Topics
دوسرا جسم محتاج نہیں ہے آزاد ہے دیکھتا بھی ہے، سنتا بھی ہے، فہم و ادراک بھی رکھتا ہے۔ جس طرح مادی جسم زمین کو دیکھتا ہے اسی طرح مادے سے آزاد یہ جسم بھی زمین کو دیکھتا ہے لیکن اس کے دیکھنے کی طرزیں میٹریل سسٹم سے الگ ہیں۔
دوسرا جسم (لاشعور) جب زمین کو دیکھتا ہے تو زمین پپیتے کی طرح نظر آتی ہے، گیند کی طرح نظر نہیں آتی، باطنی جسم دیکھتا ہے کہ زمین کے اندر گیس کا ذخیرہ تو ہے لیکن زمین کے اوپر ٹھوس آبادی نہیں ہے۔ زمین ایک اسکرین ہے اور اسکرین پر فلم چل رہی ہے کوئی ایک آدمی بھی اصلی نہیں ہے۔ ہر آدمی اور ہر شئے فلم کا ’’عکس‘‘ ہے، پروجیکٹر کہیں اور ہے جس کی عکس ریزی زمینی اسکرین پر نشر ہو رہی ہے جس طرح پروجیکٹر سے روشنی نہ آنے سے فلم کے کردار اسکرین پر نہیں آتے اسی طرح اصل پروجیکٹر سے جب سلسلہ ختم ہو جاتا ہے تو فلم کے مناظر آنکھوں سے اوجھل ہو جاتے ہیں۔
لاشعور دیکھتا ہے کہ پپیتے کی طرح زمین پر گول کڑوں کی طرح پہاڑ ہیں، پہاڑوں کے گول چھلوں نے زمین کو اپنی گرفت میں لیا ہوا ہے، زمین مسلسل محوری اور طولانی گردش میں ہے اس گردش کو پہاڑ کے گول کڑے کنٹرول کرتے ہیں۔ یہ پہاڑ میخوں کی طرح زمین پر گڑے ہوتے ہیں۔
’’بھلا کیا نگاہ کرتے اونٹوں کی تخلیق پر اور آسمان پر کیسا بلند کیا ہے اور پہاڑوں پر کیسے کھڑے کئے ہیں اور زمین پر کیسی صاف بچھائی۔‘‘
(سورۃ الغاشیہ: ۱۸۔۲۰)
فلم کے ہر کردار میں آکسیجن اور کاربن ڈائی آکسائیڈ زندگی بن رہی ہے، زندگی ٹوٹ بھی رہی ہے، بکھر بھی رہی ہے اور بن بھی رہی ہے، زندگی بننے، بکھرنے اور ٹوٹنے کے عمل میں چھ شعور کام کرتے ہیں۔ ان میں ایک شعور بالکل غیر مستحکم ہے، باقی شعور اس ایک سے زیادہ مستحکم ہیں۔ ہر شئے چاہے وہ ریت کا ذرہ ہی کیوں نہ ہو، شعور رکھتی ہے اور شعور کی گرفت ٹوٹنے سے ختم ہو جاتی ہے، زندگی مقداروں سے مرکب ہے اور مقداروں کا نظام ایک مکمل اور فعال نظام ہے۔ یہ نظام براہ راست قدرت کے ساتھ وابستہ ہے جب قدرت ناراض ہو جاتی ہے تو نظام ٹوٹ جاتا ہے، نظام توڑنے کے لئے قدرت کیا طریقہ اختیار کرتی ہے یہ اس کا اپنا انتخاب ہے، زلزلے کے ذریعے، آندھی کے ذریعے، پانی کے طوفان کے ذریعے یا چنگھاڑ کے ذریعے۔
دو حروف سے مرکب ایک لفظ اللہ نے بولا عدم میں موجود کائنات نے سنا اور پوری تخلیقات کا ظہور ہو گیا۔ یہ دو حروف ’’ک‘‘ ’’ن‘‘ ہیں، جن کا مرکب لفظ ’’کن‘‘ بن گیا۔ کن کا مطلب ہے ’’ہو جا‘‘ یعنی ’’کن‘‘ حکم ہے اور حکم کی تعمیل ہے ’’فیکون‘‘۔
کائنات کی ہر مخلوق اللہ کے ذہن میں موجود تھی۔ مخلوقات نے جب آواز سنی تو اس میں حرکت پیدا ہو گئی یعنی اس کے اندر توانائی دوڑ گئی۔ اللہ تعالیٰ کے بہت سے نام ہیں اور ہر نام مکمل تخلیقی صفات کا حامل ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ایک نام ’’علیم‘‘ ہے اور اللہ تعالیٰ علیم ہونے کی حیثیت سے کائنات کی تخلیق سے پہلے بھی کائنات کی تخلیقی فارمولوں کا علم جانتے تھے۔ جب اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ کائنات مظاہراتی صورت میں نظر کے سامنے آ جائے اور کائنات کے اندر بسنے والی مخلوق خود اپنے وجود سے واقف ہو جائے تو اللہ تعالیٰ نے ’’کن‘‘ فرمایا اور کائنات علم کے پردے سے باہر آ گئی۔ جیسے ہی اللہ تعالیٰ کے ارادے نے حرکت کی وسائل بھی بن گئے، کائنات کی تخلیق کا پہلا مرحلہ ’’نور‘‘ ہے۔ اللہ نور السموٰ ت والارض۔ ’’اللہ سماوات اور ارض کا نور ہے۔‘‘ پہلے مرحلے میں اللہ کے نور سے روحیں وجود میں آئیں مگر روحوں کو اپنے وجود کا احساس نہ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں مخاطب کیا اور انہیں اپنی آواز سنائی۔ ’’الست بربکم‘‘(کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟‘‘ روحوں نے جواب دیا۔’’جی ہاں‘‘ پہلی آواز سے روحیں عدم سے وجود میں آئیں، دوسری آواز سے ارواح میں تین نمایاں حواس منتقل ہو گئے۔
یہ تینوں حواس مرکزیت کا سمبل ہیں، کان متوجہ ہوتے ہیں تو آدمی سنتا ہے، نگاہ متوجہ ہوتی ہے تو آدمی دیکھتا ہے، دماغ مخاطب کے کلام کی معنویت پر توجہ دیتا ہے تو آدمی جواب دیتا ہے، آواز سے کائنات میں روحوں کی مرکزیت اللہ بن گئی، ازل میں جب روحوں نے اللہ تعالیٰ کی آواز سنی تو مخلوق کے اندر سننے کے حواس متحرک ہو گئے، آواز دینے والی ہستی کی طرف روحیں متوجہ ہوئیں تو نظر متحرک ہوئی، دیکھنے کے بعد اپنا اور اللہ کا ادراک ہوا، ادراک کے بعد جب اقرار کیا تو کلام کرنے کی صلاحیت پیدا ہو گئی۔
رحم میں بچہ
ایک خاتون نے خواب میں دیکھا کہ ماں کے رحم میں ایک بچہ ہے جو ابھی تخلیق کے بالکل ابتدائی مراحل میں ہے اس کے دونوں کانوں پر ہیڈ فون کی طرح کا آلہ لگا ہوا ہے، ہیڈ فون کے اندر کا حصہ بچے کے کان کے اندر پیوست ہے اس میں لگی ہوئی تار رحم کے اندر دیوار تک تھی۔ حیرت کے ساتھ ساتھ تجسس بھی ہوا کہ اتنا ذرا سا بچہ جوابھی نا مکمل ہے کیا سنتا بھی ہے؟ خاتون نے تجسس کے جذبے سے بچے کے کانوں سے وہ ریسور کھینچ لیا۔ پتہ چلا کہ ہیڈ فون بچے کے کانوں میں بہت مضبوطی سے پیوست ہے۔ بوتل کارک کی مانند، یہ ریسیور بچے کے کان سے نکل آئے۔ خاتون نے ایک ریسیور اپنے کان سے لگا لیا تو اس میں سے آواز آ رہی تھی جو نہایت صاف اور نرم لہجے میں تھی وہ آواز تھی:
’’میں تمہارا رب ہوں، بہت جلد تمہیں دنیا میں بھیجنے والا ہوں، تمہیں وہاں مقررہ وقت تک ٹھہرنا ہے۔‘‘
بچہ انتہائی محویت کے عالم میں اس آواز کو سن رہا تھا وہ بول نہیں سکتا تھا لیکن آواز کو سن سکتا تھا اور سمجھ بھی رہا تھا اس آواز کے ذریعے بچے کی زندگی کے ہر ہر لمحے کی ہدایتیں بچے کو مل رہی تھیں، ریسیور بچے کے کانوں سے الگ کرتے ہی بچہ بری طرح سے پریشان ہوگیا جیسے اسے زندگی سے محروم کر دیا گیا ہو وہ رحم مادر میں برق رفتاری سے چکر کاٹنے لگا، جہاں بچہ مقیم تھا وہ ایک تاریک کوٹھری تھی اس کوٹھری کے برابر میں اسی طرح ایک اور نہایت تاریک چھوٹی کوٹھری تھی، ریسیور ہٹنے سے بچہ اتنا زیادہ مضطرب تھا کہ خاتون سے اس کا کرب دیکھا نہ گیا فوراً ریسیور اس کے کان میں دوبارہ لگا دیا بچہ پھر ماں کے رحم میں پہلے کی طرح آرام سے لیٹ گیا اور اسے سکون آ گیا۔
