Topics

شیطان کا حیلہ

روایت ہے کہ ایک روز فرشتے آپ کی اطاعت گزاری اور اللہ کریم کے حضور عاجزی و فرمانبرداری پر تحسین و آفرین کر رہے تھے۔ 

ابلیس نے دعوے سے کہا کہ اللہ نے ایوب پر انعام و اکرام کی بارش کی ہے اسی وجہ سے وہ نیک اور عبادت گزار ہے۔ اگر اللہ اس پر مصیبت نازل کرے تو وہ شکر ادا نہیں کرے گا۔

حضرت ایوبؑ کے حالات اچانک خراب ہو گئے۔ مصیبتوں، آزمائشوں اور ابتلا کے دور نے حضرت ایوبؑ کو تہی دست کر دیا۔ آپ کے غلہ کے گوداموں میں آگ لگ گئی، مال و اسباب جل کر راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہو گیا۔ حملہ آوروں نے غلاموں اور نوکروں کو تہہ تیغ کر کے مال مویشی سب کچھ لوٹ لیا۔ آپ کی سب اولاد ضیافت میں شریک تھی کہ مکان کی چھت گر گئی اور سب ملبے میں دب کر مر گئے۔ اولاد، مال و دولت اور جاہ و حشم سب کچھ لمحوں میں ختم ہو گیا۔ خوش حالی کی ایک علامت بھی باقی نہ رہی۔ لوگ آ آ کر بربادی کے ایک ایک واقعے کی اطلاع دیتے رہے۔ لیکن حضرت ایوبؑ کی روشن پیشانی پر ایک شکن نہیں ابھری۔ تباہی کے پے در پے واقعات سے لوگ حواس کھو بیٹھے۔ حضرت ایوبؑ کی رہائش گاہ کے باہر آہ و فغاں اور نالہ و گریہ کرنے والوں کا ہجوم ہو گیا۔ 

حضرت ایوبؑ نے سجدے میں گر کر اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان کی۔

’’میں اپنی ماں کے پیٹ سے برہنہ پیدا ہوا تھا، برہنہ ہی دنیا سے جاؤں گا۔ خداوند نے مجھے یہ سب کچھ دیا تھا اور اسی نے اپنی امانت واپس لے لی۔‘‘

(سفر ایوب باب۱۔۲۱)

صبر و شکر

سب کچھ ختم ہو گیا لیکن آزمائشوں کا دور ابھی باقی تھا۔ پیروں کے تلوے سے لے کر سر کی کھال تک سارے جسم میں تکلیف دہ پھوڑے نکل آئے جن میں ٹیسیں اٹھتی تھیں۔ آپ ٹھیکرا لے کر راکھ پر بیٹھ جاتے اور اپنا جسم کھجاتے رہتے۔ زبان بدستور حمد و ثناء میں مصروف رہی اور شکایت کا ایک لفظ منہ سے ادا نہ ہوا۔ تمام اعزاء و اقرباء نے قطع تعلق کر لیا صرف رفیقہ حیات ہی شریک غم رہ گئیں۔ زوجہ محترمہ نے بیمار شوہر کی تیمارداری میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ محنت مزدوری کر کے زندگی کے تار و پود کا انتظام کرتی تھیں۔ اس اذیت میں اٹھارہ سال حضرت ایوبؑ نے گزار دیئے۔ روایت ہے کہ زخموں میں پڑ جانے والے کیڑے زخم سے نکل کر باہر گر جاتے تو آپ انہیں اٹھا کر دوبارہ زخم میں رکھ دیتے۔

زوجہ محترمہ ایک روز حرف شکایت زبان پر لے آئیں۔ حضرت ایوبؑ ناراض ہوئے اور سرزنش کرتے ہوئے قسم کھائی کہ صحت یاب ہونے کے بعد سزا کے طور پر بیوی کو سو ڈنڈے ماروں گا۔ اللہ تعالیٰ نے زوجہ محترمہ کی غلطی معاف فرمائی اور صحت یابی کے بعد حضرت ایوبؑ کو حکم ہوا۔

زوجہ محترمہ پر اللہ کا انعام

’’اور اپنے ہاتھ میں جھاڑو لو اور اس سے مارو قسم نہ توڑو۔ ‘‘ 

(سورہ ص۔۴۴)

