Topics
بخاری اور مسلم میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی وفات کا واقعہ اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ:
حضرت موسیٰ علیہ السلام کی وفات کا وقت قریب آیا تو موت کے فرشتے نے ان کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا (احب ربک) 263
اب اپنے رب کی طرف سے پیغام اجل کوقبول کر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس کے طمانچہ رسید کر دیا جس سے اس کی آنکھ پھوٹ گئی، اس نے اللہ تعالیٰ کے پاس جا کر کہا:
’’تیرا بندہ موت نہیں چاہتا اس نے میرے منہ پر طمانچہ مارا ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے اس کی آنکھیں صحیح کر دیں اور اسے حکم دیا کہ :
’’موسیٰ کے پاس واپس جاؤ اور اس سے کہو کہ بیل کی کمر پر اپنا ہاتھ رکھ دے جس قدر بال تمہارے ہاتھ کے نیچے آ جائیں گے ہم ہر بال کے عوض تمہاری عمر میں ایک سال کا اضافہ کر دیں گے۔‘‘
فرشتہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور اللہ کا پیغام سنایا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پوچھا:
’’اس کے بعد کیا انجام ہو گا۔‘‘
جواب ملا:
’’انجام موت ہی ہے۔‘‘
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا:
’’اگر زندگی کا انجام موت ہے تو آج ہی کیوں نہ آ جائے، اور دعا کی کہ اللہ ارض مقدس سے قریب کر دے۔‘‘
نبی کریمﷺ نے فرمایا:
’’اگر میں اس جگہ ہوتا تو تم کو حضرت موسیٰ کی قبر کا نشان دکھاتا کہ وہ سرخ ٹیلے (کثیب احمر) کے قریب دفن ہیں۔‘‘
انتقال کے وقت حضرت موسیٰ علیہ السلام کی عمر ایک سو بیس سال تھی۔ قرآن کریم اور احادیث نبوی میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مناقب و فضائل اور بنی اسرائیل کے واقعات سے ان کی جلالت و عظمت و بزرگی کا پتہ چلتا ہے۔ سورہ اعراف میں ہے۔
’’(اللہ تعالیٰ) نے کہا، اے موسیٰ! بے شک میں نے تمہیں لوگوں پربزرگی عطا کی، اور تم کو چن لیا اپنی رسالت دے کر اور ہم کلامی کا شرف بخش کر۔‘‘
(سورۃ اعراف۔ ۱۴۴)
’’اور کچھ رسول ہیں کہ جن کا ذکر ہم نے تم سے پہلے کر دیا ہے اور کچھ رسول ہیں جن کا ذکر ہم نے تم کو نہیں سنایا اور اللہ نے اس طرح موسیٰ سے کلام کیا، جیسا کہ واقعی طور پر کلام ہوتا ہے۔‘‘
(سورۃ النساء۔ ۱۶۴)
’’اور بلا شبہ ہم نے موسیٰ اور ہارون پر احسان کیا اور ان دونوں کو ان کی قوم کو بڑی مصیبت سے نجات دی، ان کی مدد کی کہ وہ (فرعون اور قوم فرعون) پر غالب رہے اور ہم نے ان دونوں کو راہ مستقیم کی ہدایت بخشی اور باقی رکھا ان کے متعلق پیچھے لوگوں میں کہ سلام ہو موسیٰ اور ہارون پر کہ بے شک ہم اس طرح بدلہ دیا کرتے ہیں نیکو کاروں کو بے شک وہ ہمارے مومن بندوں میں سے ہیں۔‘‘
(سورۃ الصٰفٰت: ۱۱۴۔۱۲۲)
’’اے ایمان والوں! تم ان لوگوں کی طرح نہ ہو جنہوں نے موسیٰ کو ایذا پہنچائی پاس اللہ نے ان کو اس بات سے بری کر دیا جس کو ان کی زبانیں کہہ رہی تھیں اور اللہ کے نزدیک وہ وجیہہ ہیں۔‘‘
(سورۃ احزاب۔ ۶۹)
خواجہ شمس الدین عظیمی
قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے اس میں کوئی سورہ، کوئی آیت اور کوئی نقطہ مفہوم و معانی سے خالی نہیں ہے۔ اﷲ کے علوم لامتناہی ہیں۔ اﷲ کا منشاء یہ ہے کہ ہم لوگوں کو آگے بڑھتا دیکھ کر خود بھی قدم بڑھائیں اور اﷲ کی نعمتوں کے معمور خزانوں سے فائدہ اٹھائیں۔ قرآن پاک میں انبیاء سے متعلق جتنے واقعات بیان ہوئے ہیں ان میں ہمارے لئے اور تمام نوع انسانی کیلئے ہدایت اور روشنی ہے۔ کتاب محمد رسول اﷲ۔ جلد سوئم میں عظیمی صاحب نے مختلف انبیاء کرام کے واقعات میں روحانی نقطۂ نظر سے اﷲ تعالیٰ کی حکمت بیان فرمائی ہے۔