Topics
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت کے وقت بہت سے ایسے واقعات رونما ہوئے جن سے لوگوں نے ان کی آمد کی خوشخبری سنی۔
جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت ہوئی تو اس شب پارس کے بادشاہ نے آسمان پر ایک نیا ستارہ روشن دیکھا، بادشاہ نے درباری نجومیوں سے اس کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے بتایا کہ اس ستارے کا طلوع کسی عظیم الشان ہستی کی پیدائش کی خبر دیتا ہے، جو ملک شام میں پیدا ہوئی ہے۔ بادشاہ نے خوشبوؤں کے عمدہ تحائف دے کر ایک وفد ملک شام روانہ کیا تا کہ وہ اس بچے کی ولادت سے متعلق حالات و واقعات معلوم کرے۔ وفد نے شام پہنچ کر تفتیش شروع کی، یہودیوں سے کہا ہم کو اس بچے کی ولادت کا حال سناؤ جو مستقبل قریب میں روحانیت کا بادشاہ ہو گا۔ یہود نے اہل فارس کی زبان سے یہ کلمات سنے تو اپنے بادشاہ ہیرو دیس کو خبر کی۔ بادشاہ نے وفد کو اپنے دربار میں بلایا اور آنے کا مقصد پوچھا ان کی زبانی واقعہ سن کر بادشاہ بہت گھبرایا اور پھر انہیں اجازت دے دی کہ وہ اس بچے کے متعلق مزید معلومات حاصل کر لیں۔ پارسیوں کا وفد بیت المقدس پہنچا جب حضرت یسوع علیہ السلام کو دیکھا تو اپنے رسم و رواج کے مطابق ان کو سجدہ تعظیم کیا پھر مختلف قسم کی خوشبوئیں ان پر نثار کیں، چند روز قیام کیا، قیام کے دوران وفد کے بعض افراد نے خواب میں دیکھا کہ ہیرودیس اس بچہ کا دشمن ثابت ہو گا۔ اس لئے اس کے پاس نہ جاؤ اور بیت الحم سے فارس چلے جاؤ۔صبح وفد فارس کا ارادہ کر کے وفد کے ارکان حضرت مریمؑ کے پاس آئے اور اپنا خواب سناتے ہوئے کہا:
’’معلوم ایسا ہوتا ہے کہ یہودیہ کے بادشاہ ہیرودیس کی نیت خراب ہے وہ اس مقدس بچے کا دشمن بن جائے گا بہتر یہی ہے کہ تم بادشاہ کی دسترس سے باہر چلی جاؤ۔‘‘
حضرت مریمؑ یسوع مسیح کو لے کر اپنے عزیزوں کے پاس مصر آ گئیں اور وہاں سے ناصرہ چلی گئیں۔ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام تیرہ سال کے ہوئے تو ان کو لے کر دوبارہ بیت المقدس واپس آ گئیں۔
بخاری شریف
بخاری کی حدیث معراج میں ہے کہ نبی اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’میری ملاقات حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے ہوئی تو میں نے ان کو میانہ قد، سرخ و سپید پایا، بدن اتنا صاف شفاف تھا کہ معلوم ہوتا تھا کہ ابھی حمام سے نہا کر آئے ہیں۔‘‘
حضرت مسیح کی بعثت سے پہلے بنی اسرائیل کے لوگ مشرکانہ رسم و عقائد کو جزومذہب بنا چکے تھے، جھوٹ، فریب، بغض و حسد جیسی بد اخلاقیوں کو عملاً اخلاق کریمانہ کی حیثیت دے رکھی تھی اس پر شرمسار ہونے کے بجائے ان پر فخر کرتے تھے، اپنی ہی قوم کے ہادیوں اور پیغمبروں کو قتل کرنے سے بھی گریز نہیں کیا، یہودیوں کے علماء نے عوام سے نذر اور بھینٹ حاصل کرنے کی خاطر حلال کو حرام اور حرام کو حلال کرنے کے لئے تورات میں تحریف کی۔
بغاوت
جب بغاوت و سرکشی انتہا کو پہنچ گئی تو اللہ تعالیٰ نے حضرت مریمؑ کی آغوش بھر دی۔
