Topics
زمان و مکان (Time & Space) نفی اثبات، ماضی، حال اور مستقبل، لازمانیت اور لامکانیت (Timelessness & Spaceiessness) کی پوری تشریحات بیان کی گئی ہیں۔ علم ظاہر اور علم غیب بھی ہے۔ مثلاً ملکہ سبا کے واقعہ میں جب حضرت سلیمان علیہ السلام کو معلوم ہو گیا کہ ملکہ حاضر خدمت ہو رہی ہے تو انہوں نے اپنے درباریوں کو مخاطب کر کے کہا:
’’میں چاہتا ہوں کہ یہاں پہنچنے سے پہلے ملکہ کا شاہی تخت اس دربار میں موجود ہو۔‘‘
ایک دیو پیکر جن نے کہا:
’’دربار برخاست کرنے سے پہلے میں ملکہ کا تخت یہاں حاضر کر سکتا ہوں۔‘‘
جن کا دعویٰ سن کر ایک انسان جس کے پاس ’’کتاب کا علم‘‘ تھا، بولا:
’’اس سے پہلے کہ آپ کی پلک جھپکے، ملکہ کا تخت آ جائے گا۔‘‘
حضرت سلیمان علیہ السلام نے رخ پھیر کر دیکھا تو دربار میں تخت موجود تھا۔
اس قصے میں بتایا گیا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے لشکر میں ایک ایسا جن تھا جو تھوڑے وقفے میں ملکہ کا تخت تقریباً 2413کلومیٹر دور سے دربار سلیمانی میں لا سکتا تھا چونکہ علوم میں انسان کی رسائی جنات سے زیادہ ہے لہٰذا ایک انسان نے آن واحد سے بھی کم وقفہ میں شاہی تخت حاضر کر دیا۔
اللہ تعالیٰ نے انسانی شعوری ارتقاء کیلئے دانشوروں اور مفکرین پر سائنسی علوم انسپائر کئے جس کے نتیجہ میں نئی نئی باتیں ظاہر ہوئیں، نئی نئی جدوجہد منکشف ہوئی اور انسانی شعور میں وسعت پیدا ہوئی۔ سائنسی علوم کی بدولت زمین پر چیونٹی کی ایک ایسی قسم دریافت ہوئی جو اپنے جسم کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ سمندر میں ایسی مچھلیوں کا انکشاف ہوا جو تیرتے تیرتے سمندر کی سطح سے اوپر چھلانگ لگاتی ہیں تو ان کا جسم ہوا میں تحلیل ہو جاتا ہے اور وہ اپنا جسم دوسری جگہ منتقل کر دیتی ہیں۔ ان کے اوپر سے ان کے ارادہ کے تحت ٹائم اسپیس کی حد بندی ختم ہو جاتی ہے۔
جب دیگر نوعوں میں جسمانی طور پر منتقل ہونے کی صلاحیت موجود ہے تو اشرف المخلوقات انسان میں زمان و مکان سے آزاد ہونے کی صلاحیت لازمی طور پر موجود ہے۔انسان کا دعویٰ ہے کہ وہ خلاء میں چہل قدمی کر کے واپس آگیا ہے۔ انسان نے مادی جسم کےساتھ اس کرہء ارض سے باہر جانے کا دعویٰ بھی ہے۔
ازل سے ابد تک اور ابد الآباد تک نوع انسانی ایک زون سے دوسرے زون میں منتقل ہو رہی ہے اور ہوتی رہے گی، یعنی انسان جس زون میں منتقل ہوتا ہے اسی زون کے مطابق خدوخال اور احساس و کیفیات اس کے اوپر مرتب ہو جاتی ہیں اور خدوخال بن جاتے ہیں۔ روحانی نقطہ نظر سے انسان دو کیفیات کا مجموعہ ہے۔ ایک کیفیت انسان کو زماں و مکاں سے آزاد کرتی ہے اور دوسری کیفیت انسان کو زماں ومکاں میں بند رکھتی ہے۔
الیکٹرک سٹی
آدمی دو پرتوں سے مرکب ہے۔ ایک پرت ہمہ وقت فنا ہوتا رہتا ہے۔ اس کی ساری حرکات Fictionہیں۔ دوسرا پرت انسان کی اصل ہے جو روشنیوں کے تانے بانے سے بنا ہوا ہے۔ یہ اصل پرت ’’نقاب‘‘ کی طرح ہے۔ عناصر سے تخلیق شدہ مادی جسم اس نقاب یا برقعہ میں متحرک رہتا ہے۔ نقاب الگ کر دیا جائے تو عناصر میں توانائی یک دم ختم ہو جاتی ہے۔
مثال:
ہم بجلی کے تاروں کو چھوتے ہیں تو ہمیں شاک (Shock) لگتا ہے۔ شاک لگنے کی وجہ یہ ہے کہ اضافی کرنٹ آدمی کے اندر دوڑنے والی بجلی میں ’’وائبریشن‘‘ کو تیزکر دیتا ہے۔ یہ وائبریشن پورے جسم کو ہلا کر رکھ دیتی ہے۔
