Topics

ہم سب ابا آدمؑ اور اماں حوّاؑ کی اولاد ہیں


تاریخی حوالے سے غور کیا جائے تو سمجھ میں آتا ہے کہ ہر قوم دنیاوی پریشانیوں اورالجھنوں سے دور رہنے کے لئے سال میں ایک یا دو مرتبہ کسی دن رات کا انتخاب کرتے ہیں اور اپنے اپنے طریقوں پر غم و آلام سے ذہن آزاد کرکے ماحول کو خوشگوار بناکر پریشانیوں اور ذہنی الجھنوں سے آزاد ہو جاتی ہے۔

 ہر قوم میں آزاد زندگی گزارنے کے لئے دن مقرر ہیں۔ مثلاً بدھ ازم میں ویساک کا تہوار مئی میں پورے چاند کے دن منایا جاتا ہے۔ یہ بدھا صاحب کی پیدائش کا دن ہے اور روایات کے مطابق یہی ان کے نروان حاصل کرنے اور انتقال کا دن بھی ہے۔ 35 برس کی عمر میں انہیں ایک درخت کے نیچے معرفت حاصل ہوئی جسے نروان کہا جاتا ہے اور 80 برس کی عمر میں اس دارِ فانی سے انتقال فرمایا جسے بدھ مت والے ’’پرنروان‘‘ کہتے ہیں۔

ایک اور تہوارماگھ پوجا کا دن ہے جو ماہ مارچ میں پورے چاند کے دن منایا جاتا ہے۔

ہولی(Holi) موسم بہار میں منایا جانے والا ہندومت کا مقدس مذہبی اور عوامی تہوار ہے۔ اس دن اہل ہنود ایک دوسرے پر رنگ پھینک کر محظوظ ہوتے ہیں۔ گھروں کے آنگن کو رنگوں سے نقشین کرتے ہیں اور پُر سکون خوشی مناتے ہیں۔

دیوالی،ہندوؤں کا ایک تہوار جو کاتک کی پندرہ تاریخ کو کارتک (بدھ دیوتا) کی یاد میں منایا جاتا ہے۔ اس دن ہندو کسی دریا یا تالاب پر نہاکر نئے لباس پہنتے اور شرادھ کرتے ہیں۔ رات کو دیئے جلاتے ہیں، لکشمی کی پوجا کرتے ہیں اور شرط لگاتے ہیں۔ ہندوؤں کا عقیدہ ہے کہ اگر دیوالی کی رات شرط جیت جائیں تو سال بھر کامیابی ان کے قدم چومتی ہے۔ کرشن جی کے دور کا عفریت نرک آسر جس کو کرشن جی کی بیوی ستیہ بھاما نے مارا اور اسی خوشی میں ہندو قوم دیوالی کا تہوار مناتی ہے۔

کرسمس حضرت عیسیٰ کی پیدائش کے دن منایا جاتا ہے۔چوتھی صدی عیسوی میں مغربی کرسچین چرچ نے 25 دسمبرکو کرسمس کی تاریخ مقرر کردی۔ کچھ عرصہ بعد مشرقی علاقوں نے بھی اس تاریخ کو قبول کرلیا۔ اس دن گانا بجانے اور کھانے پینے کا انتظام کیا جاتا ہے۔

یہودیوں کی ایک عید"پور" کے معنی"قرعہ" کے ہیں، کہا جاتا ہے کہ اسے "شاہ مرد کی" نے "ہامان" کی یہودیوں کے خلاف سازش کو ناکام ہونے کی یاد میں جاری کیا تھا۔ یہ تہوار یہودی ہر سال کے آخری مہینے کی 14 تاریخ کو مناتے ہیں۔

یہودیوں کی ایک اور عید"عید فسح" ہے، اس کو بعض مسیحی فرقے بھی مناتے ہیں جیسے کیتھولک، فسح کو عید فطیر اور "بے خمیری روٹی کی عید" بھی کہا جاتا ہے۔ یہ بنی اسرائیل کی فرعون سے رہائی اور اللہ کے نجات بخش کام کے ذریعہ یہودیوں کو ایک قوم بنانے کی یاد میں منائی جاتی ہے۔

