Topics
حضرت یحییٰ نے بنی اسرائیل کو بیت المقدس میں جمع کیا۔ جب مسجد بھر گئی تو وعظ فرمایا، لوگو!اللہ تعالیٰ نے مجھے پانچ باتوں کا حکم دیا ہے کہ میں خود بھی ان پر عمل کروں اور تم کو بھی عمل کی تلقین کروں۔ وہ پانچ احکام یہ ہیں:
۱۔ پہلا حکم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی پرستش نہ کرو اور کسی کو اس کا شریک نہ بناؤ۔ کیونکہ مشرک کی مثال اس غلام جیسی ہے جس کو اس کے مالک نے اپنے روپیہ سے خریدا مگر غلام نے یہ وطیرہ بنا لیا کہ جو کچھ کماتا وہ مالک کے بجائے دوسرے شخص کو دے دیتا ہے۔ کیا کوئی شخص یہ پسند کرے گا کہ اس کا غلام ایسا ہو؟ جب اللہ نے تم کو پیدا کیا ہے تو وہی تم کو رزق دیتا ہے تم بھی صرف اس کی عبادت کرو اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ۔
۲۔ دوسرا حکم یہ ہے کہ تم خشوع و خضوع اور یکسوئی کے ساتھ نماز قائم کرو۔ کیونکہ جب تم نماز میں کسی دوسری جانب متوجہ نہ ہو گے تو اللہ تعالیٰ تمہاری جانب متوجہ رہے گا۔
۳۔ تیسرا حکم یہ ہے کہ روزہ رکھو۔ کیونکہ روزہ دار کی مثال اس شخص جیسی ہے جو ایک جماعت میں بیٹھا ہو اور اس کے پاس مشک کی تھیلی ہو۔ چنانچہ مشک اس کو اور اس کے رفقاء کو اپنی خوشبو سے مست کرتا رہے۔
۴۔ چوتھا حکم یہ ہے کہ مال میں سے صدقہ نکالا کرو کیونکہ صدقہ کرنے والے کی مثال اس شخص کی سی ہے جس کو اس کے دشمنوں نے اچانک آ پکڑا ہو اور اس کے ہاتھوں کو گردن سے باندھ کر مقتل کی طرف لے چلے ہوں اور اس ناامیدی کی حالت میں وہ یہ کہے کیا یہ ممکن ہے کہ میں مال دے کر اپنی جان چھڑا لوں؟ اور اثبات میں جواب پا کر اپنی جان کے بدلے سب دھن دولت قربان کر دے۔
۵۔ اور پانچواں حکم یہ ہے کہ دن رات میں کثرت سے اللہ کا ذکر کرتے رہا کرو کیونکہ ایسے شخص کی مثال اس شخص کی سی ہے جو دشمن سے بھاگ رہا ہو اور دشمن تیزی کے ساتھ اس کا تعاقب کر رہا ہو اور بھاگ کر وہ کسی مضبوط قلعہ میں پناہ گزین ہو کر دشمن سے محفوظ ہو جائے۔ بلا شبہ انسان کے ازلی دشمن شیطان کے مقابلہ میں اللہ کے ذکر میں مشغول ہو جانا مستحکم قلعہ میں محفوظ ہو جانا ہے۔
حضرت یحییٰ علیہ السلام کی زندگی کا بڑا حصہ صحرا میں بسر ہوا وہ جنگلوں میں گوشہ نشین رہتے تھے جنگل میں ہی اللہ کا کلام ان پر نازل ہوا اور دریائے یردن کے نواح میں دین الٰہی کی تبلیغ شروع کر دی اور لوگوں کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ظہور کی بشارت دینے لگے۔
’’اس وقت خدا کا کلام بیابان میں زکریا کے بیٹے (یوحنا) یحییٰ پر اترا اور وہ یردن کے سارے گرد و نواح میں جا کر گناہوں کی معافی کے لئے توبہ کے بپتسمہ کی منادی کرنے لگا۔‘‘
(لوقا کی انجیل۔ جلد ۲۔ ص ۵۲)
گریہ و زاری
حضرت یحییٰ علیہ السلام پر اللہ تعالیٰ کی خشیت اس درجہ تھی کہ وہ اکثر روتے رہتے تھے، زیادہ رونے کی وجہ سے ان کے رخساروں پر آنسوؤں کے نشان بن گئے تھے۔ ایک مرتبہ حضرت زکریاعلیہ السلام آپ کو تلاش کرتے ہوئے جنگل میں پہنچ گئے۔ بیٹے سے کہا!
