Topics

مشعل راہ

 

شاہ است حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، پادشاہ است حسینؓ

دیں است حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، دیں پناہ است حسینؓ

سرداد نہ داد ، دست در دستِ یزید

حقَّا کہ بنائے لا الہٰ است حسینؓ

 

حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ  

 

غور کیا جائے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ کائنات میں دو طرزِ فکر کام کررہی ہیں۔۔ ایک تعمیری طرزِ فکر، دوسری تخریبی طرزِ فکر۔

 تعمیری طرزِ فکر یہ ہے کہ انسان سکون آشنا زندگی سے روشناس ہوجاتا ہے اور تخریبی طرزِ فکر یہ ہے کہ انسان غم آشنا زندگی، فکر و آلام، بیماریوں اور بے سکونی سے قریب ہوجاتا ہے۔

خالقِ ارض و سما ء نے کائنات محبت کے ساتھ تخلیق کی اور انسان کے لئے اس دنیا کو محبت، خوشی، مسرت و شادمانی اور ایثار کا گہوارہ بنایا ہے۔ فضاؤں میں رنگینی، رات کی تاریکی میں روشن چاند، دن کے اُجالے کو جلا بخشنے والا سورج، نیلگوں آسمان کی بساط پر ستاروں کی انجمنیں، زندگی کو توانائی دینے والی گیسیں، درختوں کی حمد و ثنا، زمین کی تخلیق آسمان کی رفعت، انسان کی شادمانی مسرت اور سکون کے لئے پیدا فرمائے ہیں ان نعمتوں سے کوئی تخلیق محروم نہیں لیکن جب ہم خوشنما زندگی پر غور کرتے ہیں تو یہ زاویہ روشن ہوتا ہے کہ ایثار و قربانی ہر جذبے میں بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ زمین میں اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ تخلیقی صلاحیت ایثار کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ بیج کو بطن میں محفوظ کرکے پروان چڑھانا، اس کا مظاہرہ۔۔ مستقل غذا فراہم کرنا۔۔ "ایثار" کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔جب بندہ اپنے وجود پر غور کرتا ہے تو دنیا میں آنے سے پہلے وہ خود کو کہیں نہیں پاتا۔

پیغمبروں کی زندگی کے ساتھ ساتھ نبی مکرم حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں اور حیاتِ طیبہ کو بیان کیا جائے تو ان برگزیدہ ہستیوں کے بارے میں اللہ وحدہ لاشریک کے لئے قربانی کے علاوہ کچھ نہیں کہہ سکتے۔

حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ پوری زندگی ایثار و قربانی سے فیض یاب ہوتے رہے۔ وہ عالمین کے لئے رحمت اپنے نانا رسول اللہ ﷺ کی حیاتِ طیبہ کے ہر پہلو سے واقف تھے۔ رسول اللہ ﷺ کی حیاتِ طیبہ حق کو ظاہر کرنے کے لئے جن آزمائش و مصائب سے صبر اور یقین کے ساتھ مظہر بنی اس سے بھی پوری طرح آگاہ تھے۔

رسول اللہ ﷺ کی بہت پیاری بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جلیل القدر شوہر، امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے والد بزرگوار کی زندگی کی دستاویز بھی امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ذہن میں محفوظ تھی۔حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے۔

انا مدینۃ العلم وعلی بابھا

"میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے۔"

 اللہ کے لئے بلاخوف و خطر ہر تکلیف کو برداشت کرنے کا حوصلہ ان کے لئے مشعلِ راہ تھا۔۔ باب العلم کا مقدس خطاب ان کے لئے مشعل راہ تھا۔ تسلیم و رضا ، ایثار و قربانی امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایات تھیں۔

معرکۂ کربلا کا پس منظر اتنا عجیب و غم آشام ہے کہ اپنے پرائے سب اشک بار ہوجاتے ہیں اور پرُآشام حالات و واقعات ہر صاحب دل کو بے چین و بے قرار کردیتے ہیں۔ جس طرح یہ سازش کی گئی وہ قابل نفرین ہے۔

