Topics

آسمان سرخ ہے

 

کرم فرما بزرگو، اساتذہ کرام، طلبا و طالبات!جس طرح مٹھاس ہر فرد کے لئے مٹھاس ہے اور نمک ہر آدمی کے لئے نمک ہے اسی طرح آسمانی کتابوں اور قرآن کریم  کی تعلیمات پوری نوع انسانی کے لئے سرمایۂ دنیاو آخرت ہیں۔

پڑھے لکھے لوگ اس بات سے متفق ہیں کہ موجودہ دور سائنسی دور ہے۔ قرآن کریم  کی تقریباً 6400 آیات ہیں جو تاریخ ، قصص، کائناتی اسرار و رموز اور شریعت سے متعلق ہیں۔ کائناتی اسرار و رموز میں سائنسی علوم کی پردہ کشائی بھی ہے۔ آیات میں زمین کے اوپر اور زمین کی اندرونی تہوں میں ذخائر اور زمین کے راز مخفی ہیں۔

قرآن میں دھاتوں (لوہا، تانبا،یورینیم، ریڈیم وغیرہ وغیرہ) کی حکمتوں پر تفکر کی دعوت دی ہے۔ جب سائنس نے دھاتوں پر تفکر کیا تو تحقیق و تلاش نے ان کے سر پر تاج رکھ دیا۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

"سب مل  کر مضبوطی کے ساتھ اللہ کی رسی کو پکڑلو اور آپس میں تفرقہ نہ پڑو۔" (اٰل عمران: 103)

عالم اسلام تفرقوں اور انفرادی لوٹ کھسوٹ میں مبتلا ہوگیا اور اس کے برعکس غیرمسلم ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوگئے جب کہ عالم اسلام وسائل کے اعتبار سے خودکفیل ہے لیکن ذلیل و خوار ہے۔ اپنی حفاظت کے لئے بھی غیرمسلم اقوام کا محتاج ہے۔

تاریخ شاہد ہے کہ جب بیت المقدس کی چابیاں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالے کی جارہی تھیں۔ مسجد کی دوسری منزل پر مذہبی پیشوا ایک دوسرے کی داڑھیاں کھینچ رہے تھے۔ اختلافی مسئلہ یہ تھا کہ ایک گروہ کہہ رہا تھا کہ حضرت عیسیٰؑ نے خمیری روٹی کھائی ہے، دوسرے گروہ کی تحقیق تھی کہ حضرت عیسیٰؑ نے خمیری روٹی نہیں کھائی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

ہم اسلام کے ابتدائی دور کا جائزہ لیتے ہیں۔ جب اسلام کے اصول اور اس کی روح کے مطابق قبائلی، نسلی اور وطنی عصبیت سے بالاتر ہو کر تمام لوگوں کے ساتھ یکساں سلوک کیا گیا۔ اس نظام خلافت کی اہم ترین خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ تھی کہ اس میں اظہار رائے کی پوری آزادی تھی اور حکمران ہمہ وقت اپنی قوم کے سامنے جوابدہ تھے، فیصلے انصاف کی بنیاد پر ہوتے تھے نہ کہ کسی رعب و اثر یا کسی کے مفاد کی پاسداری یا کسی گروہ بندی کی بنیاد پر۔ حکمران  قوم کا سامنا صرف مجلس شوریٰ ہی کے واسطہ سے نہ کرتے تھے بلکہ براہِ راست ہر روز پانچ مرتبہ نماز باجماعت میں، ہر ہفتے جمعہ کے اجتماع میں، ہر سال عیدین اور حج کے اجتماعات میں ان کو قوم کے سوالات کا سامنا ہوتا تھا، ان کے گھر عوام کے درمیان تھے کسی حاجب و دربان کے بغیر ان کے دروازے ہر شخص کے لئے کھلے ہوتے تھے، ہر شخص کو تنقید کرنے اور محاسبہ کرنے کی کھلی آزادی تھی اور اس آزادی کے استعمال کی وہ محض اجازت ہی نہیں دیتے تھے بلکہ ہمت افزائی بھی فرمایا کرتے تھے۔نظام حکومت کے تحت خلیفۂ وقت کا کام صرف اتنا ہی نہ تھا کہ وہ ملک کا نظم و نسق چلائے، امن و امان قائم کرے اور سرحدوں کی حفاظت کرے بلکہ وہ مسلمانوں کی اجتماعی زندگی میں معلم و مربی کے فرائض بھی انجام دیا کرتے تھے، خلیفۂ وقت کی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ اسلامی ریاست میں دین حق کے پورے نظام کو اس کی اصل شکل کے ساتھ نافذ کرے۔

