Topics

اندر کی آنکھ

   

 

اندر کی آنکھ بصیرت کے ساتھ زندگی کے نشیب و فراز کا مظاہرہ کرتی ہے تو نظر آتا ہے کہ زندگی کے دو رُخ ہیں۔ ایک رُخ میں وہ محدود ہو کر، سمٹ کر اپنا مظاہرہ کرتی ہے اور دوسرے رُخ میں محدودیت کا خول توڑ کر لامحدود مظاہرہ کرتی ہے۔

ان طرزوں سے جو طرزیں متعین ہوتی ہیں وہ دو ہیں۔

محدود طرز کا علم - فکشن ہے۔                       آزاد طرز کا علم- حقیقی علم ہے۔

زندگی ایک سفر ہے۔۔ مسافر یعنی طالب علم جب اس سفر کا آغاز کرتا ہے تو راستہ کے مناظر اسے علم منتقل کرتے ہیں۔ کہیں وہ قدرت کی نشانیوں میں تفکر کرکے حقیقت کی جانب گامزن ہوجاتا ہے اور کہیں وہ ظاہر میں بکھرے رنگوں میں گم ہو کر منزل کا پتا بھول جاتا ہے۔

اس سفر میں۔۔ صحراء، بیابان، پہاڑ اور ریگستان کے مناظرسامنے آتے ہیں اور دوسرے رخ میں خوش رنگ پھول، خوشبوؤں کے طوفان، سروروکیف سے مخمور زندگی کا سبب بنتے ہیں۔

مسافر۔۔ نومولود ایک طرح علم کے اس سفر میں حیرت کی تصویر بنا فضاؤں میں گم رہتا ہے۔

مسافر سفر شروع کرتا ہے تو استاد اور رہنما اسے سفر کے نشیب و فراز سے آگاہی بخشتا ہے اور آگہی علم کے باب کھولتی ہے۔ ۔ علم محدود طرز زندگی ہو یا آزاد طرز فکر (neutral thinking)  ہو رہنمائی کے بغیر تکمیل نہیں پاتا

بڑوں کا کہنا ہے۔۔ گدھا خزاں کے موسم میں صحت مند اور بہارکے موسم میں کمزور اور دبلا ہوجاتا ہے کیونکہ خزاں کے موسم میں جب وہ کسی میدان میں گھاس چرنا شروع کرتا ہے اور کچھ دیر بعد پلٹ کر پیچھے دیکھنے پر اسے خالی میدان نظر آتا ہے تو وہ خوش ہوتا ہے کہ آج میں نے خوب سیر ہو کر کھایا ہے اور اسی خوشی میں وہ پھولا نہیں سماتا اور اس کا وزن بڑھتا رہتا ہے۔۔ بہار کے موسم میں جب وہ کسی سرسبز میدان میں گھاس چرتا ہے اور گردن گھما کر پیچھے دیکھنے پر اسے ہرا بھرا میدان نظر آتا ہے تو سوچتا ہے کہ میں نے کچھ بھی نہیں کھایا اور اسی فکر میں کمزور ہوجاتا ہے۔ پسلیاں نظر آنے لگتی ہیں۔

زندگی میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں جو علم منتقل کرتی ہیں کہ زندگی لامحدود دائرے سے محدود دائرے میں داخل ہوتی ہے اور مظاہرہ کے بعد ایک مرتبہ پھر لامحدود دائرے کا حصہ بن جاتی ہے۔ اس کے باوجود ذہن محدودیت کو سب کچھ سمجھتا ہے اور اسی خوشنما دھوکے اور فریب میں زندگی گم ہوجاتی ہے۔نیوٹرل طرز فکر رہنمائی کرتی ہے کہ بندہ کو اس تعلق سے واقف ہونا چاہئے جو بلا امتیاز سب پر رحمتوں اور نعمتوں کے ساتھ سایہ فگن ہے۔ جس کے احاطۂ قدرت میں ہر شے مقداروں اور صفات کے ساتھ اپنا اپنا کردار ادا کرنے کی پابند ہے۔ جب محدود ذہن بغاوت کرتا ہے تو توازن بگڑ جاتا ہے۔

عدم توازن ایسا المیہ ہے جو ہر خوشی کو غم میں، سکون کو بے سکونی میں، راحت کو بے چینی میں، پاکیزگی کو نجاست میں، خلوص کو خودغرضی میں اور یقین کو شک میں بدل دیتا ہے۔ پھر آدم برادری اپنے شرف سے دور اسفل میں گرجاتی ہے۔ وسائل ہونے اور ان کو استعمال کرنے کے باوجود گدھے کی طرح سرسبز میدان دیکھ کر افسردہ ہوجاتی ہے۔

ہم یہ نہیں سوچتے کہ پریشانی، عدم تحفظ،نااُمیدی، وسوسوں اور ناپسندیدہ خیالات کی یلغار کیوں ہوتی ہے۔۔؟ عام طرز گفتگو یہ ہے کہ آدمی جو چاہتا ہے وہ کرسکتا ہے۔ یہ کیسا المیہ ہے کہ ہم خوشی کی تلاش میں پریشان رہتے ہیں۔ خوشی اگر آتی ہے تو شک، بے یقینی، حسد اور خوف کے سائے ہمارے اوپر اس طرح غالب آجاتے ہیں کہ ہم ناخوش ہوجاتے ہیں۔

