Topics
حضرت یوسفؑ کنعان میں پلے بڑھے تھے۔ تہذیبی اور تمدنی ترقی مصر کے مقابلے میں کم تھی وہاں قبائلی اور نیم خانہ بدوشانہ طرز زندگی تھی جبکہ مصر معاشرت کے اعتبار سے جدید ملک تھا۔ عزیز مصر حضرت یوسفؑ کی شخصیت اور فہم و فراست سے بہت متاثر ہوا۔ کچھ ہی عرصے میں اپنی دولت و جاگیر کے نظم و نسق میں اس نے آپ کو شریک کر لیا۔
ترجمہ: اس طرح ہم نے یوسف کے لئے اس سرزمین پر قدم جمانے کی صورت نکالی اور اسے معاملہ فہمی کی تعلیم دینے کا انتظام کیا۔
(سورۃ یوسف۔۲۱)
حضرت یوسفؑ ذہین اور زیرک انسان تھے۔ آپ کی خوبصورتی بے مثال تھی۔ حسن اور خوبروئی کا کوئی پہلو ایسا نہ تھا جو ان کے اندر نہیں تھا۔ عزیز مصر کی بیوی ’’زلیخا‘‘ دل پر قابو نہ رکھ سکی اور حضرت یوسفؑ پر فریفتہ ہو گئی۔
’’خدا کی پناہ! میرے رب تو نے مجھے اچھی منزلت بخشی اور میں یہ کام کروں ایسے ظالم لوگ کبھی فلاح نہیں پاتے۔‘‘
(سورۃ یوسف۔۲۳)
حواس باختگی
عصمت و حیاء کے پیکر حضرت یوسفؑ نے ایک لمحہ کے لئے بھی زلیخا کی حوصلہ افزائی نہ کی، بلکہ اسے بے قراری کی حالت میں چھوڑ کر کمرے سے باہر جانے لگے، زلیخا نے انہیں روکنا چاہا۔ اس کھینچا تانی میں آپ کی قمیض پھٹ گئی۔ دروازہ کھلا تو عزیز مصر کی بیوی کا چچازاد بھائی سامنے کھڑا تھا۔ زلیخا نے مکر سے کام لیا اور حضرت یوسفؑ پر الزام لگایا کہ اس نے مجھے بے عزت کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہ شخص ذہین، فطین، ہوشیار اور معاملہ فہم تھا۔ اس نے کہا یوسفؑ کا پیراہن دیکھنا چاہئے اگر سامنے سے پھٹا ہوا ہے تو زلیخا سچ بولتی ہے اگر پیچھے سے چاک ہے تو یوسفؑ بے گناہ ہیں۔ محل میں موجود لوگوں نے دیکھا کہ پیراہن پیچھے سے چاک تھا۔ عزیز مصر کو اس بات کا علم ہوا تو اس نے معاملہ رفع دفع کر دیا۔ لیکن کسی نہ کسی طرح یہ بات پورے خاندان میں پھیل گئی۔ اُمراء و روساء کی بیگمات نے زلیخا کو طعن و تشنیع کی اور اس سے کہا تو کیسی عورت ہے کہ عزیز مصر کی بیوی ہو کر ایک ملازم پر عاشق ہو گئی۔ زلیخا نے ایک دعوت کا اہتمام کیا۔ تواضع کے لئے پھل رکھے گئے۔ مہمانوں نے چھری سے پھل کاٹنے چاہے تو عین اسی وقت حضرت یوسفؑ کو قریب سے گزارا گیا۔ حسن و جمال کے مجسمہ اور مردانہ وجاہت کے پیکر حضرت یوسفؑ پر جب عورتوں کی نگاہ پڑی تو وہ حواس باختہ ہو گئیں اور انہوں نے پھلوں کے ساتھ اپنی انگلیاں کاٹ لیں۔
’’عزیز مصر کی بیوی نے کہا! یہ ہے وہ شخص، جس کے بارے میں تم مجھے برا کہتی تھیں۔ بے شک میں نے اسے اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش کی تھی مگر یہ بچ نکلا اگر اب بھی میرا کہنا نہیں مانے گا تو قید کر دیا جائے گا اور بہت ذلیل ہو گا۔‘‘
(سورۃ یوسف۔ ۳۲)
زلیخا کی طرف سے برائی کی ترغیب اور بات پوری نہ ہونے کی صورت میں قید کرا دینے کی دھمکی سن کر حضرت یوسفؑ نے اللہ رب العزت کو مدد کے لئے پکارا۔
’’اے میرے رب! قید مجھے منظور ہے بہ نسبت اس کے وہ کام کروں جو یہ لوگ مجھ سے چاہتے ہیں اور اگر تو نے ان کی چالوں کو مجھ سے دفع نہ کیا تو میں ان کے دام میں پھنس جاؤں گا اور جاہلوں میں شامل ہو جاؤں گا۔‘‘
(سورۃ یوسف۔۳۳)
پہلے صرف زلیخا ہی آپ پر عاشق تھی۔ اس واقعہ کے بعد طبقہ روساء کی اکثر عورتیں آپ کے حسن و دلکشی پر فریفتہ ہو گئیں۔ حضرت یوسفؑ راست روی اور عفت و عصمت قائم رکھنے کے لئے کڑے امتحان سے گزر رہے تھے۔ بالآخر طرح طرح کے الزامات لگا کر آپ کو پابند سلاسل کرا دیا گیا (اس وقت حضرت یوسفؑ کی عمر بیس یا اکیس برس تھی)۔ حضرت یوسفؑ کی نیکو کاری اور پاکیزہ سیرت کے چرچے پہلے ہی جیل خانہ میں پہنچ چکے تھے۔ آپ کے اخلاق، پرہیز گاری اور نیک اعمال کے سبب قیدی اور حکام آپ کا احترام کرتے تھے۔
حضرت یوسفؑ سات برس جیل میں رہے۔ قید کے دوران آپ قیدیوں کو وحدانیت کی راہ اختیار کرنے کی دعوت دیتے تھے۔ نیک عمل کی تلقین اور برائیوں سے بچنے کی نصیحت کرتے تھے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے اس میں کوئی سورہ، کوئی آیت اور کوئی نقطہ مفہوم و معانی سے خالی نہیں ہے۔ اﷲ کے علوم لامتناہی ہیں۔ اﷲ کا منشاء یہ ہے کہ ہم لوگوں کو آگے بڑھتا دیکھ کر خود بھی قدم بڑھائیں اور اﷲ کی نعمتوں کے معمور خزانوں سے فائدہ اٹھائیں۔ قرآن پاک میں انبیاء سے متعلق جتنے واقعات بیان ہوئے ہیں ان میں ہمارے لئے اور تمام نوع انسانی کیلئے ہدایت اور روشنی ہے۔ کتاب محمد رسول اﷲ۔ جلد سوئم میں عظیمی صاحب نے مختلف انبیاء کرام کے واقعات میں روحانی نقطۂ نظر سے اﷲ تعالیٰ کی حکمت بیان فرمائی ہے۔