Topics

شداد کی جنت

حضرت ہودؑ کے زمانے میں ہی شداد نے زمین پر جنت بنائی تھی زبردست عسکری قوت سلطنت کی وسعت اور مال و دولت کی فراوانی نے شداد کو غرور گھمنڈ میں مبتلا کر دیا تھا۔

اس کے تخت کے دونوں جانب دو گدھ پر پھیلائے ایستادہ تھے۔ کبر و نخوت اور ظلم و ستم میں بدمست شداد کا تخت سونے، چاندی اور ہیرے جواہرات سے مرصع تھا۔

حضرت ہودؑ کی دعوت کی خبریں جب عام ہوئیں اور عمائدین سلطنت نے دربار میں اس کا تذکرہ کیا تو شداد نے حضرت ہودؑ کو دربار میں بلایا، سرداران قوم اور رؤسائے شہر کے درمیان جب آپ نے دعوت حق پیش کی تو شداد نے پوچھا:

’’اگر ہم تمہاری بات مان لیں تو ہمیں کیا فائدہ ہو گا؟‘‘

حضرت ہودؑ نے کہا:

’’تمہارے گناہ بخش دیئے جائیں گے اور اللہ تعالیٰ بہشت کے باغ عطا کرے گا جہاں لطف و کرم کی بارش ہو گی۔‘‘

پھر آپ نے شداد کے سامنے جنت کا نقشہ اس کے سامنے بیان کیا۔

شداد نے کہا:

’’تم ہمیں جس بہشت کا لالچ دیتے ہو ایسی جنت میں خود بنا سکتا ہوں، مجھے تمہارے رب کی بنائی ہوئی جنت کی کوئی ضرورت نہیں۔‘‘

اپنی بات کو ثابت کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کے فراہم کردہ وسائل کو اس نے استعمال کیا اور تعمیر و تزئین کا بہترین نمونہ ایک باغ بنوایا جس میں ہر وہ خوبی جمع کر دی گئی تھی جو جنت سے متعلق وہ سن چکا تھا۔

بتایا جاتا ہے کہ یہ باغ صنعاء اور حضرموت کے درمیان تھا اور رقبہ کے لحاظ سے ایک بڑے شہر کے برابر تھا جس میں عظیم عمارتیں، چشمے، نہریں اور باغات تھے۔ اس کا نام ’’ارم‘‘ تھا۔ جب یہ شہر تیار ہو چکا اور شداد اپنے امراء اور رؤسا کے ہمراہ اس کو دیکھنے کے لئے گیا اسی وقت گھٹا چھا گئی اور شداد اسی عالم میں ہلاک ہو گیا وہ اپنی بنائی ہوئی جنت میں داخل نہیں ہوا۔

شداد کی دعا

روایت ہے کہ:

’’شداد نے اللہ سے دعا مانگی: اے میرے اللہ! آپ کو معلوم ہے کہ میں خدا نہیں ہوں، پاکی اور بڑائی آپ ہی کو زیب دیتی ہے لیکن میں خدائی کا دعویٰ کر چکا ہوں۔ یا اللہ! آپ نے جہاں اتنا زیادہ نوازا ہے میری یہ التجا بھی قبول کر لے کہ موت میری مرضی کے مطابق آئے۔ اس نے کہا کہ جب موت آئے تو میں کھڑا ہوں، نہ بیٹھا ہوں، سوتا ہوں نہ جاگتا ہوں، چھت کے نیچے نہ ہوں، سواری پر ہوں نہ زمین پر۔‘‘

غرض کہ شداد نے دعا میں ہر وہ بات شامل کر دی جو اس کے خیال میں اسے موت سے نجات دلا سکتی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی دعا قبول کر لی، جب وہ جنت دیکھنے کے لئے آیا تو گھوڑا کھڑا ہو گیا جب کوئی ترکیب اس کو جنت کے اندر لے جانے کی نہیں رہی تو جنت کے منتظمین کے مشورہ پر شداد کو گھوڑے سے اتار لیا گیا اس حالت میں کہ اس کا ایک پیر رکاب میں تھا اور ایک پیر غلام کے ہاتھ پر ملک الموت نے اس کی جان نکال لی، اس کام سے فارغ ہونے کے بعد حضرت عزرائیلؑ نے اللہ کے حضور عاجزی کی:

’’اے بادشاہوں کے بادشاہ اللہ! اگر شداد کو اتنی مہلت دے دیتے کہ وہ اپنی بنائی ہوئی جنت کو دیکھ لیتا تو آپ کی خدائی میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔‘‘

اللہ نے عزرائیلؑ سے پوچھا:

’’تم جانتے ہو کہ یہ شخص کون ہے؟ زمین کی طرف دیکھو۔‘‘

عزرائیل نے دیکھا کہ سمندر میں بحری جہاز پر قزاق قتل و غارت گری کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس وقت حضرت عزرائیلؑ سے فرمایا کہ:

’’اس شیر خوار بچہ کو تختہ پر لٹا کر سمندر میں چھوڑ دے۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

’’یہی وہ بچہ ہے جس نے خدائی کا دعویٰ کیا اور جنت بنائی۔ ہم نے اس کی حفاظت کی، اسے وسائل عطا کئے، بادشاہ بنایا اور اس نے حمد و سپاس اور شکر کرنے کے بجائے خدائی کا دعویٰ کیا۔‘‘


Topics


Mohammad Rasool Allah (3)

خواجہ شمس الدین عظیمی

قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے اس میں کوئی سورہ، کوئی آیت اور کوئی نقطہ مفہوم و معانی سے خالی نہیں ہے۔ اﷲ کے علوم لامتناہی ہیں۔ اﷲ کا منشاء یہ ہے کہ ہم لوگوں کو آگے بڑھتا دیکھ کر خود بھی قدم بڑھائیں اور اﷲ کی نعمتوں کے معمور خزانوں سے فائدہ اٹھائیں۔ قرآن پاک میں انبیاء سے متعلق جتنے واقعات بیان ہوئے ہیں ان میں ہمارے لئے اور تمام نوع انسانی کیلئے ہدایت اور روشنی ہے۔ کتاب محمد رسول اﷲ۔ جلد سوئم میں عظیمی صاحب نے مختلف انبیاء کرام کے واقعات میں روحانی نقطۂ نظر سے اﷲ تعالیٰ کی حکمت بیان فرمائی ہے۔