Topics
قرآن کریم میں مذکور حضرت اسماعیلؑ کا واقعہ ہمیں درس ہدایت دیتا ہے کہ اللہ کی خوشنودی کے لئے جب کوئی عمل کیا جاتا ہے تو اس کے نتائج رہتی دنیا تک قائم رہتے ہیں۔ بی بی ہاجرہؑ کا اللہ کی ذات پر توکل کر کے جنگل بیابان میں رہ جانا، پانی کی تلاش میں دو پہاڑیوں کے درمیان دوڑنا اللہ تعالیٰ کو اتنا پسند آیا کہ اللہ رب الرحیم نے بنجر زمین میں پانی کا چشمہ جاری کر دیا اور اس ایمان و ایقان کے عمل کو دہرانا ہر اس فرد پر لازم کر دیا گیا جو اللہ کے مقدس گھر کی زیارت عمرہ و حج کے لئے حاضر ہو۔
اس قصے میں بتایا گیا ہے کہ بندہ جب اس تعلق سے واقف ہو جاتا ہے جو اس کا اپنے خالق کے ساتھ ہے تو وہ اپنے ہر عمل کے پس پردہ کام کرنے والی مشیت سے آگاہ ہو جاتا ہے۔ ابلیسیت کا کوئی روپ اسے دھوکا نہیں دے سکتا۔ اس کے اندر ایمان اور یقین کی طرزیں مستحکم ہو جاتی ہیں۔ وہ جان لیتا ہے کہ ہر چیز اللہ کی طرف سے ہے اور اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانے والی ہے۔ ایسا مقرب بندہ ہر شئے کے اندر اللہ تعالیٰ کے جمال کا عکس دیکھتا ہے۔
حضرت اسماعیلؑ کا قربانی کے لئے آمادہ ہونا اس بات کا بے مثال ثبوت ہے کہ وہ مادی دنیا میں رہتے ہوئے مادیت سے ماورا عالمین سے واقف تھے۔ عالمین میں وارد ہونے والی کیفیات میں کسی شک اور وسوسے کی گنجائش نہیں ہوتی۔ حضرت اسماعیلؑ نے اپنے باپ کے خواب کو خیالی بات سمجھ کر رد نہیں کیا بلکہ ان کے خواب کو سچا خواب سمجھ کر اپنے رب کے حکم کی تعمیل میں خود کو قربانی کے لئے پیش کر دیا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ حضرت اسماعیلؑ خواب اور بیداری کے حواس سے مکمل واقفیت رکھتے تھے۔
قرآن میں تفکر رہنمائی کرتا ہے کہ حضرت اسماعیلؑ کے قصے میں دیگر بہت سی باتوں کے علاوہ عالم رویا اور خواب کی اہمیت کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔
خواب کی حقیقت
آیئے! خواب کے اجزاء ، خواب کی اہمیت اور خواب کی حقیقت تلاش کریں۔
جس عمل کو ہم خواب دیکھنا کہتے ہیں ہمیں روح اور روح کی صلاحیتوں کا سراغ دیتا ہے وہ اس طرح کہ ہم سوئے ہوئے ہیں ہمارے اعضاء معطل ہیں صرف سانس کی آمد و شد جاری ہے۔ لیکن خواب دیکھنے کی حالت میں ہم چل پھر رہے ہیں، باتیں کر رہے ہیں، سوچ رہے ہیں، غمزدہ اور خوش ہو رہے ہیں، کوئی کام ایسا نہیں ہے کہ جو ہم بیداری کی حالت میں کرتے ہیں اور خواب کی حالت میں نہیں کرتے۔
یہ اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ خواب دیکھنا اگر خیالی حرکات نہیں ہے تو جاگ اٹھنے کے بعد کئے ہوئے اعمال کا کوئی اثر باقی کیوں نہیں رہتا؟
ہر شخص کی زندگی میں ایک، دو، تین، چار، دس، بیس ایسے خواب ضرور نظر آتے ہیں کہ جاگ اٹھنے کے بعد یا تو غسل کرنے کی ضرورت پڑتی ہے یا کوئی ڈراؤنا خواب دیکھنے کے بعد اس کا خوف اور دہشت دل و دماغ پر مسلط ہو جاتی ہے یا جو کچھ خواب میں دیکھا ہے، وہی چند گھنٹے، چند دن، چند مہینے یا چند سال بعد من و عن بیداری کی حالت میں پیش آ جاتا ہے۔ چھ ارب کی انسانی آبادی میں ایک فرد واحد بھی ایسا نہیں ہے جس نے اس طرح کے ایک یا ایک سے زائد خواب نہ دیکھے ہوں۔ اس حقیقت کے پیش نظر اس بات کی تردید ہو جاتی ہے کہ خواب محض خیال ہے۔
