Topics
حضرت نوح علیہ السلام کی والدہ کا نام سخا بنتِ انوش تھا۔ حضرت نوح ؑ کا وطن موجودہ عراق تھا۔ پہلے زمانے میں اس کو کالڈیا(Chaldea) یا کلدانیہ کہتے تھے۔
پانچ بت:
حضرت نوحؑ کی قوم ان کو ناپسندکرتی تھی اور ان سے بغض و عناد رکھتی تھی۔ لوگ ان سے متنفر اور ناراض تھے ان کی قوم نے قوی البحثہ پانچ مختلف بت بنائے ہوئے تھے۔ تحقیق کے مطابق پہلے بت کا نام ’’ود‘‘ تھا اور اس بت کی شکل دراز قد مرد کی تھی، دوسرے کا نام ’’سواع‘‘ تھا اور اس کی شکل و شباہت عورت کی تھی۔ تیسرے کا نام ’’یعوق‘‘تھا اور یہ گھوڑے کی شکل کا تھا، چوتھے کا نام ’’یغوث‘‘ تھا اور اس کی شکل شیر جیسی تھی، جبکہ پانچواں بت گدھ کی شکل کا تھا اور اس کا نام ’’نسر‘‘ تھا۔
حضرت نوحؑ کی بعثت سے پہلے قوم توحید سے یکسر نا آشنا ہو چکی تھی اور اللہ کی جگہ خود ساختہ بت بٹھا دیئے گئے تھے، غیر اللہ کی پرستش اور اصنام پرستی ان کا شعار بن گیا تھا۔ بالآخر رشد و ہدایت کے لئے ان ہی میں سے ایک ہادی ایک سچے رسول حضرت نوح ؑ کو مبعوث کیا گیا۔
حضرت نوحؑ نے اپنی قوم کو پکارا اور سچے مذہب کی دعوت دی لیکن قوم نے ان کی بات نہیں سنی اور نفرت اور حقارت کے ساتھ انکار کر دیا۔ امراء اور رؤسا نے تکذیب و تحقیر کا کوئی پہلو نہیں چھوڑا، دولت کے پجاری اور دنیا پرست لوگوں نے ہر قسم کی تذلیل اور توہین کر کے حضرت نوح ؑ پر الزام تراشی کی، وہ کہتے تھے کہ نوح کو ہم پر نہ دولت و ثروت میں برتری حاصل ہے اور نہ وہ انسانیت کے رتبہ سے بلند کوئی فرشتہ ہے، پھر یہ ہمارا پیشوا کیسے ہو سکتا ہے؟ اور ہم اس کے احکام کی تکمیل کیوں کریں۔
حضرت نوحؑ قوم کے رویے سے دل برداشتہ نہیں ہوئے اور لوگوں کو اللہ وحدہ لا شریک کی پرستش کی تعلیم دیتے رہے۔ حضرت نوحؑ جب ان کے جھوٹے خداؤں کو جھٹلاتے تھے اور واحدہ یکتا ذات اللہ سے رجوع کرنے کی تلقین کرتے تو لوگ کانوں میں انگلیاں ٹھونس کر پوری قوت سے چلانے لگتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ
’’جن معبودوں کو ہمارے باپ دادا پوجتے تھے تم ان کا انکار کرتے ہو، ہمارے اجداد کے دین کی تحقیر کرتے ہو اور ہمیں عذاب سے ڈراتے ہو جبکہ ہمارے حالات تم سے اور تمہارے ساتھیوں سے ہر لحاظ سے بہتر ہیں۔‘‘
وہ جب غریب اور کمزور لوگوں کو حضرت نوحؑ کا پیروکار دیکھتے تو کہتے:
’’ہم ان کی طرح نہیں کہ جو تیرے تابع ہو جائیں اور تجھ کو اپنا مقصد مان لیں۔‘‘
