Topics

لوہے سے ایجادات کا ظہور

اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤدؑ کو لوہے کے استعمال پر قدرت عطا فرمائی تھی اور آپ لوہے کو ہاتھوں کے ذریعے ڈھالنے پر ملکہ رکھتے تھے۔ آثار قدیمہ سے پتہ چلتا ہے کہ لوہے کا باقاعدہ استعمال پہلے پہل ۱۰۰۰ ؁ ق م سے ۱۲۰۰ ؁ ق م میں ہوا اور یہ حضرت داؤدؑ کے دور کا زمانہ ہے۔

آپ کے زمانے میں لوہے کو پگھلانے اور اس سے چیزیں تیار کرنے کے طریقے دریافت ہو چکے تھے لیکن وہ اتنے پیچیدہ تھے کہ ان سے تیار کی جانے والی اشیاء بہت قیمتی تصور کی جاتی تھیں۔ حضرت داؤدؑ نے آہن سازی کے نئے طریقوں کو فروغ دیا جس کی بدولت لوہے کا استعمال عام ہو گیا اور اس تحقیق کی بدولت آپ کی قوم کو جنگوں میں بھی برتری حاصل ہونے لگی۔ کیونکہ اس زمانے میں جنگ کے دوران حفاظت کا سب سے موثر ذریعہ زرہیں اور خود تھے۔ آپ نے آہن سازی کی صنعت کو عروج پر پہنچا دیا۔

موسیقی، ساز اور آواز میں خوبصورت آہنگ ہے۔ نئے سُر اور ساز تخلیق کرنا اس وقت ہی ممکن ہے جبکہ موسیقار ساز و آواز کے قوانین سے واقف اور ان پر عبور بھی رکھتا ہو۔ حضرت داؤدؑ خوش الحان تھے اور آوازوں کے علم کے ماہر تھے۔ ان صلاحیتوں کی بناء پر آپ نے عبرانی موسیقی کو نئے زاویے دیئے اور اس کے اصول مدون کئے۔ ساتھ ہی آپ نے مصری اور بابلی مزامیر پر تجربات کئے اور نئے آلات موسیقی ایجاد کئے۔

حضرت داؤدؑ ذاتی اخراجات کیلئے رقم بیت المال سے نہیں لیتے تھے۔ بلکہ لوہے کی زرہیں بنا کر انہیں فروخت کرتے تھے۔

حضرت داؤدؑ کی فوج میں اور یاہ نامی ایک افسر تھا۔ اس کی بیوی نہایت حسین و جمیل عورت تھی۔ حضرت داؤدؑ نے اوریاء سے خواہش ظاہر کی کہ وہ اسے طلاق دیدے تا کہ آپ اس سے شادی کر لیں۔ اللہ تعالیٰ نے واقعاتی اور تمثلاتی کردار پیش کر کے آپ کو صحیح فیصلے کی ترغیب دی۔

’’پھر تمہیں کچھ خبر پہنچی ہے ان مقدمے والوں کی جو دیوار چڑھ کر اس کے بالا خانے میں گھس آئے تھے جب وہ داؤد کے پاس پہنچے تو وہ انہیں دیکھ کر خائف ہو گیا۔ انہوں نے کہا، ’ ڈریئے نہیں، ہم مقدمہ کے دو فریق ہیں جن میں سے ایک نے دوسرے پر زیادتی کی ہے، آپ ہمارے درمیان ٹھیک ٹھیک حق کے ساتھ فیصلہ کر دیجئے، بے انصافی نہ کیجئے اور ہمیں سیدھی راہ بتایئے۔ یہ میرا بھائی ہے اس کے پاس ننانوے دنبیاں ہیں اور میرے پاس صرف ایک دنبی ہے اس نے مجھ سے کہا کہ یہ ایک دنبی بھی میرے حوالے کر دے اور اس نے مجھے گفتگو میں دبا لیا۔‘ داؤد نے جواب دیا۔ ’اس شخص نے اپنی دنبیوں کے ساتھ تیری دنبی ملا لینے کا مطالبہ کر کے یقیناً تجھ پر ظلم کیا اور واقعی یہ ہے کہ مل جل کر ساتھ رہنے والے لوگ اکثر ایک دوسرے پر زیادتیاں کرتے رہتے ہیں۔ بس وہی لوگ اس سے بچے ہوئے ہیں جو ایمان رکھتے اور عمل صالح کرتے ہیں۔ اور ایسے لوگ کم ہی ہیں۔‘ (یہ بات کہتے کہتے) داؤد سمجھ گیا کہ یہ تو ہم نے دراصل اس کی آزمائش کی ہے چنانچہ اس نے اپنے رب سے معافی مانگی اور سجدے میں گر گیا اور رجوع کر لیا۔ تب ہم نے اس کا وہ قصور معاف کیا اور یقیناً ہمارے ہاں اس کے لئے تقرب کا مقام اور بہتر انجام ہے۔‘‘

