Topics
حضرت لقمان علیہ السلام سے کسی نے قرض لیا۔ بہت دنوں کے بعد اس شخص نے حضرت لقمان علیہ السلام کو پیغام بھجوایا کہ مجھے کاروبار زندگی سے فرصت نہیں ہے اور کوئی معتبر آدمی ملتانہیں ہے۔ گزارش ہے کہ صاحب زادے کو بھیج دیجئے تا کہ میں قرض واپس کر دوں۔ حضرت لقمان علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو قرض وصول کرنے کے لئے بھیج دیا۔ جاتے وقت بیٹے کو تین نصیحتیں کیں۔ فرمایا کہ پہلی منزل پر راستے میں ایک بڑ کا درخت ہے اس کے نیچے نہ سونا۔
دوسری منزل میں ایک بہت بڑا شہر آئے گا اس میں قیام نہ کرنا۔ شہر میں کھانے پینے کے بعد جنگل میں چلے جانا۔ تیسری بات یہ یاد رکھنا کہ جس شخص سے قرض وصول کرنا ہے اس کے گھر نہ ٹھہرنا۔ البتہ راستے میں کوئی راستے سے واقف اور تجربہ کار بندہ ملے اور ہماری نصیحت کے خلاف تمہیں کوئی ہدایت دے تو تم اس پر عمل کرنا۔
حضرت لقمان علیہ السلام کے بیٹے نے ابھی تھوڑا سا راستہ طے کیا تھا کہ راستے میں ایک بوڑھا مسافر ملا پوچھا!
’’میاں صاحبزادے کہاں جا رہے ہو؟‘‘
حضرت لقمان علیہ السلام کے بیٹے نے بتایا کہ ’’میں اپنے والد کا قرض وصول کرنے جا رہا ہوں۔‘‘
بڑے میاں بولے!
’’مجھے بھی اسی شہر میں جانا ہے۔ اچھا ہوا کہ ہمارا تمہارا ساتھ ہو گیا۔‘‘
جب پہلی منزل آئی تو بڑے صاحب نے کہا!
’’اس درخت کے نیچے رہیں گے تا کہ شبنم سے محفوظ رہیں۔‘‘
لڑکا بولا:
’’محترم بزرگ! مجھے اس درخت کے نیچے ٹھہرنے کو والد صاحب نے منع کیا تھا۔‘‘
بڑے صاحب نے پوچھا!
’’کچھ اور بھی کہا تھا؟‘‘
لڑکے نے کہا!
’’جی ہاں! والد صاحب نے کہا تھا کہ اگر کوئی اس راہ کا واقف ملے تو اس کی بات پر عمل کرنا۔‘‘
بڑے میاں بولے!
’’ہم اس راستے سے خوب واقف ہیں تم ہمارا کہنا مانو۔‘‘
بابمئے سجادہ رنگین کن گرت پیر مغاں گوید
کہ سالک بے خبر نہ بودز راہ رسم و منزلہا
غرض دونوں نے درخت کے نیچے بسیرا کیا۔ آدھی رات گئے ایک سانپ درخت پر سے اترا۔ بڑے میاں نے سانپ کو مار کر ڈھال سے ڈھانپ دیا۔ جب صبح ہوئی تو لڑکے کے دل میں وسوسہ آیا کہ ’’ابا جی نے خواہ مخواہ منع کیا تھا۔ یہاں تو کچھ بھی نہیں ہوا۔ میں تو خوب آرام سے سویا ہوں۔‘‘
یہ خیال روشن ضمیر بڑے صاحب نے محسوس کر لیا اور صاحبزادے سے کہا! ’’ڈھال اٹھاؤ۔‘‘
ڈھال کے نیچے مرا ہوا سانپ پڑا تھا۔ لڑکے کے دماغ میں والد کی طرف سے جو وسوسہ آیا تھا اس کی اصلاح ہو گئی اور اللہ کا شکر ادا کیا۔
بڑے میاں نے لڑکے سے کہا!
’’صاحبزادے! سانپ کا سر کاٹ کر اپنے پاس رکھ لو۔‘‘
اس نے سانپ کا سر کاٹ کر اپنے تھیلے میں رکھ لیا۔ دوسرے دن یہ دونوں ایک بڑے شہر میں پہنچے۔ بڑے میاں نے فرمایا!
