Topics

نور کروڑ میل

کائنات کے وجود کے بارے میں اور کائناتی وجود کی تاویلات ، تشریحات میں انسانی ذہن صدیوں سے سرگرداں ہر انسان جس میں تھوڑی سی بھی علمی شد بد ہے وہ یہ جاننا چاہتا ہے کہ:

کائنات کیا ہے؟

کیوں ہے؟

اور کہاں ہے؟

کائنات کیا ہے؟ کیوں ہے؟ اور کہاں ہے؟ میں انسان کی اپنی ذات کی تفہیم بھی آ جاتی ہے جو انسان کائنات کے بارے میں سمجھنا چاہتا ہے وہ اپنے بارے میں یہ سوچتا ہے:

میں کیا ہوں؟

میں کیوں ہوں؟

کہاں ہوں؟

انسانی وجود دنیا میں پیدائش سے پہلے کہاں تھا؟ انسانی وجود اس دنیا سے گزرنے کے بعد جہاں چلا جاتا ہے وہاں جزا اور سزا کا قانون کس طرح نافذ العمل ہے، یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب انسان خود پیدائش پر اختیار نہیں رکھتا، موت پر اسے کسی قسم کی دسترس حاصل نہیں ہے تو اعمال کی جزا و سزا میں کون سا قانون کام کرتا ہے، دنیا میں آنے کے بعد کوئی بھی انسان شعور کے دائرے میں داخل ہوتے ہی چاند، سورج اور ستاروں میں دلچسپی لینا شروع کر دیتا ہے ، قدیم قصے کہانیوں اور لوک داستانوں میں اجرام فلکی و سماوی کے تذکرے ملتے ہیں، مسلسل تذکروں اور تلاش نے انسان کے اندر جذبہ ابھارا کہ وہ تلاش کرے چاند اور سورج کیا ہیں؟ کیا انسان چاند اور سورج کے رشتے کو استوار کر سکتا ہے؟ کیا کسی طرح سورج اور چاند میں فلکی نظام میں موت کے بغیر انسان کا داخلہ ممکن ہے؟

اس جذبہ تلاش اور جستجو نے انسان کو اس طرف مائل کر دیا کہ چاند کی سیر کی جائے۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ انسان نے سورج اور کہکشانی نظاموں کے بجائے فلکی نظاموں یا غیب کی دنیا میں داخل ہونے کے بجائے چاند کا انتخاب کیوں ہو سکتا ہے کہ چاند کا انتخاب اس لئے کیا گیا ہو کہ چاند زمین سے سورج کے مقابلے میں کم فاصلے پر واقع ہے، سورج کا فاصلہ نو کروڑ میل بتایا جاتا ہے جبکہ چاند کا فاصلہ لاکھوں میل متعین کیا گیا ہے۔

سورج کا نو کروڑ میل کا فاصلہ اور چاند کا لاکھوں میل کا فاصلہ کس اصول پر کونسے حساب سے یا کس جدول سے متعین کیا گیا ہے؟ اس بارے میں انسانی تاریخ گونگی بہری ہے، بہرحال انسان نے اس بات کا دعویٰ کیا ہے کہ بیسویں صدی میں وقت اور فاصلوں کی نفی کر کے انسان چاند پر پہنچ گیا جس کو تسخیر کائنات کی معراج سمجھا جاتا ہے، مگر یہ المیہ ہر ذی شعور آدمی کے سامنے ہے کہ چاند پر پہنچنے کے بعد ایسا لگتا ہے کہ تسخیر کائنات کا سفر گرد آلود ہو گیا، اگرچہ تسخیر کائنات کے مضمون پر ضغیم کتابیں لکھی جا چکی ہیں اور لکھی جا رہی ہیں۔

کائنات کیا ہے؟ ہر وہ چیز جو اللہ تعالیٰ نے تخلیق کی ہے اور انسان کو حواس خمسہ کے ذریعے جن چیزوں کا ادراک ہوتا ہے، کائنات کہلاتی ہے لیکن ہمارا مشاہدہ ہے کہ حواس خمسہ محدود دائرے میں کام کرتے ہیں۔ کائنات کا بہت بڑا حصہ تین چوتھائی سے بھی زیادہ بڑا حصہ ایسا حصہ ہے جہاں حواس خمسہ کام نہیں کرتے۔ نہ صرف یہ کہ حواس خمسہ ناکام ہیں بلکہ وہم و خیال میں بھی کائنات کا حقیقی تصور قائم نہیں ہوتا اور اس طرح انسان مفروضات اور تاریک راہوں میں بھٹکنا شروع کر دیتا ہے، فی الواقع کائنات کا علم اتنا وسیع ہے کہ انسان کے اندر کام کرنے والے حواس خمسہ کی کسی طرح بھی پہنچ ممکن نہیں۔