(سورۃ ص: ۳۱۔۲۵)

حضرت داؤدؑ ذکر الٰہی میں مشغول تھے کہ اندر کی آنکھ نے دیکھا کہ بیت المقدس پر ملائکہ اتر رہے ہیں۔ بیت المقدس جالوت نے منہدم کرا دیا تھا اور اس کا نام و نشان مٹ چکا تھا۔ آپ نے رب کریم کے حضور استدعا کی کہ بیت المقدس کی تعمیر کو ان کی نیکیوں میں سے ایک نیکی بنا دے۔

حضرت داؤد علیہ السلام کے دور میں لوگوں نے سنیچر کے دن کا احترام ترک کر دیا تھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت کے مطابق بنی اسرائیل کو سنیچر کے احترام کی تاکید کی گئی تھی، انہیں حکم تھا کہ ہفتہ کا دن عبادت کے لئے مخصوص ہے اس روز شکار نہ کریں اور دنیاوی مشاغل ترک کر دیں۔ شہر ایلہ میں آباد اسرائیلیوں نے یہ طریقہ اختیار کیا کہ جمعہ کے دن دریا کے کنارے بہت سے گڑھے کھود دیتے تھے اور نالیاں بنا کر دریا کا پانی گڑھوں میں جمع کر دیتے تھے۔ پانی کے ساتھ مچھلیاں بھی گڑھوں میں پہنچ جاتی تھیں اور وہ اتوار کی صبح مچھلیاں پکڑ لیتے تھے۔ حضرت داؤدؑ نے انہیں اس عمل سے باز رہنے کی ہدایت کی لیکن بنی اسرائیل نے یہ وطیرہ ترک نہیں کیا۔ نافرمانی کی سزا کے طور پر ان کی شکلیں مسخ کر کے بندر بنا دیا گیا عقل و حواس تو قائم رہے لیکن قوت گویائی ختم ہو گئی۔ ان کے جسم سے بدبو کے بھپکے اٹھنے لگے اور تین روز تک روتے روتے مر گئے۔ ان کی تعداد تقریباً ستر ہزار بتائی جاتی ہے۔

’’اور جان چکے ہو کہ جنہوں نے تم میں زیادتی کی ہفتے کے دن میں، تو ہم نے کہا ہو جاؤ بندر پھٹکارے ہوئے۔‘‘

(سورۃ البقرہ۔ ۶۵)

شاہ ولی اللہؒ کی تشریح

حضرت شاہ ولی اللہؒ نے شکلیں مسخ ہونے کی تشریح اس طرح کی ہے کہ:

’’مچھلی فاسد المزاج اور بدبودار ہوتی ہے۔ اللہ کے حکم کے خلاف، نافرمانی کر کے جب بنی اسرائیل اس کو کھاتے رہے تو ان میں فساد مزاج سرائیت کر گیا اور ان کے جسم مثالی میں بگاڑ پیدا ہو گیا۔ (اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے منع کرنے کے بعد غذا حرام ہو گئی) حلال خوراک سے جو انرجی بنتی تھی اس میں تبدیلی آ گئی۔ یہ تبدیلی بڑھتے بڑھتے جب تکمیل کو پہنچ گئی تو ان کے جسموں پر بندروں کی طرح بال نکل آئے وہ بندر بن گئے اور ان پر ذلت و رسوائی مسلط ہو گئی۔


Topics


Mohammad Rasool Allah (3)

خواجہ شمس الدین عظیمی

قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے اس میں کوئی سورہ، کوئی آیت اور کوئی نقطہ مفہوم و معانی سے خالی نہیں ہے۔ اﷲ کے علوم لامتناہی ہیں۔ اﷲ کا منشاء یہ ہے کہ ہم لوگوں کو آگے بڑھتا دیکھ کر خود بھی قدم بڑھائیں اور اﷲ کی نعمتوں کے معمور خزانوں سے فائدہ اٹھائیں۔ قرآن پاک میں انبیاء سے متعلق جتنے واقعات بیان ہوئے ہیں ان میں ہمارے لئے اور تمام نوع انسانی کیلئے ہدایت اور روشنی ہے۔ کتاب محمد رسول اﷲ۔ جلد سوئم میں عظیمی صاحب نے مختلف انبیاء کرام کے واقعات میں روحانی نقطۂ نظر سے اﷲ تعالیٰ کی حکمت بیان فرمائی ہے۔