Topics
’’اللہ نے پسند کیا کہ آدم کو اور نوح کو اور آل ابراہیم کو اور آل عمران کو سارے جہاں سے کہ اولاد تھے ایک دوسرے کی اور اللہ سنتا جانتا ہے۔‘‘
(سورۃ آل عمران: ۳۳۔۳۴)
عمران کا تعلق ابو الانبیاء حضرت ابراہیمؑ کے دوسرے فرزند حضرت اسحٰقؑ کی نسل سے ہے۔ عمران کی زوجہ یوکبد(Jochebed) ایک پاک طنیت اور رفیع الشان خاتون تھیں۔ آپ کے بطن سے دو عظیم المرتبت اور جلیل القدر پیغمبر حضرت ہارونؑ اور حضرت موسیٰ ؑ دنیا میں تشریف لائے۔ حضرت ہارونؑ بڑے اور حضرت موسیٰ ؑ چھوٹے بھائی تھے۔ حضرت ہارونؑ حضرت موسیٰ ؑ سے تین برس بڑے تھے۔ مصر میں پیدا ہوئے اور وہیں پرورش پائی۔ نہایت منکسر المزاج، حلیم الطبع، بردبار، شیریں گفتار اور فصیح البیان تھے۔
نبوت سے سرفراز ہونے کے بعد آپ تمام عمر حضرت موسیٰ ؑ کے ساتھ رہے۔ حضرت موسیٰ ؑ کے قدم بہ قدم دین حق کی تبلیغ میں سرگرم عمل رہے۔ توحید کے راستے میں شر کے نمائندوں کی طرف سے کھڑی کی گئی رکاوٹوں کو دور کرنے میں بھائی کا ساتھ دیتے تھے۔
مصر میں فرعون کی حکومت تھی۔ فرعون نہایت ظالم اور جابر حکمران تھا اور خود کو خدا کہلواتا تھا۔ اپنی مرضی سے جسے چاہتا سخت سے سخت سزائیں دیتا، جسے چاہتا موت کے گھاٹ اتار دیتا۔ بنی اسرائیل مصر میں غلاموں سے بدتر زندگی گزارتے تھے۔ مصری ان سے ہر طرح کے کام کرواتے۔ بنی اسرائیل ذلت کی روٹی کھانے پر مجبور تھے۔
حضرت موسیٰ ؑ اپنے اہل و عیال کے ہمراہ جب واپس مصر کی طرف روانہ ہوئے تو جبل طور کے قریب راستہ بھول گئے۔ اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو منصب نبوت پر فائز کیا تھا، معجزات سے نوازا اور ہدایت کی کہ مصر جا کر فرعون کو اس کے ظلم و ستم سے باز آنے کی تلقین کریں اور اس سے کہو کہ خدائی کا دعویٰ کرنا چھوڑ دے اور بنی اسرائیل کو غلامی سے آزاد کر دے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بارگاہ ایزدی میں دعا کی۔
’’میرے پروردگار! میں تو ان کا ایک آدمی قتل کر چکا ہوں، ڈرتا ہوں کہ وہ مجھے مار ڈالیں گے۔ اور میرا بھائی ہارونؑ مجھ سے زیادہ فصیح البیان ہے۔ اسے میرے ساتھ مددگار کے طور پر بھیج تا کہ وہ میری تائید کرے، مجھے اندیشہ ہے کہ وہ لوگ مجھے جھٹلائیں گے۔‘‘
(القصص: ۳۳۔۳۴)
بارگاہ رب العالمین میں دعا قبول ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے حضرت ہارونؑ کو منصب نبوت پر فائز کیا اور دین حق کی تبلیغ و ترویج کے سلسلے میں حضرت ہارونؑ کو حضرت موسیٰ ؑ کا مددگار منتخب کیا۔
’’ہم تیرے بھائی کے ذریعے سے تیرا ہاتھ مضبوط کریں گے اور تم دونوں کو ایسی سطوت بخشیں گے کہ وہ تمہارا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے۔ ہماری نشانیوں کے زور سے غلبہ تمہارا اور تمہارے پیروکاروں کا ہی ہو گا۔‘‘
(سورۃ القصص: ۳۵)
’’اور ہم نے اپنی رحمت سے ان کو (موسیٰ کو) ان کا بھائی ہارونؑ پیغمبر عطا کیا۔‘‘
(سورۃ مریم: ۵۳)
’’اور ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا کی اور ان کے بھائی ہارونؑ کو وزیر بنا کر ان کے ساتھ کیا۔ ‘‘(سورۃ الفرقان: ۳۵)