صاحبان بصیرت اور اپنے اندر ملکوتی صفات کے عارف بندے جب کائنات کی تخلیق پر غور کرتے ہیں تو وہ ایک ہی بات کا اعلان کرتے ہیں کہ کائنات کی بے پناہ وسعتوں کا احاطہ زمینی شعور سے ممکن نہیں کیونکہ (حواس خمسہ) محدود ہیں اور کائنات لامحدودیت کی ایسی اکائی ہے جس میں داخل ہوئے بغیر انسان کائنات کا مشاہدہ نہیں کر سکتا۔

نظریات بنتے رہتے ہیں اور مزید نظریات قائم ہوتے رہتے ہیں لیکن جب تک محدود عقل و شعور ان کا ساتھ دیتے رہے یہ نظریات قائم رہے جب محدود عقل و شعور نے ان کا ساتھ چھوڑ دیا تو یہ نظریات خود بخود ختم ہو گئے۔ قرآنی طرز فکر اور اسلوب میں بیان کائنات کی تخلیق پر اور کائنات کے اندر ہماری زمین کی طرح اربوں اور کھربوں زمینوں کا مشاہدہ کرنے کے لئے جو لوگ غور و فکر کرتے ہیں قرآن انہیں ’’اولی الباب‘‘ کہتا ہے۔

’’بلاشبہ آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور دن رات کے رد و بدل میں اولی الالباب کے لئے نشانیاں ہیں۔‘‘

(آل عمران۔ ۱۹۰)

اولی الباب کون لوگ ہیں؟

قرآن کے مطابق اولی الباب وہ لوگ ہیں جو اٹھتے بیٹھتے کروٹ پر لیٹتے اللہ کو یاد کرتے ہیں اور کہتے ہیں:

’’اے ہمارے رب! آپ نے ہم کو بے کار پیدا نہیں کیا۔ آپ کی ذات پاک ہے آپ ہم کو نار کے عذاب سے بچا لیجئے۔‘‘

(آل عمران۔ ۱۹۱)

اولی الباب کا مطلب ہے ایسا سمجھدار انسان جو آسمان و زمین کی تخلیق، کائناتی نظام، وسائل کی پیدائش، انسانی زندگی میں کام آنے والی انرجی اور توانائی پر غور و فکر کرتا ہے، اولی الباب جب تخلیق کے چھوٹے چھوٹے ادوار (بچپن، لڑکپن، جوانی، بڑھاپے اور موت) پر تفکر کرتا ہے تو اس کے اندر یقین کا پیٹرن بن جاتا ہے کہ کائنات کو بنانے والی کوئی ہستی ہے اور یہی ہستی کائنات پر حاکم و مالک اور قادر ہے، ان کی طرز فکر میں خالق کائنات کی ہستی اس طرح جذب ہو جاتی ہے کہ وہ جان لیتے ہیں کہ ہم اس لئے زندہ ہیں کہ ہمارے خالق نے ہمیں تحفظ دیا ہوا ہے، وہ یہ بھی دیکھ لیتے ہیں کہ اللہ ان کے اندر موجود ہے، انہیں یہ بھی علم ہو جاتا ہے کہ کائنات کا ہر ذرہ نور کے غلاف میں بند ہے، ایسا نور جو حواس خمسہ سے نظر آتا ہے، ایسی روشنی جو حواس خمسہ کے ادراک سے ماورا ہے۔

