Topics
قرآن کریم میں مذکور حضرت نوحؑ کا قصہ ہمیں تفکر کی دعوت دیتا ہے کہ:
* اللہ قادر مطلق ہے وہ جسے چاہے عزت و شرف سے نواز دے اور جسے چاہے ذلیل و خوار کر دے۔
* اللہ عجز و انکساری اور اطاعت پسند فرماتا ہے جب کہ تکبر، غرور اور نافرمانی اللہ کے نزدیک ناپسندیدہ اعمال ہیں۔ ناپسندیدہ اعمال جب حد سے بڑھ جاتے ہیں تو قانون قدرت حرکت میں آ کر نافرمانوں کو نیست و نابود کر دیتا ہے۔
* ہر انسان اپنے عمل کا خود جواب دہ ہے اس لئے باپ کی بزرگی بیٹے کی نافرمانی کا مداوا اور علاج نہیں بن سکتی اور نہ بیٹے کی سعادت باپ کی سرکشی کا بدل ہو سکتی ہے۔
* اللہ پر بھروسہ اور توکل کا مطلب یہ نہیں کہ عمل کی راہیں ترک کر دی جائیں، توکل کی صحیح تعریف یہ ہے کہ عملی جدوجہد میں کوتاہی نہ کی جائے اور مقدور بھر کوششوں کے بعد نتیجہ اللہ پر چھوڑ دیا جائے۔ طوفان سے بچاؤ کے لئے کشتی کی تیاری عملی جدوجہد کی حقیقی مثال ہے۔
* کفران نعمت اور ناشکری اتنی بڑی جہالت ہے کہ اس کے نتیجے میں اسرار الٰہی ہمیشہ پردے میں رہتے ہیں اور ناشکری قوم گمراہ ہو کر حق و معرفت کی راہوں کو چھوڑ دیتی ہے ، کبر اور سرکشی اسے تباہی کے دہانے پر لے آتی ہے اور وہ درد ناک عذاب سے دو چار ہو کر عبرت کا نمونہ بن جاتی ہے۔
* نظام کائنات کا ایک جز پانی ہے ہر قسم کی زندگی کو قائم رکھنے میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے، پانی جس طرح اپنے اندر حیات کی صفات رکھتا ہے اسی طرح ہلاکت و بربادی کی صلاحیت رکھتا ہے۔
اس وقت نوع انسانی نے دین فطرت سے منہ موڑ کر صرف مادی وسائل سے رشتہ جوڑ لیا ہے، حالت یہ ہے کہ اس طرز عمل سے دنیا ایک بار پھر تباہی کے دھانے پر پہنچ گئی ہے۔
نوع انسانی نے اگر سوچ بچار سے کام نہ لیا، قوم نوح کی طرح سرکشی جاری رکھی اور افعال و کردار سے توحیدی راستہ اختیار نہ کیا تو وہ دن دور نہیں جب سمندر کی حد بندی ٹوٹ جائے گی، زمین میں سے چشمے ابل پڑیں گے، آسمانوں سے پانی برستا رہے گا، زمین زیر آب آ جائے گی اور بلند و بالا پہاڑ پانی میں ڈوب جائیں گے، عمارات، محلات اور زمین پر موجود رونقیں ختم ہو جائیں گی۔
’’کیا ان لوگوں نے آسمان و زمین کے نظام پر کبھی غور نہیں کیا؟ اور کسی چیز کو بھی جو خدا نے پیدا کی ہے آنکھیں کھول کر نہیں دیکھا؟ اور کیا یہ بھی انہوں نے نہیں سوچا کہ شاید ان کو زندہ رہنے کی جو مہلت دی گئی ہے اس کے پورے ہونے کا وقت قریب آ گیا ہے۔‘‘
(سورۃ اعراف۔ ۱۸۵)
سمندر میں مدوجزر سورج اور چاند کی کشش سے پیدا ہوتے ہیں۔ بلیک ہولز (Black Holes) اتنی زیادہ کشش رکھتے ہیں کہ وہ روشنی کو بھی اپنے اندر جذب کر لیتے ہیں۔ خیال ہے کہ اگر کوئی بلیک ہول ہماری زمین کے نزدیک سے گزرے تو اپنی انتہائی کشش کی وجہ سے زمین میں موجود لاوا(Megma) میں ایک کشش پیدا کر ے گا جس کی وجہ سے زمین کے بلیک ہولز کے سامنے والے حصے میں ابھار پیدا ہو گا اور ایک کڑے کی شکل میں جو حصے سمندر میں ہیں وہاں خشکی ظاہر ہو جائے گی اور کڑے کے آس پاس کے حصوں کی زمین اندر کو دھنس جائے گی اور خشکی کی جگہ سمندر آ جائے گا اور سمندر میں مدوجزر کی کیفیت ایسی ہو گی جیسے پانی کے پہاڑ اِدھر سے اُدھر ہو رہے ہوں، زمین پر سیلاب کی وجہ سے شدید تباہی آ جائے گی، آبادی غرق آب ہو جائے گی، دیو ہیکل مشینوں کا نام و نشان تک نہیں رہے گا۔
اٹلی کے ساحل کے نزدیک بحیرہ روم کے خطے Atlantaمیں ڈوبے ہوئے ایک براعظم کے آثار ملے ہیں یہاں کے لوگ صنعت و حرفت میں بہت زیادہ ترقی یافتہ تھے۔
ہندوؤں کی کہانیوں میں بھی ایسے تذکرے ملتے ہیں کہ کسی زمانے میں وہاں کے لوگ بہت ترقی یافتہ تھے، اسلحہ سازی کی صنعت میں انہیں کمال درجہ عروج حاصل تھا وہ لوگ جنگوں میں ہوائی جہاز، راکٹ لانچر اور ایٹم بم استعمال کرتے تھے، ان کے پاس ایسے ہتھیار تھے کہ بم زمین پر پٹھنے کے بجائے خلاء میں قائم ہو کر گھومتے تھے اور ان میں سے آگ نکلتی تھی جب یہ آگ زمین پر گرتی تھی تو زمین کے ذرات پگھل جاتے تھے اور زمین تانبہ(Copper) کی طرح بن جاتی تھی۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے اس میں کوئی سورہ، کوئی آیت اور کوئی نقطہ مفہوم و معانی سے خالی نہیں ہے۔ اﷲ کے علوم لامتناہی ہیں۔ اﷲ کا منشاء یہ ہے کہ ہم لوگوں کو آگے بڑھتا دیکھ کر خود بھی قدم بڑھائیں اور اﷲ کی نعمتوں کے معمور خزانوں سے فائدہ اٹھائیں۔ قرآن پاک میں انبیاء سے متعلق جتنے واقعات بیان ہوئے ہیں ان میں ہمارے لئے اور تمام نوع انسانی کیلئے ہدایت اور روشنی ہے۔ کتاب محمد رسول اﷲ۔ جلد سوئم میں عظیمی صاحب نے مختلف انبیاء کرام کے واقعات میں روحانی نقطۂ نظر سے اﷲ تعالیٰ کی حکمت بیان فرمائی ہے۔