وہ سمجھتے تھے کہ یہ لوگ کمزور اور پست ہیں، اندھے مقلد ہیں نہ ان کی کوئی رائے ہے اور نہ سوجھ بوجھ رکھتے ہیں۔ اگر وہ کبھی حضرت نوحؑ کی بات سنتے تو اصرار کرتے تھے کہ:
’’پہلے پست اور غریب لوگوں کو اپنی جماعت سے نکال دیں ہمیں ان گے گھن آتی ہے، ہم ان کے ساتھ ایک جگہ پر نہیں بیٹھ سکتے۔‘‘
نادار کمزور لوگ:
حضرت نوحؑ نے ان سے کہا:
’’اگر میں تمہاری یہ خواہش پوری کرنے کا صرف ارادہ بھی کر لوں تو میرے لئے عذاب سے بچنے کی کوئی جائے پناہ نہیں، اللہ کے یہاں اخلاص کی قدر ہے سب اللہ کے بندے ہیں، اللہ غرور اور تکبر کو پسند نہیں کرتا، اخلاق اور عاجزی اللہ کے لئے پسندیدہ عمل ہیں، میں تمہارے پاس ہدایت لے کر آیا ہوں، میں اللہ کا بھیجا ہوا پیغمبر اور رسول ہوں، اللہ کی وحدانیت کی تبلیغ میرا نصب العین ہے، سرمایہ دارانہ نظام ہمارا اپنا بنایا ہوا ہے، دین کا اس سے کوئی واسطہ نہیں اور نہ ہی انسانوں کی ہدایت کے لئے کسی فرشتے کو پیغمبر بنا کر بھیجا جاتا ہے، یہ کمزور اور نادار لوگ جو اللہ تعالیٰ پر سچے دل سے ایمان لائے ہیں تمہاری نگاہ میں اس لئے حقیر ہیں کہ ان کے پاس دولت کے انبار نہیں ہیں۔ تم پر واضح ہو جانا چاہئے کہ دین اور دنیا کی سعادت ظاہری دولت و حشمت کے تابع نہیں ہے۔ سعید لوگ وہ ہیں جنہیں خلوص نیت اور عمل خیر کی توفیق حاصل ہے سکون ہے۔ قلب، طمانیت نفس اور رضائے الٰہی ان کا مقدر ہے۔‘‘
فاسق قوم کے افراد آپ کی مجلس میں زبردستی داخل ہو جاتے اور محفل کو تہس نہس کر کے شرکاء کو پریشان کرتے تھے، ہر طریقہ استعمال کر کے حضرت نوحؑ کو تبلیغ دین سے روک دینا چاہتے تھے۔
’’بولے! اگر تو نہ چھوڑے گا اے نوح! تو سنگسار ہو گا۔‘‘
(سورۃ الشعراء ۔ ۱۱۶)
’’پھر جھوٹا کہا ہمارے بندے کو اور کہا دیوانہ ہے اور جھڑک دیا۔‘‘
(سورۃ القمر۔ ۹)
خواجہ شمس الدین عظیمی
قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے اس میں کوئی سورہ، کوئی آیت اور کوئی نقطہ مفہوم و معانی سے خالی نہیں ہے۔ اﷲ کے علوم لامتناہی ہیں۔ اﷲ کا منشاء یہ ہے کہ ہم لوگوں کو آگے بڑھتا دیکھ کر خود بھی قدم بڑھائیں اور اﷲ کی نعمتوں کے معمور خزانوں سے فائدہ اٹھائیں۔ قرآن پاک میں انبیاء سے متعلق جتنے واقعات بیان ہوئے ہیں ان میں ہمارے لئے اور تمام نوع انسانی کیلئے ہدایت اور روشنی ہے۔ کتاب محمد رسول اﷲ۔ جلد سوئم میں عظیمی صاحب نے مختلف انبیاء کرام کے واقعات میں روحانی نقطۂ نظر سے اﷲ تعالیٰ کی حکمت بیان فرمائی ہے۔