Topics

وقت کی پیمائش -؟

ابدالِ حق حضور قلندر بابا اولیاء

خالقِ کائنات کا ارشاد ہے:

"اس نے چھ ایام میں تخلیق کیا زمین اور آسمان اور جو کچھ ان کے درمیان میں ہے، پھر عرش پر جلوہ فرما ہوا، اس رحمن کی شان کسی جاننے والے سے پوچھ۔" (الفرقان: 59)

خیال  اور جسم یوم کے دو رخ ہیں جوچھ مراحل میں تقسیم ہو جاتے ہیں۔

1 -وہم  2 -خیال  3 -تصور  4 -احساس  5 -حرکت  6 -مظاہرہ

کائنات چھ دائروں میں سفر کرتی ہے۔ مخلوقات مختلف گیسوں کا مجموعہ ہیں۔ یہ گیسیں برقی رو یا بجلی کا بہاؤ ہیں۔ برقی رو کا بہاؤ جمادات، نباتات، حیوانات، معدنیات، سماوات، ارض۔۔۔ سب میں ربط ہے۔ ربط زندگی ہے۔ برقی رو ایک طرف رنگ ہے اور رنگ۔۔۔ روشنی ہے۔ روشنی آنکھ کے ذریعے دماغ پر منعکس ہوتی ہے اور رنگوں کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔ تصویر دماغ کی اسکرین پر نظر آتی ہے۔ سمجھا یہ جاتا ہے کہ ہم باہر دیکھ رہے ہیں لیکن ہم باہر نہیں۔۔۔ اندر دیکھ رہے ہیں۔ نظر اور منظر کے درمیان برقی رو واسطہ ہے۔ جو روشنی دکھانے کا ذریعہ بن رہی ہے وہ نظر اور منظر دونوں میں مشترک ہے۔ مشترک نہ ہو تو نگاہ نہیں دیکھتی۔

برقی رو دماغ کے خلیوں میں گردش کرتی ہے اور خیالات ایک ذہن سے دوسرے ذہن میں منتقل کرنے کا ذریعہ بنتی ہے۔ خیال ہو یا خیالات کا مجموعہ۔۔۔ برقی رو میں مکمل شکل و صورت اور احساس و جذبات کے ساتھ موجود ہے۔

خلیہ خول ہے اور خول مادہ ہے۔ خلیہ میں زندگی برقی رو سے ہے۔ سر میں سے دماغ نکال لیا جائے تو ایک جگہ خالی رہے گی۔ دماغ میں دیگر اعضا سے متعلق خلیے جس برقی رو کے بنے ہوئے ہیں وہ قائم رہتے ہیں اور کام کرتے ہیں۔

مرنے کے بعد آدمی کی حیثیت مائیکرو فلم کی ہوجاتی ہے۔ اس شخص کی مائیکروفلم کو ہم نہیں دیکھتے لیکن مائیکروفلم متحرک ہے اور اس میں احساسات قائم ہیں۔ ہم جو کہتے ہیں وہ سنتا ہے اور جواب دیتا ہے، دیکھتا بھی ہے مگر بولنے، سننے اور دیکھنے کی طول موج (Wave Length) کی فریکوئنسی مادی فہم سے باہر ہے۔ مرنے والا اس دنیا سے رخصت ہو کر روشنی کے عالم میں منتقل ہوجاتا ہے۔ موت مرنا نہیں۔۔۔ ایک عالم سے دوسرے عالم میں منتقل ہونا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بیس (20) سائیکل فی سیکنڈ سے کم یا بیس ہزار (20,000) سائیکل فی سیکنڈ سے زیادہ کی آواز کو آدمی نہیں سنتا۔ مادی فہم کے تناسب سے مرنے کے بعد اس شخص کی سماعت و بصارت کی طول موج کی فریکوئنسی بیس سائیکل فی سیکنڈ سے کم یا بیس ہزار سائیکل فی سیکنڈ سے زیادہ ہوجاتی ہے۔

سمجھنا یہ ہے کہ کوئی شے رکتی نہیں۔ اتنی چھوٹی ہوجاتی ہے کہ ہم دیکھ نہیں سکتے یا اتنی بڑی ہوجاتی ہے کہ شعور احاطہ نہیں کرتا۔

کائنات میں ہر شے طول موج پر قائم ہے۔ طول موج دراصل شکل و صورت ہے۔ جس شے کی طول موج کا ادراک ہوجائے وہ فہم بن جاتی ہے۔ واقفیت کے لئے ذہن اور شے کی فریکوئنسی کا ایک ہونا ضروری ہے۔