اس تمہید کا مطلب یہ ہوا کہ کائنات کا کھوج لگانے والے دو گروہ ہیں۔

ایک گروہ محدود حواس خمسہ میں کائنات کو تلاش کرتا ہے، کائنات کے اربوں کھربوں اسرار میں سے چند اسرار پر سے تو پردہ اٹھ سکتا ہے لیکن محدود اور مفروضہ حواس میں سے کوئی آدمی وسیع و عریض کائنات کو نہیں دیکھ سکتا اور نہ کوئی کائناتی وسعتوں میں داخل ہو سکتا ہے، اس کے برعکس اولی الباب (وہ لوگ جو مفروضہ حیات سے نکل کر لامحدود حواس میں داخل ہو جاتے ہیں) جب تفکر کرتے ہیں تو لامحدود کائنات ان کے سامنے آ جاتی ہے، آج کی سائنس انسانی شعوری ارتقاء کی معراج سمجھی جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سائنس نے انسان کے شرف کی تکمیل کر دی ہے۔

یہ کیسی تکمیل ہے کہ ہر انسان پریشان ہے، آسائش و آرام کے لئے جتنی چیزیں ایجاد کی جا رہی ہیں یا ہو چکی ہیں انہوں نے زندگی کو عذاب بنا دیا ہے۔ ہر گھر بے سکونی اور پریشانی کا ٹارچر سیل بن گیا ہے۔ یہ عجیب منطق ہے آرام و آسائش کا ہر سامان میسر ہونے کے باوجود آدمی پریشان ہے، بیمار ہے۔ جیسے جیسے سائنسی ایجادات اور مادی ترقی معرض وجود میں آ رہی ہے اسی مناسبت سے بیماریاں بھی ترقی پذیر ہیں، بے سکونی اور پریشانی کے عفریت نے انسان کو ڈس لیا ہے۔

ہم یہ نہیں کہتے کہ سائنسی ایجادات نوع انسانی کے لئے فائدہ مند نہیں ہیں یا سائنسی ایجادات میں مزید وسعت نہیں ہونی چاہئے، ہم ان حقائق پر سے پردہ اٹھانا چاہتے ہیں جو اس ترقی کے پیچھے نوع انسانی کی ہلاکت کا سبب بن رہی ہے اور یہ ہلاکت ہے کہ سائنسی ایجادات کا محور مادیت ہے، اگر سائنٹسٹ کائنات کی تخلیق پر تفکر کر کے ایجادات کا رخ خالق کائنات کی طرف پھیر دیں تو یہ دنیا خوشحال بن جائے گی۔ چھوٹی سے چھوٹی عقل والا آدمی اور بڑے سے بڑا دانشور اس بات سے انکار نہیں کر سکتا کہ سائنسی ایجادات قدرت کے پیدا کردہ وسائل کے تابع ہیں اور جتنے بھی وسائل زمین پر موجود ہیں ان میں جڑی بوٹیاں، جڑی بوٹیوں سے فائدہ اٹھانے کے لئے مشینیں، مشینوں کے لئے میٹیریل، ہوا، پانی، گیس، روشنی، قدرت نے ہر چیز ہر شخص کے لئے مفت فراہم کی ہے۔ انسانی ذہن مفروضہ حواس سے نکل کر اولی الباب کے زمرے میں داخل ہو جائے تو انسان حقیقت آشنا ہو جائے گا تو یہ زمین جنت ارضی بن جائے گی۔ کائنات کی ہر تخلیق ہرگز عظیم حادثہ نہیں ہے، کائنات سوچے سمجھے منصوبہ اور بہترین پروگرام کے ساتھ تخلیق کی گئی ہے، کائنات عظیم تر ذات اللہ کے حکم سے بنی ہے اور قادر مطلق اللہ کے حکم سے قائم ہے۔

سورہ حشر کی آیت میں ارشاد ہے کہ:

’’اللہ ہی پیدا کرنے والا ہے، ٹھیک ٹھاک بنانے والا، صورت بنانے والا۔ اس کے اچھے اچھے نام ہیں، سب چیزیں اس کی تسبیح کرتی ہیں جو آسمانوں اور زمین میں ہے اور اللہ ہی زبردست حکمت والا ہے۔‘‘




 

 


Sada E Jars

خواجہ شمس الدین عظیمی

ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ میں عظیمی صاحب کے سینکڑوں اوراق پر پھیلے ہوئے مستقل کالم " صدائے جرس" کو کتابی شکل میں پیش کرنے کے لئے ڈائجسٹ کے 65سے زائد شماروں کا انتخاب صحیح معنوں میں دریا کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے ۔

 

اُس

گونج

کے نام جو

صدائے جرس

کے مطالعے سے انسان میں پیدا ہوتی ہے