Topics

اطلاع

زندگی کا ایک رخ اطلاع اور دوسرا مظاہرہ ہے۔ سمجھا یہ جاتا ہے کہ بیداری میں شعور غالب اور لاشعور مغلوب ہے لیکن لاشعور کے بغیر شعور کا تذکرہ ممکن نہیں۔ سونا ہو یا جاگنا، ہر عمل اطلاع پر قائم ہے۔۔۔ اطلاع کا سورس لاشعور ہے۔
نیند میں شعوری تحریکات مغلوب ہوجاتی ہیں۔۔۔ مادی وجود کی نفی سے آدمی خیال کی رفتار سے سفر کرتا ہے۔ ہم سوجاتے ہیں تو خود کو بیت اللہ شریف کا طواف کرتے دیکھتے ہیں، تلبیہ پڑھتے ہیں۔

لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ لاَ شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ،

إِنَّ الْحَمْدَ، وَالنِّعْمَةَ، لَكَ وَالْمُلْكَ، لاَ شَرِيكَ لَكَ

"میں حاضر ہوں، یا اللہ میں حاضر ہوں۔ تیرا کوئی شریک نہیں، میں حاضر ہوں۔ بے شک ساری تعریف تیرے لئے ہے، نعمت تیری ہے، بادشاہی تیری ہے۔ تیرا کوئی شریک نہیں۔"
بیداری میں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ پہنچنے کے لئے پاکستان سے جدہ تک سمندری سفر کئی روز میں پورا ہوتا ہے لیکن خواب میں دن رات کے وقت کی نفی ہوجاتی ہے۔ بیدار ہونے کے بعد خوشی کے تاثرات، آنکھوں میں چمک اور چہرہ کی شگفتگی سے دوسرے لوگ متاثر ہوتے ہیں۔ طویل سفر کئے بغیر خانہ کعبہ میں حاضری کو آدمی یقین کے ساتھ بیان کرتا ہے۔ دوسرے لوگ خوش ہو کر مبارک باد دیتے ہیں۔
اس حقیقت کو اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ۔۔۔ سونے کی حالت میں دیکھے ہوئے حالات و واقعات اور بیداری میں پیش آنے والے اوقعات میں بظاہر درجہ بندی نہیں کی جاسکتی اس لئے کہ جب ہم سوتے ہوئے خوف ناک منظر دیکھتے ہیں۔۔۔ دل کی دھڑکن تیز اور جسم پسینہ سے شرابور ہوتا ہے، سانس کی آمد و شد بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ اعزہ و اقربا اس حالت میں پریشان حال شخص کو پانی پلاتے ہیں، کمر تھپکتے ہیں اور ذہن ہٹانے کے لئے اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ لاشعوری کارفرمائی جب شعور کی حدود میں داخل ہوجاتی ہے تو ڈر، خوف اور گھبراہٹ سے نجات ملتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فرماں برداری اور نافرمانی دو طرزِ فکر ہیں۔ زندگی گزارنے کی جو مقداریں اللہ نے مقرر کردی ہیں ان کو قائم رکھنا فرماں برداری ہے۔ نافرمانی سے نظامِ حیات میں توازن نہیں رہتا۔ مخلوق اللہ کی رضا اور خوش نودی کے لئے محبت کرتی ہے تو ایثار پیدا ہوتا ہے اور زمین امن کا گہوارہ بن جاتی ہے۔
محبت صرف عمل نہیں۔۔۔ طرزِ زندگی ہے۔ ایثار، قربانی، احترام، معاف کرنا، ایک دوسرے کی مدد، تحفظ،اچھائی، راحت اور سکون جیسی صفات "محبت" ہیں۔ جب آدمی ایثار کرتا ہے۔۔۔ زندگی محبت اور محبت زندگی بن جاتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ابوالانبیا حضرت ابراہیمؑ کو حکم ہوا کہ بی بی ہاجرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور اکلوتے شیرخوار بیٹے حضرت اسمٰعیلؑ کو لے کر مکہ جاؤ۔ وادی ام القریٰ پہنچے اور ماں بیٹے کو وہاں چھوڑدیا۔ قرآن کریم نے اس مقام کو "وادی غیر ذی زرع" کہا ہے۔ حضرت ابراہیمؑ بنجر پتھریلی زمین میں کھجوریں اور پانی کا مشکیزہ رکھ کر کچھ کہے سنے بغیر واپس جانے لگے۔ بی بی ہاجرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے بے قراری سے پوچھا۔ہمیں کس کے سہارے چھوڑ کر جارہے ہو؟فرمایا : اللہ کے سہارے۔
بی بی ہاجرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا: کیا یہ اللہ کا حکم ہے؟
حضرت ابراہیمؑ نے جواب دیا: ہاں
پاک باطن خاتون بی بی ہاجرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا: بے شک اللہ ہمارا کفیل ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ریگستان میں دور دور تک پانی نہیں تھا۔ بی بی ہاجرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا دوڑتی ہوئی قریبی پہاڑی پر گئیں کہ پانی مل جائے مگر وہاں ریت کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔ بچہ کی تنہائی کا خیال آیا تو واپس آئیں، شیرخوار بچہ بھوک پیاس کی شدت سے رورہا تھا۔ کم زوری کے باوجود بی بی ہاجرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بے قرار ہو کر ایک پہاڑی سے دوسری پہاڑی کی طرف گئیں کہ آس پاس کسی آبادی کا نشان ملے یا کوئی قافلہ گزرتا ہوا نظر آجائے لیکن ہر طرف ریت کے بگولے تھے۔

