Topics

اللہ کے مہمان


ارشاد باری تعالٰی ہے:

"اور لوگوں پر اللہ کا یہ حق ہے کہ جو اس کے گھر تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہے وہ اس کا حج کرے اور جو اس حکم کی پیروی سے انکار کرے تو اسے معلوم ہونا چاہئے کہ اللہ سارے جہاں والوں سے بے نیاز ہے۔ "(اٰل عمران : 97)

"اور نہ ان لوگوں کو چھیڑو جو اپنے رب کے فضل اور اس کی خوشنودی کی تلاش میں احترام والے گھر کی طرف جارہے ہیں۔ (المائدہ: 6)

حج اور عمرے کو محض اللہ کی خوشنودی کے لئے پورا کرو۔ (البقرہ: 196)

" حج کے دوران شہوانی باتیں نہ ہوں ، نہ کوئی برا کام کرے اور نہ کسی سے جھگڑے ۔اور جو نیک کام تم کروگے ، اللہ کو اس کا علم ہے اور سفرِ حج کے لیے زاد راہ ساتھ لے جاؤ اور سب سے بہتر زادِ راہ تقویٰ ہے۔( البقرہ: 197)

پھر جب تک حج کے تمام ارکان ادا کرچکو تو جس طرح پہلے اپنے آباؤ اجداد کا ذکر کرتے تھے اسی طرح اب اللہ کا ذکر کرو  بلکہ اس سے بڑھ کر۔ (البقرہ: 200)

حج کا سفر کرنے والا مسافر اللہ کا مہمان ہے۔ اللہ کے گھر میں حاضر ہونے اور ارکان حج پورا کرنے سے آسمانوں، عرش اور زمین پر اللہ کی نعمتیں حاصل ہوتی ہیں۔حج کے ارکان کی حکمت پر تفکر کے ساتھ عمل کیا جائے تو بندہ اللہ کی نافرمانی سے بچتا ہے اور اللہ کی فرمانبرداری کا سہرا اس کے سر پر سجتا ہے۔ حاجی اس بات کا اعلان کرتا ہے کہ وہ ازل میں اقرار کرچکا ہے کہ ہمارے خالق، دو جہانوں میں پیدا کرنے والا، رزق دینے واالا، عمر گھٹانے بڑھانے والا، حفاظت کرنے والا، بے حساب رزق عطا کرنے والا اللہ ہے۔

حاجی سفر کی مشکلات برداشت کرکے فراخدلی اور ایثار سے کام لیتا ہے۔ ہر ایک کے ساتھ معافی اور درگزر، سخاوت و فیاضی کا برتا ؤکرتا ہے نہ کسی کو قتل کرتا ہے، نہ کسی کو تکلیف اور ایزاء پہنچاتا ہے اور نہ برائی کرتا ہے۔حج کے زمانے میں بیہودہ گوئی، غیبت اور ہر شیطانی عمل سے بچنے کی ہدایت اور خود کو محفوظ رکھنے کی تلقین کی گئی ہے۔ ایسی باتوں سے پرہیز کریں جو شہوانی جذبات کو برانگیختہ کرنے کا باعث بنتی ہیں۔ صلوٰۃ پابندی سے قائم کرتے ہیں اور حج کے ارکان پورے کرنے میں انتہائی درجہ خلوص نیت سے مستعد رہتے ہیں۔ قادر مطلق ہستی رب العالمین نے فرمایا ہے،

"حج کے مہینے سب کو معلوم ہیں۔ جو شخص ان مقررہ مہینوں میں حج کی نیت کرے اسے خبردار رہنا چاہئے کہ حج کے دوران شہوانی باتیں نہ ہوں" (البقرہ: 197)

احرام باندھنے کے بعد، ہر نماز کے بعد، ہر بلندی پر چڑھتے وقت اور ہر پستی کی طرف اترتے وقت اور ہر قافلے سے ملتے وقت اور ہر صبح کو نیند سے بیدار ہوکر حاجی حضرات تلبیہ پڑھتے ہیں۔

آیئے ہم بھی ان کے ساتھ شریک ہو کر اپنے اللہ کے حضور حاضر ہوں۔

لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ لاَ شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ،

