Topics
حضرت طالوت علیہ السلام کا تعلق قبیلہ بن یمین سے تھا۔ جو بیت لحم کے قریب ایک وادی زیفام میں آباد تھا۔ نہایت وجیہہ اور قد آور تھے۔ غریب خاندان کے فرد تھے۔ حضرت طالوت علیہ السلام کے والد قیس کے گدھے گم ہو گئے۔ آپ انہیں تلاش کرنے نکلے تو حضرت سموئیلؑ سے ملاقات ہو گئی۔ حضرت سموئیلؑ نے انہیں سینے سے لگایا۔ خوب خاطر مدارات کی۔ سر پر مقدس تیل کی مالش کی، پیشانی کو بوسہ دیا اور فرمایا!
’’خداوند نے تجھے مسح کیا تا کہ تو اس کی میراث کا پیشوا ہو۔‘‘
حضرت سموئیلؑ کے دو بیٹے تھے ایک کا نام جیوئیل(Joel) اور دوسرے کا نام ابیاہ (Abiah) تھا۔ دونوں بیٹے قاضی کے اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے لیکن طمع اور ہوس نے انہیں راہ راست سے دور کر دیا تھا وہ انصاف کے تقاضے پورے نہیں کرتے تھے۔
کتاب سموئیل کے پہلے باب میں ہے:
’’اس کے بیٹے اس کی راہ پہ نہ چلے، وہ نفع کے لالچ سے رشوت لیتے تھے اور انصاف کا خون کر دیتے تھے۔‘‘
اس زمانے میں مصر اور فلسطین کے درمیان بحر روم پر آباد عمالقہ میں سے جالوت نامی جابر و ظالم حکمران تھا جس نے آبادیوں پر قبضہ کر کے لوگوں کو غلام بنا لیا تھا۔ سرداروں اور معزز افراد کو گرفتار کر کے ساتھ لے گیا۔ جبکہ باقی مغلوب افراد پر خراج مقرر کر دیا۔
بنی اسرائیل کے سردار جمع ہو کر حضرت سموئیل کے پاس آئے اور مطالبہ کیا کہ ان کے لئے بادشاہ کا تقرر کیا جائے۔ حضرت سموئیلؑ بنی اسرائیل کی سیماب صفت طبیعت سے واقف تھے۔ آپ نے انہیں منع کیا لیکن جب لوگوں نے بہت زیادہ اصرار کیا تو آپ نے حضرت طالوت علیہ السلام کو ان کا بادشاہ مقرر کر دیا۔ بنی اسرائیل نے اعتراض کیا کہ حضرت طالوت علیہ السلام نادار اور غریب خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ کبھی ان کے پاس جاہ و حشم نہیں رہا۔ ایسے شخص کو سرداری کا منصب نہیں دیا جا سکتا۔ حضرت سموئیلؑ نے کہا حضرت طالوت علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے فضیلت دی ہے اور انہیں علم و حکمت سے نوازا ہے۔ انہیں طاقت عطا کی ہے۔
وعدے سے انحراف
’’کیا تم نے بنی اسرائیل کی ایک جماعت کو نہیں دیکھا جس نے موسیٰ ؑ کے بعد اپنے پیغمبر سے کہا کہ آپ ہمارے لئے ایک بادشاہ مقرر کر دیں۔ تا کہ ہم خدا کی راہ میں جہاد کریں۔ پیغمبر نے کہا کہ اگر تم کو جہاد کا حکم دیا جائے تو عجب نہیں کہ تم لڑنے سے پہلو تہی کرو، وہ کہنے لگے کہ ہم خدا کی راہ میں کیوں نہ لڑینگے جبکہ ہم وطن اور بال بچوں سے دور کر دیئے گئے ہیں لیکن جب ان کو جہاد کا حکم دیا گیا تو چند لوگوں کے سوا سب پھر گئے۔ اور خدا ظالموں سے خوب واقف ہے اور ان کے پیغمبر نے ان سے کہا کہ خدا نے تم پر طالوت کو بادشاہ مقرر کیا ہے، بولے کہ اسے ہم پر بادشاہی کا حق کیسے مل سکتا ہے۔ جبکہ ہم اس کی نسبت حکومت کے زیادہ حقدار ہیں۔ اور اسے مالی فراخی بھی عطا نہیں ہوئی۔ اس نے کہا! اللہ نے اسے تم پر یقیناً فوقیت دی ہے اور اسے علمی اور جسمانی لحاظ سے فراخی عطا کی ہے، اللہ جسے چاہے بادشاہی دے اور اللہ کشائش دینے والا اور بہت جاننے والا ہے۔‘‘
(سورۃ البقرہ: ۲۴۶۔۲۴۷)
’’اور کہا ان کو ان کے نبی نے نشان اس سلطنت کا یہ ہے کہ آوے تم کو صندوق جس میں ہے دل جمعی تمہارے رب کی طرف سے اور کچھ بچی چیزیں جو چھوڑ گئے موسیٰ ؑ اور ہارونؑ کی اولاد، اٹھا لاویں اس کو فرشتے۔ اس میں نشانی پوری ہے تم کو اگر یقین رکھتے ہو۔‘‘
(سورۃ البقرہ۔ ۲۴۸)
خواجہ شمس الدین عظیمی
قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے اس میں کوئی سورہ، کوئی آیت اور کوئی نقطہ مفہوم و معانی سے خالی نہیں ہے۔ اﷲ کے علوم لامتناہی ہیں۔ اﷲ کا منشاء یہ ہے کہ ہم لوگوں کو آگے بڑھتا دیکھ کر خود بھی قدم بڑھائیں اور اﷲ کی نعمتوں کے معمور خزانوں سے فائدہ اٹھائیں۔ قرآن پاک میں انبیاء سے متعلق جتنے واقعات بیان ہوئے ہیں ان میں ہمارے لئے اور تمام نوع انسانی کیلئے ہدایت اور روشنی ہے۔ کتاب محمد رسول اﷲ۔ جلد سوئم میں عظیمی صاحب نے مختلف انبیاء کرام کے واقعات میں روحانی نقطۂ نظر سے اﷲ تعالیٰ کی حکمت بیان فرمائی ہے۔