 بی بی ہاجرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اپنے بیٹے اسمٰعیلؑ کے پاس آئیں، بچہ روتے ہوئے ایڑیاں رگڑ رہا تھا۔۔۔ آنکھیں اشک بار تھیں۔

بی بی ہاجرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا دل گرفتہ ہو کر تیز قدموں سے ایک بار پھر پہاڑی کی طرف گئیں۔ اس طرح دونوں پہاڑیوں کے مابین سات چکر لگائے۔ واپس آئیں تو دیکھا۔۔۔ جس جگہ بچہ روتے ہوئے ایڑیاں رگڑ رہا تھا وہاں شفاف پانی کا چشمہ ابل رہا ہے۔
زم زم کا چشمہ صدیاں گزرنے کے باوجود آج بھی جاری ہے۔

حج و عمرہ کے موقع پر حجاج کرام آب زم زم سے نہ صرف سیراب ہوتے ہیں بلکہ مقدس پانی گھر گھر تقسیم ہوتا ہے۔ جس گھر میں زم زم کا تبرک پہنچتا ہے گھر والوں کی آنکھوں میں نور آجاتا ہے۔ زم زم نہایت احترام کے ساتھ خوب صورت فنجان میں پیش کیا جاتا ہے۔ مہمان کھڑے ہو کر ادب کے ساتھ زم زم پیتے ہیں اور آنکھوں پر لگاتے ہیں۔
حضرت ابراہیمؑ نے مسلسل تین رات ایک ہی خواب دیکھا کہ وہ اپنے لختِ جگر کو اللہ کی راہ میں قربان کررہے ہیں۔ اس وقت حضرت ابراہیمؑ کی حضرت اسمٰعیلؑ کے علاوہ کوئی اولاد نہیں تھی۔ خواب بیٹے کو سنایا، فرماں بردار بیٹے نے عرض کیا کہ آپ اللہ کے برگزیدہ بندے اور پیغمبر ہیں، حکم کی تعمیل کیجئے۔۔۔ انشاء اللہ مجھے صابرین میں سے پائیں گے۔
"آخر جب ان دونوں نے سرِ تسلیم خم کردیا اور ابراہیمؑ نے بیٹے کو ماتھے کے بل گرادیا، اور ہم نے ندا دی کہ اے ابراہیمؑ ، تو نے خواب سچ کر دکھایا۔ ہم نیکی کرنے والوں کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں۔ یقیناًیہ ایک کھلی آزمائش تھی اور ہم نے ایک بڑی قربانی فدیہ میں دے کر اس بچہ کو چھڑالیا اور اس کی تعریف و توصیف ہمیشہ کے لئے بعد کی نسلوں میں چھوڑدی۔ سلام ہے ابراہیمؑ پر۔ ہم نیکی کرنے والوں کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں۔ یقنا وہ ہمارے مومن بندوں میں سے ہے۔" (الصٰفٰت: 111:103)
ارشاد باری تعالیٰ ہے،
"بے شک ابراہیمؑ اپنی ذات سے ایک پوری امت تھا، اللہ کا فرماں بردار اور یک سو۔ وہ کبھی مشرک نہ تھا۔ اللہ کی نعمتوں کا شکراداکرنے والا تھا۔ اللہ نے اسے منتخب کرلیا اور سیدھا راستہ دکھایا۔ دنیا میں اس کو بھلائی دی اور آخرت میں وہ یقیناًصالحین میں سے ہے۔ پھر ہم نے تمہاری طرف وحی بھیجی کہ یک سو ہو کر (ابراہیمؑ کے طریقہ پر چلو اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھا۔" (النحل 123:120)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تعمیلِ حکم اور ہر حال میں شکر ادا کرنا نیک بندوں کی طرزِ فکر ہے۔ اللہ کی خوش نودی کے لئے عمل کے نتائج قائم رہتے ہیں اور اللہ ایسے لوگوں پر سلام بھیجتا ہے۔ بی بی ہاجرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا اللہ کی ذات پر توکل کرکے ریگستان میں رہنا، پانی کی تلاش میں دو پہاڑیوں کے درمیان دوڑنا اللہ تعالیٰ کو اتنا پسند آیا کہ رحیم و کریم اللہ نے بنجر زمین میں پانی کا چشمہ جاری کردیا اور ایمان و ایقان کے اس عمل کو دہرانا ہر اس فرد پر لازم کردیا جو اللہ کے مقدس گھر کی زیارت کے لئے حاضر ہوتا ہے۔