 إِنَّ الْحَمْدَ، وَالنِّعْمَةَ، لَكَ وَالْمُلْكَ، لاَ شَرِيكَ لَكَ

"میں حاضر ہوں ، اللہ میں حاضر ہوں، آپ کا کوئی شریک نہیں، میں حاضر ہوں، بے شک ساری تعریف آپ کے لئے ہے، نعمتیں آپ کی ہیں، ساری بادشاہی آپ کی ہے، آپ کا کوئی شریک نہیں۔"

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حرم شریف میں داخل ہوں تو خشوع و خضوع کے ساتھ کعبۃ اللہ کی عظمت و جلال کا دھیان رکھتے ہوئے داخل ہوں اور جوں ہی کعبۃ اللہ پر نظر پڑے تو اپنی نظریں وہیں جمادیجئے اور وہیں ٹھہر جایئے اور پھر جی بھر کر بصد ادب و شکر اپنی خوش قسمتی پر نازاں نہایت عجز و نیاز سے دین و دنیا کی ساری جائز اور نیک خواہشات کی دعا مانگئے۔ دعا کے قبول کرنے والے کا گھر آپ کی نظروں کے سامنے ہے۔ اختیار تو اسی کو ہے لیکن قبولیت دعا کی ساعت جب مل جاتی ہے، اس وقت جو بھی مانگنا ہے مانگ لیجئے۔ اللہ رب العزت سے اس وقت مانگی ہوئی دعا قبول ہوتی ہے۔ جب تک آپ اللہ کے گھر کو دیکھتے رہیں گے اور آپ کی نظر بند نہ ہوگی یعنی پہلی نظر کا سلسلہ قا ئم رہے گا جب تک اس ساعت کی مانگی ہوئی دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ اللہ آپ کی دعائیں قبول فرماتا ہے۔ پہلی دفعہ جب انسان کعبۃ اللہ کو دیکھتا ہے تو رعب طاری ہوجاتا ہے اور آنکھ جلد ہی جھپک جاتی ہے۔ اس لئے جو بھی دعا مانگنی ہو اسے پہلے ہی یاد کرلیں۔ دنیا کی، آخرت کی، عافیت کی اور وطن کے استحکام کی  دعا مانگیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

خانہ کعبہ اللہ کی مرکزیت کا سمبل ہے۔ ہر شے اللہ کی جانب سے آرہی ہے اور اللہ کی جانب لوٹ جاتی ہے۔ اللہ کی جانب سے آنے والی ہر شے کائنات کا لاشعور ہے اورمخلوق سے اللہ کی جانب لوٹ جانے والی ہر شے کائنات کا شعور ہے۔ لاشعور کائنات کا علم ہے اور شعور کائنات کے علم کا مظاہرہ ہے۔ اللہ کی ذات علیم ہے اور علم کا سورس اللہ ہے۔ الٰہی انوار کا مظاہراتی سطح پر نزول کرنا کائنات کی نزولی حرکت ہے۔ نزولی حرکت میں علم کی تجلی اپنے اندر کے علوم کا مظاہرہ کرتی ہے۔

بیت اللہ شریف کے طواف میں یہ نیت ہوتی ہے کہ ہم اللہ کے گھر کا طواف کررہے ہیں۔ طواف صعودی اور نزولی دونوں کیفیات پر مشتمل ہے۔ صعودی حرکت یہ ہے کہ بندہ اپنے رب کی جانب متوجہ ہوتا ہے اور نزولی حرکت یہ ہے کہ بندہ مقدس زمین پر جسمانی طور پر طواف کرتا ہے۔