’’بیٹا! ہم تیری یاد میں مضطرب ہو کر تجھے تلاش کر رہے ہیں اور تو یہاں آ ہ و گریہ میں مشغول ہے۔‘‘
حضرت یحییٰ علیہ السلام نے جواب دیا:
’’ابا جان! آپ نے مجھے بتایا تھا کہ جنت اور جہنم کے درمیان ایک ایسا لق و دق میدان ہے جو اللہ کی خشیت میں آنسو بہائے بغیر طے نہیں ہوتا اور جنت تک رسائی نہیں ہوتی۔‘‘
دمشق کے بادشاہ ہدادبن حدار نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی تھیں۔ کچھ عرصہ بعد اس نے چاہا کہ رجوع کر لے حضرت یحییٰ علیہ السلام سے فتویٰ طلب کیا گیا تو آپ نے فرمایا:
’’اب یہ تجھ پر حرام ہے۔‘‘
ملکہ کو یہ بات سخت ناگوار گزری اور حضرت یحییٰ علیہ السلام کے قتل کے درپے ہو گئی۔ حضرت یحییٰ علیہ السلام جب مسجد حبرون میں نماز میں مشغول تھے تو ان کو قتل کروا دیا گیا اور چینی کے طشت میں ان کا سر مبارک عورت کے سامنے لایا گیا۔ مگر سر اس حالت میں بھی یہی کہتا رہا کہ تو بادشاہ کے لئے حلال نہیں ہے۔
اسی حالت میں اللہ کا عذاب آیا اور اس عورت کو زمین نے نگل لیا۔
ایک روایت کے مطابق حضرت یحییٰ علیہ السلام کا خون فوارے کی طرح جسم مبارک سے برابر نکلتا رہا یہاں تک کہ بخت نصر نے دمشق کو فتح کر کے اس پر ستر ہزار اسرائیلیوں کا خون نہ بہا دیا۔
’’جو لوگ انکار کرتے ہیں اللہ کے حکموں کا اور ناحق پیغمبروں کو قتل کرتے ہیں اور جو لوگ ان کو انصاف کرنے کا حکم دیتے ہیں تو ان کو درد ناک عذاب کی وعید دے دو۔‘‘
(آل عمران۔ ۲۱)
٭٭٭٭٭
خواجہ شمس الدین عظیمی
قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے اس میں کوئی سورہ، کوئی آیت اور کوئی نقطہ مفہوم و معانی سے خالی نہیں ہے۔ اﷲ کے علوم لامتناہی ہیں۔ اﷲ کا منشاء یہ ہے کہ ہم لوگوں کو آگے بڑھتا دیکھ کر خود بھی قدم بڑھائیں اور اﷲ کی نعمتوں کے معمور خزانوں سے فائدہ اٹھائیں۔ قرآن پاک میں انبیاء سے متعلق جتنے واقعات بیان ہوئے ہیں ان میں ہمارے لئے اور تمام نوع انسانی کیلئے ہدایت اور روشنی ہے۔ کتاب محمد رسول اﷲ۔ جلد سوئم میں عظیمی صاحب نے مختلف انبیاء کرام کے واقعات میں روحانی نقطۂ نظر سے اﷲ تعالیٰ کی حکمت بیان فرمائی ہے۔