Topics

قحط سالی سے بچنے کی منصوبہ بندی

خواب کی تعبیر معلوم ہونے کے بعد بادشاہ نے دربار میں موجود معاشیات کے ماہرین کو اس مصیبت سے محفوظ رہنے کی ہدایت کی۔ یہ خواب جس طرح انوکھا تھا اسی طرح تعبیر بھی عجیب تھی اور سارے دربار میں ایک بھی شخص ایسا نہ تھا جو اس کام سے عہدہ برآ ہو سکتا۔ تب حضرت یوسفؑ نے اس قحط سالی سے بچنے کی تدابیر بتائیں۔ بادشاہ ان کے علم و حکمت اور بزرگی کا پہلے ہی معترف ہو چکا تھا اب اس کے دل میں حضرت یوسفؑ کی عظمت مزید گھر کر گئی۔ اس نے نہ صرف ان تدابیر کو قبول کیا بلکہ حضرت یوسفؑ کو ان پر عمل کرانے کا اختیار بھی دے دیا اور کہا:

’’تو میرا نائب ہے۔ آج سے تیرا حکم میری رعایا پر چلے گا۔‘‘

اور اس نے فیصلہ کیا کہ جو تجاویز حضرت یوسفؑ نے قحط سالی کے لئے دی ہیں وہ خود ہی ان پر عمل درآمد کروائیں۔ اس سلسلے میں بادشاہ نے شاہی کونسل سے بھی منظوری لے لی۔ بادشاہ نے حضرت یوسفؑ سے نہایت عزت و احترام سے کہا کہ آپ اس مسئلہ سے نمٹنے کے لئے پیش بندی کریں۔ حضرت یوسفؑ نےعمل درآمد کیلئے بادشاہ سے مملکت کے کلی اختیارات مانگ لئے۔

’’یوسف نے کہا ملک کے خزانے میرے سپرد کر دیجئے۔ میں حفاظت کرنے والا ہوں اور علم بھی رکھتا ہوں۔‘‘

(سورۃ یوسف: ۵۵)

بادشاہ نے آپ کو ملک کے سیاہ و سفید کا مالک بنا دیا۔

توریت میں ہے:

’’تو میرے گھر کا مختار ہو گا اور ساری رعایا پر تیرا حکم چلے گا۔ فقط تخت کا مالک ہونے کے سبب میں بزرگ تر ہوں گا۔ دیکھ میں تجھے سارے ملک مصر کا حاکم بناتا ہوں اور تیرے حکم کے بغیر کوئی آدمی اس سارے ملک مصر میں اپنا ہاتھ پاؤں نہ ہلا پائیگا۔‘‘

حضرت یوسفؑ نے مملکت کی باگ ڈور سنبھال لی اور قحط سالی سے بچنے کے لئے انتظامات شروع کر دیئے۔

پہلے مرحلے میں آپ نے زیادہ سے زیادہ غلہ اگانے کی منصوبہ بندی کی۔ ایسے اقدامات کئے کہ وہ زمینیں جو قابل کاشت نہیں تھیں، انہیں بھی کاشت کے قابل بنا دیا گیا۔ اس طرح ضرورت سے زیادہ فصلیں تیار ہو گئیں۔ آپ نے حکومتی خزانوں سے فصلیں خرید لیں اور قحط سالی کے سات برسوں کے لئے غلے کا ذخیرہ کر لیا۔ اگلا مرحلہ خوراک کے اس عظم الشان ذخیرے کو اس طرح محفوظ کرنے کا تھا کہ وہ سات سال تک قابل استعمال رہے۔ اس سلسلے میں آپ نے غلہ کو جمع کرنے کے لئے مخروطی شکل کے اہرام ڈیزائن کئے۔ ہزاروں سال قبل تعمیر کئے جانے والے یہ اہرام آج بھی معمہ بنے ہوئے ہیں۔ یہ حضرت یوسفؑ کے علم نبوت کا اعجاز تھا کہ آپ نے مصر کے اس قدیم معاشرے میں ایسی جدید سائنسی عمارت کی بنیاد رکھی جو ہزاروں سال سے قائم ہے۔