"نوروز" قدیم پارسی تہوار ہے جو آج بھی ہر سال 20 یا 21 مارچ کو ہوتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

خاتم النبیین رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی بعثت سے پہلے عرب قبیلے بھی مقررہ دن تہوار کا اہتمام کرتے تھے اور اس میں خوشی کے اظہار کے لئے خرافات، بے ہودگی، ناچ گانا، کھانا پینا، نشہ آور چیزیں استعمال کرتے تھے۔ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے عرب میں اسلام کے لئے ان تہواروں کو قائم رکھا لیکن ان میں نمایاں تبدیلی یہ فرمائی کہ تہوار بھی پیغمبروں کی تعلیمات کے مطابق اللہ کی خوشنودی کے لئے منائے جائیں۔

ہم جب عیدالفطر اور عید قربان پر تفکر کرتے ہیں تو نتیجہ مرتب ہوتا ہے کہ اسلامی اجتماع خوشی و مسرت کے ساتھ ساتھ، غریب پروری، یتیم اور مساکین کی دل جوئی، پاکیزگی اورصفائی کا اہتمام، عمدہ قسم کی خوشبو کا استعمال، رنگ رنگ خواتین اور بچوں کے لباس، مردوں کا اتحاد و یگانگت کا عیدین کی نماز میں اجتماع،دلجوئی اور قربت کے لطیف احساسات کے ساتھ کدورتوں سے پاک ہو کر چھوٹے، بڑے ذات برادری، امیر غریب کا امتیاز کئے بغیر ایک دوسرے کی قربت، گلے ملنا، مصافحہ کرنا، دسترخوان پر بیٹھ کر اتحاد، سخاوت اور میزبانی کے فرائض کی انجام دہی۔

عیدگاہ جاتے ہوئے اور واپس آتے ہوئے بآواز بلند یہ تسلیم کرنا کہ

اللہ سب سے بڑا ہے اور سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں۔

 وہی ہمیں غیب سے ظاہر کرتا ہے اور ہر روز غیب میں چھپادیتا ہے۔

 سب تعریفیں اللہ رب العالمین کے لئے ہیں جو بے حساب رزق عطا فرماتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

اسلام میں دو تہوار اجتماعی طور پر منائے جاتے ہیں۔ عیدالفطر اللہ تعالیٰ کے شکر کے ساتھ اس خوشی کا اظہار ہے کہ اللہ نے ہمیں اس عمل کو انجام دینے کی توفیق عطا فرمائی جس کی جزا خود اللہ تعالیٰ ہیں۔پیارے بچو! اللہ تعالیٰ کی قدرت پر سوچ و بچار کرنا اور بزرگوں کی نصیحت پر عمل کرنا، پیغمبروں کی تعلیمات پر عمل کرنا، اللہ کوبہت پسند ہے۔

عید الفطرخاتم النبیین رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا عطا کردہ ایسا تہوار ہے جس میں شیطانی اعمال کو ترک کیا جاتا ہے اور شکرانہ کے طور پر اللہ تعالیٰ کے لئے وہ کام کئے جاتے ہیں جس سے اللہ تعالیٰ خوش ہوتے ہیں۔گوکہ ہر اسلامی ماہ کا آغاز چاند سے ہوتا ہے مگر 29 ویں یا 30 ویں روزے کو نماز مغرب کے بعد بزرگ حضرات، نوجوان اور بچے کھلے آسمان کی طرف نظریں اٹھائے جس اشتیاق سے چاند کو تلاش کرتے ہیں وہ منظر الگ ہوتا ہے۔ اچانک مجمع میں سے کسی کی آواز آتی ہے وہ دیکھو۔۔ وہ رہا چاند۔۔ اور سب اس کہنے والے کی انگلی کے اشارے کی طرف دیکھنے لگتے ہیں۔ مگر چاند کو نہ دیکھ کر پھر کسی اور سمت تلاش شروع کردیتے ہیں۔ کوئی چمکتے ستارے کے قریب چاند کوڈھونڈتا ہے اور کوئی ازراہِ مذاق بار بار چاند کی نشاندہی اِدھر اُدھر کرتا رہتا ہے۔

