میں نکل گئی۔ آپ اس وقت کوہ کرملؔ پر مقیم تھے۔ قدموں میں گر کر خاتون دھاڑیں مار مار کر رونے لگی اور بیٹے کے انتقال کی خبر سنائی۔ آپ نے اپنے دوست کو اپنا عصا دیا اور کہا یہ عصا لے جا اور مردہ لڑکے کے منہ پر رکھ دے۔
دوست نے حسب ہدایت عمل کیا۔ لیکن مردہ جسم میں جنبش نہیں ہوئی۔ حضرت الیسع علیہ السلام خود لڑکے کے پاس تشریف لے گئے۔ کمرہ بند کر کے بارگاہ الٰہی میں دعا کی۔ لڑکے کے جسم میں حرکت ہوئی اور اے سات چھینکیں آئیں اور وہ زندہ ہو کر بیٹھ گیا۔
اس واقعہ کے بعد حضرت الیسع علیہ السلام شونیم (Shunem) سے جلجال (Gilgol) تشریف لے گئے۔ جلجال ان دنوں قحط میں تھا۔ آپ نے اپنے دوست سے کہا کہ اہل جلجال کے لئے لپسی(موٹے آٹے کا پتلا حلوہ) پکاؤ۔ کچھ لوگ کھیت سے سبزیاں توڑ لائے۔ ان میں اندرائن(خربوزے کی شکل کا ایک پھل جو دیکھنے میں خوبصورت اور ذائقے میں انتہائی تلخ اور زہریلا ہوتا ہے)
بھی شامل تھی۔ جو کسی نے غلطی سے کھانے میں شامل کر دیا تھا۔ جب لوگ کھانا کھانے بیٹھے تو انہیں کھانا زہریلا ہونے کا احساس ہوا۔ حضرت الیسع علیہ السلام نے تھوڑا سا آٹا منگوایا اور اسے دیگ میں ڈال دیا۔ کھانے کی کڑواہٹ اور زہریلا پن ختم ہو گیا اور لوگوں نے پیٹ بھر کر کھانا کھایا۔
ایک مرتبہ بعل سلیسہ سے ایک شخص آپ کی خدمت میں جَو کی روٹیاں اور کچھ اناج لے کر آیا۔ آپ نے دوست سے فرمایا کہ اسے لوگوں میں تقسیم کر دے۔ چونکہ لوگ زیادہ تھے اور روٹیاں اور اناج کم تھا اس نے پوچھا!’’کیا اتنی کم روٹیاں اور اناج سو آدمیوں کے سامنے رکھ دوں؟‘‘
آپ نے فرمایا! ’’یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے اس تھوڑے سے اناج سے سو آدمی کھائیں گے اور پھر بھی باقی بچے گا۔‘‘ آپ کے ارشاد کے مطابق اس میں اتنی برکت ہوئی کہ لوگوں نے پیٹ بھر کر کھانا کھایا۔
شاہِ ارام (بادشاہ دمشق) کے لشکر کا سردار نعمان ایک عرصے سے برص کے مرض میں مبتلا تھا۔ نعمان کی کنیز نے حضرت الیسع علیہ السلام کا تذکرہ کیا۔ اس زمانے میں حضرت الیسع علیہ السلام سامرید میں تھے۔ نعمان چند لوگوں کے ہمراہ حضرت الیسع علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ نے اپنے دوست سے کہا کہ ’’اس سے کہو کہ وہ دریائے یردن میں سات مرتبہ غوطہ لگائے۔‘‘ نعمان کو آپ کی باتوں کا یقین نہیں آیا اور وہ ناراض ہو کر واپس جانے لگا۔ لیکن اس کے ساتھیوں میں سے کسی نے مشورہ دیا کہ حضرت الیسع علیہ السلام کی ہدایت پر عمل کر کے دیکھ لینا چاہئے۔ نعمان نے دریائے یردن میں سات بار غوطہ لگایا۔ جب وہ باہر آیا تو برص (سفید داغ) کا مرض ختم ہو گیا تھا۔ نعمان آپ کی خدمت میں بیش بہا تحائف لے کر حاضر ہوا۔ آپ نے تحائف قبول کرنے سے انکار کر دیا لیکن جیحازی نے لالچ کی بنا پر آپ کی اجازت کے بغیر تحائف قبول کر لئے۔ حضرت الیسع علیہ السلام کے استفسار پر جیحازی نے جھوٹ بولا۔ جس پر آپ نے اس کو اور اس کی نسل کو برص کی بددعا دی۔ جیحازی اسی وقت برص میں مبتلا ہو گیا۔
ایک دفعہ کچھ لوگوں نے حضرت الیسع علیہ السلام سے رہائشی پریشانی کی وجہ سے یردن جانے کی اجازت مانگی، آپ نے اجازت دے دی۔ لوگ آپ کو بھی ساتھ لے جانے پر مصر ہوئے۔ لہٰذا آپ بھی ان کے ساتھ تشریف لے گئے، یردن پہنچ کر مکان کی تعمیر کے سلسلے میں کچھ لوگ لکڑیاں کاٹنے جنگل کی طرف چلے گئے۔ لکڑیاں کاٹتے ہوئے ایک شخص کی کلہاڑی دریا میں گر گئی۔ وہ التجا کرتا ہوا حضرت الیسع علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ نے فرمایا، ’’کلہاڑی کس جگہ گری ہے؟‘‘ اس شخص نے جگہ کی نشاندہی کی آپ نے درخت کی ایک ٹہنی کاٹ کر ڈال دی۔ کلہاڑی تہہ آب سے سطح آب پر آ گئی۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے اس میں کوئی سورہ، کوئی آیت اور کوئی نقطہ مفہوم و معانی سے خالی نہیں ہے۔ اﷲ کے علوم لامتناہی ہیں۔ اﷲ کا منشاء یہ ہے کہ ہم لوگوں کو آگے بڑھتا دیکھ کر خود بھی قدم بڑھائیں اور اﷲ کی نعمتوں کے معمور خزانوں سے فائدہ اٹھائیں۔ قرآن پاک میں انبیاء سے متعلق جتنے واقعات بیان ہوئے ہیں ان میں ہمارے لئے اور تمام نوع انسانی کیلئے ہدایت اور روشنی ہے۔ کتاب محمد رسول اﷲ۔ جلد سوئم میں عظیمی صاحب نے مختلف انبیاء کرام کے واقعات میں روحانی نقطۂ نظر سے اﷲ تعالیٰ کی حکمت بیان فرمائی ہے۔