سات سال بارشیں خوب ہوئیں اور بہترین فصل حاصل ہوئی۔ پھر کھیتیاں سوکھنے لگیں۔ جوہڑوں اور تالابوں میں پانی خشک ہو گیا۔ لوگوں کے پاس جمع شدہ غذائی اجناس کی قلت ہو گئی۔ مصر کی ساری زمین خشک ہو گئی اور قرب و جوار میں شدید قحط پڑ گیا۔ لیکن صحیح منصوبہ بندی اور پلاننگ سے گورنمنٹ کے پاس وافر مقدار میں غلہ ذخیرہ ہو گیا۔

کنعان کے باشندے مصر آ کر سرکاری گوداموں سے غلہ لے کر گئے تو حضرت یعقوبؑ نے بھی اپنے بیٹوں کو مصر سے غلہ لانے کے لئے بھیجا۔

تقسیم اجناس

حضرت یوسفؑ ان گوداموں کی دیکھ بھال کرتے تھے اور وقتاً فوقتاً تقسیم اجناس کا جائزہ لیتے رہتے تھے۔ ایک روز وہ دورے پر تھے کہ انہوں نے دیکھا ایک جیسے لباس اور ایک جیسی شکل و صورت کے ’’کنعانی‘‘ لوگ قطار میں کھڑے ہیں۔ حضرت یوسفؑ نے پوچھا کہ تم کون ہو اور کہاں سے آئے ہو؟ کنعانیوں نے بتایا کہ ہم ایک باپ کی اولاد ہیں اور بھائی بھائی ہیں اور غلہ لینے کے لئے کنعان سے یہاں آئے ہیں۔ حضرت یوسفؑ نے پوچھا تمہارا کوئی اور بھی بھائی ہے؟ انہوں نے کہا، جی ہاں! ہمارا ایک بھائی اور ہے جو والدصاحب کی معذوری کی وجہ سے نہیں آیا۔ ہمارے والد صاحب آنکھوں سے نابینا ہیں۔ ہمارے ایک اور بھائی یوسف کو بچپن میں بھیڑیا اٹھا کر لے گیا تھا۔ والد صاحب کو اس سے بے انتہا محبت تھی وہ اس کے غم میں روتے روتے اندھے ہو گئے ہیں۔ حضرت یوسفؑ کو یہ سن کر صدمہ پہنچا کہ حضرت یعقوبؑ بینائی کھو چکے ہیں۔ انہیں اپنے چھوٹے بھائی کی فکر بھی لاحق ہوئی۔ آپ نے اپنے سوتیلے بھائیوں سے کہا۔ ’’تم لوگ کنعان سے آئے ہو ممکن ہے تمہیں یہاں کے قانون کا علم نہ ہو غلہ صرف انہی لوگوں کو دیا جاتا ہے جو موجود ہوتے ہیں۔ اس بار تم کو معذور باپ اور بھائی کے حصے کا غلہ دے دیا جاتا ہے لیکن جب آئندہ غلہ لینے آؤ تو باپ اور بھائی کو بھی ساتھ لے کر آنا۔‘‘ بھائیوں نے کہا کہ ہمارے والد تو بیٹے کے غم میں گوشہ نشین ہو گئے ہیں۔ دوسرے یہ کہ وہ آنکھوں سے معذور بھی ہیں۔ ان کے لئے ہم معذرت خواہ ہیں۔ چھوٹا بھائی باپ کی خدمت میں لگا رہتا ہے اور وہ خود بھی ان سے دور ہونا نہیں چاہتا۔

حضرت یوسفؑ نے باپ کی معذوری کا عذر قبول کر لیا لیکن بھائی کے نہ آنے کی وجہ کو قبول نہیں کیا اور کہا کہ تمہارے بھائی کو اپنے حصے کا غلہ لینے یہاں آنا پڑے گا اگر وہ نہیں آیا تو تمہیں بھی غلہ نہیں دیا جائے گا۔

غلہ لے کر جب وہ واپس ہوئے تو انہوں نے اپنے والد سے کہا! والئ مصر نے کہا ہے کہ اگر تمہارا بھائی ساتھ نہیں آیا تو تمہیں بھی غلہ نہیں دیا جائے گا۔

حضرت یعقوبؑ نے کہا:

’’کیا تم پر اسی طرح اعتماد کروں جس طرح اس کے بھائی یوسف کے معاملہ میں کر چکا ہوں۔‘‘

