Topics
ان کی انگوٹھی پر یہ عبارت کندہ تھی:
’’اللہ پر ایمان کے ساتھ ساتھ صبر فتح مندی کی علامت ہے۔
کمر سے باندھنے والے پٹکے پر تحریر تھا:
’’حقیقی عیدیں اللہ تعالیٰ کے فرائض کی حفاظت میں مخفی ہیں اور دین کا کمال شریعت سے وابستہ ہے اور مروت میں کمال دین کی تکمیل ہے۔‘‘
نماز جنازہ کے وقت ایک پٹکہ باندھتے تھے اس پر یہ جملے تحریر تھے:
’’سعادت مند وہ ہے جو اپنے نفس کی نگرانی کرتا ہے اللہ کے سامنے انسان کے شفیع اس کے نیک اعمال ہیں۔‘‘
حکمت:
حضرت ادریسؑ کی بیان کردہ حکمت اور ان کے علوم پر تفکر کیا جائے تو منکشف ہوتا ہے کہ اللہ کی تفویض کردہ امانت صرف انسان کے پاس ہے امانت، خلافت و نیابت کے علوم اور تسخیر کائنات کے فارمولے ہیں، ان فارمولوں سے انسان کے اندر تخلیقی صلاحیتیں بیدار ہو گئی ہیں۔ آدم زاد ان صلاحیتوں کے ذریعے نفع اور نقصان کے دونوں کام کر سکتا ہے۔ طرز فکر اگر صحیح ہے اور انبیائے کرام اور ان کے وارث اولیاء اللہ سے ہم آہنگ ہے تو جو بھی عمل صادرہوتا ہے یا جو بھی نئی تخلیق سامنے آتی ہے وہ مخلوق کے لئے سکون، آرام، راحت اور خوشی کا باعث ہوتی ہے اور طرز فکر اگر محدود ہے ذاتی منفعت اور انفرادی اغراض کے خول میں بند ہے تو تخلیقی صلاحیتوں کا استعمال کسی بھی طرح اجتماعی طور پر یا انفرادی حیثیت سے نوع انسانی کے لئے فائدہ مند نہیں ہے۔ انبیاء کرام کی طرز فکر میں یہ بات راسخ ہوتی ہے کہ ہمارا مالک و مختار اللہ ہے۔ ہر شئے سے دوسری شئے کا رشتہ اللہ کی معرفت قائم ہے، انبیاء کرام کی سوچ لامحدود ہوتی ہے۔ اللہ کے فرستادہ بندوں کی طرز فکر سے جو تخلیقات ظہور میں آتی ہیں ان سے مخلوق کو فائدہ ہوتا ہے، انبیاء کرام مظاہر ک پس پردہ کام کرنے والی حقیقت سے باخبر ہوتے ہیں، حقیقت میں انتشار نہیں ہوتا، حقیقت کے اوپر غم اور خوف کے سائے نہیں منڈلاتے، حقیقی دنیا سے متعارف بندے ہمیشہ پرسکون رہتے ہیں۔ حقیقی علوم سے واقف برگزیدہ ہستیوں کے بتائے گئے سسٹم پر عمل کرنے سے نوع انسانی کو سکون ملتا ہے۔ قرآن پاک کی سورۃ بقرہ کی پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’یہ کتاب ان لوگوں کے لئے ہدایت ہے جو متقی ہیں اور متقی وہ لوگ ہیں جو غیب پر یقین رکھتے ہیں، غیب پر یقین رکھنے سے مراد غیب کا مشاہدہ ہے، یقین کی تکمیل مشاہدہ کے بغیر نہیں ہوتی۔‘‘
زمین ہماری ماں ہے:
