Topics

آدم و حوا جنت میں:

’’اے آدم! تو اور تیری بیوی دونوں جنت میں رہو سہو اور جس جگہ جو چیز پسند آئے شوق سے کھاؤ مگر دیکھو وہ جو ایک درخت ہے تو اس کے قریب بھی نہ جانا اگر گئے تو یاد رکھو تم زیادتی کرنے والوں میں سے ہو جاؤ گے لیکن پھر ایسا ہوا کہ شیطان نے ان دونوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالا تا کہ ان کے سترجو ان سے چھپے تھے ان پر کھول دے۔ اس نے کہا کہ تمہارے پروردگار نے اس درخت سے جو تمہیں روکا ہے تو صرف اس لئے کہ کہیں ایسا نہ ہو تم فرشتے بن جاؤ یا دائمی زندگی تمہیں حاصل ہو جائے۔ اس نے قسمیں کھا کھا کر یقین دلایا کہ میں تم دونوں کو خیر خواہی سے نیک بات سمجھانے والا ہوں۔ غرضیکہ انہیں فریب میں لے آیا۔ پھر جوں ہی ایسا ہوا کہ انہوں نے درخت کا پھل چکھا ان کے ستر ان پر کھل گئے اور جب انہیں اپنی برہنگی دیکھ کر شرم محسوس ہوئی تو باغ کے پتے اوپر تلے رکھ کر اپنے جسم پر چپکانے لگے۔ اس وقت ان کے پروردگار نے پکارا۔۔۔کیا میں نے تمہیں اس درخت سے نہیں روک دیا تھا اور کیا میں نے نہیں کہہ دیا تھا کہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے؟ انہوں نے عرض کیا، پروردگار! ہم نے اپنے ہاتھوں اپنا نقصان کیا اگر تو نے ہمارا قصور نہ بخشا اور ہم پر رحم نہ فرمایا تو ہمارے لئے بربادی کے سوا کچھ نہیں۔ فرمایا! یہاں سے نکل جاؤ تم ایک دوسرے کے دشمن ہو۔ اب تمہارے لئے زمین میں ٹھکانا ہے اور یہ کہ ایک خاص وقت تک وہاں سروسامان زندگی سے فائدہ اٹھاؤ گے۔ اور فرمایا تم اس میں جیو گے اس میں مرو گے پھر اسی سے نکالے جاؤ گے۔‘‘

(سورۃ اعراف: ۱۹۔۲۵)

’’اور یہ واقعہ ہے کہ ہم نے آدم کو پہلے سے جتا کر عہد لے لیا تھا پھر وہ بھول گیا اور ہم نے قصد اس میں نہیں پایا تھا اور پھر جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا تھا، آدم کے آگے جھک جاؤ، سب جھک گئے تھے مگر ابلیس نہیں جھکا۔ اس نے انکار کیا اس پر ہم نے کہا۔ اے آدم! یہ تیرا اور تیری بیوی کا دشمن ہے ایسا نہ ہو کہ یہ تمہیں جنت سے نکال کر رہے اور تم محنت میں پڑ جاؤ۔ تمہارے لئے اب ایسی زندگی کہ نہ تو اس میں بھوکے رہتے ہو نہ برہنہ نہ تمہارے لئے پیاس کی جلن ہے، نہ سورج کی تپش لیکن پھر شیطان نے آدم کو وسوسہ میں ڈالا اس نے کہا، اے آدم! میں تجھے ہمیشگی کے درخت کا نشان دے دوں؟ اور ایسی بادشاہی جو کبھی زائل نہ ہو؟ چنانچہ دونوں نے اس درخت کا پھل کھا لیا اور دونوں کے ستر ان پر کھل گئے۔ تب ان کی حالت ایسی ہو گئی کہ باغ کے پتے توڑنے لگے اور ان سے اپنا جسم ڈھانکنے لگے۔ غرض کہ آدم اپنے پروردگار کے کہنے پر نہ چلا۔ پس وہ بے راہ ہو گیا۔ پھر اس کے پروردگار نے اسے برگزیدہ کیا۔ اس پر لوٹ آیا۔ اس پر راہ کھول دی چنانچہ اللہ نے حکم دیا تھا، تم دونوں اکٹھے یہاں سے نکل چلو تم میں سے ایک دوسرے کا دشمن ہوا۔ پھر اگر میری طرف سے تمہارے پاس(یعنی تمہاری نسل کے پاس) کوئی پیام ہدایت آیا تو جو کوئی میری ہدایت پر چلے گا وہ نہ تو راہ سے بے راہ ہو گا نہ دکھ میں پڑے گا۔‘‘

(سورۃ طٰہٰ: ۱۱۵۔۱۲۳)

’’اور جب ہم نے کہا فرشتوں کو سجدہ کرو آدم کو، تو انہوں نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے سجدہ نہیں کیا اس نے تکبر کیا۔ اور وہ تھا منکروں میں۔‘‘

(سورۃ البقرہ: ۳۴)

’’اور ذرا انہیں آدم کے دو بیٹوں کا قصہ بھی بے کم و کاست سنا دو۔ جب ان دونوں نے قربانی کی تو ان میں سے ایک کی قربانی قبول کر لی گئی اور دوسرے کی قبول نہیں کی گئی۔ اس نے کہا! میں تجھے مار ڈالوں گا۔ اس نے جواب دیا! اللہ تو متقی لوگوں کی ہی نذریں قبول کرتا ہے۔‘‘

(سورۃ المائدہ: ۲۷)

’’اے اولاد آدم! ہم نے تم پر لباس اتارا ہے تا کہ تمہارے جسم کے قابل شرم حصوں کو ڈھانکے اور تمہارے لئے جسم کی حفاظت اور زینت کا ذریعہ بھی ہو اور بہترین لباس تقویٰ کا لباس ہے۔‘‘