’’اور بے شک ہم نے موسیٰ کو کتاب تورات عطا کی اور اس کے بعد ہم پیغمبر بھیجتے رہے اور ہم نے عیسیٰ بن مریم کو واضح معجزے دے کر بھیجا اور ہم نے اس کی روح پاک کو (جبرائیل) کے ذریعے قوت و تائید عطا کی۔ کیا جب تمہارے پاس پیغمبر ایسے احکام لے کر آیا جن پر عمل کرنے کو تمہارا دل نہیں چاہتا تو تم نے غرور کو شیوہ (نہیں) بنا لیا؟ پس (پیغمبر کی) ایک جماعت کو جھٹلاتے ہو تو ایک جماعت کو قتل کر دیتے ہو اور کہتے ہو کہ ہمارے دل (قبول حق کیلئے) غلاف میں ہیں (یہ نہیں) بلکہ ان کے کفر کرنے پر خدانے ان کو ملعون کر دیا ہے۔ پس بہت تھوڑے سے ہیں جو ایمان لائے ہیں۔‘‘
(سورۃ بقرہ۔ ۸۷،۸۸)
’’اور میں تصدیق کرنے والا ہوں تورات کی جو میرے سامنے ہے اور (اسی لئے آیا ہوں) تا کہ تمہارے لئے بعض وہ چیزیں حلال کر دوں جو تم پر حرام کر دی گئیں تھیں اور میں تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی نشانی لے کر آیا ہوں، پس اللہ کا خوف کرو اور میری پیروی کرو بلاشبہ اللہ تعالیٰ میرا اور تمہارا پروردگار ہے پس اسی کی عبادت کرو، یہی سیدھی راہ ہے، پس جب عیسیٰ نے ان سے کفر محسوس کیا تو فرمایا اللہ کے لئے کون میرا مددگار ہے؟ تو شاگردوں نے جواب دیا ہم اللہ کے (دین کے) مددگار۔‘‘
(سورۃ آل عمران۔ ۵۰،۵۲)
مخلص اور وفادار حواریوں کی جماعت صادق الایمان اور راسخ الاعتقاد تھی۔ مگر سادہ لوح غرباء پر مشتمل تھی انہوں نے سادگی اور سادہ دلی کے ساتھ عرض کیا:
’’اللہ تعالیٰ ہر شئے پر قادر ہے۔ جس کا ثبوت آپ کی ذات اقدس ہے، اللہ تعالیٰ یہ بھی قدرت رکھتا ہے کہ ہمارے لئے غیب سے ایک دسترخوان نازل کر دے تا کہ ہم روزی کمانے کی فکر سے آزاد ہو جائیں اور اطمینان قلب کے ساتھ دین حق کی دعوت و تبلیغ میں مصروف رہیں۔‘‘
حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے انہیں نصیحت کی:
’’بے شک اللہ تعالیٰ ہر شئے پر قدرت رکھتا ہے اپنے آرام کے لئے اللہ تعالیٰ کو آزمانا صحیح نہیں ہے، یہ خیال دل سے نکال دو۔‘‘
حواریوں نے کہا:
’’اللہ تعالیٰ کو آزمانا ہمارا مقصد نہیں ہے ہم تو صرف یہ چاہتے ہیں کہ خوان کو اللہ تعالیٰ کا تحفہ سمجھ کر زندگی کا سہارا بنا لیں، اس طرح ہمارا اللہ پر یقین راسخ ہو جائے گا اور ہم تمہارے پیغام کی تصدیق کرنے والے ہو جائیں گے۔‘‘
حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ان کا بڑھتا ہوا اصرار دیکھ کر بارگاہ الٰہی میں دعا کی:
’’اے خدا! تو ان کے سوال کو پورا کر آسمان سے ایسا مائدہ (دسترخوان نعمت) نازل فرما کر وہ ہمارے لئے تیرے غضب کا مظہر ثابت نہ ہو بلکہ ہمارے اول و آخر سب کے لئے خوشی کی یادگار بن جائے اور تیرا ’’نشان‘‘ کہلائے اور اس کے ذریعے ہمیں غیبی رزق سے شادکام کر دے، ہے بے شک تو ہی رزق رساں ہے۔‘‘
خوان نعمت
اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی:
’’تمہاری دعا قبول ہے میں ’’خوان نعمت‘‘ ضرور اتاروں گا لیکن یہ واضح نشانی دیکھنے کے بعد اگر کسی نےخدا کے حکم کی خلاف ورزی کی تو پھر ان کو ایسا ہولناک عذاب دونگا جو کسی انسان کو نہیں دیا جائے گا۔‘‘