حضرت ایوبؑ نے سو تنکوں کی جھاڑو بنا کر ایک مرتبہ مار دیا اور قسم پوری ہوئی۔ حضرت ایوبؑ کی تباہ حالی اور بیماری کی خبر ادوم کی بستی میں پھیلی تو آپ کے تین دوست آپ کے پاس تشریف لائے۔ انہوں نے آپ کو راکھ کے بستر پر لیٹے اور ٹھیکرے سے زخموں کو کھجاتے دیکھا تو درد و کرب اور غم و اندوہ سے ان کی زبانیں گنگ ہو گئیں۔ وہ سات دن اور سات راتیں آپ کے پاس خاموش بیٹھے رہے۔ قرآن حکیم میں حضرت ایوبؑ کے دور کے آخری حصے کا تذکرہ ان الفاظ میں ہے۔

معجزہ

’’اور ایوب کو یاد کرو جب انہوں نے اپنے رب کو پکارا کہ یا الٰہی! شیطان نے مجھے ایذاء اور تکلیف دے رکھی ہے۔‘‘

(سورۃ ص۔ ۴۱)

رحمت خداوندی جوش میں آئی اور حکم ہوا۔

’’زمین پر لات مارو، یہ چشمہ نہانے کو ٹھنڈا اور پینے کو شیریں ہے۔‘‘

(سورۃ ص۔ ۴۲)

حضرت ایوبؑ نے زمین پر پیر مارا۔ زمین میں سے شفاء بخش پانی ابل آیا۔ حضرت ایوبؑ نے غسل کیا اور پانی پیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے بدن زخموں سے صاف ہو گیا۔

بی بی رحمہ شام کو واپس لوٹیں تو بیمار اور ناتواں شوہر کو موجود نہ پا کر پریشان ہو گئیں۔ آپ روتے ہوئے انہیں ڈھونڈ رہی تھیں کہ قریبی پل پر ایک جوان صحت مند مرد کو دیکھا۔ حضرت ایوبؑ نے مسکراتے ہوئے سارا احوال کہہ سنایا۔ حضرت ایوبؑ اور ان کی زوجہ کا شباب لوٹ آیا۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں پہلے سے زیادہ اولاد سے نوازا اور آزمائش کے دنوں میں جن آسائشوں سے محروم کر دیئے گئے تھے وہ کئی گنا بڑھا کر دوبارہ عطا کر دی گئیں۔

سورۃ انبیاء میں حضرت ایوبؑ کا ذکر اختصار اور اجمال کے ساتھ اس طرح ہے:

’’اور ایوب کو یاد کرو جب انہوں نے اپنے رب کو پکارا، میں دکھ میں پڑ گیا ہوں اور خدایا تجھ سے بڑھ کر رحم کرنے والا کوئی نہیں۔ پس ہم نے ان کی پکار سن لی اور جس دکھ میں پڑ گئے تھے وہ دور کر دیا، ہم نے ان کا گھرانہ بسا دیا اور ان کے ساتھ اتنے ہی اور عطا کئے۔ یہ ہماری طرف سے ان کے لئے رحمت تھی اور نصیحت ہے ان کے لئے جو اللہ کی بندگی کرنے والے ہیں۔‘‘

(سورۃ انبیاء: ۸۳۔۸۴)

اللہ تعالیٰ سورۃ انبیاء میں دوسری برگزیدہ ہستیوں کے علم و فضل اور حکمت و دانش کا تذکرہ کرتے ہوئے حضرت ایوبؑ کے بارے میں فرماتے ہیں۔ 

’’اور (یہی ہوشمندی اور حلم و علم کی نعمت) ہم نے ایوب کو دی۔‘‘

(سورۃ انبیاء۔ ۸۲)


Topics


Mohammad Rasool Allah (3)

خواجہ شمس الدین عظیمی

قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے اس میں کوئی سورہ، کوئی آیت اور کوئی نقطہ مفہوم و معانی سے خالی نہیں ہے۔ اﷲ کے علوم لامتناہی ہیں۔ اﷲ کا منشاء یہ ہے کہ ہم لوگوں کو آگے بڑھتا دیکھ کر خود بھی قدم بڑھائیں اور اﷲ کی نعمتوں کے معمور خزانوں سے فائدہ اٹھائیں۔ قرآن پاک میں انبیاء سے متعلق جتنے واقعات بیان ہوئے ہیں ان میں ہمارے لئے اور تمام نوع انسانی کیلئے ہدایت اور روشنی ہے۔ کتاب محمد رسول اﷲ۔ جلد سوئم میں عظیمی صاحب نے مختلف انبیاء کرام کے واقعات میں روحانی نقطۂ نظر سے اﷲ تعالیٰ کی حکمت بیان فرمائی ہے۔