آیئے! تلاش کریں کہ سکون کیا ہے۔۔؟ اور ہم پریشان کیوں رہتے ہیں۔۔؟

1-دنیا میں دو طرزیں ہیں۔ یہ دو طرزیں دراصل زندگی کی سرحدیں ہیں۔

ایک طرز وہ ہے جو دماغی انتشار، بے یقینی، شک، وسوسوں اور منفی خیالات میں آدمی کو قید رکھتی ہے۔ زندگی کا دوسرا رخ یہ ہے کہ جہاں بے یقینی، شک، دشمنی اور عدم تحفظ کا وجود نہیں ہے اور یہ رخ قرآن کریم کے مطابق یقین ہے۔

2۔اللہ تعالیٰ کے مخصوص نظام کے تحت بچہ یا بچی دنیا میں آتے ہیں تو ان کے ذہن میں شک نہیں ہوتا۔ نفرت و حقارت نہیں ہوتی، حرص، ہوس، لالچ، خودنمائی کچھ نہیں ہوتا۔ یہ ایسی بات ہے کہ سات ارب آدمیوں میں سے ایک فرد بھی انکار کرنے کی جرأت نہیں کرسکتا۔ جیسے جیسے بچہ دنیا کے نشیب و فراز، حرص و ہوس، غیبت، دشمنی اور خودنمائی کے کردار سے واقف ہوتا ہے بچہ کی زندگی میں بھی یہ سب شامل ہوجاتا ہے۔

ہم جس عالم سے اس دنیا میں آئے ہیں نہیں جانتے کہ وہ عالم کیا ہے۔۔؟ یہی وجہ ہے کہ ہم اس بات سے واقف ہونے کے باوجود کہ دو دن غیب میں نہ چھپیں تو عمر ٹھہر جائے گی۔ دو دن کا بچہ تین دن کا کبھی نہیں ہوگا۔ جب دو دن کا بچہ تین دن کا نہیں ہوگا تو۔۔ خواتین و حضرات سوچیں، غور کریں، دماغ کے پٹ کھولیں۔۔ پھر کیا ہوگا؟

اصل بات یہ ہے کہ دنیا ہمارے لئے بنائی گئی ہے اور دنیا میں جتنے بھی وسائل تخلیق ہوئے ہیں وہ تابع فرمان ہیں۔۔ المیہ یہ ہے کہ ہم دنیا کے لئے جیتے ہیں جبکہ دنیا ہمارے لئے بنائی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتیں اور وسائل استعمال کرنا بہت اچھی اور ضروری بات ہے۔ لیکن سوچنا یہ ہے کہ جن چیزوں کی ہم قیمت لگاتے ہیں کیا وہ ہمارے ساتھ جاتی ہیں۔۔؟ابھی حالیہ واقعات ہم سب کے سامنے ہیں۔ بڑے بڑے زرپرست، بینک بیلنس والے لوگ۔۔ کیا کوئی اپنے ساتھ کچھ لے گیا۔ دنیا میں آتے ہیں تو جسم پر لباس نہیں ہوتا۔۔ جب دنیا سے جاتے ہیں کچھ سا تھ نہیں لے جاتے۔

اللہ تعالیٰ نے یہ دنیا، دنیا میں وسائل آرام و آسائش کے لئے بنائے ہیں۔ وسائل کو آدمی کے تابع فرمان کیا ہے نہ کہ جب ہم بہ حسرت و یاس دنیا سے رخصت ہوتے ہیں جس طرح بے لباس دنیا میں آئے تھے اسی طرح بے لباس چلے جاتے ہیں۔ آتے ہیں تو دوسرے لنگوٹی باندھ دیتے ہیں۔۔ جب جاتے ہیں تو کپڑوں میں لپیٹ کر ایسے مسکن میں منتقل کردیتے ہیں کہ نہیں جانتے کہ بندہ کہاں گیا اور وہاں اس کے ساتھ کیا ہوا۔۔؟

پیارے دوستو! یہ دنیا وسائل کی دنیا ہے۔ وسائل ہر جگہ ہیں۔ جنت میں بھی ہیں، دوزخ میں بھی ہیں۔ لکن ہر زون کے وسائل الگ الگ ہیں۔ خالق کائنات نے وعدہ کیا ہے کہ وہ ضروریات زندگی پوری کرتا ہے۔ اگر آدمی ضمیر کے خلاف وسائل حاصل کرتا ہے اس کا اختیار دیا ہے۔ بندہ اس محدود مادی زندگی کو سب کچھ سمجھتا ہے۔۔ وہ روز دیکھتا ہے کہ مادی جسم کی حیثیت بالآخر مٹی ہوجانا ہے۔مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:

آدمی دید است باقی یوست است

دید آں باشد کہ دید دوست است

آدمی نگاہ (بصیرت) ہے۔ باقی گوشت پوست، ڈھانچہ ہے۔

دید (بصارت) یہ ہے کہ بندہ اللہ کی آنکھ سے اللہ کو دیکھے۔


 

Topics


Aaj Ki Baat

خواجہ شمس الدین عظیمی


دل گداز

خواتین وحضرات کے نام