’’اور دیکھو جب ایسا ہوا تھا کہ حواریوں نے کہا تھا، اے عیسیٰ بن مریم! کیا تمہارا پروردگار ایسا کر سکتا ہے کہ آسمان سے ہم پر ایک خوان اتارے، عیسیٰ نے کہا خدا سے ڈرو اگر تم ایمان رکھتے ہو تو۔ انہوں نے کہا! ہم چاہتے ہیں کہ اس میں سے کھائیں اور ہمارے دل آرام پائیں اور ہم جان لیں کہ تو نے ہمیں سچ بتایا تھا اور اس پر ہم گواہ ہو جائیں۔ اس پر عیسیٰ بن مریم نے دعا کی، اے اللہ! اے ہمارے پروردگار! ہم پر آسمان سے ایک خوان بھیج دے کہ اس کا آنا ہمارے لئے اور ہمارے اگلے اور پچھلوں سب کے لئے عید قرار پائے جو تیری طرف سے ایک نشانی ہو، ہمیں روزی دے تو سب سے بہتر روزی دینے والا ہے، اللہ نے فرمایا! میں تمہارے لئے خوان بھیجوں گا لیکن جو شخص اس کے بعد بھی انکار کرے گا تو میں اسے عذاب دوں گا، ایسا عذاب کہ دنیا میں کسی آدمی کو ویسا عذاب نہیں دیا جائے گا۔‘‘
(سورۃ مائدہ۔ ۱۱۲، ۱۱۵)
اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دعا قبول فرمائی، لوگوں نے دیکھا کہ فرشتے آسمان سے خوان لے کر زمین پر اترے، حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے دو رکعت نماز شکرانہ ادا کی، پھر خوان کھولا تو اس میں تلی ہوئی مچھلیاں، تازہ پھل اور روٹیاں تھیں، خوان کھلتے ہی ایسی نفیس خوشبو مہکی کہ جس نے سب کو مست کر دیا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے لوگوں کو کھانے کی دعوت دی، لوگوں نے کہا آپ ابتدا کریں آپ نے فرمایا یہ میرے لئے نہیں ہے تمہاری طلب پر نازل ہوا ہے یہ سن کر سب پریشان ہو گئے کہ کھانا کھانے کا نہ جانے کیا نتیجہ نکلے۔ آپ نے یہ دیکھ کر ارشاد فرمایا کہ:
’’اچھا۔ فقراء، مساکین، معذوروں اور مریضوں کو بلاؤ یہ ان کا حق ہے۔‘‘
ہزاروں لوگوں نے پیٹ بھر کر کھانا کھایا مگر خوان میں کوئی کمی نہیں آئی۔
بتایا جاتا ہے کہ غریب نے کھانا کھایا تو وہ غنی ہو گیا، نابینا نے کھایا تو وہ بینا ہو گیا، مریض نے کھایا تو صحت مند ہو گیا۔ رات کے وقت کھانا واپس آسمان پر چلا گیا، جو لوگ خوان نعمت سے محروم ہو گئے تھے وہ افسوس کرنے لگے، کہنے لگے ہم بہشت کی نعمتوں سے محروم رہے۔ خدا کے حکم سے دوسرے دن پھر ’’خوان نعمت‘‘ لوگوں کے لئے آیا، کثیر تعداد میں لوگوں نے کھایا، جس کو جو ذائقہ پسند تھا وہ اسے محسوس ہوا، چالیس دن تک یہ سلسلہ برابر جاری رہا۔
براہ راست آسمان سے آنے والے کھانے کے لئے شرط تھی کہ اس کو صرف، فقیر، مسکین اور مریض کھائیں، دولت مند اور صحت مند افراد کے لئے ممانعت تھی، چند روز کے بعد اس حکم کی خلاف ورزی شروع ہو گئی تو یہ حکم آیا کہ سب لوگ اس کو کھائیں لیکن دوسرے دن کے لئے بچا کر نہ رکھیں۔ کچھ عرصہ بعد لوگوں نے اس حکم کو فراموش کر دیا اور خلاف ورزی شروع کر دی اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آسمان سے خوان آنا بند ہو گیا، سزا کے طور پر اللہ تعالیٰ نے خلاف ورزی کرنے والوں کی شکلیں خنزیر اور بندروں کی بنادیں۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام لوگوں کو اللہ کی آیات کے ذریعہ دین حق کی تعلیم دیتے رہے، اللہ اور اللہ کی وحدانیت پر ایمان، انبیاء و رسول کی تصدیق، آخرت پر ایمان، ملائکہ پر ایمان، قضاء و قدر پر ایمان، خدا کے رسولوں اور کتابوں پر ایمان، اخلاق حسنہ کو اپنانے اور برائیوں سے پرہیز، عبادت کرنے کی ترغیب، دنیا میں انہماک سے پرہیز اور اللہ کی مخلوق سے محبت کی تلقین کرتے رہے، مگر صدیوں سے بغاوت ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی لوگوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے حواریوں کی مخالفت کو اپنا شعار بنا لیا۔ دنیاوی جاہ و جلال کے لحاظ سے کمزور اور ناتواں لوگوں کا طبقہ اگر اخلاص و دیانت کے ساتھ حق کی آواز پر لبیک کہتا تو بنی اسرائیل کا سرکش اور مغرور حلقہ اللہ کے پیغمبر کی گستاخی کرتا، توہین، تذلیل و تکذیب کا مظاہرہ کرتا۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے شادی نہیں کی اور نہ رہنے کے لئے گھر بنایا، شہر شہر ، گاؤں گاؤں اللہ کا پیغام لوگوں کو سناتے اور دین حق کی دعوت دیتے رہے، رات ہوتی تو زمین پر سو جاتے، آپ کی ذات اور پاکیزہ طبیعت سے اللہ کی مخلوق روحانی تسکین اور جسمانی شفاء پاتی تھی۔ آپ جس جگہ سے گزرتے لوگوں کا ہجوم ہو جاتا اور آپ سے والہانہ عقیدت اور محبت کا اظہار کرتے۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کو مخالفین نے حسد کی نگاہ سے دیکھا، سرداروں، فقیہوں، دانشوروں نے پیغمبر خدا کے خلاف سازشیں شروع کر دیں، ان کو سجھائی نہیں دیتا تھا کہ کس طرح ان کو راستے سے ہٹائیں، بالآخر یہ طے پایا کہ بادشاہ وقت سے شکایت کر کے ان کو تختہ دار پر چڑھا دیا جائے۔
’’عالی جاہ! یہ شخص نہ صرف ہمارے لئے بلکہ حکومت کیلئے بھی خطرہ بنتا جا رہا ہے، اگر فوری طور پر اس کے خلاف کارروائی نہ کی گئی تو ہمارے آباؤ اجداد کا دین باقی نہیں رہے گا۔ اندیشہ ہے کہ آپ کا اقتدار بھی باقی نہیں رہے گا، اس شخص نے عجیب و غریب شعبدے دکھا کر عوام کو اپنا گرویدہ بنا لیا ہے، وہ عوام کو اپنے ساتھ ملا کر قیصر اورآپ کو شکست دے کربنی اسرائیل کا بادشاہ بننا چاہتا ہے، اس نے لوگوں کے شعور پر غلبہ حاصل کر لیا ہے ان کی عقل ختم کر دی ہے اور دین میں تحریف کر رہا ہے، اس فتنہ کا فوری تدارک نہ کیا گیا تو ملک ہاتھ سے نکل جائے گا۔‘‘
کافی بحث و مباحثہ کے بعد پلاطیس نے اجازت دے دی کہ وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو گرفتار کر کے شاہی دربار میں پیش کریں، سردار فقیہہ اور کاہن(مذہبی دانشور) یہ فرمان حاصل کر کے بہت خوش ہوئے اور ایک دوسرے کو مبارک باد دی۔ طے پایا کہ کسی خاص وقت کا انتظار کیا جائے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ایسے وقت میں گرفتار کیا جائے جب وہ تنہا ہوں تا کہ ہم عوام کے غیض و غضب سے محفوظ رہیں۔
سب ایمان لے آئیں گے
’’پس سرداروں، کاہنوں اور فقیہوں نے صدر عدالت کے لوگوں کو جمع کر کے کہا، یہ آدمی معجزے دکھاتا ہے اگر ہم اسے یونہی چھوڑ دیں تو سب اس پر ایمان لے آئیں گے اور رومی آ کر ہمارے ملک پر قبضہ کر لیں گے اور ان میں سے کائفا نام کے ایک شخص نے جو اس سال کاہنوں کا سردار تھا ان سے کہا، تم نہیں جانتے اور نہ سوچتے ہو کہ تمہارے لئے یہ بہتر ہے کہ ایک آدمی امت کے واسطے مرے نہ کہ ساری قوم ہلاک ہو۔‘‘
(انجیل یوحنا۔ باب ۱۱۔ آیت ۴۷، ۵۱)