اہرام (Pyramid) ایک ، دو، تین، چار بیس کمروں کی شکل میں بنائے گئے ہیں۔ تعمیر میں خیال رکھا گیا ہے کہ کمروں کی جیومیٹریکل شکل ایک ہو۔ اگر آج کوئی پندرہ بیس کمروں کا مکان بنایا جائے کس کی طول موج ایک ہو تو ایسے مکان میں پچاس ہزار سال، ایک لاکھ سال اور دس لاکھ سال تک شے خراب ہوتی ہے نہ اس میں سڑاند پیدا ہوتی ہے۔ جیسی ہے، ویسی رہتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ظاہر اور باطن، خیال کی دو سمتیں ہیں۔ باطن مادی شعور سے مخفی ہے اور ظاہر نظر آتا ہے۔ خیال کا مرکزی نقطہ چھٹی حس ہے۔خیال برقی رو ہے اور چھٹی حس برقی رو کا مرکزی نقطہ ہے۔ یہ نقطہ دماغ کے ہر خلیہ کا مرکز ہے۔ ’’نقطہ‘‘۔۔۔ ہر خلیہ میں روح ہے۔ روح۔۔۔ برقی رو کا مخفی رخ ہے۔ برقی رو کا ظاہر، مادہ یعنی کروموسوم ہے۔ کروموسوم اڑتالیس (48) نقطوں یا اڑتالیس دائروں پر مشتمل ہے۔کروموسوم کی تین اقسام ہیں۔

Ø                 ایک کروموسوم فرشتوں کا ہے۔ اس میں جنسی خواہش نہیں ہوتی۔ یہ عام نگاہ سے نظر نہیں آتے۔

Ø                 جنات کے کروموسوم میں جنسی خواہش اور تناسل دونوں ہیں۔ جنات بھی آدمی کو نظر نہیں آتے اس کروموسوم کی زندگی محدود ہے۔

Ø                 تیسرا کروموسوم آدمی کا ہے۔ اس میں زندگی محدود اور جنسی خواہش اور تناسل دونوں ہیں۔ یہ نظر آتا ہے مگر روح نکل جانے کے بعد مٹی میں مل جاتا ہے۔

درحقیقت کروموسوم (مٹی) نظر کا دھوکا ہے۔ اصل روح ہے جو کروموسوم میں زندگی ہے۔ کروموسوم کی نظر روح کو دیکھ نہیں سکتی۔ البتہ روح خود کو دیکھ سکتی ہے مگر یہ دیکھنا باطنی ہے۔باطن میں دیکھنا، ماضی یا مستقبل میں دیکھنا ہے۔ ہر فرد کو اس کا تجربہ ہے۔ ایک مثال نیند کی دنیا ہے۔ خواب میں مستقل کی نشان دہی ہوتی ہے۔ بیش تر خواب آدمی بھول جاتا ہے اور زیادہ تر سمجھ میں نہیں آتے۔ خواب کی کئی اقسام ہیں تاہم خواب زندگی کا وہ رخ ہے جس میں نگاہ باطن میں دیکھتی ہے۔ؤ

کابوس (Somnambulism) نیند میں چلنے کی عادت کا نام ہے۔ لوگ اسے بیماری سمجھتے ہیں۔۔۔ یہ بیماری نہیں ہے۔ آدمی سوتا ہے، نیند میں اٹھتا ہے، کپڑے بدلتا ہے، آفس جاتا ہے، کرسی پر بیٹھتا ہے، کچھ نہ کچھ لکھتا ہے اور پھر گھر واپس آتا ہے، کپڑے بدلتا ہے اور سوجاتا ہے۔

مگر کچھ معلوم نہیں ہوتا، یادداشت ساتھ نہیں دیتی کہ کیا کچھ ہوگیا۔۔۔ وہ سب بھول جاتا ہے۔ حالاں کہ جو اعمال انجام دیئے گئے، یادداشت کے پردہ پر اس کا ریکارڈ موجود ہے۔ یادداشت کا فوٹو لیا جائے تو اول سے آخر تک سب تحریریں ملیں گی۔

باطن میں دیکھنے کا ایک اور تجربہ مراقبہ ہے۔ یک سوئی ہوجائے تو مادی آنکھ سے مخفی بہت ساری چیزیں نظر آتی ہیں۔ اکثر کا تعلق مستقبل سے ہوتا ہے۔ بیداری کے حواس میں باطنی دنیا میں داخل ہونے کے لئے یک سوئی شرط ہے۔ایسی مثالیں بہت کم لیکن موجود ہیں کہ فرد غیرارادی طورایک شہر سے دوسرے شہر چلاجاتا ہے۔ یہ تجربہ باطنی نگاہ سے ہوتا ہے۔ ارادہ کرکے تجربہ کیا جائے تو شرط یہ ہے کہ جسم بتدریج لطیف ہو۔ لطافت بڑھنے سے کثافت کم ہوتی ہے اور جسم ہلکا ہوتا ہے جیسے روشنی۔ اس کے لئے بہت مشق اور ریاضت کی ضرورت ہے۔ اس کے بعد بندہ ارادہ اور اختیار سے کسی بھی شہر جاسکتا ہے چاہے فاصلہ کتنا طویل ہو۔ اس سفر میں وقت، پیمائش سے آزاد ہے۔

دنیا کا ایک رخ لطیف اوردوسرا کثیف ہے۔ تفکر باطن میں ہو تو لطیف دنیا سامنے آجاتی ہے۔ یہ روشنی کی دنیا ہے جس پر مادی دنیا قائم ہے۔ خیال۔۔۔مادی دنیا سے آزاد ہے۔ جس شے یا جگہ کا خیال آئے بندہ خیال یا تصور کرکے وہاں پہنچ جاتا ہے۔ خیال میں موجود روشنی سے واقف ہوں تو جسم ہلکا اور روشنی غالب آجاتی ہے۔

Topics


Aaj Ki Baat

خواجہ شمس الدین عظیمی


دل گداز

خواتین وحضرات کے نام