’’رات کو اسی شہر میں قیام کریں گے۔‘‘
اور دونوں ایک مسافر خانے میں جا ٹھہرے۔ اس شہر کا یہ عجیب دستور تھا کہ جب کوئی جوان مسافر شہر میں آ جاتا تو بادشاہ اس سے اپنی بیٹی کی شادی کر دیتا اور صبح کے وقت اس کی لاش ملتی تھی۔ الغرض بادشاہ کو جب خبر پہنچی تو اس نے نوجوان مسافر کو طلب کیا۔
لڑکا جب دلہن کے پاس جانے لگا تو پیر دانا نے فرمایا کہ:
’’پہلے اس سانپ کے سر کو جو تمہارے پاس ہے آگ میں رکھ کر اپنی بیوی کو دھونی دینا۔‘‘
لڑکے نے ایسا ہی کیا اور زندہ رہا۔ بات دراصل یہ تھی کہ عورت کے رحم میں ایک زہریلا پھوڑا تھا۔ یہ ایسا مرض تھا کہ جب اس کے پاس کوئی مرد جاتا تھا تو زہر چڑھ جاتا تھا اور دولہا مر جاتا تھا۔ اس دھونی کی تاثیر سے مرض ختم ہو گیا اور صبح کو لڑکا زندہ سلامت محل سے باہر آیا۔
کچھ دنوں بعد وہ دونوں اس شہر سے روانہ ہوئے اور اس بستی میں پہنچ گئے جہاں مقروض کا گھر تھا۔ دانا بزرگ نے فرمایا!
’’بھائی! اس کے گھر میں ہی ٹھہریں گے۔‘‘
چنانچہ رات کو وہیں قیام کیا۔ میزبان کی نیت میں پہلے ہی فتور تھا۔ اس نے سوچا ’’دونوں کو قتل کر دیا جائے تا کہ قرض کا روپیہ واپس نہ کرنا پڑے۔‘‘
میزبان نے مہمانوں سے پوچھا!
’’صاحبو! اندر سوؤ گے یا باہر صحن میں؟‘‘
بڑے صاحب بولے:
’’گرمی ہے ہم باہر سوئیں گے۔‘‘
چنانچہ دونوں صحن میں لیٹ گئے۔ گھر کے اندر کمرے میں صاحب خانہ کے دو لڑکے سوئے ہوئے تھے۔ جب آدھی رات ہوئی تو بڑے میاں نے حضرت لقمان علیہ السلام کے بیٹے کو جگایا اور بولے:
’’سردی ہو گئی ہے اند چلو۔‘‘
دونوں اندر کمرے میں گئے اور میزبان کے لڑکوں کو جگا کر کہا:
’’بھائی! ہمیں باہر سردی لگتی ہے۔ تم ہماری جگہ جا لیٹو۔ ہم یہاں سو جائیں گے۔‘‘
جب تین پہر رات گزر گئی اور ہر طرف نیند کا پہرہ ہو گیا۔ تو مالک مکان آیا اور باہر سوئے ہوئے اپنے دونوں لڑکوں کو قتل کر دیا۔
صبح ہوئی تو اس نے دیکھا کہ اس کے دونوں بیٹے مردہ پڑے ہیں۔ اسے نہایت صدمہ پہنچا مگر چپ ہو گیا اور دل پر پتھر کی سل رکھ لی۔
چار و ناچار مہمانوں کو روپیہ دے کر رخصت کر دیا۔ واپسی میں جب اس مقام پر پہنچے جہاں بڑے صاحب سے ملاقات ہوئی تھی تو بزرگوار نے کہا:
’’بیٹا! خداحافظ۔ اب ہم جاتے ہیں۔ اپنے والد سے ہمارا سلام کہنا۔‘‘
لڑے نے پوچھا:
’’میرے اچھے بزرگ! آپ کا نام کیا ہے؟‘‘
بزرگ نے فرمایا:
’’تمہارے ابا ہمارا نام جانتے ہیں۔‘‘
بیٹا جب باپ کی خدمت میں پہنچا اور سفر کی روئداد سنا کر اپنے والد سے سوال کیا:
’’وہ بزرگ کون تھے؟‘‘
تو حضرت لقمان علیہ السلام نے کہا!
’’وہ بزرگ حضرت خضر علیہ السلام تھے۔‘‘
٭٭٭٭٭
خواجہ شمس الدین عظیمی
قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے اس میں کوئی سورہ، کوئی آیت اور کوئی نقطہ مفہوم و معانی سے خالی نہیں ہے۔ اﷲ کے علوم لامتناہی ہیں۔ اﷲ کا منشاء یہ ہے کہ ہم لوگوں کو آگے بڑھتا دیکھ کر خود بھی قدم بڑھائیں اور اﷲ کی نعمتوں کے معمور خزانوں سے فائدہ اٹھائیں۔ قرآن پاک میں انبیاء سے متعلق جتنے واقعات بیان ہوئے ہیں ان میں ہمارے لئے اور تمام نوع انسانی کیلئے ہدایت اور روشنی ہے۔ کتاب محمد رسول اﷲ۔ جلد سوئم میں عظیمی صاحب نے مختلف انبیاء کرام کے واقعات میں روحانی نقطۂ نظر سے اﷲ تعالیٰ کی حکمت بیان فرمائی ہے۔