Topics

کیا آدمی تصویر نہیں۔۔؟


ابدال حق قلندر بابا اولیا رحمۃ اللہ علیہ کے 37ویں عرس مبارک کے موقع پر خطاب

--------------------------------------

ہم کیوں نہیں سوچتے کہ جو بھی آتا ہے اس کو جانا ہے۔۔۔ آنے جانے کا کھیل ماں کے پیٹ سے شروع ہوتا ہے اور آنے والا مستقل ردوبدل ہو کر من موہنی صورت بن جاتا ہے۔

رب العالمین کا ارشاد  ہے،
"وہی تو ہے جو رحم مادر میں تمہاری صورتیں جیسی چاہتا ہے بناتا ہے۔"(اٰل عمران: 6)

سوال یہ ہے کیاہم سب تصویر کے علاوہ کچھ ہیں۔۔۔؟ کیا تصویر مستقل اور غیرمستقل روپ میں ظاہر نہیں ہورہی۔۔۔؟ 90 دن کے بچے کو ماں سے جو غذائیت ملتی ہے۔۔ اس میں روح ہے۔۔؟
1۔سماعت ۔ سننے کی حس پیدا ہوتی ہے۔
2۔بصارت ۔ دیکھنے کی حس پیدا ہوتی ہے۔
اور پھر بتدریج دیگر حواس متحرک ہوتے ہیں۔
میرا چھوٹا بھائی آیا تو میں ماں جی کے پیٹ پر کان رکھ کر سنتا تھا کہ یہ مجھ سے بات کرے ۔۔۔ لیکن میں کچھ نہیں سنتا تھا۔ میں نے ماں جی سے پوچھا۔۔۔ اماں سے کہا، بات نہیں کرتا لیکن پیٹ میں کہنیاں مارتا رہتا ہے۔قارئین! آپ بھی اپنی ماں جی سے پوچھیں، وہ آپ کو بتائیں گی۔
یہ بات متوجہ کرتی ہے کہ چلنا، پھرنا، گھومنا، حرکت کرنا پیدائش سے پہلے بھی تھا۔ پیدائش کے بعد تین مہینے تک بچہ کو نظر نہیں آتا لیکن کیا پہلے دن سے بچہ ماں کو نہیں پہچانتا۔۔۔؟ یہ سوال کہ دیکھ نہیں سکتا تو پھر کیسے پہچانتا ہے۔۔۔ ماں کی خوشبو سے ماں کو پہچانتا ہے۔
بچہ جب دنیا میں آتا ہے سب سے پہلے خوشبو سے مانوس ہوتا ہے۔۔۔ وہ بھی ماں کی خوشبو سے۔ اس کے بعد تعارف پیدا ہوجاتا ہے کہ یہ میری ماں ہے اور ادراک ہوتا ہے کہ میں الگ ہوں اور ماں الگ ہے۔ ماں اور بیٹے کا وجود ایک ہونے کے باوجود الگ الگ محسوس ہوتا ہے۔۔۔ محسوس ہی نہیں بلکہ نظر آتا ہے۔ کیا سات ارب آدمیوں میں کوئی ایک آدمی ایسا ہے جو اس حقیقت سے انکارکرسکے۔۔؟
بچہ ماں باپ کی زبان بولتا ہے۔ ماحول کی چھاپ بچہ کے اوپر پڑتی ہے۔ ماں باپ جس طرح کھاتے ہیں۔۔۔ بچہ اسی طرح کھاتا ہے۔ ماں باپ گالی دیں گے، بچہ گالی دے گا۔ ماں باپ صلوٰۃ روزے کے پابند ہیں۔ بچہ صوم و صلوٰۃ کا پابند ہوگا۔ مطلب کیا ہوا۔۔۔؟ بچہ ماں باپ کی نقل۔۔۔ ان کی زبان اور رہن سہن قبول کرتا ہے۔ باشعور ہو کر جب وہ دوسرے ماحول میں جاتا ہے جیسے پاکستان سے مکہ مدینہ چلا گیا، وہیں بڑھا اور چالیس سال کا ہوگیا۔ اس کا پہننا، اوڑھنا، کھانا، پینا، گفتگو کون سی ہوگی۔۔؟ یہ باتیں مادی نقطۂ نظر سے میں نے بیان کیں تاکہ سمجھنے میں آسانی ہو اور مادیت کا غلبہ کم سے کم ہو کر ذہن متوجہ ہو۔کائنات کا مالک، قادر مطلق اور محیط اللہ ہے۔ اللہ عالم الغیب ہے۔۔ ایسا غیب کا عالم کہ جس کی کوئی حد نہیں۔
"زمین میں جتنے درخت ہیں اگر وہ سب کے سب قلم بن جائیں اور سمندر جیسے سات سمندر مزید روشنائی بن جائیں تب بھی (اللہ کی باتیں ختم نہیں ہوں گی۔ بے شک اللہ زبردست حکمت والا ہے۔" (لقمٰن : 27)
رب العالمین فرماتے ہیں،