سید الشہداء امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایثار و قربانی کا جذبہ بلاشبہ اپنے نانا رسول اللہ ﷺ اور اپنے باپ باب العلم حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صفات کا وہ باغ ہے جو رسول اللہ ﷺ سے شروع ہوا اور انہیں کے لخت جگر سید الشہداء امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت پر آخری مظہر بنا۔

 امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایسی پاکیزہ ہستی ہیں جن کی قربانی سے حق اور باطل کی تصویریں اتنی واضح ہوگئیں کہ آنکھوں سے محروم لوگوں کی بصیرت سے بھی مخفی نہیں رہ سکتیں۔

شہیدوں کے سردار امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ حق اور باطل دونوں کی سرحدیں الگ کرنے کے لئے چاند کی  پہلی کرنوں کی طرح اور سورج کی آتش فشانی کی مانند حق اور صداقت کی سرحد ہیں۔

حق آیا اور باطل مٹ گیا۔ تحقیق باطل (جھوٹ، فریب، مکاری) مٹنے کے لئے ہے۔ (بنی اسرآئیل: 8)

قتل حسین اصل میں مرگِ یزید ہے

اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

مولانا محمد علی جوہر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ستمبر 2013 میں پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخواہ کے دارالحکومت پشاور میں کوہاٹی گیٹ کے قریب اتوار کی صبح آل سینٹس کیتھیڈرل نامی چرچ پر دو خودکش حملوں میں 82 افراد ہلاک جبکہ 200 سے زائد زخمی ہوئے۔ 70 سے زیادہ کو ابتدائی طبی امداد کے بعد گھر بھیج دیا گیا۔

وفاقی اور خیبرپختونخواہ کی صوبائی حکومت نے اس واقعے پر تین روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے جبکہ ملک کے تمام مسیحی اسکول اور مشنری ادارے تین دن تک بند رہے۔ اس دوران ملک کے کئی شہروں میں احتجاج کا سلسلہ جاری رہا جب سے بڑی شاہراہیں اور کئی علاقوں میں معمولاتِ زندگی متاثر ہوئے۔گرجا گھروں اور مختلف مقامات پر دعائیہ تقریبات منعقد ہوئیں، چرچ میں پھول رکھے گئے، رات کے وقت شمعیں روشن کی گئیں۔

اسلام امن کا داعی، صداقت کا علمبردار اور انسانیت کا پیامبر ہے۔ اس کی نگاہ میں بنی نوع انسان کا ہر فرد مساوات کا مستحق ہے۔ وہ رنگ و نسل کے عیوب سے پاک ہے۔

حضور علیہ الصلوٰۃ ولسلام نے غیرمسلم اقوام اور اقلیتوں کے لئے مراعات، آزادی اور مذہبی رواداری پر مبنی ہدایات اس دور میں فرمائیں کہ جب لوگ مذہبی آزادی و رواداری سے نا آشنا تھے۔

قرآن کریم میں یہ اصول بیان ہوا ہے کہ ہر مذہبی کمیونٹی کو کامل داخلی خودمختاری دی جائے ان کو عقائد کی آزادی حاصل ہو اور اپنی عبادات وہ اپنی طرز پر کرسکیں اور اپنے مقدمات کا فیصلہ اپنے ہی ججوں کے ذریعہ اپنے قانون کے مطابق کرائیں۔ کامل داخلی خودمختاری کا قرآن کی کئی آیات میں ذکر ہے، جن میں سے ایک آیت یہ ہے:

"ہمارا حکم تھا کہ اہل انجیل اس قانون کے مطابق فیصلہ کریں جو اللہ نے اس میں نازل کیا ہے" (المائدہ: 47)

یعنی انجیل والوں کو چاہئے ان قواعد کے مطابق احکام دیا کریں جو اللہ تعالیٰ نے انجیل میں نازل کئے ہیں۔ ان احکامات کے تحت عہد نبوی علیہ الصلوٰۃ والسلام میں آبادی کے ہر گروہ کو خودمختاری مل گئی تھی، جس طرح مسلمان اپنے دین، عبادات، قانونی معاملات اور دیگر امور میں مکمل طور پر آزاد تھے اسی طرح دوسرے مذاہب و ملت کے لوگوں کو بھی کامل آزادی تھی۔

