Topics
تقریباً ہر گھر میں ڈیپ فریزر اور فرج موجود ہے۔ ہمیں اس بات کا مسلسل مشاہدہ ہے کہ چیزیں جب ٹھنڈی ہو کر منجمد ہو جاتی ہیں تو سڑتی گلتی نہیں ہیں۔ مخصوص گیسیں انہیں محفوظ رکھتی ہیں۔
جس طرح ہر تخلیق کا ہر فرد روشنی کے مفرد اور مرکب جال کے غلاف میں بند ہے۔ اسی طرح گیسوں پر بھی روشنی کے جال کا غلاف ہے۔ اور ہر گیس کی ماہیت اور مقدار کا تعین اسی روشنی کے غلاف سے ہوتا ہے۔ فرد کی حیات و ممات معین مقداروں پر قائم ہے۔ اس سارے نظام پر ایک اللہ حاکم ہے۔ زندگی کا ہر لمحہ اس کی حاکمیت کے تابع ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ اپنے برگزیدہ بندے حضرت عزیر علیہ السلام پر حیات و ممات کے فلسفے کی حقیقت ظاہر کرے تو اللہ تعالیٰ کی قدرت نے ان گیسوں کو یکجا کر دیا جس کے ذریعہ اشیاء ٹھنڈی ہو کر خراب نہیں ہوتیں۔
ہر شخص جانتا ہے کہ پہلے ایجاد کرنے کا خیال آتا ہے پھر مسلسل ریسرچ کے بعد ایجاد کا مظاہرہ ہوتا ہے ایسا ممکن نہیں کہ کوئی ایجاد خیال آئے بغیر اپنا مظاہرہ کر دے سائنس کی کوئی بھی ایجاد ہو پہلے سے عالم غیب میں موجود ہے۔
قانون یہ ہے کہ جب کسی ایک نقطے پر ذہن مرکوز ہو جاتا ہے تو اس نقطے میں مخفی خدوخال وجود کی شکل میں سامنے آ جاتے ہیں۔
موجودہ زمانے میں کھانے کو دو طریقوں سے محفوظ کیا جاتا ہے۔
۱۔ کھانے کو فریز کیا جاتا ہے۔
۲۔ اس کو ویکیوم یعنی ہوا کے بغیر پیک کیا جاتا ہے جس سے کھانا گلنے سڑنے سے محفوظ رہتا ہے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ کھانوں کے سالموں کی حرکت تیز ہو جاتی ہے جبکہ فریزر میں درجہ حرارت کم ہونے کی وجہ سے سالموں کی حرکت کم ہو جاتی ہے مالیکیولز کی حرکت تیز ہونے سے ہوا سے Contactبھی زیادہ ہوتا ہے۔ کم درجہ حرارت پر کیمیکل ایکشن کم ہوتا ہے اگر کسی بھی طریقے سے سالموں کی حرکت کم یا بہت کم کر دی جائے جیسا کہ فریزر میں فارن گیس کے ایکشن کی وجہ سے ہوتا ہے تو شئے کے مالیکیولز ایک دوسرے میں جذب ہو کر منجمد ہو جائیں گے اور شئے میں Foreign Bodiesداخل نہیں ہونگے۔
سانس کی سائنس
وقت کا تعلق حرکت سے ہے اگر شئے کی حرکت کو اس کی موجودہ حرکت سے سو گنا کم کر دیا جائے تو اس حرکت کی نسبت سے ٹائم گزرنے کی رفتار سو گنا کم ہو جائے گی مثلاً ہم ایک منٹ میں اٹھارہ مرتبہ سانس لیتے ہیں اگر ایک منٹ میں ایک سانس لیا جائے تو اٹھارہ سانس لینے کیلئے اٹھارہ منٹ درکار ہونگے لہٰذا ایک منٹ میں اٹھارہ مرتبہ سانس لینے میں وقت اٹھارہ گنا کم ہو جائے گا۔
حضرت عزیر علیہ السلام نے ایک سو سال میں اندازاً اتنے سانس لئے جتنے ایک دن میں لئے جاتے ہیں جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ کتنا عرصہ سوئے تو انہوں نے کہا کہ ایک دن یا اس سے کم۔
مثال: ایک دن میں چوبیس گھنٹے ہوتے ہیں چوبیس گھنٹوں میں ایک آدمی چوبیس ہزارنو سو بیس سانسیں لیتا ہے اس حساب سے اس نے سو سال سونے میں تقریباً نو ارب سانس لئے یعنی ٹائم کی رفتار نو ارب گنا زیادہ ہو گئی۔ اس طرح کھانے کے مالیکیولز کی حرکت بھی اتنی کم ہو گئی کہ وقت ٹھہر گیا اور کھانا خراب نہیں ہوا۔ رہا گدھے کا معاملہ تو اس کے لئے وقت ایسے ہی گزرا جیسا کہ اور چیزوں کیلئے گزرتا ہے اور وہ سو سال میں مرکھپ کر ہڈیوں کا ڈھانچہ رہ گیا۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے اس میں کوئی سورہ، کوئی آیت اور کوئی نقطہ مفہوم و معانی سے خالی نہیں ہے۔ اﷲ کے علوم لامتناہی ہیں۔ اﷲ کا منشاء یہ ہے کہ ہم لوگوں کو آگے بڑھتا دیکھ کر خود بھی قدم بڑھائیں اور اﷲ کی نعمتوں کے معمور خزانوں سے فائدہ اٹھائیں۔ قرآن پاک میں انبیاء سے متعلق جتنے واقعات بیان ہوئے ہیں ان میں ہمارے لئے اور تمام نوع انسانی کیلئے ہدایت اور روشنی ہے۔ کتاب محمد رسول اﷲ۔ جلد سوئم میں عظیمی صاحب نے مختلف انبیاء کرام کے واقعات میں روحانی نقطۂ نظر سے اﷲ تعالیٰ کی حکمت بیان فرمائی ہے۔