Topics
دیکھا جائے تو قدرت نے ہمارے مشاہداتی یقین کی تسکین کے پورے پورے مواقع فراہم کر دیئے ہیں، سمندر کی صورت میں آواز کی لہروں کا سسٹم ہمارے سامنے ہے۔ سطح سمندر پر موجیں ایک کنارے سے دوسرے کنارے پر تو اتر کے ساتھ سفر کرتی ہیں۔ ان لہروں کے مدوجزر میں جب ہوا کی قوت شامل ہو جاتی ہے تو طغیانی کی صورت میں ساحل سمندر پر موجوں کی آواز میں دوسری آوازیں ڈوب جاتی ہیں، سطح سمندر میں جتنا شور ہے سمندر کی گہرائی میں اتنی ہی خاموشی ہے، آواز کی لہریں گہرائی سے ابھر کر سطح سمندر پر اپنا مظاہرہ کرتی ہے، گہرائی میں آواز کو چونکہ ہماری سماعت سن نہیں سکتی اس لئے ہم اسے خاموش آواز کہہ دیتے ہیں، سطح پر آ کر جب آواز کی لہریں ٹوٹ کر بکھرتی ہیں تو ہماری سماعت میں یہ لہریں داخل ہو جاتی ہیں، ہو سکتا ہے کہ سائنس دان جس تھیوری کو Big Bangکہتے ہیں وہ ان کے لاشعور کی آواز ہو اور ان کے لاشعور نے ’’کن‘‘ کی نشاندہی کی ہو۔
’’کن‘‘ کی آواز مخفی آواز ہے، یہ مخفی آواز جب کائنات کے نقطے میں داخل ہوئی تو کائنات کے ذرے ذرے میں زندگی بن کر سما گئی، ہر زون میں آواز کی لہریں اپنی مخصوص مقداروں اور فریکوئنسی کے ساتھ کام کر رہی ہیں، کائنات کا پورا سسٹم اطلاعات پر کام کر رہا ہے اور اطلاعات کی ترسیل ’’کن‘‘ پر ہو رہی ہے۔ یہی اطلاعات شعور میں داخل ہو کر حواس بنتی ہیں، اطلاعات لہروں کا مجموعہ ہیں، آواز سریلی ہویا کرخت لہروں کے تانے بانے پر نقش ہوتی ہے۔ اطلاعات لاشعور یا غیب سے انفرادی شعور میں آتی ہیں۔ چنگھاڑ یا صور آواز کی ایسی لہر ہے جو انفرادی شعور کی سکت سے زیادہ ہے، زیادہ کرخت آواز چنگھاڑ بن جاتی ہے، چنگھاڑ آواز کی ایسی لہروں کا مجموعہ ہے جو زندگی میں کام کرنے والی لہروں کو درہم برہم کر دیتی ہے، شعور بکھر جاتا ہے، آدمی بھس کی طرح ہو جاتا ہے جب لہری نام ٹوٹ جاتا ہے تو زندگی موت میں تبدیل ہو جاتی ہے، چنگھاڑ آواز کی ایسی لہر ہے جو سماعت کے سسٹم کو توڑ دیتی ہے، سسٹم کا ٹوٹنا حواس کا ٹوٹنا ہے۔ عام حالات میں دیکھا گیا ہے کہ ’’دھماکہ‘‘ سے سماعت ختم ہو جاتی ہے، کان کے پردے پھٹ جاتے ہیں۔
ایسے ایٹم بم بن گئے ہیں کہ بم کے دھماکہ سے ہزاروں لوگ مر جاتے ہیں اور پہاڑ دھواں بن جاتے ہیں، دھماکوں سے دیو ہیکل پہاڑوں میں شگاف ڈال دیئے جاتے ہیں، آواز جہاں خوشی کا ذریعہ ہے، آواز پریشانی اور تکلیف کا باعث ہوتی ہے خلاء میں ایک جال ہے جو گراف سے بنا ہوا ہے اس گراف میں شمال، جنوب مشرق، مغرب لہریں اس جال میں دوڑتی رہتی ہیں یہی لہریں ہماری آواز کو ایک دوسرے تک پہنچاتی رہتی ہیں کسی بھی قسم کی حرکت Movementسے ہوا میں تھرتھراہٹ یا ارتعاشی لہریں پیدا ہو جاتی ہیں اور انہیں لہروں سے آواز بنتی ہے، ابلتے ہوئے چشمے، گرتے ہوئے آبشار، چھم چھم کرتی ہوئی بوندیں، بادلوں کی گرج، بجلی کی کڑک، زمین کی سوندھی خوشبو، سر سر کرتے ہوئے پتے، اڑتے ہوئے پرندے، زمین پر چلنے پھرنے والے جانور اور خود انسان اور انسان کی بنائی ہوئی لاتعداد مشینیں سب ہی آواز کے ماخذ ہیں۔
