Topics
قرآن پاک میں ہے:
اعلیٰ اور اسفل حواس یعنی زندگی کے تمام اعمال کا ریکارڈ ہیں اس کا مفہوم یہ ہے کہ ازل تا ابد پورا کائناتی نظام اللہ کی بنائی ہوئی فلم ہے، ازل میں موجود یہ ریکارڈ(Film) ہے جو عالم ارواح، عالم برزخ اور عالم ناسوت میں مظاہر بن رہا ہے، ہر عالم ایک اسکرین کی طرح ہے۔ اسکرین پر فلم کا مظاہرہ ہوتا ہے تو دنیا کی ہما ہمی اور گہما گہمی ہمیں نظر آتی ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے پرندوں کے ساتھ شکست و ریخت کا جو عمل کیا اس سے پرندوں کا جسمانی نظام بکھر گیا لیکن پرندوں کی زندگی کا اول و آخر ریکارڈ موجود رہا، جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے پرندوں کے الگ الگ اعضاء کو اکٹھا ہونے کا حکم دیا تو ریکارڈ شدہ نظام بحال ہو گیا اور پرندے زندہ ہو گئے۔ مرنے کے بعد جی اٹھنے کا تکوینی قانون بھی یہی ہے کہ اللہ کے حکم سے درہم برہم سسٹم ’’ریکارڈ‘‘ کے مطابق بحال ہو جائے گا۔ یہ جو کچھ ہم نے عالم ناسوت میں کیا ہے وہ سب ریکارڈ ہے جب اللہ تعالیٰ چاہے گا یہ ریکارڈ (فلم) دوبارہ ڈسپلے ہو جائے گا تو ہاتھ ، پیر، آنکھ خود گواہی دیں گے کہ ہم نے اچھے یا برے اعمال کئے ہیں۔
٭٭٭٭٭
خواجہ شمس الدین عظیمی
قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے اس میں کوئی سورہ، کوئی آیت اور کوئی نقطہ مفہوم و معانی سے خالی نہیں ہے۔ اﷲ کے علوم لامتناہی ہیں۔ اﷲ کا منشاء یہ ہے کہ ہم لوگوں کو آگے بڑھتا دیکھ کر خود بھی قدم بڑھائیں اور اﷲ کی نعمتوں کے معمور خزانوں سے فائدہ اٹھائیں۔ قرآن پاک میں انبیاء سے متعلق جتنے واقعات بیان ہوئے ہیں ان میں ہمارے لئے اور تمام نوع انسانی کیلئے ہدایت اور روشنی ہے۔ کتاب محمد رسول اﷲ۔ جلد سوئم میں عظیمی صاحب نے مختلف انبیاء کرام کے واقعات میں روحانی نقطۂ نظر سے اﷲ تعالیٰ کی حکمت بیان فرمائی ہے۔