یہود و نصاریٰ کو تعاون و یکجہتی کی دعوت پر پھر یہ کہا گیا

"ہر قوم کے لئے ہادی ہے" (الرعد: 7)

ہر اُمّت کے لئے ایک رسول ہے (یونس: 47)

"اور رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  سے پہلے کے بہت سے رسولوں کے واقعات ہم نے رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  سے بیان کئے ہیں اور بہت سے رسولوں کے نہیں کئے" (النساء: 164)

مذہبی رواداری اور آزادی پر مبنی یہ تعلیمات آج بھی تمام دنیا کے لوگوں کا احترام کرنے اور ان کو تسلیم کرنے کا واضح فیصلہ ہے۔ قرآن کریم  میں ارشاد ہے،

"مسلمان ہوں، یہودی ہوں، نصاریٰ ہوں یا صابی ہوں، جو کوئی بھی اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان لائے اور نیک عمل کرے ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے اور ان پر نہ تو کوئی خوف ہے اور نہ غم" (البقرۃ: 62)

تمام مذاہب کے پیروکاروں میں باہمی احترام و رواداری کا جذبہ پیدا کرنا۔۔ اور سب کو ایک ہوجانے اور متحد ہو کر اللہ تعالیٰ کی رسی مضبوطی سے پکڑنے کی دعوت اسلام ہے۔

"اسی طریقے پر چلنے کی ہدایت ابراہیم ؑ نے اپنی اولاد کو دی تھی اور اسی کی وصیت یعقوب ؑ اپنی اولاد کو کرگئے تھے کہ میرےبچو! اللہ نے تمہارے لئے یہی دین پسند کیا ہے ۔ لہٰذا مرتے دم تک مسلم رہنا۔" (البقرۃ: 132)

اسلام بتاتا ہے کہ تمام مخلوق اللہ کا کنبہ ہے۔ جو مذہب ہر مخلوق کو اللہ کا کنبہ سمجھے وہ بھلا مخلوق کو ناحق نقصان کیسے پہنچاسکتا ہے۔ مذہب سب کے لئے سراپا رحمت، امن اور سلامتی ہے۔ دین اسلام یہ ہے کہ ہم دوسرے انسانوں کی جان و مال اور عزت و آبرو کا احترام کریں۔ کسی دوسرے کے مذہب اور عقیدے کو مجروح کرنے کی اسلام اجازت نہیں دیتا۔

ہم سب رنگ و نسل اور مختلف مذاہب کے باوجود اللہ کا دیا ہوا پانی پیتے ہیں۔۔ اللہ کی دی ہوئی ہوا سے مشترکہ طور پر زندہ ہیں۔۔ سورج کی روشنی سب کے لئے یکساں ہے۔۔ ہم سب ایک ہی مادے سے تخلیق ہوتے ہیں۔۔ سب کے غم، خوشی، جذبات اور احساسات یکساں ہیں۔۔ سب اس دنیا میں آتے ہیں۔۔ مقررہ وقت تک زندہ رہتے ہیں ۔۔ اور پھر اس دنیا سے چلے جاتے ہیں۔۔ ہمیں چاہئے کہ زندگی کے مختصر وقفے کو پیار، محبت، اتفاق اور بھائی چارے کی تصویر بنادیں اور خوش رہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک مرتبہ عیسائی پیشواؤں کا گروہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا توخاتم البیین محمد رسول اللہ ﷺ نے اس گروپ کو مسجد نبوی میں ٹھہرایا۔

عیسائی پیشوا نے درخواست کی کہ ہمیں عبادت بھی کرنی ہے۔

 عالمین کے لئے رحمت، اللہ کے محبوب بندے ﷺ نے فرمایا: تم مسجد نبوی میں اپنے طریقہ پر عبادت بھی کرو۔(الطبقات الکبریٰ)

Topics


Aaj Ki Baat

خواجہ شمس الدین عظیمی


دل گداز

خواتین وحضرات کے نام