خاتون نے پھر دیکھا کہ بلی کا بچہ اپنی ماں کے رحم میں ہے اس کے کان میں بھی انسان کے بچہ کے کان کی طرح ہیڈ فون لگا ہوا ہے۔ خاتون نے اس کا ریسیور ہٹایا تو اس میں سے بلی کے بچے کی زندگی کی ہدایات آ رہی تھیں، ہیڈ فون ہٹاتے ہی بلی کا بچہ اس قدر مضطرب ہو گیا کہ اپنی پوری قوت اور رفتار کے ساتھ رحم کی دونوں تاریک کوٹھریوں میں تیزی سے چکر کاٹنے کے بعد رحم کی دیوار پھاڑ کر آزاد فضاء میں گم ہو گیا۔
حقیقت ابدی دنیا عالم خلق ہے یہاں کوئی شئے شکل و صورت خدوخال کے بغیر موجود نہیں ہے، ہر شئے کی اپنی انفرادیت ہے، انفرادیت کا شعور مادی جسم سے ہے، جس طرح ریگستان لاشمار ریت کے ذرات کا مجموعہ ہے اسی طرح آدم بھی لاشمار خلیوں کا مجموعہ ہے کسی بھی فرد میں جو بھی صفات یا صلاحیتیں ہیں وہ تمام صلاحیتیں آدم کے اندر مجموعی طور پر موجود ہیں، ہر شئے کا باوا آدم اپنی نسل کے انفرادی شعور کو فیڈ کرتا ہے۔ انفرادی شعور ہر عالم ہر گھڑی اپنے مجموعی یا نوعی شعور کے ساتھ منسلک رہتا ہے، نوعی شعور روح کا شعور ہے جس میں ہر نوع کی زندگی کا ریکارڈ ہے۔
کائنات کی حرکت اللہ کی آواز ہے، کائنات ایک گلوب کی طرح ہے، اللہ کی آواز اسی گلوب میں گونجتی ہے۔ یہ گونجا رہی حرکت ہے، زندگی کے تمام احکامات آواز ’’کن‘‘ میں محفوظ ہیں۔ افزائش نسل کا سلسلہ تعمیل امر ہے اور ’’امر‘‘ ریکارڈ شدہ آواز ہے۔
کن کی آواز مسلسل گونجا رہے، مختلف اور لاشمار فریکوئنسی کا ذخیرہ ہے۔ یہ ذخیرہ آسمانوں سے اوپر کے مقامات سے نورانی آبشار کی صورت میں ہر وقت نازل ہوتا رہتا ہے، پہلے مرحلے میں وہم دوسرے مرحلے میں خیال، تیسرے مرحلے میں تصور اور چوتھے مرحلے میں فریکوئنسی مظاہراتی شکل میں منتقل ہو جاتی ہے، گونجا ردراصل مقداروں کا مجموعہ ہے، مقداروں میں اعتدال کی صحیح کیفیت مرتب ہوتی ہے، مقداروں میں اعتدال سے ہٹ کر تیزی ابتری پیدا کرتی ہے اور مقداروں میں کمی سے کاہلی اور سستی کا مظاہرہ ہوتا ہے، گونجار کی فریکوئنسی میں انتہائی تیز آندھی، ہوا اور طوفان ہیں گونجار کی بہت زیادہ (Vibration) فریکوئنسی کے اوپر کے جال کے درہم برہم کر دیتی ہے۔ سبک رفتار ’’ہوا‘‘ فریکوئنسی کے اعتدال کی علامت ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے اس میں کوئی سورہ، کوئی آیت اور کوئی نقطہ مفہوم و معانی سے خالی نہیں ہے۔ اﷲ کے علوم لامتناہی ہیں۔ اﷲ کا منشاء یہ ہے کہ ہم لوگوں کو آگے بڑھتا دیکھ کر خود بھی قدم بڑھائیں اور اﷲ کی نعمتوں کے معمور خزانوں سے فائدہ اٹھائیں۔ قرآن پاک میں انبیاء سے متعلق جتنے واقعات بیان ہوئے ہیں ان میں ہمارے لئے اور تمام نوع انسانی کیلئے ہدایت اور روشنی ہے۔ کتاب محمد رسول اﷲ۔ جلد سوئم میں عظیمی صاحب نے مختلف انبیاء کرام کے واقعات میں روحانی نقطۂ نظر سے اﷲ تعالیٰ کی حکمت بیان فرمائی ہے۔