گھروں میں خواتین ٹیلی ویژن آن کرکے چاند نظر آنے کی خبر سننے کی منظر ہوتی ہیں۔۔ جیسے ہی چاند نظر آنے کا اعلان ہوتا ہے چہرے خوشی سے دمکنے لگتے ہیں۔ عید کی تیاریاں بھرپور جوش و جذبہ سے پوری کی جاتی ہیں۔ گھروں کو صاف ستھرا کرکے زینت و آرائش سے سجایا جاتا ہے۔ بچیاں اور خواتین کپڑے، چوڑیاں سیٹ کرکے رکھتی ہیں، مہندی لگواتی ہیں۔ اماں شیرخرما پکانے کے لوازمات مکمل کرتی ہیں۔

مساجد سے معتکفین کی واپسی شروع ہوتی ہے۔ گھر والے، دوست احباب پھولوں کے ہار لئے مساجد کے باہر کھڑے ہوتے ہیں۔ بازاروں کی رونق بڑھ جاتی ہے۔ خوشی اور مصروفیت میں اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ کب چاند رات نے عید کی صبح کا لباس پہن لیا۔

۔۔۔۔۔۔

بچوں کو عیدی دینا نہ بھولئے اس لئے کہ بچے عید کے دن عیدی کا انتظار کرتے ہیں اور رات کو آپس میں بیٹھ کر حساب بھی کرتے ہیں ۔ دادا یہ دیں گے، نانی یہ دیں گی، تایا نے پچھلی دفعہ 10 روپے دیئے تھے اس مرتبہ 20 ملیں گے پچھلی عید کو تائی اماں نے کچھ بھی نہیں دیا۔ ہم نے کہا السلام علیکم اور وہ وعلیکم السلام کہہ کر پاندان کھول کر بیٹھ گئیں۔ بچوں کو عیدی ملتی ہے تو ان کے گلنار چہروں پر اللہ کی رحمت کا مظاہرہ ہوتا ہے۔

 عید تہوار یتیموں،بیواؤں اور غربا اور مساکین کی امداد کا ایک پروگرام ہے۔

 فطرہ اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ ایسا عمل ہے جس کی ادائیگی سے نادار لوگوں کے گھر میں خوشی کا ماحول بن جاتا ہے اور وہ احساس کمتری سے دور ہوجاتے ہیں۔

عیدگاہ میں عالم اسلام کا اجتماع قرآن کریم  کی اس آیت کی ترجمانی کرتا ہے ،

"سب مل کراللہ کی رسی کو مضبوطی کے ساتھ پکڑلو اور آپس میں تفرقہ نہ پڑو۔ (اٰل عمران: 103)

امیر، غریب، بادشاہ، وزیر عید کے دن ایک صف میں نظر آتے ہیں اور ایک دوسرے سے گلے ملتے ہیں، مصافحہ کرتے ہیں اور ایک دوسرے کے لئے خوشحالی کی دعا کرتے ہیں، بچوں کو ان کی پسند کے رنگ برنگے غبارے دلاتے ہیں بچے خوشی خوشی غبارے لے کر گھروں کو لوٹتے ہیں اور جب کوئی غبارہ پھٹ جاتا ہے تو آواز سے خوش ہوتے ہیں۔ امیر، فقیر، غریب، ذات برادری، انتہا یہ ہے کہ آپس کی دشمنی بھی اخوت، ہمدردی، خوشی اور قربت کے احساس کی چادر میں اجتماعی طور پر ایک جان دو قالب کردیتی ہے۔

تہوار ہر قوم میں منایا جاتا ہے۔ یہ قوموں کے تہواروں کا مختصر خاکہ ہے۔


 

Topics


Aaj Ki Baat

خواجہ شمس الدین عظیمی


دل گداز

خواتین وحضرات کے نام