حضرت یوسفؑ کی جدائی کے بعد حضرت یعقوبؑ کے دل کا سکون ’’بن یامین‘‘ تھا۔ آنکھوں کی روشنی سے محروم ہونے کے بعد بن یامین ہی باپ کی ضروریات کا خیال رکھتا تھا۔ حضرت یعقوبؑ کے بیٹے باپ کا جواب سن کر شرمندہ ہوئے۔ بڑے بیٹے نے انتہائی عاجزی سے کہا۔’’آپ کو ہم پر اعتماد نہیں رہا لیکن ہم مجبور ہیں اگر آپ نے ’’بن یامین‘‘ کو ہمارے ساتھ نہیں بھیجا تو کسی کو بھی غلہ نہیں ملے گا۔ حضرت یعقوبؑ نے بیٹوں سے وعدہ لیا کہ بن یامین کو صحیح سلامت واپس لے آؤ گے۔‘‘

دوسری مرتبہ برادران یوسف کا قافلہ مصر کی طرف روانہ ہوا تو حضرت یعقوبؑ نے بیٹوں کو نصیحت کی کہ:

’’دیکھو ایک ساتھ جتھا بنا کر شہر میں داخل نہ ہونا بلکہ مختلف دروازوں سے ایک ایک دو دو داخل ہونا۔‘‘

حضرت یعقوبؑ نے بیٹوں کو یہ نصیحت اس وجہ سے کی کہ جب وہ پہلی بار مصر میں داخل ہوئے تھے تو جاسوسی کے الزام میں گرفتار کر لئے گئے تھے اور الزام ثابت نہ ہونے پر رہا ہوئے تھے۔

حضرت یوسفؑ جانتے تھے کہ سوتیلے بھائی جتنا غلہ لے گئے ہیں وہ زیادہ دن نہیں چلے گا۔ انہیں اندازہ تھا کہ کتنی مدت کے بعد دوبارہ غلہ کی ضرورت پیش آئے گی۔ سگے بھائی کا بے چینی سے انتظار تھا۔ شہر سے باہر ملک شام سے آنے والے راستے پر کھڑے ہو جاتے اور بھائیوں کی راہ تکتے رہتے تھے۔ بالآخر برادران یوسف پہنچ گئے۔ باپ کی نصیحت کے مطابق الگ الگ دروازوں سے داخل ہوئے اور پھر ایک جگہ جمع ہو گئے۔ حضرت یوسفؑ نے انہیں شاہی مہمان خانہ میں ٹھہرایا اور اپنے سگے بھائی ’’بن یامین‘‘ کو تنہائی میں طلب کر کے حقیقت حال سے آگاہ کیا۔ باپ کی خیر خبر معلوم کی، اپنی ساری روداد سنائی۔ باپ سے جدائی سے لے کر اب تک کا قصہ بھائی کو سنایا اور تاکید کی کہ دوسرے بھائیوں کو یہ بات نہ بتائے۔

اب کی بار حضرت یوسفؑ نے تمام بھائیوں کو پہلے سے زیادہ غلہ دیا اور اپنے بھائی بن یامین کو اپنے پاس رکھنے کے لئے غلہ ناپنے کا شاہی پیالہ اس کے سامان میں رکھ دیا۔

شاہی پیالے کی تلاش

کنعانی جوانوں کا قافلہ ابھی روانہ ہوا تھا کہ چاندی کے شاہی پیالے کی تلاش شروع ہو گئی۔ قافلے والوں پر شبہ ظاہر کیا گیا کیونکہ غلہ صرف اس قافلہ کو تقسیم کیا گیا تھا۔ قافلہ رکوایا گیا۔ برادران یوسف نے اس پر احتجاج کیا کہ الزام بے بنیاد ہے۔ بحث و تمحیص کے بعد یہ طے پایا کہ قافلے والے واپس چل کر تلاشی دیں اگر الزام ثابت نہ ہوا تو انہیں اس شبہ کے نتیجے میں پہنچنے والی تکلیف کے بدلے میں مزید غلہ دیا جائے گا اور اگر الزام ثابت ہو گیا تو قانون کے مطابق سزا دی جائے گی۔

قانون یہ تھا کہ جس کی چوری ہوتی تھی مجرم کو اس کے حوالے کر دیتے تھے۔

شاہی داروغہ نے تمام بھائیوں کی تلاشی لینا شروع کر دی۔ آخرمیں سب سے چھوٹے بھائی بن یامین کے سامان میں سے شاہی پیمانہ برآمد ہو گیا۔ یہ دیکھ کر تمام بھائی پریشان ہو گئے۔

