Topics
آذر کو جب پتہ چلا کہ بیٹا ستاروں کی پرستش اور خود ساختہ خداؤں کے خلاف جذبات رکھتا ہے تو اس نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے پوچھا:
’’ابراہیم کیا تو میرے معبودوں سے پھر گیا ہے۔‘‘
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جواب میں استفسار کیا۔
’’اے میرے باپ! کیوں پوجتا ہے جو چیز نہ سنے، نہ دیکھے نہ کام آوے تیرے کچھ۔‘‘
(سورہ مریم۔ ۴۲)
’’بت تراش آذر حضرت ابراہیم علیہ السلام کا سوال سن کر سہم گیا اور حیرت اور استعجاب سے انہیں دیکھنے لگا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دوبارہ استفسار پر آذر نے یہ کہا کہ یہ میرے آباؤ اجداد کا راستہ ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا:
’’اے میرے باپ! مجھے ایسی بات کا علم ہو گیا ہے جس کے بارے میں آپ کچھ نہیں جانتے، ہدایت و بھلائی کی طرف آیئے اور شیطان کے بتائے ہوئے راستے کو چھوڑ دیجئے۔ یہ صریح گمراہی ہے۔ آذر نے یہ سنا تو غضب ناک ہو کر بولا:
’’ابراہیم میرے معبودوں کا انکار نہ کر یا درکھ! اگر تو ان باتوں سے باز نہیں آیا تو میں تجھے سنگسار کر دوں گا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے وحدہ لاشریک کی تعریف بیان کرتے ہوئے کہا:
’’میں آپ کے تراشیدہ پتھروں کو اپنا معبود نہیں مان سکتا، یہ مجھے فائدہ پہنچا سکتے ہیں اور نہ میں ان سے کسی قسم کا خوف اور خطرہ محسوس کرتا ہوں۔ یہ میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ میں صرف اس ہستی کو معبود مانتا ہوں جس نے مجھے پیدا کیا اور سیدھی راہ دکھائی۔ جو مجھ کو کھلاتا، پلاتا اور رزق دیتا ہے اور جب میں بیمار ہو جاتا ہوں تو مجھے شفا بخشتا ہے اور جو میری زیست اور موت دونوں کا مالک ہے اور اپنی خطاکاری کے سبب جس سے میں یہ توقع رکھتا ہوں کہ وہ مجھے بخش دے گا اور میں اس کے حضور میں یہ دعا کرتا ہوں کہ اے میرے اللہ! تو مجھ کو فیصلے کی قوت عطا کر اور مجھے نیکو کاروں کی صف میں داخل کر۔
(الشعراء: ۷۸۔۸۳)
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی جرأت بے باکانہ سے آذر کو شدید دھچکا لگا اور غصے سے ہذیان بکنے لگا۔ اس نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کہا:
’’تیری خیر اسی میں ہے کہ کچھ عرصہ کے لئے مجھ سے دور ہو جا۔‘‘
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا:
’’میں اپنے اللہ سے آپ کی بخشش کی دعا کرونگا وہ مجھ پر بڑا مہربان ہے، میں آپ کو اور ان بتوں کو جن کو آپ پوجتے ہیں چھوڑکر اپنے اللہ کو پکارتا ہوں جو مجھے محروم نہیں رکھے گا۔‘‘
ایک روز حضرت ابراہیم علیہ السلام نے قوم کے دانشمندوں کو جمع کیا اور ان سے چند سوالات کئے۔ آپ نے ان سے پوچھا:
’’تمہارے عقیدے کے مطابق ستارے کو اگر ربوبیت اور معبودیت کی قدرت حاصل ہے تو ان میں تغیر کیوں ہوتا ہے؟ یہ جس طرح چمکتے نظر آتے ہیں اسی طرح چمکتے کیوں نہیں رہتے؟ ستاروں کی روشنی کو مہتاب نے کیوں ماند کر دیا ہے؟ اور مہتاب کے رخ روشن کو آفتاب نے کیوں چھپا دیا؟‘‘