جو بندہ ایثار و قربانی سے واقف ہوتا ہے، ابلیسیت کا کوئی روپ اسے دھوکا نہیں دے سکتا۔ ایمان اور یقین کی طرزیں اس کے اندر مستحکم ہوتی ہیں۔ ایسا مقرب بندہ ہر شے کے اندر اللہ تعالیٰ کے جمال کا عکس دیکھتا ہے۔یقین اس وقت کامل ہوتا ہے جب مشاہدہ ہو۔ حرکت۔۔۔ نیند اور بیداری دونوں حالتوں میں ہے۔ قلب کی نگاہ غیب اور ایک قدم نیچے اتر کر مظاہراتی دنیا میں بھی دیکھتی ہے۔ کسی شے کو غیب اور حضور دونوں میں دیکھ لینا تکمیل یقین ہے۔
"جو لوگ علم میں پختہ کار ہیں وہ کہتے ہیں کہ ہمارا اس پر ایمان ہے کہ ہر شے من جانب اللہ ہے۔" (اٰل عمران: 7)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خالق کائنات اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسمٰعیل ؑ کو عملِ توحید کرنے کے لئے خانہ کعبہ کی تعمیر کا حکم دیا۔ باپ بیٹے نے حکم کی تعمیل کی۔ دیواریں جب اتنی اونچی ہوگئیں کہ مزیدتعمیر کے لئے پاڑھ کی ضرورت محسوس ہوئی تو ایک پتھر کو پاڑھ بنایا گیا۔ حضرت ابراہیمؑ اس پر چڑھ کر دیوار کی چنائی کرتے تھے۔
"یادکرو وہ وقت جب ہم نے ابراہیم ؑ کے لئے اس گھر کی جگہ تجویز کی تھی کہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور قیام و رکوع و سجود کرنے والوں کے لئے پاک رکھو اور لوگوں کو حج کے لئے اذنِ عام دے دو کہ وہ تمہارے پاس دور دراز مقام سے پیدل اور اونٹوں پر سوار آئیں اور وہ فائدے دیکھیں جو یہاں ان کے لئے رکھے گئے ہیں اور چند مقرر دنوں میں ان جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو انہیں بخشے ہیں، خود بھی کھائیں اور تنگ دست محتاج کو (بھی دیں، پھر اپنا میل کچیل دور کریں اور اپنی نذریں پوری کریں اور اس قدیم گھر کا طواف کریں۔" (الحج: 26-29)

خالقِ کائنات کا ارشاد ہے،
"اللہ نے کعبہ حرمت والے گھر کو لوگوں کے لئے مرکز بنایا ہے۔ " (المائدہ : 97)
اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو یہ سعادت نصیب فرمائے کہ وہ اللہ کے گھر بیت اللہ شریف میں حاضر ہوں، خانہ کعبہ کا طواف کریں۔۔۔ خانہ کعبہ کے تقدس کو دل کی گہرائیوں سے حرزِ جان بنائیں۔ اپنے لئے، خاندان کے لئے، عالمِ اسلام کے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو صراطِ مستقیم پر قائم رکھے، اپنے گھر کی اور اللہ کے محبوب سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زیارت نصیب فرمائے، آمین یا رب العالمین۔
خواتین و حضرات حاجیوں کو اللہ حج مبارک فرمائے، آمین۔

اللہ اکبر ، اللہ اکبر، لا الہ اللہ
واللہ اکبر، اللہ اکبر، وللہ الحمد


Topics


Aaj Ki Baat

خواجہ شمس الدین عظیمی


دل گداز

خواتین وحضرات کے نام