دو دن بعد عیدالفطر تھی اور سردار، کاہن اور فقیہہ موقع کی تلاش میں تھے کہ عیسیٰ کو مکر و فریب کے کسی جال میں قید کر کے قتل کر دیں کیونکہ ان کے دلوں میں ڈر تھا کہ عیسیٰ کو پکڑنے سے بلوہ نہ ہو جائے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے جب یہود کے کفر و انکار اور ریشہ دوانیوں کو محسوس کیا تو ایک جگہ اپنے حواریوں کو جمع کیا اور ان سے فرمایا:
’’بنی اسرائیل کے سرداروں اور کاہنوں کی مخالفانہ سرگرمیاں تم سے چھپی ہوئی نہیں ہیں، اب کڑی آزمائش اور سخت امتحان کا وقت ہے، تم میں سے کون ہے جو اس سیلاب کے سامنے سینہ سپر ہو کر خدا کیلئے قربانی دے؟ حواریوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا یہ ارشاد سن کر صداقت اور ایمان کے ساتھ جواب دیا ہم ہیں اللہ کے مددگار، خدائے واحد کے پرستار آپ گواہ رہیں کہ ہم پوری طرح وفا شعار ہیں، بارگاہ الٰہی میں اپنی اس اطاعت پر استقامت کیلئے یوں دست بہ دعا ہیں، اے پروردگار! ہم تیری اتاری ہوئی کتاب پر ایمان لائے اور صدق دل کے ساتھ تیرے پیغمبر کے پیرو ہیں، خدایا! تو ہم کو صداقت و حقانیت کے فداکاروں کی فہرست میں لکھ لے۔‘‘
اپنے ساتھیوں کی طرف سے اطمینان حاصل کرنے کے بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام منتظر رہے کہ مخالفین کی سرگرمیاں کیا رخ اختیار کرتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کیا فیصلہ صادر کرتے ہیں۔
’’اور انہوں نے(یہود) خفیہ تدبیر کی اور اللہ نے خفیہ (یہودیوں کے)تدبیر کی اور اللہ سب سے بہتر خفیہ تدبیر کرنے والا ہے۔‘‘
(سورۃ آل عمران۔ ۵۴)
بالآخر وہ وقت آ گیا بنی اسرائیل کے سرداروں، کاہنوں اور فقیہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مکان میں بند کر کے محاصرہ کر لیا۔
اس نازک گھڑی میں اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بشارت دی۔
’’عیسیٰ! خوف نہ کر تیری مدت پوری کی جائے گی اور میں تجھ کو اپنی جانب اٹھا لوں گا اور ان کافروں سے ہر طرح تجھ کو پاک رکھوں گا اور تیرے پیروؤں کو ان کافروں پر ہمیشہ غالب رکھوں گا۔ (وہ وقت ذکر کے لائق ہے)جب اللہ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے کہا! اے عیسیٰ!
بلاشبہ میں تیری مدت پوری کروں گا اور تجھ کو اپنی جانب سے اٹھا لینے والا ہوں اور تجھ کو کافروں سے پاک رکھنے والا ہوں اور جو تیری پیروی کرینگے ان کو تیرے منکروں پر قیامت تک کیلئے غالب رکھنے والا ہوں۔ پھر میری جانب ہی لوٹنا ہے۔ پھر میں ان باتوں کا فیصلہ کروں گا جن کے بارے میں تم جھگڑ رہے ہو۔‘‘
(سورۃ آل عمران۔ ۵۵)
خواجہ شمس الدین عظیمی
قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے اس میں کوئی سورہ، کوئی آیت اور کوئی نقطہ مفہوم و معانی سے خالی نہیں ہے۔ اﷲ کے علوم لامتناہی ہیں۔ اﷲ کا منشاء یہ ہے کہ ہم لوگوں کو آگے بڑھتا دیکھ کر خود بھی قدم بڑھائیں اور اﷲ کی نعمتوں کے معمور خزانوں سے فائدہ اٹھائیں۔ قرآن پاک میں انبیاء سے متعلق جتنے واقعات بیان ہوئے ہیں ان میں ہمارے لئے اور تمام نوع انسانی کیلئے ہدایت اور روشنی ہے۔ کتاب محمد رسول اﷲ۔ جلد سوئم میں عظیمی صاحب نے مختلف انبیاء کرام کے واقعات میں روحانی نقطۂ نظر سے اﷲ تعالیٰ کی حکمت بیان فرمائی ہے۔