Topics
پہلے روز خوف سے سب کے چہرے زرد پڑ گئے، دوسرے روز ڈر اور شدید خوف سے سب کے چہرے سرخ ہو گئے اور تیسرے روز دہشت کا یہ عالم تھا کہ چہرے سیاہ ہو گئے، تین دن بعد بجلی کی چمک اور کڑک سے آل ثمود پر عذاب نازل ہوا، سوائے حضرت صالح اور ان پر ایمان لانے والے افراد کے پوری قوم ہلاک ہو گئی، عذاب سے بچ جانے والے یہی لوگ ثمود ثانیہ کہلاتے ہیں۔
’’اور پکڑا ان ظالموں کو چنگھاڑنے، پھر صبح کو رہ گئے اپنے گھروں میں اوندھے پڑے جیسے کبھی رہے نہ تھے ان میں، سن لو! ثمود منکر ہوئے اپنے رب سے، سن لو! پھٹکار ہے ثمود کو۔‘‘
(سورۃ ہود: ۲۷۔۲۸)
قرآن حکیم نے قوم ثمود کو کھجور کے بوسیدہ تنوں سے تشبیہ دی ہے جو سوکھ کر جھڑ جاتی ہے اور جانوروں کی آمد و رفت سے پامال ہو کر برادہ راہ بن جاتی ہے۔
’’ہونی شدنی! کیا ہے وہ ہونی شدنی؟ اور تم کیا جانو کہ وہ کیا ہے ہونی شدنی؟ ثمود اور عاد نے اس اچانک ٹوٹ پڑنے والی آفت کو جھٹلایا، تو ثمود ایک سخت حادثہ سے ہلاک کئے گئے اور عاد ایک بڑی شدید طوفانی آندھی سے تباہ کر دیئے گئے، اللہ تعالیٰ نے مسلسل سات رات اور آٹھ دن ان پر عذاب مسلط رکھا(تم وہاں ہوتے تو) دیکھتے کہ وہ وہاں اس طرح بکھرے پڑے ہیں جیسے وہ کھجور کے بوسیدہ تنے ہوں۔ اب کیا ان میں سے تمہیں کوئی باقی بچا نظر آتا ہے؟‘‘
(سورۃ الحاقہ: ۱۔۷)
’’پھر جب پہنچا حکم ہمارا بچا دیا ہم نے صالح کو اور جو یقین لائے اپنے ساتھ اپنی مہر کر کے اور اس دن کی رسوائی سے، تحقیق تیرا رب وہی ہے زور آور زبردست۔‘‘
(سورۃ ہود۔ ۶۶)
صبح کے سورج نے شہر میں ہر طرف تباہی اور بربادی دیکھی، بڑے بڑے عالیشان محل کھنڈر بن گئے، سرسبز و شاداب باغوں کا نام و نشان تک نہیں تھا، حجر کا پررونق علاقہ ٹوٹ پھوٹ کر آثار قدیمہ کا منظر پیش کر رہا تھا۔
قوم کی ہلاکت کے بعد حضرت صالح اپنے حواریوں کے ہمراہ ملک شام کی طرف ہجرت کر گئے، جب عذاب کی وجہ سے تباہ حال بستی سے گزرے اور انہوں نے جگہ جگہ بکھری ہوئی لاشوں کو دیکھا تو نہایت افسوس کے ساتھ ہلاک شدگان کو مخاطب کر کے فرمایا:
’’اے قوم! بلاشبہ میں نے اپنے پروردگار کا پیغام تم تک پہنچایا اور تم کو نصیحت کی لیکن تم نصیحت کرنے والوں کو دوست ہی نہ رکھتے تھے۔‘‘
الاعراف۔ ۷۹)
فلسطین کے علاقہ رملہ کے قریب کچھ عرصہ قیام کے بعد آپ مکہ ہجرت کر گئے، وہیں انتقال ہوا اور حرم شریف کے اندر کعبہ کے مغربی سمت میں آپ مدفون ہیں۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے اس میں کوئی سورہ، کوئی آیت اور کوئی نقطہ مفہوم و معانی سے خالی نہیں ہے۔ اﷲ کے علوم لامتناہی ہیں۔ اﷲ کا منشاء یہ ہے کہ ہم لوگوں کو آگے بڑھتا دیکھ کر خود بھی قدم بڑھائیں اور اﷲ کی نعمتوں کے معمور خزانوں سے فائدہ اٹھائیں۔ قرآن پاک میں انبیاء سے متعلق جتنے واقعات بیان ہوئے ہیں ان میں ہمارے لئے اور تمام نوع انسانی کیلئے ہدایت اور روشنی ہے۔ کتاب محمد رسول اﷲ۔ جلد سوئم میں عظیمی صاحب نے مختلف انبیاء کرام کے واقعات میں روحانی نقطۂ نظر سے اﷲ تعالیٰ کی حکمت بیان فرمائی ہے۔