جب اسلامی ریاست کا یہ دور زوال پذیر ہوگیا اور اس کی جگہ بادشاہی دور آگیا، اس دور میں قوم، نسل، وطن اور قبیلہ کی وہ تمام جاہلانہ رسومات پھر سے ابھر آئیں جنہیں اسلام نے ختم کرکے ایک اللہ کا دین قبول کرنے والے تمام انسانوں کو یکساں حقوق کے ساتھ ایک بنایا تھا۔ مسلمان حکمران قرآن کریم  کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کے بجائے تفرقوں میں بٹ گئے۔

قدرت کا ایک مخصوص نظام ہے۔ اس نظام کی حقیقت یہ ہے کہ ایک قادر مطلق ہستی کی حاکمیت پورے نظام پر قائم ہے۔ اعداد و شمار سے ماورا اربوں کھربوں مخلوقات ایک واحد مطلق اللہ کی حاکمیت کے دائرے میں ہے اور دائرے میں جو کچھ بھی ہے بے شمار زمینیں، آسمان، چاند، سورج، ستارے جو کچھ بھی ہیں سب ایک ہستی اللہ کی حاکمیت میں ہیں اور احاطۂ قدرت ہی اول، آخر، ظاہر، باطن ، حیات وممات ہے۔

"سن رکھو کہ وہ ہر چیز پر احاطہ کئے ہوئے ہے۔" (حٰم السجدۃ : 54)

اربوں، سنکھوں اور شماریات سے ماورا افراد کائنات محیط دائرے میں مرتے، جیتے،کھاتے پیتے، نسل در اصل گھٹتے، بڑھتے مسلسل غائب ، ظاہر ہوتے اور ظاہر غائب میں چھپ رہے ہیں۔ ظاہر ہورہے ہیں، نظر آرہے ہیں، موجود ہونے کے باوجود نظر نہیں آرہے۔ لاشمار افراد (جن کو کسی بھی طرح گنتی میں شمار نہیں کیا جاسکتا) غیب و شہود، حیات و ممات ازل سے قائم ہے اور ابد تک قائم رہے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

نظام کائنات پر لاشعوری نگاہ سے غور کیا جائے تو تخلیق کا عمل ایک جیسا ہے لیکن ہر صورت میں معین مقداریں کام کررہی ہیں۔ آنکھ، ناک، کان اور دوسرے جسمانی اعضاء سب میں ہونے کے باوجوود ہر شے مختلف نظر آتی ہے۔ اس راز کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ اللہ کی کتاب قرآن کی تعلیمات پر روحانی نقطۂ نظر سے اور شریعت مطہرہ کی رو سے غور و فکر کیا جائے۔ تفکر کرنے والے اس گروہ کا نام "اولی الباب" ہے۔

اولی الباب گروہ کے سرتاج، رب العالمین کے محبوب، رحمت اللعالمین  صلی اللہ علیہ وسلم  کے نواسے سید الشہداء امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔

 

شاہ است حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، پا دشاہ است حسینؓ

دیں است حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، دیں پناہ است حسینؓ

سرداد نہ داد ، دست در دستِ یزید

حقَّا کہ بنائے لا الہٰ است حسینؓ

شہادت عظمیٰ کی حقیقت پر تفکر کیا جائے تو صراط مستقیم کی راہیں کھلتی ہیں۔ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے باطل کی قوت اورظاہری شان و شوکت کو اہمیت نہیں دی اپنے خاندان اور جان کی قربانی پیش کرکے ایسی مثال قائم کی کہ زمین لرز گئی آسمان پر سرخی چھاگئی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہم شہادت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ایک نہایت اہم نکتے کا مطالعہ کریں گے کہ اگر امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اسوہ اور ان کی طرز فکر کو اپنی زندگی کا حصہ بنالیں تو گروہی، مذہبی، لسانی اختلافات کی تقسیم ختم ہوجائے گی۔