" میں چھپا ہوا خزانہ تھا میں نے چاہا کہ میں پہچانا جاؤں۔ محبت کے ساتھ مخلوق کو پیدا کیا۔"

 اللہ کا چاہنا یہ ہے کہ جب وہ کسی شے کا ارادہ کرتا ہے تو حکم دیتا ہے، کن --فیکون بن جاتا ہے۔ قلم ہے نہ دوات ہے، کاغذ ہے نہ کینوس ہے۔ کیا ہے۔۔ ؟

 اللہ ہے۔۔۔ اللہ کا امر ہے اور اللہ کے علاوہ کچھ نہیں۔
"وہی اول ہے اور آخر ہے اور ظاہر ہے اور باطن ہے اور وہ ہر شے پر قدرت رکھتا ہے۔" (الحدید: 3(
اللہ جس طرح چاہے بنائے، جس طرح چاہے مٹائے، جس طرح چاہے رکھے، جیسی چاہے تصویر بنادے۔ پھول کو ہم تصویر کے علاوہ کچھ نہیں کہہ سکتے۔ خوب صورت اور خوش نما پرندے بھی تصویر کے علاوہ کچھ نہیں۔ آدمی کیا تصویر کے علاوہ کچھ ہے۔۔؟

 ماشاء اللہ ہزاروں آدمی بیٹھے ہیں ذرا ایک دوسرے سے شکل تو ملایئے۔ سب میں نقوش وہی ہیں لیکن انگوٹھا اور اس کا نشان نہیں ملتا۔ اگر سات ارب آبادی ہے اور سات ارب انگوٹھوں کے نشان ایک دوسرے سے ملانا چاہیں تو ملتے ہیں یا نہیں ملتے۔۔۔؟ غور کیجئے۔
(شور بلند ہوا۔۔۔ نہیں ملتے۔۔۔ نہیں ملتے۔)
"پاک اور بلند مرتبہ ہے وہ ذات جس نے مقداروں کے ساتھ تخلیق کیا اور پھر تخلیقی فارمولوں کی ہدایت بخشی۔"(الاعلیٰ: 1-3)

اللہ نے مقداروں کے ساتھ پیدا کیا لیکن ہر شے کی مقدار الگ ہے۔ سات ارب آدمیوں میں کسی ایک کی آنکھ، کان، ناک، ہاتھ، پیر ایک ہو کر بھی ایک نہیں ہیں۔
اسپرم نظر نہیں آتا۔ نظر نہ آنے والی چیز چھ فٹ کا آدمی بن جاتی ہے۔ دماغ، آنکھ، ناک، کان، دانت، پھیپھڑے، دل، گردے، پتہ، آنتیں، ہاتھ، پیر۔۔۔ حرکت سب میں ہے۔۔۔ لیکن سب الگ الگ ہیں۔۔۔ اس لئے کہ مقداروں میں فرق ہے۔
اللہ نے چاہا مخلوق مجھے پہچانے۔ پہچاننے کا عمل کب ہوگا۔۔۔؟ جب مخلوق ہوگی۔ اللہ نے فرمایا۔۔۔ جو کچھ میرے ذہن میں کائنات کا پروگرام ہے وہ تخلیق ہوجا۔۔۔ تخلیق ہوگئی۔
آج کی تقریر میں سمجھ رہا ہوں بھاری ہے۔ اس کو سمجھ کے جائیں گے تو نئے نئے زاویوں کے ساتھ مفہوم انشاء اللہ واضح ہوگا۔مظاہرہ کس چیز کا ہوا۔۔؟

