Topics

منزل بے کراں

 

آزاد ذہن کے سفر کا آغاز تھا اس سفر کا آغاز جس کی منزل بے کراں ہے۔ ہر کنارے میں وسعت ہوتی ہے۔۔ آزاد ذہن کا سفر لامحدود ہے اس لئے ضروری ہے کہ مسافر میں بے کراں نہیں لیکن وسعت موجود ہو۔دنیا گزرے ہوئے کل کی دنیا کے مقابلے میں آج ز یادہ عقل و شعور رکھتی ہے۔ جیسے جیسے عقل و شعور میں اضافہ ہوتا رہا اسی مناسبت سے ۔ بے کراں دنیا کا محدود سہی لیکن انکشاف ہوتا رہا۔۔ اور آدم زاد خلائی دور میں داخل ہوگیا۔۔ یہ تلاش کیا ہے۔۔ کیوں ہے۔۔ اور کس مخفی راز کا کھوج ہے؟

جب ہم اس جہد مسلسل پر غور کرتے ہیں اور غور سے گزر کر تفکر کے عمیق سمندر میں گم ہوجاتے ہیں تو یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ اس تلاش کے پس پردہ فلاح و بہبود کے ساتھ ساتھ ہلاکت اور زمین کی بربادی کا بھی سامان ہے۔موجودہ ترقی بلاشبہ عقل و شعور کے بالغ ہونے کی طرف واضح نشاندہی ہے لیکن پس منظر میں شعور کی بلوغت دراصل مادی اشیاء کی گرفت کو مضبوط اور مستحکم کرنا ہے۔

سب جانتے ہیں۔۔ مادی دنیا کے اندر تمام اشیاء اور ان اشیاء میں الگ الگ ہر نوع، ہر فرد فنا کے ایسے راستے پر چل رہا ہے۔۔ جس ر استے کی نشاندہی کرنا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔ مادی وسائل کو استعمال کرنا اچھی بات ہے۔ زمین اپنی کوکھ سے وسائل اس لئے جنم دیتی ہے کہ زمین پر ممتاز اولاد "انسان" ان وسائل سے آرام و آسائش حاصل کرے۔

زمین تمام مادی وسائل کی ماں ہے۔۔ ماں، زمین چاہتی ہے کہ ہم سب سکون کی زندگی گزاریں۔۔ آرام و آسائش کے ساتھ اپنے دوسرے بہن بھائیوں کو دیکھیں، خود بھی خوش رہیں۔اس کے برعکس ایک مخصوص گروہ نے دھرتی کے لئے تخریب اور تباہ کاریوں کا ایسا جال پھینک دیا ہے کہ زمین اس ناسعید اور ظالم اولاد کے لئے بے کل، پریشان اور مضطرب ہے۔بہت ساری اولادوں میں ایک دو یا چند اولادیں ایسی ہوتی ہیں۔۔ جو ماں کے ذہن، ماں کی طرز فکر، ماں کی شفقت و محبت کو زیادہ سمجھتی ہیں اور ماں کی اندرونی واردات و کیفیات کو اپنے اندر شدت کے ساتھ محسوس کرتی ہیں۔

"دھرتی ماں" بہت شفیق اور مہربان ماں۔ زمین نے ایک دن ایک بیٹے سے کہا "بیٹے تیرے کچھ بھائی میرے "پیٹ" کو اجاڑ دینا چاہتے ہیں۔اے میرے فرزند میری کوکھ اجڑنے کو ہے میری پشت پر یہ چلتی پھرتی دنیا اور لہلہاتے کھیت، خوبصورت قطار در قطار درخت، رنگ رنگ پیراہن پھول، کوہسار، آبشاروں اور چشموں کو برباد کردینا چاہتے ہیں اور رنگ برنگ پرندوں کے نغموں اور چڑیوں کی چہچہاہٹ کی موسیقی سے فضا کو محروم کردینا چاہتے ہیں۔اے میرے فرزند! وقت کم ہے کوشش کر کہ میری مانگ کا سندور خراب نہ ہو۔ مانگ اجڑ جاتی ہے تو اولاد کا کوئی نام لیوا نہیں ہوتا"

زمین ماں کا پیغام سن کر اس کے ایک بیٹے کے اندر جذبہ ابھرا۔۔ ماں کی مامتا کا جذبہ۔۔ یہی جذبہ ہے جس جذبہ کے تحت ہم نے آزاد ذہن کے سفر کا آغاز کیا ہے۔بلاشبہ یہ راستہ بہت کٹھن ہے دشوار گزار بھی ہے لیکن زمین ماں کی دعائیں میرے اور میرے ہمدردوں اور غمگساروں کے ساتھ ہیں۔زمین میری، آپ کی اور ہم سب کی ماں نصیحت کرتی ہے کہ انسانی عزم اور انسانی جدوجہد کے سامنے کوئی مشکل، مشکل نہیں۔ ہر ناممکن، ممکن ہے۔۔ کوشش، کوشش اور کوشش کامیابی کے لئے توانائی اور انرجی ہے۔

آج کا انسان اتنا بے سکون ہے جتنا پہلے کبھی نہیں تھا اس ترقی یافتہ مادی دنیا میں ہلکی اور بھاری مشینوں کا شوروغل ، سڑکوں پر رینگتی ہوئی بے شمار گاڑیوں کا دھواں، ملوں کی چمنیوں سے ابلنے والا کاربن ڈائی آکسائیڈ، ٹی وی سے نکلنے والی شعاعیں، لاسلکی نظام کی لہریں، ایٹامک ریز، پلوشن، بے حیائی، درماندگی، بے چینی و اضطراب، بیزاری وہ عوامل ہیں جس سے سکون نے بے سکونی کا کفن پہن لیا ہے۔ کفن پہننے سے مراد یہ ہے کہ آدمی خودساختہ زندہ درگور ہوجانے کی دانستہ یا نادانستہ جہد مسلسل میں مصروف ہے۔

