Topics

تعمیرو تخریب

 

آسمانی کتابیں اور قرآن کریم ہمیں سوچ و بچار، تحقیق و تلاش کی دعوت دیتے ہیں۔

 تحقیق و تلاش ذہن کی ایسی حرکت ہے جس میں کائنات کی تخلیق کے فارمولے ہیں۔ جب کوئی فرد اس صلاحیت سے واقف ہوجاتا ہے تو وہ کائنات کے تخلیقی رازوں میں شریک ہوجاتا ہے۔ خالق کائنات اللہ فرماتا ہے،

"ان سے کہو زمین میں چل پھرکر دیکھیں کہ اللہ نے کس طرح خلق کی ابتدا کی۔"

 (العنکبوت: 20)

"اور کیا ان لوگوں نےغور نہیں کیا آسمان و زمین  کے عالم میں اوردوسری چیزوں میں جو اللہ نے پیدا کی ہیں اور دوسری چیزوں میں جو اللہ نے پیدا کی ہیں اور اس بات میں کہ ممکن ہے ان کی اجل قریب آگئی ہے۔"

(الاعراف: 185)

آسمانی علوم وضاحت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انسانوں کو حکم دے رہے ہیں وہ تفکر کرے اور خالق کائنات کی بنائی ہوئی کائنات، زمین و آسمان کی تخلیق کو سمجھیں ۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تفکر کرنے کا حکم صرف مسلمانوں کے لئے نہیں دیا ہے بلکہ دنیا میں آباد انسانوں کے لئے ہے، دوسری آیت میں ارشاد ہے کہ وہ افراد یا قومیں جو تفکر نہیں کرتیں ان پر موت وارد ہوجاتی ہے۔ اس کے برعکس جو قوم مردہ دل ہو کر اپنی سوچ اور اپنی فکر کا محور ریاکاری بنالیتی ہے۔

اس کے اوپر ذلت اور رسوائی کا عذاب نازل کردیا جاتا ہے اور وہ قومیں محکوم بنادی جاتی ہیں۔

مسلمانوں نے جب تک غوروفکر کو اپنا شعار بنائے رکھا ترقی کی باگ دوڑ ان کے ہاتھ میں رہی اور وہ باعزت رہے اور جیسے جیسے مسلمانوں نے تفکر سے قطع نظر کیا ذلت و رسوائی ان کا مقدر بن گئی۔

"تمام کائنات اور زمین کے خزانے تمہارے لئے پیدا کئے گئے ہیں۔" (البقرۃ:29)

سائنس کی جتنی تخلیقات ہیں۔ تجزیہ کیا جائے تو ہر ایجادمیں کسی نہ کسی طور اللہ کی تخلیق کردہ چیزوں کا عمل دخل ہے۔ ہر تخلیق تفکر سے معمور ہے۔ جب تفکر کرنے والے ذہن نے زمین سے نکلنے والی دھات یورینیم پر غور کیا اور اس میں پنہاں توانائی حاصل کرنے کے لئے پرت در پرت ہٹایا تو ایک ذرہ نظر آیا جس کی ٹوٹ پھوٹ  سے ایسی توانائی کا انکشاف ہوا جس توانائی سے ہیروشیما ناگا ساکی کے لاکھوں ذی حیات صفحۂ ہستی سے غائب ہوگئے یا نقش و نگارتباہ و برباد ہو گئے۔ اعضا ٹوٹ گئے، شکلیں بگڑگئیں۔ دماغ کے سیلز میں اتنی تبدیلی واقع ہوگئی نوعوں کا خوبصورت وجود ڈراؤنی شکل بن گیا۔اس تباہی کے تجربہ کی بنیاد پر ایک ایسا ہولناک ہتھیار وجود میں ظاہر ہوا جس کی تخریبی قوت سے فائدہ اٹھا کر ایک قوم دنیا کی دوسری قوموں پر برتری حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی۔

ہم علم دوست اور فہم و فراست کے حامل خواتین و حضرات کو بلاتفریق نسل یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ذہن تفکر کی طرف مائل ہوجاتا ہے تو نئے نئے انکشافات ہوتے ہیں اور زمین کی صلاحیتیں خود اپنا تعارف کراتی ہیں، اس آگاہی سے نئی نئی چیزیں وجود میں آتی ہیں۔