شاہی پہرہ دار بن یامین کو گرفتار کر کے لے جانے لگے تو انہیں باپ سے کیا ہوا وعدہ یاد آیا انہوں نے داروغہ کی منت سماجت کی کہ ’’بن یامین‘‘ کو چھوڑ دیا جائے اور اس کی جگہ جس بھائی کو چاہیں گرفتار کر لیں۔ معاملہ والئ مصر حضرت یوسفؑ کے سامنے پیش ہوا۔ حضرت یوسفؑ نے کہا! ’’اس سے زیادہ ظلم اور کیا ہو گا کہ اصلی مجرم کو چھوڑ کر کسی اور کو پکڑ لیا جائے۔‘‘

برادران یوسفؑ وطن واپس ہوئے۔ لیکن اس سفر میں ’’بن یامین‘‘ ان کے ساتھ نہیں تھا۔ ندامت کی وجہ سے باپ کا سامنا کرنے کی ان میں ہمت نہیں ہوئی۔ اس لئے بڑا بھائی باپ کے سامنے نہیں گیا۔ وہ شہر سے باہر ٹھہر گیا۔

بیٹوں نے باپ کو بتایا تو حضرت یعقوبؑ غمزدہ آواز سے بولے۔’’میں جانتا ہوں کہ بات یہ نہیں ہے لیکن جو کچھ تم لوگ کہتے ہو مان لیتا ہوں۔ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔‘‘

راز کھل گیا

غلہ ختم ہونے کے بعد پھر مصر جانے کے بارے میں سوچنے لگے لیکن شرمندگی کی وجہ سے جاتے ہوئے ہچکچا رہے تھے۔ حضرت یعقوبؑ نے انہیں تسلی دی اور مصر جانے کے لئے آمادہ کیا اور کہا کہ غلہ لے کر آؤ اور والئ مصر سے ’’بن یامین‘‘ کے لئے معافی کی درخواست کرو۔

باپ کے ہمت دلانے پر بیٹے دربار شاہی میں حاضر ہوئے اور کہا۔’’ہم کو قحط سالی نے پریشان کر دیا ہے۔ اب معاملہ خرید و فروخت کا نہیں ہے، ذرائع آمدنی ختم ہو گئے ہیں۔ ہم غلہ کی پوری قیمت ادا نہیں کر سکتے۔ اگر ہمیں غلہ نہیں ملے گا تو ہمارے گھر میں فاقے شروع ہو جائیں گے۔‘‘

حضرت یوسفؑ یہ سن کر بہت رنجیدہ ہوئے اور آبدیدہ ہو کر کہا، ’’نہیں نہیں میں تمہیں اور اپنے باپ کو مصیبت میں نہیں دیکھ سکتا۔‘‘

برادران یوسفؑ عزیز مصر کی زبانی حضرت یعقوبؑ کے لئے باپ کا لفظ سن کر حیران ہوئے۔

حضرت یوسفؑ نے پوچھا!

’’تم لوگوں نے ’’بن یامین‘‘ کے بھائی یوسف کے ساتھ کیا سلوک کیا تھا؟‘‘

ان پر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ عزیز مصر کو یوسف اور بن یامین سے کیا واسطہ ہے۔

’’میرے بھائیو! میں ہی تمہارا بھائی یوسف ہوں۔ جسے تم نے حسد کی بناء پر کنوئیں میں ڈال دیا تھا۔‘‘

حضرت یوسفؑ کے اس انکشاف سے ان کے رہے سہے حواس بھی جاتے رہے۔ خوف، شرمساری اور ندامت کے احساس سے ان کی گردنیں جھک گئیں۔ حضرت یوسفؑ نے درگزر سے کام لیا اور فرمایا!

’’میں تمہارا بھائی ہوں۔ ہم ایک ہی باپ کی اولاد ہیں۔ میں آج بھی تم سے محبت کرتا ہوں، تم سے کوئی سرزنش نہیں، کوئی شکوہ نہیں، کوئی شکایت نہیں ۔ میں اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ تمہارے گناہ بخش دے کیونکہ وہ رحیم و کریم ہے۔‘‘

فرعون مصر کو جب یوسفؑ کے بھائیوں کی آمد کا پتہ چلا اور اسے معلوم ہوا کہ حضرت یعقوبؑ ، یوسفؑ کے والد ہیں اور اللہ کے برگزیدہ بندے ہیں تو اس نے حضرت یعقوبؑ اور ان کے پورے خاندان کو مصر میں آباد ہونے کی دعوت دی اور پروٹوکول کے لئے فوج کا ایک دستہ کنعان بھیجا۔ فوج کے دستے کے ساتھ مال برداری کے جانور بھی تھے۔

