Topics
۱) حضرت عزیر علیہ السلام سو گئے اور سو سال تک سوتے رہے جب کہ اپنے احساس میں وہ ایک دن یا اس سے کچھ کم سوئے۔
۲) حضرت عزیر علیہ السلام کا گدھا مر گیا اور اس کے جسم پر وہ تمام تاثرات قائم ہو گئے جو کسی مردہ جسم پر ہوتے ہیں۔
۳) ناشتے دان میں کھانا سو سال تک محفوظ رہا۔ نہ وہ سڑا اور نہ وہ گلا؟
یہ تینوں واقعات ایک قطعہ زمین اور ایک ہی فضا میں پیش آئے۔ یہ سب کس طرح ہوا؟
آکسیجن زندگی نہیں ہے!
زندگی کا دارومدار جیسا کہ بیان کیا جاتا ہے آکسیجن پر نہیں ہے۔ اس لئے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک گھر میں خاندان کے دس افراد ہیں۔
گھر کا صحن، گھر کا برآمدہ گھر کی فضا اور Open Sky Areaبھی ایک ہے۔ ان دس آدمیوں میں سے ایک آدمی مر جاتا ہے۔
کیوں مر جاتا ہے؟ بتایا جاتا ہے کہ اس لئے مر جاتا ہے کہ آکسیجن ختم ہو گئی۔ اگر آکسیجن ختم ہو گئی تو باقی نو آدمی کیوں نہیں مرے؟
ایک آدمی کے لئے آکسیجن کے غبارے میں آکسیجن کیوں ختم ہو گئی؟ غبارے سے مراد گھر اور گھر میں صحن وغیرہ ہے۔
زندگی کا دارومدار آکسیجن جلنے پر ہے اور آکسیجن کا جلنا تابع ہے کاربن کے۔ آکسیجن جب ناک یا حلق کی نالیوں کے ذریعے پھیپھڑوں میں جاتی ہے تب پھیپھڑوں کے اندر اسفنجی نظام میں موجود کاربن آکسیجن کو جلاتا ہے اور نتیجے میں کاربن ڈائی آکسائیڈ زندگی بن جاتا ہے یعنی آکسیجن پر زندگی قائم نہیں ہے۔ آکسیجن زندگی کے لئے ایندھن بن رہی ہے۔
تمام آسمانی کتابوں کے مطابق کائنات کا ہر ذرہ شعور رکھتا ہے۔ شعور سے مراد یہ ہے کہ کائنات کے ہر ذرے میں عقل و فہم موجود ہے۔ وہ اپنی زندگی کی حفاظت کرتا ہے اور دوسروں کی زندگی میں جو اس کی ڈیوٹی ہے وہ پوری کرتا ہے۔ یوں سمجھئے کہ انسان ہو یا جانور ہو، درخت ہو، پودا ہو، کوئی ستارہ ہو یا کوئی سیارہ ہو وہ کاربن کا ہی بنا ہوا ہے۔ یعنی زندگی ہزاروں لاکھوں تہوں (پرت) سے بنی ہوئی ہے۔ آکسیجن کا کام زندگی کا ایندھن بننا ہے اور کاربن کا کام آکسیجن کو جلانا ہے۔
ہم روزمرہ کی زندگی میں دیکھتے ہیں کھانا بغیر فرج اور ڈیپ فریزر کے بھی خراب نہیں ہوتا۔ مثلاً سرد علاقہ آئس لینڈ کی کھلی فضا میں بھی کھانا خراب نہیں ہوتا۔ کیوں خراب نہیں ہوتا؟ اس لئے کہ کھانے کے مالیکیولز یا سالموں کی حرکت کم ہو جاتی ہے۔ گرم علاقوں میں فرج اور ڈیپ فریزر حرکت کو کم کرنے کا مصنوعی طریقہ ہے۔ آدمی جب سو جاتا ہے اور ۱۲ گھنٹے تک سوتا رہتا ہے تو بیدار ہونے کے بعد اسے پتہ نہیں ہوتا کہ وہ ۱۲ گھنٹے تک سویا ہے۔ آدمی Comaمیں چلا جاتا ہے۔ تین سال تک کوما میں پڑا رہتا ہے۔
جب اس کے حواس بحال ہوتے ہیں تو وہ کہتا ہے کہ میں چند گھنٹے سویا ہوں۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے اس میں کوئی سورہ، کوئی آیت اور کوئی نقطہ مفہوم و معانی سے خالی نہیں ہے۔ اﷲ کے علوم لامتناہی ہیں۔ اﷲ کا منشاء یہ ہے کہ ہم لوگوں کو آگے بڑھتا دیکھ کر خود بھی قدم بڑھائیں اور اﷲ کی نعمتوں کے معمور خزانوں سے فائدہ اٹھائیں۔ قرآن پاک میں انبیاء سے متعلق جتنے واقعات بیان ہوئے ہیں ان میں ہمارے لئے اور تمام نوع انسانی کیلئے ہدایت اور روشنی ہے۔ کتاب محمد رسول اﷲ۔ جلد سوئم میں عظیمی صاحب نے مختلف انبیاء کرام کے واقعات میں روحانی نقطۂ نظر سے اﷲ تعالیٰ کی حکمت بیان فرمائی ہے۔