کہیں بھی کوئی حرکت رونما ہوتی ہے تو ہوا کے سالمے متحرک ہو کر آواز پیدا کرتے ہیں۔ ہم جب چٹکی بجاتے ہیں تو ہماری انگلیوں سے صوتی سالمے نکل کر ہوا میں ارتعاش پیدا کر دیتے ہیں، دکھائی نہ دینے والی یہ ارتعاشی کیفیت ہمارے کانوں کو سگنل دیتی ہے اور دماغ اس آواز کو قبول کر لیتا ہے، انسانی کان ہر آواز نہیں سن سکتے۔ ایک عام آدمی کے کان صرف مخصوص فریکوئنسی کی آوازیں سن سکتے ہیں، انسانی سماعت سے باہر کی آوازوں کو سائنسدان خاموش آوازیں Ultrasonicکہتے ہیں۔
’موج‘ مخصوص فاصلے کو اوپر نیچے حرکت کرتے ہوئے طے کرتی ہے، یہ طول موج کہلاتا ہے، طول موج میں ایک حرکت اوپر کی طرف ہوتی ہے جسے فراز کہتے ہیں اور ایک حرکت نیچے کی طرف ہوتی ہے جو نشیب کہلاتا ہے۔
ایک مرتبہ نیچے اور ایک مرتبہ اوپر(نشیب وفراز) دونوں حرکتیں مل کر ایک چکر (Cycle) پورا کرتی ہیں اور ایک سیکنڈ میں کسی موج کے جتنے سائیکل گزر جاتے ہیں وہ موج کی فریکوئنسی کہلاتی ہے، طول موج زیادہ ہو تو فریکوئنسی کم ہوتی ہے جب کہ طول موج کم ہونے کی صورت میں فریکوئنسی زیادہ ہوتی ہے۔
* تالاب میں جب پتھر پھینکا جاتا ہے تو پانی کی سطح پر موجیں پیدا ہوتی ہیں جو پتھر کے گرنے کے مقام سے تالاب کے کناروں کی طرف حرکت کرتی ہیں، تالاب کی سطح پر اگر کوئی پتہ ہو اور اس کی حرکت کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ پتہ اپنی اصل پوزیشن پر رہتے ہوئے اوپر نیچے حرکت کر رہا ہے۔ پتے کی اوپر نیچے حرکت پانی کی سطح پر پیدا ہونے والی موجوں کی طول موج ہے یعنی دو مسلسل فرازوں یا مسلسل نشیبوں کا درمیانی فاصلہ طول موج کہلاتا ہے اور کسی واسطہ کے ایک نقطہ سے ایک سیکنڈ میں گزرنے والے نشیبوں اور فرازوں کی تعداد موج کی فریکوئنسی کہلاتی ہے، چمگاڈر رات کی تاریکی میں اڑتے ہوئے مسلسل ایسی آوازیں نکالتا ہے جنہیں انسانی کان سننے سے قاصر ہیں۔ جب یہ خاموش آوازیں ارد گرد کی چیزوں سے ٹکرا کر واپس چمگاڈر کے کانوں تک پہنچتی ہیں تو وہ پتہ لگا لیتا ہے کہ ارد گرد کیا کچھ موجود ہے۔ اس طرح وہ اپنی آواز اور سماعت کی مدد سے دیوار، درختوں، انسانوں، جانوروں اور دیگر اشیاء کو پہچان لیتا ہے لیکن انسانی سماعت کی حد سے بہت زیادہ فریکوئنسی ہونے کی وجہ سے ہم یہ آوازیں نہیں سنتے۔ ایسی آوازوں کو سائنسدان ’’الٹراسانک‘‘ آوازیں کہتے ہیں۔
الٹراسانک آوازیں