حضرت موسیٰ مصر پہنچے اور حضرت ہارونؑ سے ملاقات کی۔ دونوں بھائی فرعون کے دربار میں پہنچے اور فرعون سے کہا کہ خدائی دعویٰ سے تائب ہو کر اس خدا کی پرستش کرے جس نے آسمان، زمین اور ان کے درمیان جو کچھ موجود ہے تخلیق کیا ہے اور بنی اسرائیل پر ظلم و ستم بند کر کے انہیں آزاد کر دے۔ فرعون پیغام حق کو ماننے سے یکسر منکر ہو گیا اور کہنے لگا۔ اگر تم نے مجھے خدا نہ مانا تو میں تمہیں قید کر دوں گا۔ اللہ کے پیغمبر حضرت موسیٰ اور حضرت ہارونؑ فرعون کی باتوں سے مطلق مرعوب نہ ہوئے اور اللہ تعالیٰ کے پیغام کو دہرایا۔ فرعون نے رسالت خداوندی کی نشانیاں طلب کیں۔ حضرت موسیٰ نے اللہ کی طرف سے عطا کردہ عصا اور ید بیضا کے معجزات دکھائے۔ لیکن سیاہ دل فرعون ان واضح نشانیوں کو دیکھ کر بھی ایمان نہ لایا اور کہنے لگا یہ تو محض سحر اور جادو ہے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام کے ہاتھوں جادوگروں کی شکست کے باوجود فرعون اپنی سرکشی سے باز نہ آیا۔ اس نے بنی اسرائیل پر اور زیادہ ظلم کرنا شروع کر دیا اور بنی اسرائیل کے لڑکوں کو قتل کرنے کا حکم دے کر پورے مصر میں قتل و غارت گری کا بازار گرم کر دیا۔ قہر خداوندی حرکت میں آیا اور اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہوا۔
تین سال مصر میں قحط سالی رہی بالآخر قوم حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام کے پاس پہنچی اور معافی طلب کی۔
حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت ہارونؑ نے انہیں معاف کر دیا اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کی۔ دعا قبول ہوئی اور عذاب ختم ہو گیا لیکن فرعون اور اس کی قوم نافرمانی اور منافقت پر قائم رہی۔
’’اور ہم نے پکڑ لیا فرعون والوں کو قحطوں میں اور میووں کے نقصان میں شاید وہ دھیان کریں اور جب برا زمانہ آتا تو موسیٰ ؑ اور اس کے ساتھیوں کو اپنے لئے فال بد ٹھہراتے، حالانکہ درحقیقت ان کی فال بد تو اللہ کے پاس تھی۔ مگر ان میں سے اکثر بے علم تھے۔
انہوں نے موسیٰ ؑ سے کہا! ’ جو کچھ تو لائے گا ہمارے پاس نشانی کہ ہم پر اس کی وجہ سے جادو کرے سو ہم ہرگز تم پر ایمان نہ لائیں گے۔‘ آخر کار ہم نے ان پر طوفان بھیجا اور ٹڈی ، سرسریاں پھیلائیں، مینڈک نکالے اور خون برسایا یہ سب نشانیاں الگ الگ کر کے دکھائیں مگر پھر بھی وہ لوگ تکبر کرتے رہے اور تھے وہ لوگ گنہگار۔‘‘
(سورۃ اعراف: ۱۳۰۔۱۳۳)
خواجہ شمس الدین عظیمی
قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے اس میں کوئی سورہ، کوئی آیت اور کوئی نقطہ مفہوم و معانی سے خالی نہیں ہے۔ اﷲ کے علوم لامتناہی ہیں۔ اﷲ کا منشاء یہ ہے کہ ہم لوگوں کو آگے بڑھتا دیکھ کر خود بھی قدم بڑھائیں اور اﷲ کی نعمتوں کے معمور خزانوں سے فائدہ اٹھائیں۔ قرآن پاک میں انبیاء سے متعلق جتنے واقعات بیان ہوئے ہیں ان میں ہمارے لئے اور تمام نوع انسانی کیلئے ہدایت اور روشنی ہے۔ کتاب محمد رسول اﷲ۔ جلد سوئم میں عظیمی صاحب نے مختلف انبیاء کرام کے واقعات میں روحانی نقطۂ نظر سے اﷲ تعالیٰ کی حکمت بیان فرمائی ہے۔