یوسفؑ کا پیراہن

روانگی سے قبل حضرت یوسفؑ نے اپنا پیراہن بھائیوں کو دیتے ہوئے کہا کہ اسے میرے مقدس باپ کی آنکھوں سے لگا دینا اللہ رب الرحیم اپنا فضل کرے گا۔

قافلہ ابھی کنعان میں داخل ہی ہوا تھا کہ حضرت یعقوبؑ نے گھر والوں سے کہا کہ مجھے اپنے بیٹے یوسف کی خوشبو آ رہی ہے۔ گھر والوں نے اس بات کو ضعف دماغ پر محمول کیا اور کہا کہ برسوں پہلے جسے بھیڑیا لے گیا اس کی خوشبو کیسے آ سکتی ہے۔ حضرت یعقوبؑ نے کہا!’’تم لوگ وہ بات نہیں جانتے ہو جو میں جانتا ہوں۔‘‘

شاہی دستہ کے ہمراہ قافلہ جب شہر میں داخل ہوا تو حضرت یعقوبؑ اپنے گھر کی دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے۔ حضرت یعقوبؑ کے بیٹے سر جھکائے ان کے پاس پہنچے۔ حضرت یعقوبؑ نے خوشی اور بے قراری سے کہا!

’’تم سب آ گئے۔۔۔۔۔۔مجھے یوسف کی خوشبو آ رہی ہے۔‘‘

’’یوسف ہمارے ساتھ نہیں آیا۔‘‘ ایک بھائی سر جھکا کر بولا اور پیراہن نکال کر ان کو دے دیا۔ اور کہا! یہ پیراہن یوسف نے بھیجا ہے۔ حضرت یعقوبؑ نے حضرت یوسفؑ کا کرتا لے کر چوما اور آنکھوں سے لگایا اور کہا! میں نہ کہتا تھا کہ میرا یوسف زندہ ہے۔ جیسے جیسے حضرت یوسفؑ کے کرتے کا لمس آنکھوں میں جذب ہو رہا تھا۔ بینائی لوٹ رہی تھی اور حضرت یعقوبؑ کی نابینا آنکھیں روشن ہو گئیں۔

بھائیوں نے اول تا آخر سارا قصہ سنایا۔ اور کہا! فرعون مصر نے دعوت دی ہے کہ آپ سب مصر میں آ کر آباد ہو جائیں۔

حضرت یعقوبؑ پورے خاندان کے ساتھ مصر روانہ ہو گئے۔ خاندان کے افراد کی تعداد ستر تھی۔

والد سے بچھڑتے وقت حضرت یوسفؑ کی عمر سترہ سال تھی اور حضرت یعقوبؑ نوے سال کے تھے۔ جس وقت حضرت یعقوبؑ مصر تشریف لائے اس وقت ان کی عمر ایک سو تیس(۱۳۰) سال تھی۔ گویا باپ بیٹا چالیس سال ایک دوسرے سے جدا رہے۔ 

اس دوران فوطیفار فرعون کا انتقال ہو گیا۔

قرآن حکیم نے حضرت یوسفؑ کے قصے کو خواب سے شروع کیا ہے۔


Topics


Mohammad Rasool Allah (3)

خواجہ شمس الدین عظیمی

قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے اس میں کوئی سورہ، کوئی آیت اور کوئی نقطہ مفہوم و معانی سے خالی نہیں ہے۔ اﷲ کے علوم لامتناہی ہیں۔ اﷲ کا منشاء یہ ہے کہ ہم لوگوں کو آگے بڑھتا دیکھ کر خود بھی قدم بڑھائیں اور اﷲ کی نعمتوں کے معمور خزانوں سے فائدہ اٹھائیں۔ قرآن پاک میں انبیاء سے متعلق جتنے واقعات بیان ہوئے ہیں ان میں ہمارے لئے اور تمام نوع انسانی کیلئے ہدایت اور روشنی ہے۔ کتاب محمد رسول اﷲ۔ جلد سوئم میں عظیمی صاحب نے مختلف انبیاء کرام کے واقعات میں روحانی نقطۂ نظر سے اﷲ تعالیٰ کی حکمت بیان فرمائی ہے۔