( حاضرین نے بلند آواز سے کہا۔۔۔ اللہ تعالیٰ کے ذہن میں جو پروگرام تھا اس کا مظاہرہ ہوا۔)
لیکن ابھی صرف مظاہرہ کی بات ہے۔۔ سماعت، بصارت، ادراک و نطق نہیں ہے۔ اجتماعی پروگرام بن گیا۔ آپ سب ہیں، کیا ہیں۔۔ کیوں ہیں۔۔ کس نے بنایا ہے۔۔ سماعت بصارت نہیں ہے۔۔ پہچاننا نہیں ہے۔۔۔ پہچانا کب جاتا ہے۔۔؟ آدمی کانوں سے سنے، آنکھوں سے دیکھے اور زبان سے اقرار کرے۔
اللہ تعالیٰ نے دوسرا پروگرام یہ بنایا کہ مخلوق کو اپنا ادراک ہو۔ مخلوق یہ جانے کہ میں بھیڑ ہوں، میں بکری ہوں، میں ہرن ہوں، میں شیر ہوں، میں پہاڑ ہوں، میں آسمان ہوں، میں زمین ہوں، میں فرشتہ ہوں، میں آدمی ہوں یا میں انسان ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے رونمائی فرمائی اور مخلوق سے فرمایا۔۔ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں۔۔؟ جیسے ہی آواز گونجی مخلوق یعنی چرند پرند، آدمی، فرشتے، سماوات، مٹی کے ذرات، پہاڑ ہر شے میں سماعت بیدار ہوگئی۔

 تجسس ہوا یہ آواز کس کی ہے،

 کون ہے جو کہہ رہا ہے کہ میں تمہارا رب ہوں،

 اور ہمیں اختیار بھی دے رہا ہے کہ ہم قبول کریں یا نہ کریں۔

سوچا تو آنکھ بینائی بن گئی۔

 مخلوق نے اللہ کی دی ہوئی سماعت سے سنا اور آواز کی طرف متوجہ ہوئی،

 اللہ کی دی ہوئی نظر سے اللہ کو دیکھ لیا۔
یقین اور انکار، دو حواس بن گئے۔۔۔ روحوں نے اعتراف کیا اور سجدہ ریز ہوگئیں۔

 سجدہ کا مطلب یہ ہوا کہ مخلوق نے اقرار کیا۔۔۔ آپ ہمارے رب ہیں اور ہم سب آپ کی مخلوق ہیں۔
کائنات کی تشکیل اللہ تعالیٰ کے ذہن سے ہوئی۔ یہ ہی ہماری ابتدائی ہے۔ سماعت، بصارت، ادراک اور گویائی ہے۔ پیدائش سے پہلے جو وعدہ ہم نے اللہ سے کیا تھا، کیا ہم اللہ سے کئے ہوئے وعدے پر قائم ہیں۔۔۔ جب ہم نے خود عہد توڑدیا اور بھول گئے تو ہم کیا ہوئے۔۔۔؟

سوچئے۔۔۔ بتایئے۔۔۔ آنکھیں بند کرکے دو منٹ غور کیجئے۔۔۔ اور اس بڑے اجتماع میں جو کچھ آپ نے سمجھا ہے اس کو اپنے ساتھیوں سے شیئر کیجئے۔
خالق کائنات نے آدم ؑ کو علم الاسما سکھایا۔ آدم ؑ نے جب اللہ کی صفات کا علم فرشتوں کے سامنے بیان کیا تو فرشتوں نے کہا ہم اس علم کو نہیں جانتے، ہم تو بس اتنا ہی جانتے ہیں جتنا آپ نے سکھادیا ہے۔ پھر جنت میں آدم ؑ کا قصہ ہوا اور وہاں سے آدم ؑ زمین پر آگئے۔بتایئے ہم سب کون ہیں۔۔۔ سات ارب آدمیوں کو آپ کیا کہیں گے۔۔۔؟

آدمی سے مراد آدم ؑ کی اولاد ہے۔ باپ کا ورثہ اولاد کو نہ ملے تو اس اولاد کو کیا کہا جائے گا۔۔۔؟خلف یا ناخلف۔۔۔؟ نافرمان کو عاق کردیا جاتا ہے۔۔۔ وراثت ملتی ہے یا نہیں ملتی۔۔۔؟

 اس وقت بات ان ہزاروں خواتین و حضرات کی ہورہی ہے جو یہاں بیٹھے ہیں۔

 بتایئے ہماری پوزیشن کیا ہوئی۔۔۔؟ کیا ہم اپنے باپ آدم ؑ کی وراثت کے قابل ہیں یا ہم نے وراثت کو چھوڑدیا ہے۔ اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ ہم نہیں سیکھ سکتے تو کیوں بھئی انگریزی آپ سیکھ لیتے ہیں، چینی سیکھ لیتے ہیں، اردو سیکھ لیتے ہیں، بلوچی، پنجابی، سندھی، پشتو، کشمیری سیکھ لیتے ہیں۔۔۔ ہر زبان سیکھ لیتے ہیں۔۔۔ قرآن کریم کی زبان آپ کیوں نہیں سیکھ سکتے۔۔۔؟