بیداری یا خواب دونوں حالتوں میں اہمیت اس بات کی ہے کہ ہم اس دوران انجام پذیر کام کی طرف کس قدر متوجہ ہوتے ہیں۔
بیداری ہو یا خواب ہمارا ذہن کسی چیز کی طرف یا کسی کام کی طرف متوجہ ہے تو اس کی اہمیت ہے ورنہ بیداری اور خواب دونوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔
بیداری کا بڑے سے بڑا وقفہ بے خیالی میں گزرتا ہے اور خواب کا بھی بہت سا حصہ بے خبری میں گزر جاتا ہے۔ کتنی ہی مرتبہ خواب کی بڑی اہمیت ہوتی ہے اور کتنی ہی مرتبہ بیداری کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔
بیداری ہو یا نیند دونوں کا تعلق حواس سے ہے۔ ایک حالت میں یا ایک کیفیت میں حواس کی رفتار تیز ہو جاتی ہے اور ایک حالت یا کیفیت میں حواس کی رفتار کم ہو جاتی ہے لیکن حواس کی نوعیت نہیں بدلتی۔ بیداری ہو یا خواب دونوں میں ایک ہی طرح کے اور ایک ہی قبیل کے حواس کام کرتے ہیں۔ بیداری اور نیند دراصل دماغ کے اندر دو خانے ہیں۔ انسان کے اندر دو دماغ ہیں۔ ایک دماغ میں جب حواس متحرک ہوتے ہیں تو ان کا نام بیداری ہے دوسرے دماغ میں جب حواس متحرک ہوتے ہیں تو اس کا نام نیند ہے یعنی ایک ہی حواس بیداری اور نیند میں رد و بدل ہو رہے ہیں اور حواس کا رد و بدل ہونا ہی زندگی ہے۔ بیداری میں حواس کے کام کرنے کا طریقہ اور قاعدہ یہ ہے کہ آنکھ کے ڈیلے پر پلک کی ضرب پڑتی ہے تو حواس کام کرنا شروع کر دیتے ہیں یعنی انسان نیند کے حواس سے نکل کر بیداری کے حواس میں داخل ہو جاتا ہے۔
خواب کے عالم میں انسان کھاتا، پیتا اور چلتا پھرتا ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ روح گوشت پوست کے جسم کے بغیر بھی حرکت کرتی ہے اور چلتی پھرتی ہے۔ روح کی یہ صلاحیت جو صرف رویا میں کام کرتی ہے ہم کسی خاص طریقے سے اس کا سراغ لگا سکتے ہیں اور اس صلاحیت کو بیداری میں استعمال کر سکتے ہیں۔ انبیاء علیہم السلام کا علم یہیں سے شروع ہوتا ہے اور یہی وہ علم ہے جس کے ذریعے انبیاء کرام نے اپنے شاگردوں کو یہ بتایا ہے کہ پہلے انسان کہاں تھا اور اس عالم ناسوت کی زندگی پوری کرنے کے بعد وہ کہاں چلا جاتا ہے۔
ان غیبی کوائف کا مشاہدہ کرنے کے لئے تمام برگزیدہ ہستیوں، انبیاء اور رسولوں نے تفکر سے کام لیا ہے اور اپنے شاگردوں کو بھی اجزائے کائنات میں تفکر کی تعلیم دی ہے۔ یہ نہ سمجھا جائے کہ مرتبہ پیغمبری کوشش سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ یہ اللہ کا خصوصی فضل ہے جو وہ کسی بندے پر کرتے ہیں۔ سلسلہ رسالت و نبوت ختم ہو گیا ہے لیکن الہام اور روشن ضمیری کا فیضان جاری ہے۔
کتاب:( لوح و قلم)
خواجہ شمس الدین عظیمی
قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے اس میں کوئی سورہ، کوئی آیت اور کوئی نقطہ مفہوم و معانی سے خالی نہیں ہے۔ اﷲ کے علوم لامتناہی ہیں۔ اﷲ کا منشاء یہ ہے کہ ہم لوگوں کو آگے بڑھتا دیکھ کر خود بھی قدم بڑھائیں اور اﷲ کی نعمتوں کے معمور خزانوں سے فائدہ اٹھائیں۔ قرآن پاک میں انبیاء سے متعلق جتنے واقعات بیان ہوئے ہیں ان میں ہمارے لئے اور تمام نوع انسانی کیلئے ہدایت اور روشنی ہے۔ کتاب محمد رسول اﷲ۔ جلد سوئم میں عظیمی صاحب نے مختلف انبیاء کرام کے واقعات میں روحانی نقطۂ نظر سے اﷲ تعالیٰ کی حکمت بیان فرمائی ہے۔