Topics
حضرت طالوتؑ اور جالوت کی کثیر التعداد فوج کا جب آمنا سامنا ہوا تو فوج کا سپہ سالار جالوت زرہ اور خَود پہن کر میدان میں اترا اور مبازرت کے لئے للکارا۔ جالوت کا قد چھ ہاتھ(*توراۃ میں ۶ ہاتھ کا مطلب ۹ فٹ ایک بالشت ہے) ایک بالشت تھا۔ جو زرہ پہنی ہوئی تھی اس کا وزن پانچ ہزار مشقال(ایک مشقال برابر ہے ۲؍۱ ۴ ماشہ۔ جبکہ ایک تولہ میں ۱۲ ماشہ ہوتے ہیں۔ اس حساب سے ۵۰۰۰ مشقال وزن ۱۸۷۵ تولے یا ۵۰،۲۱ کلو گرام کے برابر ہے)۔ ٹانگوں پر پیتل کے سات یوش(*موزے۔ میوزیم میں پرانے زمانے کے بادشاہوں کے جنگی لباس جن میں پیتل کا سینہ بند، لوہے کا خود، چہرے کے سامنے زنجیریں اور پیرسے گھٹنوں تک پیتل کے موزے رکھے ہوئے ہیں۔ اس زمانے کے لوگوں کی قوت کا اندازہ یہ لباس دیکھنے سے ہوتا ہے۔ سیروں وزن کے لباس پہن کر میدان میں داد شجاعت دیتے تھے) اور دونوں شانوں کے درمیان پیتل کی برچھی تھی۔ بھالے لوہے کی شہتیر کی مانند تھے اور نیزے کا پھل چھ سو مشقال لوہے کا تھا جسے ایک سپاہی جالوت کے آگے آگے لے کر چلتا تھا۔
میدان جنگ میں جالوت للکارا۔ آواز اتنی رعب دار تھی کہ میدان میں گونجار پیدا ہو گئی۔ جب مدمقابل کوئی نہیں آیا تو حضرت داؤد علیہ السلام نے حضرت طالوتؑ سے اجازت طلب کی اور میدان میں آ گئے۔ آپ کے ہاتھ میں نہ تلوار تھی نہ برچھی۔ ایک ہاتھ میں بکریوں کو سنبھالنے کے لئے لاٹھی تھی اور دوسرے ہاتھ میں فلاخن اور کندے پر سنگریزوں سے بھرا ہوا تھیلا لٹک رہا تھا۔نو عمر اور قد و قامت میں کم نوجوان کو دیکھ کر جالوت نے قہقہہ لگایا اور تمسخر سے بولا :
’’کیا تو مجھے کتا سمجھ کر ڈنڈے سے بھگانے آیا ہے۔‘‘
حضرت داؤد علیہ السلام نے تھیلے میں سے پتھر نکالا اور فلاخن میں رکھ کر جالوت کی طرف پھینکا۔ فلاخن میں سے نکلا ہوا پتھر ماتھے کی ہڈی کو توڑ کر کھوپڑی میں گھس گیا۔ کبر و نخوت کا پتلا، دیوہیکل جالوت منہ کے بل زمین پر گر پڑا۔ حضرت داؤد علیہ السلام آگے بڑھے اور اسی کی تلوار سے اس کا سر قلم کر دیا۔
فلسطینی فوج اپنے سردار کا کٹا ہوا سر دیکھ کر سراسیمہ ہو گئی۔ بنی اسرائیل کی فوج نے حواس باختہ دشمن پر حملہ کر دیا اور اللہ تعالیٰ نے ایک بار پھر اسرائیلیوں کو فاتح قوم بنا دیا۔
اس شجاعت، بہادری اور جوانمردی کی وجہ سے حضرت داؤد علیہ السلام کو بنی اسرائیل میں انتہائی مقبولیت حاصل ہوئی۔ حضرت طالوتؑ نے اپنی بیٹی عینیاہ کی شادی حضرت داؤدؑ سے کر دی۔ اور ایک ہزار فوجی جوانوں کا دستہ آپ کی کمان میں دیدیا۔
’’اے داؤد! ہم نے کیا تجھ کو نائب ملک میں، سو تو حکومت کر لوگوں میں انصاف سے اور خواہش کی پیروی نہ کر کہ تجھ کو بھٹکا دے اللہ کی راہ سے، جو لوگ اللہ کی راہ سے بھٹکتے ہیں ان کو سخت عذاب ہے کہ انہوں نے حساب کے دن کو بھلا دیا۔‘‘
(سورۃ ص۔ ۲۶)
جس وقت حضرت داؤد علیہ السلام سردار مقرر ہوئے اس وقت آپ جزیرہ نما سینا کے جنوبی حصہ میں مقیم تھے۔ حضرت داؤد علیہ السلام نے وہاں کے امیر نابال کو پیغام بھیجا کہ:
’’جس خدا نے تجھے وسائل اور مال و زر سے نوازا ہے اس کی راہ میں، اس کے دیئے ہوئے مال میں سے خرچ کر۔‘‘ نابال نے پیغام لانے والوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا۔ بری طرح پیش آیا۔
حضرت داؤد علیہ السلام کو یہ بات ناگوار گزری اور آپ چار سو جوانوں کو ساتھ لے کر نابال کی سرکوبی کے لئے روانہ ہو گئے۔ نابال کی بیوی دانشمند عورت تھی۔ اس نے تحائف اور دعوت کا اہتمام کیا اور حضرت داؤد علیہ السلام سے ملاقات کر کے اپنے شوہر کی غلطی کی معافی مانگی۔ جب نابال کی بیوی نے اپنے شوہر کو بتایا کہ اس نے حضرت داؤد علیہ السلام سے معافی مانگ لی ہے تو نابال کو سکتہ ہو گیا اور وہ اسی حالت میں مر گیا۔
حضرت طالوتؑ کی وفات کے بعد حضرت داؤد علیہ السلام مقام نبوت سے سرفراز ہوئے۔ حضرت داؤد علیہ السلام ان نبیوں میں سے تھے جنہیں اللہ تعالیٰ نے نبوت کے ساتھ ساتھ بادشاہی بھی عطا کی تھی۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے اس میں کوئی سورہ، کوئی آیت اور کوئی نقطہ مفہوم و معانی سے خالی نہیں ہے۔ اﷲ کے علوم لامتناہی ہیں۔ اﷲ کا منشاء یہ ہے کہ ہم لوگوں کو آگے بڑھتا دیکھ کر خود بھی قدم بڑھائیں اور اﷲ کی نعمتوں کے معمور خزانوں سے فائدہ اٹھائیں۔ قرآن پاک میں انبیاء سے متعلق جتنے واقعات بیان ہوئے ہیں ان میں ہمارے لئے اور تمام نوع انسانی کیلئے ہدایت اور روشنی ہے۔ کتاب محمد رسول اﷲ۔ جلد سوئم میں عظیمی صاحب نے مختلف انبیاء کرام کے واقعات میں روحانی نقطۂ نظر سے اﷲ تعالیٰ کی حکمت بیان فرمائی ہے۔