اگر آدمی کے اندر کام کرنے والی بجلی Voltageکم ہو تو آدمی گر جاتا ہے اور بے ہوش بھی ہو سکتا ہے۔ اس کے بر عکس اگر آدمی گر بھی جاتا ہے اور بے ہوش بھی ہو سکتا ہے ، اس کے بر عکس اگرآدمی ایسا طریقہ اختیار کرے جس طریقہ میں بجلی کا بہاؤ براہ راست ارتھ نہیں ہوتا تو اسے شاک یا جھٹکا نہیں لگتا۔
بے شمار اولیاء کرام ؑ کے واقعات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ایک آدمی جب اپنے اندر دور کرنے والی بجلی ’’نسمہ‘‘ سے واقف ہو جاتا ہے تو وہ بجلی کے بہاؤ کو روک سکتا ہے اور اپنے اندر زیادہ سے زیادہ بجلی کے وولٹیج کا ذخیرہ بھی کر سکتا ہے۔ اس کے اندر اتنی سکت بڑھ جاتی ہے کہ اپنے اندر ’’سلطان‘‘ (مخفی صلاحیت) سے آسمان و زمین کے کناروں سے باہر نکل سکتا ہے۔
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:
’’اے گروہ جن و انس اگر آسمان و زمین کے کناروں سے نکل سکتے ہو تو نکل کر دکھاؤ مگر سلطان کے ساتھ۔‘‘
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے انسان کی اس صلاحیت کی طرف اشارہ کیا ہے۔ صاحب علم الکتاب، باعث تخلیق کائنات، تسخیر کائنات کے معلم سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے واقعہ معراج میں یہی حکمت اور علم مخفی ہے۔
تجلی کا پردہ
اللہ نے ہر شئے کو احاطہ کیا ہوا ہے۔ سیدنا حضورﷺ نے روحانی جسمانی اور عملی تصدیق میں خود کو ساری زندگی اللہ کے ارادے کے تابع (Dependant) رکھا۔ اللہ تعالیٰ کی مہر خاص سے حضور اکرمﷺ تجلی کے امین ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوبﷺ کو قربت عطا فرمانے کیلئے پوری فضاء کو پر نور کر دیا۔ سات آسمان تجلیات سے جگمگا اٹھے۔ حضرت جبرائیلؑ کی معیت اور اللہ کے برگزیدہ بندوں اولیاء کرامؑ نے مبارک باد دے کر تجلیات کے انوار و برکات کا ذخیرہ منتقل کیا ’’نور علی نور‘‘ ’’اللہ کے دوست‘‘ حضرت محمدﷺ اللہ کے قریب ہو گئے۔ یہاں تک کہ دو کمانوں کا فاصلہ رہ گیا یا اس سے بھی کم۔ اللہ نے اپنے محبوب کو اپنے پاس بلا کر جو دل چاہا باتیں کیں۔ دل نے جو دیکھا جھوٹ نہیں دیکھا۔
اللہ کے محبوبﷺ کا ارشاد ہے کہ:
’’میں نے اس سفر میں چار نہروں کا معائنہ کیا ان میں سے دو ظاہر نظر آتی ہیں اور دو باطن میں بہتی ہیں۔‘‘
سیدنا حضورﷺ کے وارث، علم لدنی کے حامل حضرات اولیاء اللہ سے منقول ہے کہ :
’’انسان اللہ کی صفات کا پرتو ہے۔ اللہ تعالیٰ کی صفت نور ہے اور نور تجلی کا عکس ہے۔‘‘
اللہ سماوات اور ارض کا نور ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک طاق اس میں ایک چراغ، چراغ ایک شیشے میں، شیشہ جیسے ایک تارہ چمکتا، تیل جلتا ہے اس میں برکت کے ایک درخت زیتون کا۔ نہ مشرق کی طرف نہ مغرب کی طرف لگتا ہے کہ وہ سلگ اٹھے ابھی، نہ لگی ہو اس کو آگ۔’’نور علی نور‘‘ اللہ ہدایت بخشتا ہے اپنے نور سے جس کو چاہے اور اللہ لوگوں کو مثالیں دے کر بتاتا ہے اور اللہ ہر چیز کو جانتا ہے۔‘‘
(سورہ نور۔ ۳۵)
خواجہ شمس الدین عظیمی
قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے اس میں کوئی سورہ، کوئی آیت اور کوئی نقطہ مفہوم و معانی سے خالی نہیں ہے۔ اﷲ کے علوم لامتناہی ہیں۔ اﷲ کا منشاء یہ ہے کہ ہم لوگوں کو آگے بڑھتا دیکھ کر خود بھی قدم بڑھائیں اور اﷲ کی نعمتوں کے معمور خزانوں سے فائدہ اٹھائیں۔ قرآن پاک میں انبیاء سے متعلق جتنے واقعات بیان ہوئے ہیں ان میں ہمارے لئے اور تمام نوع انسانی کیلئے ہدایت اور روشنی ہے۔ کتاب محمد رسول اﷲ۔ جلد سوئم میں عظیمی صاحب نے مختلف انبیاء کرام کے واقعات میں روحانی نقطۂ نظر سے اﷲ تعالیٰ کی حکمت بیان فرمائی ہے۔