الٹرا سانک آوازیں برطانیہ کے سائنسدان سر فرانس گالٹن نے ۱۸۸۴ء میں دریافت کیں اس نے ایک خاص قسم کی سیٹی بنائی جسے ’’ہائیڈروجن وسل‘‘ کا نام دیا گیا اس سے ایسی آوازیں نکلتی تھیں جن کی فریکوئنسی ایک لاکھ سائیکل فی سیکنڈ تھی۔ ایک صدی سے زیادہ وقت گزر جانے کے بعد اور مسلسل تحقیقات کے نتیجے میں سائنسدان ایک ارب فی سیکنڈ فریکوئنسی کی آوازیں پیدا کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں اور ان موجوں کا طول موج 0.00004سینٹی میٹر کے قریب قریب ہے۔
ماورائی صوتی موجیں اپنی نہایت ہی قلیل طول موج کی بناء پر دھاروں کی شکل میں حاصل کی جا سکتی ہیں اور ان کی اشاعت بھی منتشر ہوئے بغیر قریب قریب خط مستقیم میں ہوتی ہے ان کی اس خاصیت کی وجہ سے انہیں خاص خاص ترکیبوں سے منعکس یا منعطف کیا جا سکتا ہے ان موجوں کی راہ میں حائل ہونے والی اشیاء کا سایہ بھی پڑتا ہے اور جہاں پر یہ پڑتی ہیں وہاں شدید حراری کیفیت پیدا ہوتی ہے، ان موجوں سے تکسید کا عمل بھی ہوتا ہے، چھوٹے چھوٹے جانور مثلاً مینڈک، مچھلی وغیرہ جب ان موجوں سے اثر زدہ کئے جاتے ہیں تو بری طرح مفلوج ہو جاتے ہیں یا مر جاتے ہیں، برطانوی سائنسدان نے ایک دلچسپ تجربہ کیا، انہوں نے الٹرا سانک ٹرانسمیٹر ایک مکان کی چھت پر نصب کر دیا اور مکان کے برابر میں گزرنے والی گلی میں الٹرا سانک آوازوں کی بوچھاڑ شروع کر دی آوازیں بہت زیادہ بلند فریکوئنسی کی نہیں تھیں پھر بھی گلی سے گزرنے والے لوگوں نے اپنے جسم میں ایک عجیب و غریب تحریک محسوس کی جس کی نوعیت ان میں سے کوئی بھی بیان نہیں کر سکا۔ امریکی بحریہ کے سائنسدانوں نے ایک تجربہ سے پتہ چلایا ہے کہ الٹرا سانک آوازیں مچھلیوں کو بے ہوش کر دیتی ہیں، اگر ان کی فریکوئنسی زیادہ ہو تو مچھلیاں ہلاک بھی ہو سکتی ہیں، تجربات سے ثابت ہو چکا ہے کہ الٹرا سانک آوازیں جانداروں کے اعصاب اور دوسرے جسمانی نظاموں پر گہرا اثر ڈالتی ہیں۔ دوسری جنگ عظیم میں یہ بات مشہور ہو گئی تھی کہ ہٹلر نے جادو کی ایک توپ بنوائی ہے جسے میدان جنگ میں نصب کرنے سے دشمن سپاہیوں کے حوصلے پست ہو جاتے ہیں اور وہ بھاگ جاتے ہیں اور جو بھاگتے نہیں وہ مفلوج ہو جاتے ہیں، جنگ کے بعد ہٹلر کی جنگی تحقیق کی تجربہ گاہ سے ایک ایسی توپ برآمد ہوئی جو الٹرا سانک آوازوں کی بوچھاڑ کرتی تھی۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے اس میں کوئی سورہ، کوئی آیت اور کوئی نقطہ مفہوم و معانی سے خالی نہیں ہے۔ اﷲ کے علوم لامتناہی ہیں۔ اﷲ کا منشاء یہ ہے کہ ہم لوگوں کو آگے بڑھتا دیکھ کر خود بھی قدم بڑھائیں اور اﷲ کی نعمتوں کے معمور خزانوں سے فائدہ اٹھائیں۔ قرآن پاک میں انبیاء سے متعلق جتنے واقعات بیان ہوئے ہیں ان میں ہمارے لئے اور تمام نوع انسانی کیلئے ہدایت اور روشنی ہے۔ کتاب محمد رسول اﷲ۔ جلد سوئم میں عظیمی صاحب نے مختلف انبیاء کرام کے واقعات میں روحانی نقطۂ نظر سے اﷲ تعالیٰ کی حکمت بیان فرمائی ہے۔