(سورۃ اعراف: ۲۶)

’’اے بنی آدم! ایسا نہ ہو کہ شیطان پھر تمہیں اس ہی فتنے میں مبتلا کر دے جس طرح اس نے تمہارے والدین کو جنت سے نکلوایا تھا۔ اور ان کے لباس ان پر سے اتروائے تھے تا کہ ان کی شرمگاہیں بے پردہ ہو جائیں۔ وہ اور اس کے ساتھی تمہیں ایسی جگہ سے دیکھتے ہیں جہاں سے تم انہیں نہیں دیکھ سکتے۔ ان شیاطین کو ہم نے ان لوگوں پر سرپرست بنا دیا ہے جو ایمان نہیں لاتے۔‘‘

(سورۃ الاعراف: ۲۷)

’’یہ وہ پیغمبر ہیں جن پر اللہ نے انعام فرمایا۔ آدم کی اولاد میں سے اور ان لوگوں کی نسل سے جنہیں ہم نے نوح کے ساتھ کشتی میں سوار کیا تھا۔ اور ابراہیم کی نسل سے اور اسرائیل کی نسل سے اور یہ ان لوگوں میں سے تھے جن کو ہم نے ہدایت بخشی اور برگزیدہ کیا۔ ان کا حال یہ تھا کہ جب رحمٰن کی آیات ان کو سنائی جاتیں تو روتے ہوئے سجدے میں گر جاتے تھے۔‘‘

(سورۃ مریم: ۵۸)

’’اے اولاد آدم! کیا میں نے تم کو ہدایت نہ کی تھی کہ شیطان کی بندگی نہ کرو، وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔‘‘

(سورۃ یٰس: ۶۰)

جب کچھ نہ تھا تو اللہ تھا۔ اللہ نے چاہا کہ میری ربوبیت اور خالقیت کا اظہار ہو۔ اللہ کے ارادے میں جب یہ بات آئی کہ میری عظمت کا اظہار ہو تو ضروری ہوا کہ عظمت کو پہچاننے اور اللہ کو جاننے کے لئے کوئی مخلوق ہو۔

جیسے ہی اللہ نے یہ چاہا کہ میں پہچانا جاؤں خالق کے ارادے میں جو کچھ تھا قاعدوں، ضابطوں، فارمولوں اور شکل وصورت کے ساتھ عالم وجود میں آ گیا۔ عالم وجود کا نام کائنات ہے۔ کائنات ایک ایسے خاندان کا نام ہے جس میں بے شمار نوعیں ایک کنبے کی حیثیت رکھتی ہیں۔

ان نوعوں میں فرشتے، جنات، انسان، جمادات، نباتات، حیوانات، زمین، سماوات اور بے شمار کہکشانی نظام ہیں۔ خالق کائنات نے ان نوعوں کو سننے، دیکھنے، سمجھنے ، خود کو پہچاننے اور دوسروں کو جاننے کی صلاحیت عطا کی ہے۔ ان صلاحیتوں سے سب نوعوں نے یہ بات سمجھ لی کہ جس عظیم اور بابرکت ہستی نے انہیں تخلیق کیا ہے وہ ’’ذات‘‘ قادر مطلق ہے۔

عظمت و ربوبیت اور خالقیت کے اظہار کے لئے ضروری تھا کہ کوئی مخلوق ایسی ہو جو حکمت کائنات کے رموز سے واقف ہو۔ واقفیت کے لئے لازم تھا کہ مخلوق ان صفات کی حامل ہو جو کائنات کی تخلیق میں کام کر رہی ہیں۔ اس مقصد کے لئے اللہ نے انسان کو اپنی صفات پر تخلیق کیا اور اسے ان صفات کا علم عطا کر کے خلافت و نیابت سے سرفراز کیا۔

قرآن کریم میں جہاں انسان کی تخلیق کا تذکرہ ہوا ہے وہاں یہ بات بالوضاحت بیان کی گئی ہے کہ انسان کا خمیر مٹی سے گوندھا گیا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے مٹی کو بجتی اور کھنکھناتی فرمایا ہے۔ یعنی خلاء مٹی کے ہر ذرے کی فطرت ہے۔

’’انسان ناقابل تذکرہ شئے تھا۔ ہم نے اس کے اندر اپنی روح پھونک دی اور یہ دیکھتا، سنتا اور محسوس کرتا انسان بن گیا۔‘‘

(سورۃ دھرا: ۱۔۲)

روح پھونکنے سے مراد یہ ہے کہ خلاء میں حواس پیدا کر دیئے گئے۔


Topics


Mohammad Rasool Allah (3)

خواجہ شمس الدین عظیمی

قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے اس میں کوئی سورہ، کوئی آیت اور کوئی نقطہ مفہوم و معانی سے خالی نہیں ہے۔ اﷲ کے علوم لامتناہی ہیں۔ اﷲ کا منشاء یہ ہے کہ ہم لوگوں کو آگے بڑھتا دیکھ کر خود بھی قدم بڑھائیں اور اﷲ کی نعمتوں کے معمور خزانوں سے فائدہ اٹھائیں۔ قرآن پاک میں انبیاء سے متعلق جتنے واقعات بیان ہوئے ہیں ان میں ہمارے لئے اور تمام نوع انسانی کیلئے ہدایت اور روشنی ہے۔ کتاب محمد رسول اﷲ۔ جلد سوئم میں عظیمی صاحب نے مختلف انبیاء کرام کے واقعات میں روحانی نقطۂ نظر سے اﷲ تعالیٰ کی حکمت بیان فرمائی ہے۔