’’اے قوم! میں ان مشرکانہ عقائد سے عاجز ہوں اور شرک کی زندگی سے بیزار ہوں بلاشبہ میں نے اپنا رخ صرف اسی ایک اللہ کی طرف کر لیا ہے جو آسمانوں اور زمین کا مالک ہے۔‘‘
(سورہ انعام۔ ۸۰)
ستارہ و بت پرست قوم حیران تھی کہ اس روشن دلیل کا کیا جواب دے؟ صدیوں سے باطل خداؤں پر یقین اس قدر پختہ ہو گیا تھا کہ حقیقت کی روشنی ان کے اندر داخل نہیں ہو سکی، وہ جھگڑنے لگے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کو فرضی معبودوں کے قہر و غضب اور انتقام سے ڈرانے لگے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان کی عقل و شعور پر پڑے ہوئے پردوں کو دیکھ کر فرمایا:
’’تمہارے پاس گمراہی کے سوا کوئی روشنی موجود نہیں ہے مجھے تمہارے معبودوں کی ذرہ برابر پرواہ نہیں ہے۔ میرا رب جو چاہے گا وہی ظہور میں آئے گا یہ لکڑی اور پتھر سے تراشے ہوئے بت خود اپنی حفاظت نہیں کر سکتے تو دوسروں کی حفاظت کس طرح کر سکتے ہیں؟‘‘
شہر کے باہر ایک مذہبی تہوار میں شہر کی تمام آبادی شریک ہوئی، حضرت ابراہیم علیہ السلام بڑے دیوتا کے ہیکل میں چلے گئے، قوم کا سب سے مقدس دیوتا تمام باطل خداؤں کا سردار مانا جاتا تھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دیکھا کہ وہاں موجود پتھراور لکڑی سے بنائے گئے دیوتاؤں کے سامنے پھل، کھانوں اور مٹھائیوں کے خوان رکھے ہوئے تھے جو لوگوں نے چڑھاوے کے طور پر ان کو نذر کئے تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان مورتیوں کو مخاطب کر کے کہا:
’’یہ سب تمہارے لئے رکھا ہے تم ان کو کھاتے کیوں نہیں؟‘‘
ہیکل میں بڑا بت
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دوبارہ فرمایا:
’’میں تم سے مخاطب ہوں۔ تم میری بات کیوں نہیں سنتے؟ میری بات کا جواب کیوں نہیں دیتے؟‘‘
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ہتھوڑے سے ان کو توڑ دیا اور بڑے بت کے کندھے پر ہتھوڑا رکھ کر واپس چلے گئے۔ لوگ تہوار سے واپس آئے تو دیکھا کہ ان کے لکڑی اور پتھر سے بنائے ہوئے معبود منہ کے بل زمین پر گرے ہوئے ہیں۔ کسی کا سر غائب ہے تو کسی کی ٹانگ نہیں ہے اور کسی کے دونوں ہاتھ ٹوٹے ہوئے ہیں۔ اپنے معبودوں کی یہ درگت دیکھ کر کاہن اور سردار بدحواس ہو گئے اور چیخ و پکار آہ و بکا سے پورا ہیکل لرز گیا۔ کچھ لوگوں نے کہا۔ ہم نے ابراہیم کی زبانی بتوں کو برا بھلا کہتے سنا ہے، ہو نہ ہو یہ بے ادبی اسی نے کی ہے۔ بادشاہ وقت نمرود تک جب بات پہنچی تو اس نے کاہنوں اور درباریوں کو جمع کیا اور ان کی موجودگی میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دربار میں طلب کیا۔ دربار لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام رعب اور وقار کے ساتھ دربار میں داخل ہوئے اور شاہی پروٹوکول کو نظر انداز کرتے ہوئے نمرود کے سامنے جا کھڑے ہوئے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کا یہ عمل جہاں صاحب اقتدار لوگوں اور خود نمرود پر بجلی بن کر گرا وہیں اس عمل سے عوام الناس کے دلوں میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی جرأت اور حوصلے کی دھاک بیٹھ گئی۔ مذہبی پیشواؤں نے پر رعب آواز میں پوچھا:
’’اے ابراہیم! ہمارے بتوں کی توہین کس نے کی ہے؟‘‘
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جواب میں فرمایا:
’’ہتھوڑا بڑے بت کے کندھے پر ہے اس سے پوچھو کہ یہ سب کس نے کیا ہے؟‘‘
پجاری ندامت اور شرمندگی سے سر جھکا کر بولے:
’’ابراہیم! تو خوب جانتا ہے کہ پتھر کی مورتیاں بولتی نہیں ہیں۔‘‘
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا:
’’جب یہ بولتے نہیں، حرکت نہیں کر سکتے، اپنا دفاع نہیں کر سکتے، تو تم ان سے نفع پہنچانے کی امید کیوں رکھتے ہو؟ اور نقصان ہونے کا اندیشہ کیوں کرتے ہو؟ تم پر افسوس ہے کہ تم کائنات کے مالک اللہ کو چھوڑ کر جھوٹے معبودوں کو پوجتے ہو کیا تم عقل و شعور نہیں رکھتے؟‘‘
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی تقریر بت پرستوں کے عقائد پر ایسی کاری ضرب تھی کہ نمرود نے اپنی خود ساختہ خدائی کو زمیں بوس ہوتے ہوئے دیکھ لیا۔ نمرود چالاک آدمی تھا اس نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے پوچھا:
’’اے ابراہیم! تو اپنے باپ، دادا کے دین کی مخالفت کیوں کرتا ہے؟ تو ان مقدس بتوں کو معبود ماننے سے کیوں منکر ہے؟‘‘
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا:
’’اللہ ساری کائنات کا تنہا مالک ہے ہم سب اس کی مخلوق ہیں، پتھروں اور لکڑیوں سے بنائے ہوئے بت خدا نہیں ہیں یہ تو اپنی سلامتی اور حفاظت کے لئے بھی دوسروں کے محتاج ہیں، پرستش کے لائق وہ ہستی ہے جو کسی قسم کی احتیاج نہیں رکھتی اور تمام مخلوق اس کی محتاج ہے۔‘‘
یہ سن کر نمرود بولا:
’’اگر میرے علاوہ کوئی رب ہے تو اس کا ایسا وصف بیان کر جس کی قدرت مجھ میں نہ ہو۔‘‘
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا:
’’میرا رب موت و حیات پر قادر ہے۔‘‘
نمرود بولا:
’’زندگی اور موت تو میرے قبضہ قدرت میں بھی ہے۔‘‘
اس نے ایک قیدی کو جس کو موت کی سزا کا حکم ہو چکا تھا، جان بخشی کر دی اور دربار میں موجود ایک شخص کی گردن مار دینے کا حکم صادر کر دیا۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے نمرود سے کہا:
’’کائنات کا ہر ذرہ میرے رب کا محتاج ہے۔ سورج اس کے حکم سے ہر روز مشرق سے نکلتا ہے اور مغرب میں ڈوب جاتا ہے۔ تو سورج کو مغرب سے نکال کر دکھا۔‘‘
مذہبی پیشواؤں اور بادشاہ کے عقائد کی تکذیب نے ایوان نمرود میں دراڑیں ڈال دیں۔ ارباب اقتدار نے شور و غوغا بلند کیا کہ ابراہیم ہمارے دیوتاؤں کی توہین کا مرتکب ہوا ہے اور باپ دادا کے مذہب کو جھٹلاتا ہے اس کی سزا یہ ہے کہ اسے آگ میں پھینک دیا جائے۔
سزا پر عمل درآمد کے لئے ایک جگہ بہت بڑا الاؤ روشن کیا گیا۔ کئی روز تک آگ کو دھکایا گیا یہاں تک کہ آگ کی تپش سے ارد گرد موجود چیزیں خاکستر ہو گئیں۔ پرندوں نے ہوا میں اڑنا چھوڑ دیا، آس پاس کے درخت جھلس کر کوئلہ بن گئے، پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ایک منجنیق میں رکھ کر آسمان سے باتیں کرتے شعلوں میں پھینک دیا گیا۔