آدم کہتا ہے کہ مجھے زمین کو سجانا۔۔ سنوارنا ہے اور زمین کو آرام و آسائش کا گہوارہ بنانا ہے لیکن اس کے برعکس ہو یہ رہا ہے کہ زمین کی تباہی، بربادی اور ہلاکت روز افزوں آثار ترقی پذیر ہیں۔ چاند ستاروں پر کمند ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ ہلاکت خیز ہتھیاروں کے انبار جمع کئے جارہے ہیں۔زمین کو برباد کرنے کے سارے طریقے ایجاد کرلئے گئے اور یہ سمجھا جانے لگا کہ ہمارے بنائے ہوئے مہلک ہتھیاروں سے یہ زمین کھنڈر بن جائے گی تو نظر انتخاب چاند پر پڑی۔ چاند بے آب و گیاہ نظر آیا تو نظام شمسی کے دوسرے سیاروں کی طرف توجہ مبذول کردی گئی۔۔ کیسا ادراک ہے کہ آدمی اپنے صاف ستھرے کھلے روشن گھر کو آگ لگا کر دوسرے گھر کی تلاش میں نکل کھڑا ہو۔ جب گھر ہی نہیں ہوگا اور گھر میں رہنے والے افراد نہیں ہوں گے۔ چاند ستاروں پر کمند ڈالنا کیسی عقلمندی ہے؟ ہونا تو یہ چاہئے کہ پہلے اپنے گھر کو آگ نہ لگائی جائے۔ نشیمن برباد نہ کئے جائیں۔ دنیا میں دھرتی پر اللہ کی نشانیوں پر تفکر کیا جائے۔ دنیا کا ادراک کرکے اللہ تعالیٰ نے آسمانوں کو جن ستاروں اور بروج سے زینت بخشی ان کا ادراک کیا جائے اور ایسی دھرتی ماں کی کوکھ اجاڑنے کی لاحاصل جدوجہد نہ کی جائے۔

ہم کہتے ہیں کہ آرام و آسائش چاہئے، سکون چاہئے۔۔ لیکن ہمارا عمل ہے کہ اس سکون کوبرباد کرنے پر تلے ہوئے ہیں ور اس بربادی کا معاوضہ چاندی کے چند سکے ہیں چاندی کے چند سکے بھی ہماری ماں زمین کی اولاد ہیں جو زمین اس لئے پیدا کرتی ہے کہ اس کی اولاد انسانی آرام و آسائش کی زندگی گزارنے کے لئے تعاون حاصل کرے جبکہ ہو یہ رہا ہے کہ۔۔ چاندی کے سکوں اور دولت کو جمع کرکے انسانی تباہی کے سامان مہیا کئے جارہے ہیں۔ یہ ایسی دو رخی ہے جس کے جال میں بند ہو کر کوئی انسان کبھی سکون نہیں حاصل کرسکتا۔

اطمینان اور سکون کی لہریں ایٹمی ہتھیاروں میں پوشیدہ نہیں ہیں۔ اطمینان اور سکون کی لہریں ایسا جذبہ ہیں جس میں محبت، بھائی چارہ، اپنے گھر، اپنے وطن اور اپنی زمین کی حفاظت ہے۔ محبت، اخوت اور خلوص کے جذبات کی لہروں سے بندہ اس راز سے آشنا ہوجاتا ہے جس سے ذہن کے دریچے کھل جاتے ہیں۔ سائنس اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ صلاحیت تفکر۔۔ تحقیق اور تلاش ہے۔

اللہ تعالیٰ کی نشانیوں پر غور وفکر کرکے ایسی ایجادات کی جائیں یا ایسے عوامل خفی سے عالم مظہر میں لے آئیں جس سے اللہ کی مخلوق کو فائدے کے علاوہ نقصان نہ ہو۔ قرآن کریم  میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ہم نے آسمانوں اور زمین کو تخلیق کیا اور ان میں فلاح و بہبود کے سامان ہیں۔ آسمانی کتابوں میں یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالی تباہی، بربادی اور ہلاکت کو پسند فرماتے ہیں۔

ہمارا مقصد بند اور منجمد ذہنوں کو کھولنے اور پابند ذہنوں کو آزاد کرنے کرنا ہے۔

اللہ چاہتا ہے کہ آدمی  کے اندر میں سکون آشنا درخت کی نشوونما ہو اور یقین بحال ہوجائے کہ  زندگی میں اضطراب، پریشانی، درماندگی، بدحالی، دماغی کشمکش، اعصابی کشاکش نام کی کوئی چیز موجود نہیں ہے۔اللہ کے دوستوں کو خوف اور غم نہیں ہوتا۔

ہم نے اس سفر کا دوسرا قدم اٹھایا ہے ہم خوش ہیں ، پرسکون ہیں اور اپنے بھائیوں کے نہایت درجہ شکر گزار ہیں کہ عظیمی بچوں اور مخلوق خدا نے ہمارے ساتھ ہمسفر ہونا قبول کرلیا ہے۔

Topics


Aaj Ki Baat

خواجہ شمس الدین عظیمی


دل گداز

خواتین وحضرات کے نام