ہر ایجاد میں تعمیر اور تخریب کے دو رخ چھپے ہوئے ہیں۔۔ مٹی کی آبیاری سے ہم حیات اور زندگی اگر حاصل کرتے ہیں تو انہی ذرات سے دنیا کی کثیر مخلوق کو نیست و نابود بھی یا بدہیئت اور بدشکل اور معذور بناسکتے ہیں۔غیر جانبدار ذہن (Neutral Thinking) رکھنے والا کوئی فرد ان میں غور و فکر کرتا ہے تو  بے شمار صلاحیتیں (Care of Creator)اللہ کی صفات کے احاطے میں رہ کر سورج کی دھوپ کی طرح اپنا روشن وجود ظاہر کردیتی ہیں۔ جب کوئی بندہ اپنے اندر موجود باطنی صلاحیتوں کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے اور تفکر کو اپنا شعار بنالیتا ہے تو اس کے اوپر چھپی ہوئی صلاحیتیں ظاہر ہوجاتی ہیں۔اگر انسان کو عقلِ سلیم (جس میں اپنی ذات پر محیط فائدے نہ ہوں) حاصل ہوجائے تو وہ زمین کے خزانوں سے ، زمینی اور آبی مخلوقات کو بہرحال فائدہ پہنچاسکتا ہے۔جب کوئی بندہ اپنی روحانی صلاحیتوں سے واقف ہوجاتا ہے تو وہ اس خالق و مالک ہستی کا تعارف حال کرلیتا ہے جو بے غرض مخلوقات کے لئے ضرورت کی ہر چیز مفت فراہم کررہا ہے اور بے حساب رزق عطا فرماتا ہے۔آسمانی کتابوں اور قرآن کریم  میں تحقیق و تلاش کا عمل یقین عطا کرتا ہے کہ خالق کائنات اللہ تعالیٰ نےآدم اختیار عطا کیا ہے۔ ر ب العالمیں نے انسان کو اشرف المخلوقات بنا کرعلوم کے خزانے عطا فرمائے ۔

جب کوئی بھی باحواس آدمی اللہ کی بنائی ہوئی تخلیقات پر غیر جانبدار ذہن "نیوٹرل تھنکنگ"سے غور کرتا ہے تو سب سے پہلے اپنے وجود میں اللہ کی قدرت اور عنایت کی ایک پوری فلم سامنے آجاتی ہے۔ ماں کی کال کوٹھری میں نو مہینے تک نشوونما کے لئے غذا کی فراہمی، اس کوٹھری سے باہر آنے کے بعد ماں کے سینے کو اللہ دسترخوان بنادیتا ہے۔۔ اور اس کے بعد پوری کائنات کی زندگی کادارومدار اللہ کے تخلیق کردہ وسائل پر ہے۔۔ جس سے کوئی صاحب فہم انکار کی جرأت نہیں کرسکتا۔

ہر لمحہ غائب ہورہا ہے۔ دوسرا مرحلہ ظاہر ہورہا ہے۔

جب اس قانون کو ضرب در ضرب کیا جائے گا تو آخری نتیجہ غائب ہوگا۔

عٰلمہ الغیب والشھادۃ

اگر نطفہ میں "sperm"کی ہیئت تبدیل نہ ہو تو۔۔؟

 نومہینے تک نادیدہ غذافراہم نہ کی جائے تو۔۔؟

نشوونما کا اظہار نہ ہوتو۔۔؟ اور خوب صورت، کومل، معصوم پھول کی طرح نازک جیتی جاگتی تصویر کو براہِ راست ماں کی معرفت اگر غذا نہ ملے تو کیا جوانی، بڑھاپا کوئی معنی رکھتا ہے؟

سوال یہ ہے کہ میں  دنیا میں آنے سے پہلے میں کہاں تھا۔۔ ؟

اگرمیرے شب و روز پردے میں نہ چھپے ہوتے تو میں کہاں ہوتا۔۔ ہوتا بھی یا نہیں۔۔ ؟

سب کچھ ہونے کے باوجود انجام کیا ہے۔۔؟

 جس طرح پیدائش سے پہلے غائب تھا پھر غیب کے پردہ میں چھپ گیا۔ ح

الات زندگی میں تغیر کے نتیجے میں تبدیلی، تبدیلی کے الٹ پلٹ سے جوانی، جوانی کے بعد انحطاط، انحطاط کے بعد بڑھاپا اور پھر۔۔؟

سوال یہ ہے کہ میں دنیا میں آنے سے پہلے کہاں تھا؟ اور دنیا کی اسکرین سے نکل کر کہاں گیا۔۔؟

زندگی ظاہر ہونے اور چھپنے کا نام ہے۔ دنیا میں آنے سے پہلے میں غائب تھا۔ مسلسل غیب میں چھپا رہا، غیب سے ظاہر ہوتا رہا، ظاہر سے غیب بنا، غیب میں ظاہر ہوا تو جوان ہوا۔ جوانی چھپی تو بوڑھا ہوگیا اور بڑھاپے پر دبیز پردہ آگیا۔ ہر ظاہر غیب ہوگیا۔

"زمین اور آسمانوں کی تخلیق اور رات دن کے ادل بدل میں اولی الالباب کے لیے نشانیاں ہیں جو اٹھتے بیٹھتے اور لیٹتے ہر حال میں اللہ کو یاد کرتے ہیں اور زمین اور آسمانوں کی ساخت میں غوروفکر کرتے ہیں ۔" (اٰل عمران : 190-191)


Topics


Aaj Ki Baat

خواجہ شمس الدین عظیمی


دل گداز

خواتین وحضرات کے نام