Topics
حضرت ابراہیم علیہ السلام کا واقعہ کائنات میں تفکر کی دعوت دیتا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قصے میں یہ بات وضاحت کے ساتھ بیان کی گئی ہے کہ اللہ کے فرستادہ بندے کس طرز فکر کے حامل ہوتے ہیں اور اس طرز فکر کے تحت ان سے کس قسم کے اعمال صادر ہوتے ہیں اور یہ کہ پیغمبرانہ طرز فکر کے تحت کئے گئے اعمال سے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور رضا ان کے شامل حال ہوتی ہے۔ حکم کی بجاآوری ان کا نصب العین ہوتا ہے، ہر حال میں شکر ادا کرنا ان کا طریق ہے، تفکر ان کا شعار بن جاتا ہے اور قربت الٰہی کا تصور ان کے اندر حق الیقین کا درجہ اس طرح حاصل کر لیتا ہے کہ وہ ہر لمحہ اللہ کو خود پر محیط دیکھتے ہیں، قرآن میں بیان کردہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قصے میں تفکر کرنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ تمام تجربات، مشاہدات اور محسوسات کا ماخذ ذہن ہے۔
جتنی ایجادات انسان سے صادر ہوتی ہیں وہ بھی ذہنی کاوش سے باہر نہیں ہیں، غور و فکر کرنے سے انسان کے ذہن میں وسعت پیدا ہوتی ہے اور کسی کلیہ یا کسی نئے علم کا انکشاف ہوتا ہے۔
انسان کے اندر انسان
نفس و دماغ سے متعلق روز افزوں انکشاف سے یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ انسان کا وجود دو حصوں میں تقسیم ہے ایک حصہ اس کی خارجی دنیا ہے اور دوسرا حصہ اس کے داخل میں واقع ہونے والی تحریکات ہیں۔ انسانی نفس کے یہ دونوں حصے ایک دوسرے سے گہرا رشتہ رکھتے ہیں، یہ بات بہرحال مسلمہ حقیقت ہے کہ انسان صرف جسمانی حرکات اور خارجی کیفیات کا نام نہیں ہے۔ انسان کے اندر مادی تحریکات سے آزاد ایک اور انسان ہے اور اس حقیقی انسان سے ہی تمام خیالات و افکار بندھے ہوئے ہیں۔ اہل روحانیت نے اس بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ اگر آدمی اپنے قلب اپنے من کے اندر سفر کرے تو اس کے اوپر اصل انسان یعنی روح کی قوتوں کا انکشاف ہو جاتا ہے۔
قرآن کریم اور آسمانی صحائف نے انسان کی غیر معمولی صفات کا تذکرہ کیا ہے کتب سماوی کے مطابق انسان بظاہر گوشت پوست سے مرکب ہے لیکن اس کے اندر ایسی انرجی یا ایسا جوہر کام کر رہا ہے جو خالق کی صفات کا عکس ہے انسانی صلاحیتوں کا اصل رخ اس وقت حرکت میں آتا ہے جب روحانی حواس متحرک ہو جاتے ہیں۔ یہ حواس ادراک و مشاہدات کے دروازے کھولتے ہیں جو عام طور سے بند رہتے ہیں انہی حواس سے انسان آسمانوں اور کہکشانی نظاموں میں داخل ہوتا ہے، غیبی مخلوقات اور فرشتوں سے اس کی ملاقات ہوتی ہے اور مظاہر کے پس پردہ حقائق اس پر منکشف ہوتے ہیں۔ یہ سب اس وقت ہوتا ہے جب حضرت ابراہیم علیہ السلام ،انبیائے کرام اور آخری نبی حضرت محمد ﷺ اور ان کے وارث اولیاء اللہ کی طرز فکر کے مطابق انسان زندگی گزارتا ہے۔
قانون یہ ہے کہ جب ہم کسی چیز کی طرف دیکھتے ہیں تو اس چیز سے خارج ہونے والی روشنیاں آنکھوں کے ذریعے دماغ کے معلوماتی ذخیرہ تک پہنچتی ہیں، ہم جس عمل کو دیکھنا کہتے ہیں دراصل ہمارا داخلی علم ہے۔ داخلی علم میں کسی جسمانی حرکت کو دخل نہیں، مشاہدات یعنی داخلی علم میں مادی اعضاء معطل رہتے ہیں، ہم جو کچھ دیکھتے ہیں ’’انا‘‘ کے دیکھنے کو دیکھتے ہیں۔ انا ہی کا جسم روح مثالی ہے یہی جسم خواب میں چلتا پھرتا اور سارے کام کرتا ہے۔ خواب میں جو جسم کام کرتا ہے اس کا عمل مثبت طرز عمل کا عکس ہے، اعمال کی دو قسمیں ہیں ایک قسم ان اعمال کی جو بغیر خاکی جسم کے انجام پاتے ہیں جیسے خواب کے اعمال۔دوسرے قسم کے اعمال وہ ہیں جو ہم بیداری میں خاکی جسم کے ساتھ انجام دیتے ہیں۔ ان اعمال کی ابتداء بھی ذہنی تحریکات سے ہوتی ہے یعنی ذہن کی رہنمائی کے بغیر خاکی جسم ہلکی سے ہلکی جنبش نہیں کر سکتا گویا داخلی تحریکات ہی زندگی کے اصل اعمال ہیں۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے اس میں کوئی سورہ، کوئی آیت اور کوئی نقطہ مفہوم و معانی سے خالی نہیں ہے۔ اﷲ کے علوم لامتناہی ہیں۔ اﷲ کا منشاء یہ ہے کہ ہم لوگوں کو آگے بڑھتا دیکھ کر خود بھی قدم بڑھائیں اور اﷲ کی نعمتوں کے معمور خزانوں سے فائدہ اٹھائیں۔ قرآن پاک میں انبیاء سے متعلق جتنے واقعات بیان ہوئے ہیں ان میں ہمارے لئے اور تمام نوع انسانی کیلئے ہدایت اور روشنی ہے۔ کتاب محمد رسول اﷲ۔ جلد سوئم میں عظیمی صاحب نے مختلف انبیاء کرام کے واقعات میں روحانی نقطۂ نظر سے اﷲ تعالیٰ کی حکمت بیان فرمائی ہے۔