آیئے ہم یوم عاشورہ کے موقع پر امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرز فکر پر چلنے کا عہد کریں اور حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اسوۂ حسنہ ہمیشہ اپنے سامنے رکھیں اور عمل کریں۔ حضرت امام حسین علیہ السلام کی طرز فکر اور اسوۂ حسنہ ان ارشادات سے پوری طرح واضح ہوتا ہے۔

امام عالی مقام علیہ السلام فرماتے ہیں:

·                    اللہ کی جنت دنیا میں دیکھنے کا شوق ہو تو ماں کی گود میں سو کر دیکھو۔

·                    لوگوں میں سب سے کامیاب وہ ہے جو طاقت رکھنے کے باوجود معاف کردے۔

·                    بلاشبہ بردباری زینت ہے۔

·                    وفا انسانیت کا تقاضہ ہے۔

·                    تکبر بے غیرتی ہے۔

·                    جلد بازی نادانی ہے۔

·                    حد سے گزر جانا باعث خطرہ ہے۔

·                    سب سے بڑا سخی وہ انسان ہے جو کسی ایسے کو عطا کرے جس سے توقع نہ ہو۔

·                    سب سے بڑا عفو و درگذر کرنے والا انسان وہ ہے جو قدرت ہونے کے باوجود معاف کردے۔

·                    صلۂ رحم کرنے والا انسان وہ ہے جو قطع رحم کرنے والوں سے سلام و دعا رکھے۔

·                    جو کسی کے کرب و غم کو دور کرے، اللہ اس کی دنیا و آخرت کے غم کو دور کردیتا ہے۔

·                    ذلت کی زندگی سے عزت کی موت کہیں بہتر ہے۔

·                    اللہ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت یہ ہے کہ جب ضرورت مند تمہارے پاس آئیں تو ان کی مدد کرو۔

·                    لوگو! سخاوت کرنے والا آدمی سردار قرار پاتا ہے اور بخل کرنے والا ذلیل و رسوا ہوتا ہے۔

·                    دوست وہ ہے جو تمہیں برائی سے بچائے اور دشمن وہ ہے جو تمہیں برائیوں کی ترغیب دے۔

·                    میں موت کو سعادت اور ظالموں کے ساتھ زندگی کو لائق ملامت سمجھتا ہوں۔

·                    وہ چیز جو خود اپنے وجود کے لئے تیری محتاج ہے، تیرے وجود کے لئے کس طرح دلیل ہوسکتی ہے؟

·                    جڑیں اپنے جمنے کی جگہوں میں اپنی شاخوں ہی کے ساتھ بڑھتی ہیں لہٰذا جو شخص اپنے بھائی کے ساتھ بھلائی کرنے میں جلدی کرے گا تو اس میں اس کی اپنی بھلائی ہوگی۔

·                    کیا تم نہیں دیکھ رہے ہو کہ لوگوں کے حقوق کو پامال کیا جارہا ہے اور کوئی باطل کا مقابلہ کرنے والا نہیں؟ لہٰذا ایسے میں مومن اگر حق پر ہے تو اس کو چاہئے کہ اللہ سے ملاقات کی تمنا کرے۔

·                    ظالموں کے ساتھ زندہ رہنا ، خود ایک ظلم ہے۔

·                    اللہ کے سوا کبھی بھی کسی سے کوئی سوال مت کرو۔

·                    جس کا مددگار اللہ کے سوا کوئی نہ ہو، خبردار اس پر ظلم نہ کرنا۔

·                    حلم اور بردباری انسان کی سیرت کو آراستہ کرتی ہے۔

·                    تقویٰ اور نیکی آخرت کے لئے بہترین زادِ راہ ہے۔

·                    کسی چیز کی شدت سے خواہش محض بری بات نہیں، بلکہ یہ مہلک بھی ہے۔

·                    نیک لوگ اپنے انجام سے خوف زدہ نہیں ہوتے۔

·                    ظالم کے خلاف جتنی دیر سے اٹھوگے ، اتنی ہی زیادہ قربانی دینی پڑے گی۔

·                    اللہ کی جنت دنیا میں دیکھنے کا شوق ہو تو ماں کی گود میں سو کر دیکھو۔

امام برحق اہل رضا سلام علیک

شہید معرکۂ کربلا سلام علیک

ترے طفیل میں، حسرت بھی ہو شہیدِ وفا

یہی دعا ہے، یہی مدّعا ، سلام علیک


 

Topics


Aaj Ki Baat

خواجہ شمس الدین عظیمی


دل گداز

خواتین وحضرات کے نام