Topics

ہر قوم ماضی پر زندہ ہے

 

روئے زمین پر بسنے والی نوع انسانی کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو ظاہر ہوتا ہے کہ آدم زاد دوسری نوع کی طرح نوع تھی۔جیسے جیسے زمانہ گزرا عقل وشعور میں اضافہ ہوتا رہا اور جیسے جیسے عقل و شعور میں اضافہ ہوا۔ یہ نوع قبیلوں میں تقسیم ہوتی رہی۔ پھریہ قبیلے قوم بن گئے۔قوم اور قبیلے میں رسوم و رواج کی داغ بیل پڑی۔ یہی رسوم و رواج قوم کی پہچان بن گئے۔ رسم و رواج ہر قوم میں الگ الگ ہیں لیکن ان کی موجودگی انسانی معاشرت کے ساتھ لازم و ملزوم ہے۔

جب رسم و رواج نے الٰہی علم کے خلاف بغاوت کی تو اللہ تعالیٰ نے ان رسوم کو ختم کرنے کے لئے یپغمبروں کا ایک سلسلہ قائم کیا اور ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں نے ہر قوم کو بتایا کہ رسوم و رواج ایسے ہونے چاہئیں جن میں آدم زاد بے عزت نہ ہو اور اس کی شان تخلیق متاثر نہ ہو۔

تاریخ بتاتی ہے کہ کوئی زمانہ ایسا نہیں گزرا جب زمین میں قوم اور قبیلے جشن نہ مناتے ہوں اور یہی جشن ان کے قومی تشخص کا آئینہ ہوتا ہے۔ اس آئینے میں قومی شعار کا چہرہ صاف اور واضح نظر آتا ہے۔ جشن اور تقاریب کے پس منظر میں قوموں کو ان کے اسلاف سے جو روایات یا اخلاق منتقل ہوا ہے اس کی نمایاں طور پر منظرکشی ہوتی ہے۔

بلاشبہ تہوار ایک ایسی کسوٹی ہے جس پر کسی قوم کی تہذیب کو پرکھا جاسکتا ہے۔ تقاریب پر اگر غور کیا جائے تو تمام تقاریب میں ایک قدر مشترک ہے۔ بہت سارے ایک ذہن افراد ایک جگہ جمع ہوجاتے ہیں اور آپس میں محبت اور اخوت کی عملی تصویر پیش کرتے ہیں۔

آدم زاد کی فطرت پر اگر تفکر کیا جائے تو سراغ ملتا ہے آدم زاد کا عملی ورثہ تین رخوں سے مرکب ہے۔ایک رخ آدم کی انفرادی حیثیت کو اجاگر کرتا ہے، دوسرا رخ خود آدم کی نوع ہے، اس رخ میں نوع آدم کائنات میں پھیلی ہوئی دوسری نوعوں سے ہم رشتہ ہے، تیسرا رخ آدم کا آدمیت کو عبور کرکے نوع انسانی بن جانا ہے اور یہ اجتماعی ذہن کا وہ آئینہ ہے جس میں ساری کائنات اور کائنات میں تمام نوعیں ایک خاندان کے افراد نظر آتے ہیں۔

انبیاء کے سردار رسول اللہ ﷺ نے اپنی امت کو درس دیا کہ انفرادیت سے آزاد ہو کر ہر شخص اجتماعی ذہن کو بیدار کرے۔۔ یہی وہ طرز فکر ہے جس طرز فکر پر قائم رہ کر نوع انسانی کائنات کے اوپر حکمران بن سکتی ہے۔

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی امت کے لئے جتنے بھی پروگرام مرتب فرمائے ہیں اس سب میں"اجتماعیت" ہر پروگرام کی اصل ہے۔

·                    پہلی اجتماعیت محلہ دار مسجدوں میں نماز باجماعت قائم کرنا۔

·                    دوسری اجتماعیت جمعہ کی نماز۔

·                    تیسری اجتماعیت روزہ اور اس کا افطار ہے۔

·                    چوتھی اجتماعیت نماز عیدین اور پانچویں اجتماعیت حج ہے۔

ہر قوم اپنے ماضی پر زندہ ہے اگر کسی قوم کا ماضی نہیں ہے تو اس کی حیثیت قوم کی نہیں ہے۔ دوسری قوموں کی طرح امتِ مسلمہ کا بھی ماضی ہے اور اس ماضی کو یاد رکھنے اور اجتماعی تاثرات کو اپنی نسل کو پہنچانے کے لئے مسلمان دو تہوار مناتے ہیں۔ پہلا تہوار عیدالفطر ہے جس کی نورانیت اور پاکیزگی اس علامت پر قائم ہے کہ مسلمان اس وقت تہوار مناتا ہے جب وہ پاکیزہ اور متقی ہو۔

رمضان المبارک کے تیس یا انتیس دن اس عمل کی پریکٹس ہے کہ من حیث القوم مسلمان انفرادی ذہن کی نفی کرکے مثبت اجتماعی ذہن کو اہمیت دیتا ہے اگر کسی جگہ ایک کروڑ روزے داروں کو جمع کردیا جائے اور مغرب کی اذان ہوجائے تو یہ ایک کروڑ آدمی ایک ساتھ اذان کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے روزہ افطار کرتے ہیں۔اگر مسلمان اجتماعی ذہن کی حیثیت سے اور طاقت سے صحیح طور پر واقف ہوجائے تو ساری دنیا اور دنیا سے ماوراء کائنات پر اس کی حکمرانی قائم ہوجائے گی۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔

"سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی کے ساتھ پکڑلو اور آپس میں تفرقہ نہ ڈالو۔"

(اٰل عمران: 103)

مسلمان عملی طور پر اس آیت کی تفسیر پیش کرتا ہے لیکن یہی عمل روح کی گہرائیوں اور اپنے آقا  خاتم النبیین رسول ا للہ ﷺ کی طرز فکر کے ساتھ کیا جائے تو یقیناًمسلمان قوم اپنا کھویا ہوا وقار اور اقتدار حاصل کرلے گی۔


 

Topics


Aaj Ki Baat

خواجہ شمس الدین عظیمی


دل گداز

خواتین وحضرات کے نام