 بتایئے۔۔۔ کیوں نہیں سیکھ سکتے اور کیوں نہیں سیکھتے۔۔۔؟
اللہ نے ذہن دیا ہے، حافظہ دیا ہے۔ اللہ کے دیئے ہوئے ذہن سے آپ اللہ کی باتیں یوم ازل میں جان چکے ہیں۔۔۔ اللہ کو دیکھ چکے ہیں۔۔۔ ہم قانون قدرت پر عمل کیوں نہیں کرتے۔۔۔؟
عزازیل کو اللہ نے علم سکھایا، معلم الملکوت بنایا لیکن اس نے حکم سے انحراف کیا اور اس کا کیا حشر ہوا اگر ہم شیطانی انسپائریشن پر چل رہے ہیں۔۔۔ اللہ سے دور ہوجائیں گے۔ اندھیرا ہوگا یا روشنی ہوگی۔ ہم نے اگر اندھیرے کو اختیار کرلیا، روشنی سے تعلق ختم ہوجائے گا۔
اللہ تعالیٰ کی رحمت دیکھئے۔۔

 وہی ابتدا، انتہا، ظاہر اور باطن ہے۔

بے حساب رزق عطا فرماتا ہے۔

 اللہ پوری زمین کو پہاڑ بنادے، گندم کہاں سے کھائیں گے۔۔۔؟

 بارش نہ برسے، کھیتی باڑی کیسے ہوگی۔۔۔؟

 کیا قحط سالی سے زمین بنجر اور لوگ مر نہیں جاتے۔۔۔؟
آپ سمجھ دار ہیں۔ بات صرف اتنی ہے کہ ہمیں اپنا موازنہ کرنا ہے۔ موازنہ میں یہ بات شامل ہونی چاہئے کہ روٹی کون دیتا ہے اور ہم گانا کس کا گاتے ہیں۔۔۔؟ شیطان راندۂ درگاہ ہے۔ شیطان کے دائرہ سے نکلنے کے لئے ہمیں کیا کرنا ہوگا۔۔۔؟ شیطان نے جو کچھ کیا ہے ہمیں نہیں کرنا۔۔۔ اللہ کا کہنا ماننا ہے اور اللہ کا کہنا کیسے ماننا ہے۔۔۔؟
صراط مستقیم پر چلنے کے لئے قرآن کریم ترجمہ کے ساتھ پڑھیں۔ جب تک ہم قرآن کریم ترجمہ کے ساتھ نہیں پڑھیں گے، بھٹکتے رہیں گے۔ سب نے صلوٰۃ کے لئے دس سورتیں یاد کرلیں، ترجمہ یاد نہیں۔ جیسے پڑھتے ہیں ایسے کوئی دوسرا علم حاصل کرکے کلرک بن کر دکھایئے
اللہ تعالیٰ آپ کو خوش رکھے۔ مجھے اور آپ کو ہر قسم کی برائی سے دور اور تمام انسانوں کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے،

"واعتصمو بحبل اللہ جمیعا ولا تفرقوا"

"سب مل کر اللہ کی ر سی کو مضبوط پکڑلو اور تفرقہ میں نہ پڑو۔"(اٰلِ عمران: 103)

میں دعا کرتا ہوں آپ بھی دعا کریں کہ مجھے اور آپ کو اللہ تعالیٰ عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ عمل کی تکمیل اس وقت ہوگی جب ہم قرآن کریم ترجمہ کے ساتھ پڑھیں۔۔۔ خاتم النٰبیین اللہ کے محبوبؐ کی تعلیمات کے مطابق اللہ کی بندگی کریں۔۔۔ حقوق العباد پورے کریں۔۔۔ دین کو سمجھیں۔۔۔ رازق، مالک، محیط اللہ رب العالمین کی بندگی میں خلوص و ایثار ہو۔۔۔ صلوٰۃ قائم کریں تاکہ۔۔۔ زندگی بندگی اور بندگی زندگی بن جائے۔

Topics


Aaj Ki Baat

خواجہ شمس الدین عظیمی


دل گداز

خواتین وحضرات کے نام