اس کی مثال یہ ہے کہ ایک اسپرنگ ہے۔ اس اسپرنگ کے اوپر کے سرے پر تار میں ایک موتی پرویا ہوا ہے۔ اس موتی کو اسپرنگ کے ہر دائرے سے گزارتے ہوئے نیچے لایا جائے۔ سب سے اوپر تار میں پرویا ہوا موتی اسپرنگ کے نچلے حصے میں پہنچ جائے گا۔ جب یہ موتی تار کے انتہائی سرے پر پہنچ جائے، موتی کو واپس نیچے سے اوپر پہنچایا جائے۔ موتی کا اوپر سے نیچے آنا لاشعور ہے اور نیچے سے اوپر جانا شعوری حرکات ہیں۔ لیکن شعوری اور لاشعوری دونوں کی منتہا بلندی ہے۔ جب کوئی خاتون یا مرد اللہ کے گھر کا طواف کرتا ہے تو وہ بیت اللہ شریف کے چاروں طرف گھومتا ہے اور حجر اسود کے سامنے تھوڑی دیر قیام کرتا ہے۔ حجر اسود کو بوسہ دینا یا ہاتھ کے اشارے سے بوسہ دینا اور خانہ کعبہ کے گرد چکرلگانا طواف ہے۔ طواف کعبہ میں شعور اور لاشعور میں روشنیوں کا ہجوم ہوجاتا ہے۔ روشنیوں اور نور کے ذخیزہ ہونے کی وجہ سے روح مشاہدہ حق میں مصروف ہوجاتی ہے۔جب بندہ

لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ لاَ شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ،

إِنَّ الْحَمْدَ، وَالنِّعْمَةَ، لَكَ وَالْمُلْكَ، لاَ شَرِيكَ لَكَ

پڑھتے ہوئے خانہ کعبہ کا طواف کرتا ہے توانوار اس کا احاطہ کرلیتے ہیں۔ قرب الٰہی کا ادراک ہوتا ہے۔ روح کی سرشاری سے بندہ رب العالمین کے حضور پیش ہوتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔

ثواب، نیکی اور اجر اللہ کا خصوصی انعام ہے۔ نظام کائنات کا پورا سسٹم نور اور روشنی پر قائم ہے۔ یہ نور اور روشنی لہروں میں نازل ہوتا رہتا ہے۔ ایک نیکی کا مطلب ہے کہ بندہ ایک روشنی سے سیراب ہوگیا ہے۔ صلوٰۃ کا مطلب ہے کہ اللہ سے تعلق قائم کرنا ہے۔ ایک نماز کے ثواب کا مطلب یہ ہے کہ نمازی کا اپنے رب سے یک گونہ تعلق مزید بڑھ گیا ہے اور ایک لاکھ ثواب کا مطلب ہے کہ صلوٰۃ قائم کرنے والے بندے یا بندی کا اپنے اللہ سے ایک لاکھ گنا تعلق میں اضافہ ہوا ہے۔

لوگ حج سے پہلے یا حج کے بعد مدینہ منورہ میں قیام کرکے چالیس نمازیں مسجد نبوی میں پابندی سے ادا کرتے ہیں۔ اس کی حکمت یہ ہے کہ مسجد نبوی میں زیادہ سے زیادہ وقت گزارا جائے۔ تاکہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  سے ذہنی اور قلبی رابطہ قائم ہوجائے۔ ذہن نور نبوت کو قبول کرنے کے قابل ہوجائے اور اللہ کو جانے اور پہچانے۔

شعور، قربت اور ماحول سے بنتا ہے، آدمی جس ماحول میں رہتا ہے۔ ماحول کے اثرات اس کے اوپر مرتب ہوتے ہیں۔ جب کوئی مسلمان بندہ مسجد نبوی میں مسلسل آٹھ دن آٹھ رات رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے حرم سے وابستہ رہتا ہے اور ذہنی مرکزیت قائم رہتی ہے تو مسجد نبوی کا منور ماحول اس کے اوپر اثرانداز ہوتا ہے اور بندے کا دل محبت و عشق کے جذبات سے معمور ہوجاتا ہے۔ مسجد نبوی میں نمازیں ادا کرنے کا اجر بھی بہت زیادہ ہے۔ اجر اور ثواب کا مطلب یہ ہے کہ لاکھوں کروڑوں نور کی لہریں ذخیرہ ہوتی ہے۔ نماز میں حضورئ قلب نصیب ہوتی ہے تو شکوک و شبہات اور وسوسوں سے نجات مل جاتی ہے اور بندہ اللہ کے فضل و کرم اور رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی نسبت سے ایسی نمازیں قائم کرتا ہے جس کے بارے میں ارشاد ہے:

"الصلوٰۃ معراج المومنین"

"نماز مومنوں کی معراج ہے"


Topics


Aaj Ki Baat

خواجہ شمس الدین عظیمی


دل گداز

خواتین وحضرات کے نام