ابلیسی طرز فکر کے حامل لوگوں نے آگ کو شر اور تخریب میں استعمال کر کے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈال دیا۔ لیکن خالق کائنات نے حکم دیا۔
’’اے آگ! ٹھندی ہو جا اور آرام بن ابراہیم پر‘‘
(الانبیاء۔ ۶۹)
اور آگ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے گلزار بن گئی۔ اس واقعہ کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ہجرت کا حکم ہو ااور وہ شام کی طرف ہجرت کر گئے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بھتیجے حضرت لوط علیہ السلام ہجرت کے وقت آپ کے ہمراہ تھے۔ ملک شام وہ بابرکت زمین ہے جس کا وعدہ آپ سے اور آپ کی اولاد سے کیا گیا تھا اس لئے اسے ’’وعدہ کی زمین‘‘ بھی کہتے ہیں۔
’’خداوند نے ابرام سے کہا کہ اپنی آنکھ اٹھا اور جس جگہ تو ہے وہاں سے شمال اور جنوب اور مشرق اور مغرب کی طرف نگاہ دوڑا۔ کیونکہ یہ تمام ملک جو تو دیکھ رہا ہے میں تجھ کو اور تیری نسل کو ہمیشہ کے لئے دونگا اور میں تیری نسل کو خاک کے ذروں کی مانند بناؤں گا ایسا کہ اگر کوئی شخص خاک کے ذروں کو گن سکے تو تیری نسل بھی گن لی جائے۔ اٹھ اور اس ملک کے طول و عرض میں سیر کر کیونکہ میں اسے تجھے دوں گا اور ابرام نے اپنا ڈیرہ اٹھا لیا اور حبرون میں جا کر رہنے لگا اور وہاں خداوند کے لئے ایک قربان گاہ بنائی۔‘‘
عہد نامہ قدیم و جدید۔ کتاب باب پیدائش۔ باب ۱۳۔ آیت ۱۴۔۱۸)
حام بن نوح کی اولاد میں سے بنی کنعان کے لوگ اس علاقے میں آباد تھے، اس بناء پر یہ علاقہ کنعان کہلاتا تھا۔ آپ نے یہاں دو مقامات پر قربان گاہیں بنوائیں ان میں سے ایک ’’سکم‘‘ (موجودہ بابلس) کے مقام پر تھی اور دوسری قربان گاہ ’’بیت ایل‘‘ میں تعمیر کی گئی۔ روایت کے مطابق شام کے بادشاہ کی لڑکی سے آپ کی شادی ہو گئی اور جب کنعان کے پورے علاقے میں زبردست قحط پڑا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے قریبی زرعی ملک مصر کی طرف ہجرت کی۔ مصر میں ہیکسوس فراعنہ کا دور تھا، پیشہ کے اعتبار سے یہ چرواہے تھے اور سامی نسل سے تعلق رکھتے تھے۔ سامی بادشاہ کو جب ایک سامی النسل خاندان کی آمد کی خبر ملی تو اس نے بہت آؤ بھگت کی اور اپنے قدیم خاندان سے تعلق استوار کرنے کے لئے بی بی سارہ سے نکاح کا پیغام دیا۔ لیکن جب اسے پتہ چلا کہ بی بی سارہ شادی شدہ ہیں تو اسے افسوس ہوا اور اس نے اپنی بیٹی حضرت ہاجرہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی خدمت میں پیش کر کے تعلق استوار کر لیا اور بہت سا مال اور مویشی بھی آپ کے ہمراہ کر دیئے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے اس میں کوئی سورہ، کوئی آیت اور کوئی نقطہ مفہوم و معانی سے خالی نہیں ہے۔ اﷲ کے علوم لامتناہی ہیں۔ اﷲ کا منشاء یہ ہے کہ ہم لوگوں کو آگے بڑھتا دیکھ کر خود بھی قدم بڑھائیں اور اﷲ کی نعمتوں کے معمور خزانوں سے فائدہ اٹھائیں۔ قرآن پاک میں انبیاء سے متعلق جتنے واقعات بیان ہوئے ہیں ان میں ہمارے لئے اور تمام نوع انسانی کیلئے ہدایت اور روشنی ہے۔ کتاب محمد رسول اﷲ۔ جلد سوئم میں عظیمی صاحب نے مختلف انبیاء کرام کے واقعات میں روحانی نقطۂ نظر سے اﷲ تعالیٰ کی حکمت بیان فرمائی ہے۔