زمین ایک قاعدہ اور ضابطہ کے تحت ہمیں رزق فراہم کر رہی ہے ہم مکان بناتے ہیں تو زمین ہمیں مکان بنانے سے منع نہیں کرتی، زمین اتنی سنگلاخ اور سخت جان نہیں بن جاتی کہ ہم اس میں کھیتیاں نہ اگا سکیں، اتنی نرم نہیں بن جاتی کہ ہم زمین کے اوپر چلیں تو ہمارے پیر دھنس جائیں، سورج اور چاند ہماری خدمت گذاری میں مصروف ہیں، باقاعدہ اپنی ڈیوٹی انجام دے رہے ہیں، چاند کی چاندنی سے پھلوں میں مٹھاس پیدا ہوتی ہے اور سورج کی گرمی سے میوے پکتے ہیں الغرض کائنات کی ہر جز اپنا اپنا کردار ادا کر رہی ہے اور اس عمل سے ہمیں اختیاری اور غیر اختیاری فائدہ پہنچ رہا ہے۔ یہ ایک تسخیری عمل ہے جو سب کے لئے یکساں ہے۔
تسخیر کائنات:
اصل تسخیر یہ ہے کہ آدمی اپنے ارادے کے تحت سمندر سے دریاؤں سے، پہاڑوں سے، چاند سے، زمین سے، سورج سے اور دیگر اجزائے کائنات سے استفادہ کرے اور اس سے بھی اعلیٰ تسخیر یہ ہے کہ سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام انگلی سے اشارہ کر دیں اور چاند دو ٹکڑے ہو جائے۔ حضرت عمر فاروق دریائے نیل کو پیغام بھیج دیں کہ:
’’اگر تو اللہ کے حکم سے چل رہا ہے تو سرکشی سے باز آ جا ورنہ عمر کا کوڑا تیرے لئے کافی ہے۔‘‘
اور پھر دریائے نیل کی روانی میں کبھی تعطل نہ ہو۔ ایک شخص نے حضرت عمر فاروقؓ سے شکایت کی:
’’یا امیر المومنین! میں زمین پر محنت کرتا ہوں، بیج ڈالتا ہوں اور جو کچھ زمین کی ضروریات ہیں انہیں پورا کرتا ہوں لیکن بیج سوکھ جاتا ہے۔‘‘
حضرت عمرؓ نے فرمایا! میرا اس طرف سے گزر ہو تو بتانا۔ حضرت عمرؓ جب ادھر سے گزرے تو ان صاحب نے زمین کی نشاندہی کی۔
حضرت عمرؓ تشریف لے گئے اور زمین پر کوڑا مار کر فرمایا کہ: ’’تو اللہ کے بندے کی محنت کو ضائع کرتی ہے جبکہ وہ تیری ساری ضروریات کو پوری کرتا ہے۔‘‘ اس کے بعد زمین لہلہاتے کھیت میں تبدیل ہو گئی۔ یہ ساری کائنات اللہ نے انسان کے لئے تخلیق کی ہے، کائنات کے تمام اجزاء بشمول انسان اور انسان کے اندر کام کرنے والی تمام صلاحیتیں ایک مرکزیت پر قائم ہیں۔ روحانی علوم کی روشنی میں انسان کے اندر اللہ کی عطا کردہ گیارہ ہزار صلاحیتیں ہیں، ہر صلاحیت ایک علم ہے اور یہ علم شاخ در شاخ لامحدود ہے۔
٭٭٭٭٭
خواجہ شمس الدین عظیمی
قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے اس میں کوئی سورہ، کوئی آیت اور کوئی نقطہ مفہوم و معانی سے خالی نہیں ہے۔ اﷲ کے علوم لامتناہی ہیں۔ اﷲ کا منشاء یہ ہے کہ ہم لوگوں کو آگے بڑھتا دیکھ کر خود بھی قدم بڑھائیں اور اﷲ کی نعمتوں کے معمور خزانوں سے فائدہ اٹھائیں۔ قرآن پاک میں انبیاء سے متعلق جتنے واقعات بیان ہوئے ہیں ان میں ہمارے لئے اور تمام نوع انسانی کیلئے ہدایت اور روشنی ہے۔ کتاب محمد رسول اﷲ۔ جلد سوئم میں عظیمی صاحب نے مختلف انبیاء کرام کے واقعات میں روحانی نقطۂ نظر سے اﷲ تعالیٰ کی حکمت بیان فرمائی ہے۔